مذاکرات اب تشدد رکنے پر ہی ہونگے حکومتی کمیٹی
غیر معینہ مدت تک قوم کے اعصاب سے نہیں کھیل سکتے، بات چیت آگے بڑھانے سے قاصر ہیں،کمیٹی کی وزیر اعظم سے ملاقات
حکومتی کمیٹی نے طالبان کی جانب سے پر تشدد کارروائیاں بند ہونے تک مذاکرات سے انکار کر دیا۔
کمیٹی نے وزیراعظم کو فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے چاروں ارکان نے منگل کو وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی جس میں طالبان کی دہشتگرد کارروائیوں سے پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا، کمیٹی نے وزیراعظم کو آغاز سے اب تک ہونے والی پیش رفت اور تعطل کے متعلق آگاہ کیا۔ کمیٹی کے کوآرڈینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ طالبان کے ٹھوس اقدامات کے بغیر بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات ممکن نہیں، موجودہ حالات میں کمیٹی بات چیت آگے بڑھانے سے قاصر ہے، وزیراعظم خود اس بارے میں کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں، انھیں کمیٹی کی خدمات دستیاب رہیں گی، طالبان ہر قسم کی کارروائیاں غیر مشروط طور پر بند کردیں تو مذاکرات دوبارہ شروع کیے جا سکتے ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے کے مطابق نوازشریف نے کمیٹی کو مشاورتی کام جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ مذاکراتی عمل کے حوالے سے آپس میں مشاورت اور حکومت کی رہنمائی جاری رکھیں۔ حکومتی کمیٹی نے کہا کہ پر تشدد کارروائیوں کا سلسلہ بند کیے جانے تک طالبان کمیٹی سے مذاکرات کافائدہ نہیں۔
جب تک طالبان کی جانب پر تشدد کارروائیوں کا سلسلہ مکمل بند نہیں کیا جاتا تو اس وقت تک مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے، کراچی اور مہمند ایجنسی کے واقعات سے مذاکرات کے عمل کو شدید نقصان پہنچا ہے اور صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ گزشتہ 13 دنوں میں طالبان کی جانب سے دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں، ایسی صورت حال میں طالبان کمیٹی سے مذاکرات بے نتیجہ ہوں گے، اس طرح مذاکرات کر کے ملک و قوم کا وقت اور پیسہ برباد نہیں کر سکتے۔ کمیٹی نے وزیر اعظم کو بتایا کہ کمیٹی نے سارے مذاکراتی عمل کے دوران انتہائی صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا اور قیام امن کی بھرپور کوششیںجاری رکھیں تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ دوسری طرف سے حوصلہ شکن رد عمل سامنے آیا اور پرتشدد کارروائیاں بھی جاری رہیں۔ مہمند ایجنسی کے واقعے سے صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔
حکومتی کمیٹی نے وزیراعظم کو یقین دہانی کرائی کہ ملک و قوم کے لیے ان کی خدمات حاضر ہیں، اس حوالے سے وہ جو بھی فیصلہ کریں گے کمیٹی اس پر عمل کرے گی۔ ذرائع کے مطابق اعلٰی فوجی قیادت سے رابطے کے بعد ہی وزیراعظم اس حوالے سے حتمی فیصلہ کریں گے۔ آئی این پی کے مطابق حکومتی کمیٹی سے ملاقات میں وزیراعظم نے کہا حکومت نے سنجیدگی اور نیک نیتی سے مذاکراتی عمل شروع کیا تھا تاکہ ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ اور امن کی راہ ہموار ہوسکے' مثبت حکومتی کوششوں کا منفی کارروائیوں سے جواب دیا گیا' طالبان کی طرف سے کراچی میں پولیس اور مہمند ایجنسی میں ایف سی اہلکاروں کی ہلاکتوں کے واقعات کا تفصیل سے جائزہ لے رہے ہیں' حکومت ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر کرے گی۔ کمیٹی کی وزیر اعظم سے ملاقات میں وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر اطلاعات پرویز رشید بھی موجود تھے۔ قبل ازیں حکومتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں عرفان صدیقی، میجر (ر) عامر، رحیم اللہ یوسف زئی اور رستم شاہ مہمند نے شرکت کی۔
کمیٹی نے اب تک کے مذاکراتی عمل کا تفصیلی جائزہ لیا۔ کمیٹی نے 14فروری کے اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ کودہراتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی ہر قسم کی کارروائیاں غیر مشروط طور پر بلاتاخیر بند کردے اور اس اعلان پر عمل درآمد کوبھی یقینی بنائے ۔اس ٹھوس اقدام کے بغیر بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکراتی عمل جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ قوم امن کی آرزو مند ہے اور ہم غیر معینہ مدت کے لیے قوم کی اعصاب سے نہیں کھیل سکتے۔ نمائندہ ایکسپریس کے مطابق حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ارکان پر طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے ارکان سے ذاتی اور انفرادی حیثیت میں بذریعہ فون یا غیر رسمی رابطے رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ تاہم باضابطہ ملاقات اور باقاعدہ مذاکرات کا سلسلہ اس وقت بحال نہیں کیاجائے گا جب تک تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے تمام گروپوں کی ذمہ داری لیتے ہوئے غیر مشروط، بلا تاخیر ہر قسم کی کارروائیاں بند کرنے کا باقاعدہ اعلان نہیں کر دیا جاتا۔
وزیراعظم نواز شریف سے منگل کو یہاں وزیراعظم ہائوس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ملاقات کی۔ ون آن ون ملاقات میں ملک کی سلامتی کی موجودہ صورت حال، قیام امن کے لیے طالبان اور حکومتی مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان اب تک ہونے والی ملاقاتوں، رابطوں، پیش رفت اور طالبان کی جانب سے ایف سی اہلکاروں کے قتل کے بعد پیدا شدہ تعطل سمیت تمام اہم امور پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم اور آرمی چیف نے تحریک طالبان مہمند ایجنسی کی جانب سے ایف سی کے 23اہلکاروں کو قتل کرنے کے واقعے کو افسوسناک قرار دیا اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلیے سیاسی، انتظامی اور فوجی سطح پر ہر ممکن احتیاطی اقدامات کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے آرمی چیف کو بتایا کہ حکومت کی طرف سے طالبان کمیٹی پر واضح کردیا گیا ہے کہ جب تک طالبان کی طرف سے اپنی پرتشدد کارروائیاں بند کرنے کا واضح اعلان کرکے اسکا عملی ثبوت نہیں دیا جاتا مذاکراتی عمل دوبارہ شروع کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
این این آئی کے مطابق نواز شریف نے ایف سی اہلکاروں کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائیگا۔ ذرائع کے مطابق آرمی چیف نے پاک فوج کی مشقوں اور دوسری تیاریوں کے بارے میں بھی وزیراعظم کو اعتماد میں لیا۔ آئی این پی کے مطابق ملاقات میں سیاسی اور عسکری قیادت نے کہا ہے کہ ملکی سلامتی کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، دہشت گردی کیخلاف پوری قوم متحد ہے، سیکیورٹی اہلکاروں کی جانوں سے کھیلنے والوں کو اپنا کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، امن کیلئے مذاکرات کاراستہ اختیارکیا، دہشت گردوں نے اپنی منفی کارروائیوں اور عزائم سے اسے ناکام بنا دیا، حکومت اور سیکیورٹی فورسز عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ہر ضروری قدم اٹھائیں گے۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیر اعظم کو آرمی چیف نے دہشت گردوں کی جاری مسلسل کارروائیوں سے پیدا صورتحال اور فوج کی طرف سے ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کیلیے کیے گئے اقدامات کے بارے میں اعتماد میں لیا۔
کمیٹی نے وزیراعظم کو فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے چاروں ارکان نے منگل کو وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی جس میں طالبان کی دہشتگرد کارروائیوں سے پیدا شدہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا، کمیٹی نے وزیراعظم کو آغاز سے اب تک ہونے والی پیش رفت اور تعطل کے متعلق آگاہ کیا۔ کمیٹی کے کوآرڈینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ طالبان کے ٹھوس اقدامات کے بغیر بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات ممکن نہیں، موجودہ حالات میں کمیٹی بات چیت آگے بڑھانے سے قاصر ہے، وزیراعظم خود اس بارے میں کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں، انھیں کمیٹی کی خدمات دستیاب رہیں گی، طالبان ہر قسم کی کارروائیاں غیر مشروط طور پر بند کردیں تو مذاکرات دوبارہ شروع کیے جا سکتے ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے کے مطابق نوازشریف نے کمیٹی کو مشاورتی کام جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ مذاکراتی عمل کے حوالے سے آپس میں مشاورت اور حکومت کی رہنمائی جاری رکھیں۔ حکومتی کمیٹی نے کہا کہ پر تشدد کارروائیوں کا سلسلہ بند کیے جانے تک طالبان کمیٹی سے مذاکرات کافائدہ نہیں۔
جب تک طالبان کی جانب پر تشدد کارروائیوں کا سلسلہ مکمل بند نہیں کیا جاتا تو اس وقت تک مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے، کراچی اور مہمند ایجنسی کے واقعات سے مذاکرات کے عمل کو شدید نقصان پہنچا ہے اور صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ گزشتہ 13 دنوں میں طالبان کی جانب سے دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں، ایسی صورت حال میں طالبان کمیٹی سے مذاکرات بے نتیجہ ہوں گے، اس طرح مذاکرات کر کے ملک و قوم کا وقت اور پیسہ برباد نہیں کر سکتے۔ کمیٹی نے وزیر اعظم کو بتایا کہ کمیٹی نے سارے مذاکراتی عمل کے دوران انتہائی صبرو تحمل کا مظاہرہ کیا اور قیام امن کی بھرپور کوششیںجاری رکھیں تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ دوسری طرف سے حوصلہ شکن رد عمل سامنے آیا اور پرتشدد کارروائیاں بھی جاری رہیں۔ مہمند ایجنسی کے واقعے سے صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔
حکومتی کمیٹی نے وزیراعظم کو یقین دہانی کرائی کہ ملک و قوم کے لیے ان کی خدمات حاضر ہیں، اس حوالے سے وہ جو بھی فیصلہ کریں گے کمیٹی اس پر عمل کرے گی۔ ذرائع کے مطابق اعلٰی فوجی قیادت سے رابطے کے بعد ہی وزیراعظم اس حوالے سے حتمی فیصلہ کریں گے۔ آئی این پی کے مطابق حکومتی کمیٹی سے ملاقات میں وزیراعظم نے کہا حکومت نے سنجیدگی اور نیک نیتی سے مذاکراتی عمل شروع کیا تھا تاکہ ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ اور امن کی راہ ہموار ہوسکے' مثبت حکومتی کوششوں کا منفی کارروائیوں سے جواب دیا گیا' طالبان کی طرف سے کراچی میں پولیس اور مہمند ایجنسی میں ایف سی اہلکاروں کی ہلاکتوں کے واقعات کا تفصیل سے جائزہ لے رہے ہیں' حکومت ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر کرے گی۔ کمیٹی کی وزیر اعظم سے ملاقات میں وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر اطلاعات پرویز رشید بھی موجود تھے۔ قبل ازیں حکومتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں عرفان صدیقی، میجر (ر) عامر، رحیم اللہ یوسف زئی اور رستم شاہ مہمند نے شرکت کی۔
کمیٹی نے اب تک کے مذاکراتی عمل کا تفصیلی جائزہ لیا۔ کمیٹی نے 14فروری کے اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ کودہراتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی ہر قسم کی کارروائیاں غیر مشروط طور پر بلاتاخیر بند کردے اور اس اعلان پر عمل درآمد کوبھی یقینی بنائے ۔اس ٹھوس اقدام کے بغیر بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکراتی عمل جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ قوم امن کی آرزو مند ہے اور ہم غیر معینہ مدت کے لیے قوم کی اعصاب سے نہیں کھیل سکتے۔ نمائندہ ایکسپریس کے مطابق حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ارکان پر طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے ارکان سے ذاتی اور انفرادی حیثیت میں بذریعہ فون یا غیر رسمی رابطے رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ تاہم باضابطہ ملاقات اور باقاعدہ مذاکرات کا سلسلہ اس وقت بحال نہیں کیاجائے گا جب تک تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے تمام گروپوں کی ذمہ داری لیتے ہوئے غیر مشروط، بلا تاخیر ہر قسم کی کارروائیاں بند کرنے کا باقاعدہ اعلان نہیں کر دیا جاتا۔
وزیراعظم نواز شریف سے منگل کو یہاں وزیراعظم ہائوس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ملاقات کی۔ ون آن ون ملاقات میں ملک کی سلامتی کی موجودہ صورت حال، قیام امن کے لیے طالبان اور حکومتی مذاکراتی کمیٹیوں کے درمیان اب تک ہونے والی ملاقاتوں، رابطوں، پیش رفت اور طالبان کی جانب سے ایف سی اہلکاروں کے قتل کے بعد پیدا شدہ تعطل سمیت تمام اہم امور پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم اور آرمی چیف نے تحریک طالبان مہمند ایجنسی کی جانب سے ایف سی کے 23اہلکاروں کو قتل کرنے کے واقعے کو افسوسناک قرار دیا اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلیے سیاسی، انتظامی اور فوجی سطح پر ہر ممکن احتیاطی اقدامات کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے آرمی چیف کو بتایا کہ حکومت کی طرف سے طالبان کمیٹی پر واضح کردیا گیا ہے کہ جب تک طالبان کی طرف سے اپنی پرتشدد کارروائیاں بند کرنے کا واضح اعلان کرکے اسکا عملی ثبوت نہیں دیا جاتا مذاکراتی عمل دوبارہ شروع کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
این این آئی کے مطابق نواز شریف نے ایف سی اہلکاروں کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائیگا۔ ذرائع کے مطابق آرمی چیف نے پاک فوج کی مشقوں اور دوسری تیاریوں کے بارے میں بھی وزیراعظم کو اعتماد میں لیا۔ آئی این پی کے مطابق ملاقات میں سیاسی اور عسکری قیادت نے کہا ہے کہ ملکی سلامتی کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، دہشت گردی کیخلاف پوری قوم متحد ہے، سیکیورٹی اہلکاروں کی جانوں سے کھیلنے والوں کو اپنا کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، امن کیلئے مذاکرات کاراستہ اختیارکیا، دہشت گردوں نے اپنی منفی کارروائیوں اور عزائم سے اسے ناکام بنا دیا، حکومت اور سیکیورٹی فورسز عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ہر ضروری قدم اٹھائیں گے۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیر اعظم کو آرمی چیف نے دہشت گردوں کی جاری مسلسل کارروائیوں سے پیدا صورتحال اور فوج کی طرف سے ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کیلیے کیے گئے اقدامات کے بارے میں اعتماد میں لیا۔