لاہور سنہری اقدار کا امین

اندرون شہر کے لوگ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں آج بھی ساتھ ہوتے ہیں


ثمینہ فاضل خان February 19, 2022
لاہور کا اپنا ایک منفرد کلچر ہے۔ (فوٹو: فائل)

لاہور شہر کی تاریخ رام چندر یا شاید اس سے بھی پہلے کی ہے۔ اس شہر نے صدیوں کی مسافت طے کی ہے۔ کبھی اس کے پہلو میں دریا بہتا تھا اور اس دریا کا پانی ایک چھوٹی سی نہر کی صورت فصیل والے شہر کا طواف کرتا۔ جس کے ساتھ ہریالی بھی تھی اور فصیل میں شہر لاہور کے دروازے تھے۔ اس شہر کی خواتین اس نہر کے کنارے بیٹھ کر کپڑے دھویا کرتیں اور ایک دوسرے سے اپنے دل کا حال کہتیں۔ یہ سب آج خواب و خیال سا لگتا ہے، پریوں کی داستان جیسا۔ آج اس نہر کی جگہ گندا نالہ ہے جسے کہیں سے ڈھک دیا گیا ہے اور کہیں سے کھلا ہے۔

وقت بدلتا رہا، دریا نے اپنا راستہ بدلا اور اس شہر کے لوگو ں کے اطوار بھی نئے زمانے کے ساتھ بدل گئے۔ لیکن عمارتیں اور ماحول بدلنے سے لاہوریوں کی روایات نہیں بدلیں۔ یہ آج بھی زندہ دل، مہمان نواز اور میل جول والے لوگ ہیں۔

مذہبی تہوار ہوں یا میلے، اندرون شہر لاہور کے رہائشی ذات پات اور اونچ نیچ کو بُھلا کر ایک دوسرے کی خوشیوں میں شامل ہوتے ہیں۔ میلادالنبی، معراج شریف، شب برات، عروس اور دیگر اسلامی تہواروں پر مٹی کے چھوٹے چھوٹے دیے جلا کر چراغاں کیا جاتا ہے یا موم بتیاں جلائی جاتی ہیں۔ نذر و نیاز محلے بھر میں بانٹی جاتی ہے، جسے لوگ بہت شوق، عقیدت اور پیار سے کھاتے اور بعض منچلے تو انتظار میں رہتے ہیں کہ فلاں چاچی یا آنٹی فلاں چیز بہت اچھی بناتی ہیں۔

لاہور دنیا میں ایک منفرد شہر ہے۔ لاہور میں صدیوں سے آباد لوگوں کا اپنا ایک مزاج ہے، اپنا منفرد کلچر ہے، رہنے سہنے کا ایک پیارا انداز ہے، زبان و بیان میں اپنا ایک خوبصورت رنگ ہے۔ ہنسی مذاق کے انداز، لباس، خوراک اور چال ڈھال کے اپنے انداز، اپنا وقار اور اپنے جذبات ہیں۔ غیرت، ناموس، ہمدردی، انس، محبت اور دوستی کا اپنا ایک الگ خوبصورت انداز ہے۔ مہربانی، مہمانی اور مخیرانہ سلیقہ بھی منفرد ہے۔

لاہور کے لوگ قدرتی طور پر خوش خوراک، خوش گلو اور خوش پوش ہیں۔ صبح سویرے بچے، جوان، بوڑھے سب دودھ، دہی اور حلوائیوں کی دکانوں کے گرد ہجوم کی صورت جمع ہوتے ہیں۔ لسی کلچے کا ناشتہ، حلوہ پوری کا ناشتہ یا پھر سری پائے اور کلچے کا ناشتہ عام ہے۔ اندرون شہر کے لوگ گھروں میں ناشتہ نہیں بناتے، دیر تک سونا اور باہر سے ناشتہ کرنا لاہوریوں کا معمول ہے۔

اندرون شہر کے لوگ صبح دیر تک سونے اور رات دیر تک جاگنے کے عادی ہیں۔ رات دو ڈھائی بجے تک دن کا سا سماں اور رونق ہوتی ہے۔ گلی محلوں میں خواتین دروازوں، کھڑکیوں میں کھڑی اور بڑی بوڑھیاں احاطے میں چارپائیاں بچھائے بیٹھی خوش گپیوں میں مگن نظر آتی ہیں۔ گھر ایک دوسرے سے جڑے ہونے کے باعث اندرون شہر کے لوگ ایک دوسرے کے دکھ سکھ سے بھی واقف ہوتے ہیں۔ ایک گھر میں خوشی یا غمی ہے تو پورا محلہ مصروف عمل نظر آتا ہے۔ اس میل جول کا ایک نقصان یہ بھی کہ یہاں کسی بھی بات کا چھپا رہنا مشکل ہے اور اکثر مبالغہ آرائی کی بنیاد پر جھگڑے شروع ہوتے ہیں، کیونکہ ہر بیان کرنے والے اپنی طرف سے مرچ مصالحہ ضرور شامل کرتا ہے۔

لڑائی جھگڑے بھی معمولات میں سے ہیں لیکن یہ جھگڑے وقتی ہوتے ہیں اور بہت جلد لوگ کدورتیں مٹا کر پھر سے یکجان ہوجاتے ہیں۔ جبکہ لوگ عام زبان میں بہت بے تکلف ہیں اور عام بول چال میں گالیوں کا استعمال معمول کی بات ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پکے لاہوری کی پہچان یہ ہے کہ یہ لوگ ر کو ڑ بولتے ہیں۔ اور خ کو ح۔ ان لفظوں کی درست ادائیگی ان لوگوں کےلیے مشکل ثابت ہوتی ہے۔ المختصر اندرون شہر کے لوگ دل سے لاہوری ہیں جو زندہ دل ہیں اور ان سے مل کر، ان کی ثقافت اور رہن سہن کو جان کر ہی لوگ کہتے ہیں کہ جنے لہور نئی ویکھیا او جمیا ای نئیں۔

اندرون شہر لاہور کی ثقافت میں ایک انفرادیت یہاں کا تھڑا کلچر ہے۔ چھوٹے بڑے ہر عمر کے مرد حضرات گھروں اور دکانوں کے باہر بنے تھڑوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ بوڑھے اور فارغ لوگ گھروں سے باہر تھڑوں پر بیٹھے گپ شپ لگاتے اور اپنے دکھ درد ایک دوسرے سے بانٹتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ روزمرہ زندگی کے مسائل سے لے کر، کھیل، میڈیا اورملکی سیاست پر سیر حاصل گفتگو کرتے آتے ہیں۔ اور یہاں ہر ایک اپنے آپ کو بہترین تجزیہ نگار اور دانشوار گردانتا ہے۔ اندرون شہر لاہور کا تھڑا کلچر تاریخی اہمیت کا حامل اور دنیا بھر میں ممتاز ہے۔

الغرض شہر لاہور پاکستان کا دل ہے جس کی ثقافت، روایات اور تاریخی اہمیت اسے دنیا بھر میں ممتاز بناتی ہے۔ جو شخص زندگی کا کچھ حصہ یہاں گزار لے پھر وہ باقی کی زندگی اس شہر کو یاد کرنے میں گزار دیتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔