’’تحریک عدم اعتماد ‘‘یہ کبھی کامیاب نہیں ہوگی

مسئلہ یہ ہے کہ کیا اپوزیشن ایسا کر پائے گی


علی احمد ڈھلوں February 16, 2022
[email protected]

اپوزیشن حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے سرگرم ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد محض بیانات کی حد تک ہی محدود رہے گی لیکن اگر یہ تحریک پیش بھی ہوئی تو کامیاب نہیں ہوسکتی۔

ہاں اگر ناکام ہوئی تو وہ حکومت کی اپنی ناقص کارکردگی ہے، وزراء کے بے لگام تبصرے ہیں، ناکام خارجہ پالیسی ہے، ناکام داخلہ پالیسیاں ہیں، وزارت خزانہ کی ناکام پالیسیاں ہیں،اگر یہ سب کچھ ٹھیک ہوگیا تو اُس کے بعد فیصلہ ہوگا کہ اگلی حکومت کس کو ملنی ہے۔

اپوزیشن پارٹیاں روزانہ کی بنیاد پرناصرف سر جوڑ کر بیٹھ رہی ہیں بلکہ آپس کی پرانی ''رنجشیں'' بھی دور کی جار ہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات ، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی مسلم لیگ (ن) کے قائدین میاں شہباز شریف اور مریم نواز سے ملاقاتیں، ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کی میاں شہباز شریف سے ملاقات ، شہباز شریف کا چوہدری برادران کے گھر جانا۔ پھر مولانا فضل الرحمن اور اے این پی کا ایک نکتے پر اتفاق کر جانا، یہ سب کچھ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے ہو رہا ہے۔

آگے چلنے سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ہے کیا اور اسے کب کب استعمال کیا گیا۔ ''تحریک عدم اعتماد ''یا ''عدم اعتماد بل'' اس وقت پارلیمان میں لایا جاتا ہے جب کوئی حکومتی عہدیدار ایسا قدم اٹھاتا ہے جو آئین و قانون کے خلاف ہو یا ایسا اقدام جس سے ملک کی بدنامی اور نقصان ہو۔ پارلیمان میں اکثر عدم اعتماد کا بل حزب اختلاف کے جانب سے پیش کیا جاتا ہے جس پر ارکانِ پارلیمان اپنا ووٹ دیتے ہیں۔

اگر کسی وفاقی عہدیدار (جیسے وزیر اعظم،وفاقی وزیر،وغیرہ) کو برطرف کرنا ہوتا ہے تو وفاقی قانون ساز ایوانوں (مثلا قومی اسمبلی اور سینیٹ) میں بل پیش کیا جاتا ہے اور اگر صوبائی سطح پر کسی عہدیدار (جیسے وزیراعلیٰ،صوبائی وزیر،وغیرہ) کو ہٹانا ہے تو صوبائی قانون ساز ایوانوں میں (جیسے صوبائی اسمبلی) میں بل پیش کیا جاتا ہے۔

آئین کے تحت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوتی ہے یعنی سب کے سامنے ہوتی ہے، اس میں پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی طرح خفیہ ووٹنگ نہیں ہوتی۔جب تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی ہے تو تین دن سے پہلے اس پر ووٹنگ نہیں ہوسکتی اور سات دن سے زیادہ اس پر ووٹنگ میں تاخیر نہیں کی جاسکتی ہے۔

اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو گزشتہ تین دہائیوں میں دو دفعہ اس آئینی ہتھیار کو آزمایا گیا۔ پہلی تحریک محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف تھی۔ وہ اس وقت مرکز میں وزیراعظم تھیں اور میاں نوازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ محترمہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے کے لیے حکومتی پارٹی کے ارکان کو توڑا گیا، پیسے میں کس قدر طاقت ہے۔

اس کا اندازہ ان دنوں ہوا۔ متبادل کے طورپر غلام مصطفی جتوئی کا نام تجویز ہوا۔ جب مطلوبہ تعداد پوری ہوگئی تو ممبران کو ایک بار نہیں بار بار گنا گیا۔ اس کے بعد قرارداد جمع کرا دی گئی، لیکن پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی بولیاں لگنے لگیں، خزانوں کے منہ کھول دیے گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک ناکام ہوگئی، اور محترمہ بال بال بچ گئیں۔

دوسری تحریک عدم اعتماد قومی نہیں بلکہ صوبائی تھی، یہ تحریک وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کے خلاف تھی۔ صوبے میں اطمینان بخش اکثریت رکھنے والی مسلم لیگ کی حکومت کا خاتمہ کبھی نہ ہو پاتا، اگر اسی جماعت کے اندر سے ایک باغی گروپ برآمد نہ ہو پاتا۔میاں منظور احمد وٹو کی قیادت میں تقریباً ڈیڑھ درجن اراکین صوبائی اسمبلی پر مشتمل اس گروپ کو پیپلز پارٹی کی حمایت میسر تھی جس کے نتیجے میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور منظور احمد وٹو وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے۔

اب تیسری مرتبہ اپوزیشن جماعتوں نے وزیرا عظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہے، اُس کے لیے پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنا آسان جب کہ اس کا منظور ہونا بہت مشکل ہے۔

کیوں کہ سینیٹ چیئرمین، اپوزیشن لیڈر کے انتخاب سے لے کر پچھلے دنوں ہوئے قومی اسمبلی سے منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے بل پاس کرانے تک اپوزیشن کا ریکارڈ اچھا ہوتا تو شاید اس حوالے سے بھی کامیابی کی نوید سنا سکتے تھے مگر بقول شاعر

ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا

کیوں گلہ پھر ہمیں ہوا سے رہے

تحریک عدم اعتماد وزیراعظم کو بدلنے کا آئینی طریقہ ہے، اس میں کوئی عیب کی بات نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ کیا اپوزیشن ایسا کر پائے گی ۔بہرکیف میرے خیال میں یہ تحریک عدم اعتماد کبھی کامیاب نہیں ہوگی اور نہ ہی حکومت وقت سے پہلے گھر جائے گی ، کیوں کہ جولائی میں تو ویسے بھی حکومت کو اقتدار میں آئے 4سال ہو جائیں گے اور آخری سال ہمیشہ الیکشن کا سال ہو ا کرتا ہے، اس لیے یہ سب الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔

ویسے ہمیں اس وقت خطے کی مخصوص صورت حال، بیرونی تعلقات سے حاصل مواقعے اور خطرات پر توجہ دینی چاہیے، ہمیں مہنگائی، تھانہ کچہری کلچر اور کرپشن، پن بجلی منصوبوں کی بحالی،ٹیکسٹائل انڈسٹری کی سرگرمیوں، کنسٹرکشن سیکٹر کی سرگرمیوں، ہینڈمیک مینجمنٹ ، ہیلتھ کارڈ کی کامیابی اور دیگر سیکڑوں قسم کے مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ عوام اس حوالے سے کبھی شش و پنج میں مبتلا نہ ہوں کہ اُن کا اس ملک میں والی وارث کوئی نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔