پاکستان میں صحافی غیر محفوظ کیوں

جو سب کےلیے آواز بلند کرتے ہیں کیا اُن کےلیے بھی کوئی آواز اٹھائے گا؟

غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے صحافیوں کو ’ٹھیک‘ کرنے کے بجائے اپنی غلطیاں درست کیجئے۔ (فوٹو: فائل)

JERUSALEM:
صحافیوں کو گالیاں دینے والے، اُنہیں ایک چائے کی پیالی پر یا ایک سموسے پر بِک جانے کا طعنہ دینے والے لوگوں کی اکثریت شاید اس بات سے ناواقف ہوگی کہ لفظ صحافت، صحیفہ سے نکلا ہے، جس کے معنی حق بات کے ہیں۔

آج سے تقریباً نو سال قبل پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں ماس کمیونیکیشن کےلیے داخلہ لیتے وقت میرے ذہن میں یہ ڈر موجود تھا کہ ہمارے معاشرے میں صحافی مرد کو اچھا نہیں سمجھا جاتا، میں تو پھر ایک لڑکی ہوں، یقیناً میرے لیے آزمائشیں زیادہ ہوں گی۔ لیکن پھر بھی میں نے یہ فیصلہ کیا کیونکہ مجھے اُن لوگوں کی آواز بننا تھا جن کی آواز کوئی نہیں بنتا، مجھے اُن کے حق کےلیے لڑنا تھا جو خود اپنے حق سے آگاہ تک نہیں۔

اس مقدس پیشے اور تعلیم یافتہ باشعور صحافی طبقے کو بدنام کرنے والے غیر پیشہ ورانہ اور میڈیا کے شوقین کم علم لوگوں سے مجھے بھی اُتنی ہی خار ہے جتنی شاید بہت سارے دیگر لوگوں کو ہوگی۔ میں جب پاکستان میں تھی تو میں نے بارہا آواز بھی بلند کی کہ جس طرح ڈاکٹر، انجینئر اور وکیل کےلیے پیشہ ورانہ ڈگری لازمی ہے اور بنا اس پیشہ ورانہ تعلیمی ڈگری کے کوئی بھی اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر، وکیل یا انجینئر نہیں لکھ سکتا، اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ کھمبیوں کی طرح پھوٹنے والے ان ناتجربہ کار اور غیرتعلیم یافتہ نام نہاد خودساختہ صحافی، جن کی وجہ سے اصل صحافی بھی بدنام ہیں، کے سدِباب کےلیے صحافتی ڈگری کو لازم قرار دے۔

صبح کے چار بجے کا وقت تھا غالباً، جب نامور صحافی اقرارالحسن کے بارے میں ٹویٹر سے پتا چلا کہ ایک بااثر محکمے کے بااثر افسر کی کرپشن عوام کے سامنے لانے کی پاداش میں اقرارالحسن سمیت ان کی پوری ٹیم کو سرکاری ٹارچر سیل میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اقرارالحسن کے ساتھ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا، وہ جب بھی کسی بڑے کرپٹ انسان کی کرپش بے نقاب کرتا ہے اسے اس کی سزا دی جاتی ہے، لیکن اس مرتبہ بشمول اقرارالحسن ساری ٹیم کے کپڑے اتروا کر بدترین تشدد کیا گیا، پسلیاں توڑی گئیں، گھسیٹا گیا، بال نوچے گئے۔ یہی نہیں جسم کے نازک اعضا پر کرنٹ لگایا گیا اور اس کی ویڈیو بھی بنائی گئی۔

صحافیوں کو گالیاں دینے والے کیا اس اذیت کا تصور بھی کرسکتے ہیں؟ اگر صحافت کو مقدس پیشہ نہ بھی سمجھا جائے بس ایک نوکری سمجھا جائے تو کیا آپ ایسی کسی نوکری کا تصور کرسکتے ہیں؟ جہاں آپ کی جان محفوظ نہ ہو، جہاں آپ کی عزت محفوظ نہ ہو، جہاں آپ کا گھر اور آپ کی فیملی تک محفوظ نہ ہو۔

جو سب کےلیے آواز بلند کرتے ہیں کیا اُن کےلیے بھی کوئی آواز اٹھائے گا؟


مٹھی بھر برے لوگوں کی وجہ سے کیا جان ہتھیلی پر رکھ کر آپ کے حق کےلیے اپنی عزت، جان اور فیملیز خطرے میں ڈالنے والے محبِ وطن باشعور صحافیوں کو بُرا بھلا کہنا درست ہے؟

وہ صحافی جو ہر محکمے میں آپ عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالتی کالی بھیڑوں کے کرتوت سامنے لاتے ہیں۔
جو کبھی آٹا، چینی، دال اور پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر آپ کے ساتھ سراپا احتجاج ہوتے ہیں۔ جو کبھی بڑھتی ہوئی اسکول کالج کی فیسوں اور کبھی کمزور طبقے پر ہونے والے ظلم کے خلاف چشم دید گواہ بن کر آپ کی آواز اعلیٰ ایوانوں تک پہنچاتے ہیں۔

صحافی کسی بھی معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں۔ یقیناً میڈیا میں بھی خامیاں اور کوتاہیاں ہوں گی لیکن یقین کیجئے اگر میڈیا نہ ہوتا تو طاقتور مفاد پرست طبقہ عوام کی ہڈیاں تک چبا چکا ہوتا۔ اگر کیمرے اور قلم کا ڈر نہ ہوتا تو یہاں کا حال بھی نارتھ کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ آن کی ریاست جیسا ہوتا، جہاں بدترین ڈکٹیٹرشپ اور سنسرشپ کی بدولت حالات اتنے گھٹن زدہ ہیں کہ سانس تک لینا محال ہے۔

یہ میڈیا کی مرہونِ منت ہے کہ ہم سنتے ہیں کہ فلاں فلاں معاملہ میڈیا میں آنے کے بعد حکومت نے ایکشن لے لیا۔ چاہیے وہ قصور کی ننھی زینب کا معاملہ ہو، سیالکوٹ کے منیب اور مغیث کی دردناک موت کا معاملہ ہو، کراچی کے نوجوان سرفراز شاہ کا قتل ہو، سری لنکن شہری پرانتھا کمار کا واقعہ ہو یا حال ہی میں پیش آنے والا سانحہِ مری ہو۔

سوچیے اگر میڈیا اور صحافی نہ ہوتے تو کیا یہ واقعات رپورٹ بھی ہو پاتے؟ ذمے داران کو سزا ملنا تو دور کی بات۔

خدارا، وہ لوگ جو آپ کی آواز بنتے ہیں، آپ کی طاقت بنتے ہیں، ان کےلیے عوام کو چاہیے کہ کم از کم نرم گوشہ تو رکھیں، دعا تو کریں، ان کی قدر تو کریں۔ اور صاحبِ اقتدار طبقے سے بھی یہی کہنا چاہوں گی کہ ان صحافیوں کے حال پر رحم کھائیے۔ اگر پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور یہاں جمہوریت ہے تو جن غلطیوں کی نشاندہی کی جائے ان غلطیوں کو ٹھیک کیجئے۔ ان غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے صحافیوں کو نہ ٹھیک کریں۔ ان کےلیے حالات اتنے تنگ نہ کیجئے کہ وہ پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story