پاکستان میں تعلیم کے ساتھ کیا ہو رہا ہے

میں نے اس بات کو موضو ع کیوں بنایا کہ پاکستان میں تعلیم کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔۔۔


یاسر رفیق February 19, 2014
آج تک کسی وزیر اعظم ،وزیراعلیٰ یا وزیر تعلیم نے نجی و پرائیوٹ ا سکولز کی بھرمارکا نوٹس نہیںلیا۔ فوٹو: اے ایف پی

میں نے اس بات کو موضو ع کیوں بنایا کہ پاکستان میں تعلیم کے ساتھ کیا ہورہا ہے، یہ ایک عوامی اورمنتخب کردہ حکومت کے لیے بیت بڑا سوال ہے۔ پاکستان میں تعلیم عام کرنے کو ہمیشہ سے مذاق سمجھا جاتا رہا ہے اس مذاق کے پیچھے بہت بڑے سازشی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ سازشی لوگ وڈیرے ، جاگیرداراور سرمایہ دار ہیں وہ کبھی یہ نہیں چاہتے کہ کوئی غریب پڑھ لکھ کرانجینئر ڈاکٹر یاکو ئی اعلی عہدیدار بنے اوران کے مدِمقابل آکھڑاہو ۔اْن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے ۔ ایسا کرنے سے اْن کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ ان کی تقریروں میں تعلیم عام کرنے کے بے شمار منصوبے،ان کی تحریروں میں ہرعلا قے میں اسکول بنانے کا عزم ہوتا ہے لیکن عملا ان چیزوں کا نفاذ کہیں نظر نہیں آتا۔ یہ لوگ سادہ اور غریب عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔

موجودہ عوامی حکو مت نے پا کستان کے صو بہ پنجاب میں یہ اعلان کیا کہ ہم ہر بچے کو علم کے زیور سے آراستہ کریں گے اور کوئی ناخواندہ نہیں رہے گا، پڑھا لکھا پنجا ب ہوگا خو شحال پاکستا ن ہوگا، ڈسٹرکٹ ا یجوکیشن ا تھارٹیا ں بنائی گئیں لیکن کہاں ہیں وہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن ا تھارٹیز ۔ یہ اس عوامی حکومت کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔اس عوامی حکو مت کے تعلیم عا م کرنے کے نعرے سے تھو ڑا سا پردہ ا ٹھانا چاہوں گا ۔جہا ں تک میں جانتا ہوں ۔جو اس وقت میرے سامنے ہے وہ ہر صورت بیان کرو ں گا۔ صوبہ پنجاب کا ایک ترقی یافتہ ضلع راولپنڈی ہے۔ ڈھو ک نورخا ن جراحی واضلع راولپنڈی کا ایک بہت بڑارہا ئشی علاقہ جہا ں تین سے چا ر ہزار تک آبادی ہے لیکن اْس آبادی میں گورنمنٹ کا مڈِل سکول تو دور کی با ت پرائمری سکول تک موجود نہیں ۔ یہ ہے عو امی حکو مت اورتعلیم عا م کرنے کا نعرہ ۔

اْس حلقے کے ایم این اے چوہدرنثارصاحب اِس وقت ایک سینئر ترین ترین وفا قی و زیر کے عہدے پرموجود اورعوامی حکومت کا سربرا ہ ماناجاتا ہے۔اْس حلقے کے ایم پی اے چوہدری سرفراز افضل وزیراعلی ٰکے انتہائی قریبی ساتھی ہیں ۔ اس کے باوجود اتنے بڑے رہا ئشی علاقے میں گورنمنٹ کا ایک پرائمری سکول تک نہ ہو نا اس عوامی حکومت کے لیے باعث شرم ہے ۔ ایم این اے اور ایم پی اے نے اہلیان علاقہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کا میا ب ہو کہ اس علاقے میں تعلیم کو عام کریں گے اور پرائمری سکولز کو مڈل۔ مڈل سکولز کو سکینڈری سکولز میں تبدیل کریں گے ان کے یہ وعدے اور تقریریں جلسو ں اور نعر وں تک محدود رہے ۔اس حلقے کے اہلیان کا یہی مطا لبہ تھا کہ انھیں ایک گورنمنٹ سکول چا ہیے۔ ان کے بچے سینکٹروں میل دور جاتے ہیں۔ کئی میل پیدل جانا وہاں جاکر پڑھنا اور پھرواپس آنا۔ ایسے میں کوئی بچہ اپنی تھکن دور کرے گا یا اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دے گا۔

ان حالات میں کئی لوگ مجبور ہو کر اپنے بچوں کو نجی سکولز میں داخل کرواتے ہیں اور نجی سکولز کے مالکان ان کی مجبوریوں کابھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک عام سے پرائیوٹ اسکول میں ایک نرسری کے طالب علم سے 500فیس لی جاتی ہے۔پیپر اور سلیبس فنڈنگ اس کے علاوہ ہے۔جہاں گورنمنٹ سکولز نہ ہوں وہاں غریب اپنی اولاد کو تعلیم کیسے دلوا ئے اس بات کا جواب عوامی حکومت کے وزیر اعظم سے لیا جائے،وزیراعلیٰ سے لیا جائے یا وزیر تعلیم سے لیا جائے۔جو اپنی حکومت کے کارنامے سناتے نہیں تھکتے۔افسوس اس عوامی حکومت پر۔

آج تک کسی وزیر اعظم ،وزیراعلیٰ یا وزیر تعلیم نے نجی و پرائیوٹ ا سکولز کی بھرمارکا نوٹس نہیںلیا۔ہر گلی ہر نکڑ پر ایک پرائیوٹ ا سکول موجود ہے یہ نجی و پرائیوٹ ا سکولزکسی بورڈ سے رجسٹرڈنہیں ہوتے۔تعلیم کے نام پر عوام کو لوٹتے ہیںکوئی پوچھنے والا نہیںجو حکومتی اہلکار آتا ہے جیب بھر کر رخصت ہو جاتا ہے۔جبکہ جو گورنمنٹ سکولز موجود ہیں وہاں کا تنظیمی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر ہے۔تعلیم میں سیاست ہو رہی ہے۔کسی گورنمنٹ اسکول میں طلباء کے لئے سہولیات موجود نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی وزیر یا ودڈیرے کا بیٹا گورنمنٹ سکولز میں تعلیم حاصل نہیں کرتا۔اگر ان کی اولاد ان گورنمنٹ اسکولز میں تعلیم حاصل کرتی تو ہر گورنمنٹ سکول چمکتا دمکتا اور سہولیات سے بھرپور ہوتالیکن افسوس یہ گورنمنٹ سکولز صرف غریبوں کے لئے بنے ہیں۔آج کے جدید دور میں گورنمنٹ سکولزکے بچے ٹاٹوں پر یا زمین پر بیٹھنے پر مجبور ہیں کیونکہ یہ عوامی حکومتوں کے اسکولز ہیں۔

کسی بھی گورنمنٹ اسکول میں آج تک رزلٹ صد فیصد نہیں آیا اس کی وجہ اساتذہ کی من مانیاں اور غیر حاضریاں ہیں جن کا نقصان آج کے غریب طالبعلم اٹھا رہے ہیں۔ اس نقصان کا ازالہ کون کرے گا؟ اُستاد، حکومت یا طالبعلم۔

آج پاکستان کے دور دراز علاقوں میں ا سکولز نہ ہونے کے برابر ہیں، نوجوانوں کی بڑی تعداد ناخواندہ ہے۔ انہی نوجوانوں میں سے چور، ڈاکو اور دہشت گرد بن رہے ہیں۔ میں عوامی حکومت کے نمائندوں سے گزارش کروںگا کہ اگر آپ نے پا کستان اور اپنی پارئی کا نام بناناہے تو پھر مخلوق خدا کے لئے تعلیم کو عام کریں ،تعلیم مفت کریں ۔ نو جوان طبقہ کو تعلیم کی طرف راغب کریںتاکہ ان کے ہا تھوں سے گولہ بارودلے کر ان کے ہاتھو ں میں قلم تھمائیں۔ انشاء اللہ وطن عزیزسے چوری ڈکیتی اور دہشت گردی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں