متحدہ کے مقتول کارکن کو گرفتار نہیں کیا تھا رینجرز کا عدالت میں موقف

کارکن نعمان طالب کی ہلاکت کے متعلق درخواست پر حکومت نے جواب داخل کرنے کے لیے مہلت طلب کرلی

شہری گمشدگی کیس میں کمانڈنگ افسر ملیر کینٹ کاجواب داخل کرنے کیلیے ڈپٹی اٹارنی جنرل کوایک دن کی مہلت۔ فوٹو: فائل

سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس غلام سرور کورائی کی سربراہی میں 2رکنی بنچ نے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن نعمان طالب کی ہلاکت کی عدالتی تحقیقات کیلیے دائر درخواست کی سماعت کی۔

عدالت کو رینجرز کی جانب سے بتایا گیا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے مقتول کارکن نعمان طالب کی گرفتاری سے رینجرز کا کوئی تعلق نہیں، ثمرین جہاں نے درخواست میں الزام عائد کیا کہ نعمان طالب کو قانون نافذکرنے والے اداروں نے ماورائے عدالت قتل کیا ، شوہر نعمان کو رینجرز اہلکاروں نے گرفتار کیا مگر کسی عدالت میں پیش نہیں کیا، نعمان کو تشدد اور قتل کرکے لاش سپر ہائی وے پر پھینک دی گئی ،درخواست میں کہا گیا ہے کہ اگر مقتول کسی جرم میں ملوث تھا تو اسے عدالت میں پیش کیا جاتا اور مقدمہ چلایا جا تا مگر اسے غیر قانونی طور پر ماورائے عدالت قتل کردیا گیا، درخواست میں قتل کی عدالتی تحقیقات کی استدعا کی گئی ہے، رینجرز کے میجر اشفاق کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ رینجرز کے پاس نعمان طالب کی گرفتاری کا کوئی ریکارڈ نہیں،عدالت نے دیگر مدعا علیہان کی جانب سے جواب داخل کرنے کیلیے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو مزید مہلت دے دی۔


چندروز قبل جاویدعرف بندا ،نعمان اور سلیم عرف کباڑی کی لاشیں سپر ہائی وے سے ملی تھیں جس پر متحدہ قومی موومنٹ نے تینوں افراد کے ماورائے عدالت قتل کا الزام عائد کیا تھا، علاوہ ازیں ہائیکورٹ کے جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے مبینہ طور پر قانون نافذکرنے والے اداروں کی حراست میں ہلاک ہونے والے شہری نصیرالدین کی ہلاکت کی رپورٹ طلب کرلی ہے ،عدالت نے آئندہ سماعت پر مقتول کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اور پولیس رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی ہے، اسی بینچ نے ایک اور شہری کی گمشدگی کے مقدمے میں تعاون کرنے سے متعلق کمانڈنگ افسر ملیر کینٹ کاجواب داخل کرنے کیلیے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ایک دن کی مہلت دی ہے،رینجرز نے عدالت کو بتایا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے مقتول کارکن نعمان طالب کورینجرز نے گرفتار نہیں کیا تھا،جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے منگل کو متعدد لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کی،سید زین الدین کی جانب سے دائر درخواست میں ڈی جی آئی ایس آئی،ڈی جی ایم آئی،ڈی جی آئی بی، محکمہ داخلہ، سی آئی ڈی اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ سادہ لباس اور وردی میں ملبوس 40 اہلکاروں نے 26 اگست 2013 کو درخواست گزار کے بیٹے ظہورالدین کو گلشن اقبال میں واقع اس کی دکان سے حراست میں لیا ۔

اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور اگلے روز کشمیر روڈ پر پھینک دیا، 27 اگست کو دوسرے بیٹے نصیرالدین کو گرفتار کرلیا جو تاحال لاپتہ ہے، منگل کو تفتیشی افسر ڈی ایس پی ناصر لودھی نے عدالت کو بتایا کہ نصیرالدین 4 فروری2014 کو بلدیہ ٹائون کے علاقے میں پولیس مقابلے کے دوران مارا گیا، درخواست گزار نے پولیس کے بیان کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس کابیٹا 6ماہ سے حساس اداروں کی حراست میں تھا ،پولیس مقابلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،اس کے جسم پر تیز دھار آلے کے زخموں کے نشانات ہیں جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس پر تشدد ہواہے،عدالت نے ہدایت کی کہ 11مارچ کونصیر الدین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ اور دیگر ریکارڈ پیش کیا جائے،عدالت نے نوجوان شاہ زیب کی گمشدگی سے متعلق درخواست کی سماعت کے موقع پرڈپٹی اٹارنی جنرل کوکمانڈنگ افسر ملیر کینٹ کاجواب داخل کرنے کیلیے ایک دن کی مہلت دیتے ہوئے بدھ کی صبح تک جواب داخل کرنے کی ہدایت کی ہے،2رکنی بنچ نے احسن آباد کے رہائشی مقصود عالم کی درخواست کی سماعت کی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ تفتیشی افسر کی رپورٹ کے مطابق درخواست گزار کے بیٹے شاہ زیب کی گمشدگی سے قبل اسے ڈی ایچ اے ملیر سے فون کال موصول ہوئی تھی، اے آئی جی لیگل علی شیر جکھرانی نے یہی موقف اختیار کیا تھاکہ لاپتہ شہری کو ملیرکینٹ کے علاقے سے ہی فون آیا تھا،درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس کا بیٹا شاہ زیب جامعہ رشیدیہ میں ملازم تھا، 29مئی2013 کو اسے ایک ٹیلیفون کال موصول ہوئی اس نے اہل خانہ کو بتایا کہ اسے احسن آباد چوکی بلایا گیا ہے، وہ وہاں جارہا ہے تاہم شاہ زیب واپس نہیں آیا،ایس ایس پی انویسٹی گیشن شرقی کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ مذکورہ فون کال ملیر کینٹ کا نمبر ٹریس کیا گیا ہے اور یہ کال ملیر کینٹ کے علاقے سے موصول ہوئی تھی مگر تفتیشی افسر کو متعدد کوشش کے باوجود ملیر کینٹ کے علاقے میں داخلے کی اجازت نہیں دی جارہی،اس حوالے سے کمانڈنگ افسر ملیر کینٹ کو خط بھی لکھا گیا گیا مگرکوئی جواب موصول نہیں ہوا،منگل کو سماعت کے موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل اسلم بٹ نے کمانڈنگ افسر ملیر کینٹ سے رابطہ کرنے کیلیے مہلت طلب کی جس پر عدالت نے 19فروری تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے ہدایت کی کہ پولیس کی علاقہ تک رسائی اورکمانڈنگ افسر کے جواب سے متعلق بدھ کی صبح جواب داخل کیے جائیں۔
Load Next Story