ہم تو ڈوبے ہیں صنم
سیاست بھی کیا گیم ہے، کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دشمن کل کے دوست بن جاتے ہیں
سیاست بھی کیا گیم ہے، کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دشمن کل کے دوست بن جاتے ہیں۔ جیسے ن لیگ پیپلزپارٹی بار بار کی لڑائی کے بعد پھر صلح، پھر لڑائی اور پھر صلح اور ملاقاتوں سے تو سب کے سامنے ہیں مگر ن لیگ نے اپنے سخت ترین حریف خاندان چوہدری برادران سے ملاقات کرکے سب کو حیران کر دیا۔ پھر اسی دوران پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی ہچکولے آنا شروع ہوگئے کہ وہ کہیں اپنے اہم ترین اتحادی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے۔ تبھی مونس الٰہی کو کہنا پڑا کہ خان صاحب گھبرائیں نہیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
اس ساری پیش رفت سے ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ موجودہ حالات میں چوہدری برادران نے اپنی اہمیت ثابت کی ہے۔ ق لیگ آنے والے دنوں میں حکومت کے لیے فائدہ مند بھی ہو سکتی ہے اور نقصان دہ بھی۔ میرے خیال میں ابھی حکومت کے پاس وقت ہے کہ وہ ق لیگ سے معاملات درست کر لے۔ ویسے بھی پنجاب حکومت لاکھ اچھے کام کر لے مگر وہ جب تک عوام کی نظروں میں نہیں ہوں گے، تب تک اُن کا کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہو سکتا۔
حکومت کا میڈیا سیل پتہ نہیں کیا کر رہا ہے کیونکہ عوام مرکزی اور صوبائی حکومت سے نالاں نظر آرہے ہیں، موجودہ حکومت صحت کارڈ کی بھی صحیح انداز میں تشہیر نہیں کر سکی، جب کہ اس کی مخالفت کی تشہیر زیادہ ہو رہی ہے۔ ق لیگ کی قیادت کو پتہ ہے کہ عوام کی نظروں میں کیسے اپنی اہمیت کو منوایا جاتا ہے، بیوروکریسی سے بھی اُن کی اچھی دوستی ہے، پنجاب میں تو ویسے بھی حکومت کو ایماندار بیوروکریسی کی سخت ضرورت ہے، اور یہاں اگر بیوروکریسی کسی پر اعتماد کرتی ہے، تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ ق لیگ کی قیادت ہے ۔
ق لیگ کا دور حکومت مکمل کیا ہوا تو اُس وقت پنجاب کا خزانہ 100 ارب روپے سرپلس میں تھا،جب کہ 2018 میں پنجاب پر 2000 ارب روپے سے زائد کا قرض ہے۔ ق لیگ کے دور میںتعلیم پر توجہ دی گئی ،اُس وقت اسکولوں میں بچوں کو دوپہر کا کھانا ملنا شروع ہوگیا تھا۔ پھر پنجاب ہائی وے پٹرولنگ پولیس کا قیام بھی اچھا کام تھا۔ جس سے مسافروں کو خاصا تحفظ حاصل ہوا۔ ریسکیو 1122 کا قیام،انڈسٹریل اسٹیٹ اور ٹریفک وارڈنز سٹسم بھی اس وقت تشکیل دیا گیا ۔ ق لیگ کی حکومت نے 2007 میں فرانزک لیب قانون کے منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔شہبازشریف نے فرانزک منصوبے پر 5 سال تک کام روکے رکھا۔
یہ تمام منصوبے گنوانے کا مطلب کسی کی کاسہ لیسی کرنا نہیں بلکہ وزیر اعظم عمران خان کو یہ باور کرانا ہے کہ وہ پنجاب کی سیاسی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اگر آخری سال اور چند ماہ کے لیے ق لیگ کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دے دی جائے تو صوبے کی حالت بہتر ہوجائے گی۔ پی ٹی آئی اور ق لیگ مل کر حکومت کریں تو ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز ہوگی ، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا مقابلہ بخوبی کیا جاسکے گا اور ساتھ پنجاب کی بیوروکریسی کی حالت بھی بہتر ہو جائے گی ۔
بہرکیف ہمیں اس ملک سے غرض ہونی چاہیے، عثمان بزدار یقینا بہترین وزیر اعلیٰ ہیں مگر وہ اپنے کاموں کی تشہیر کرنے سے قاصر ہیں، جس کی اس وقت تحریک انصاف کو اشد ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھActiveورک ریلیشن شپ کی ضرورت ہے، جو کہیں نظر نہیں آرہی۔بادی النظر میں اگر یہ سب کچھ نہ ہوا توموجودہ حکومت 2023کے الیکشن میں فتح کے قریب بھی نہیں ہوگی۔
اس لیے میرے خیال میں پنجاب میں حکومتی سیٹ اپ میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے، ایسی تبدیلی جو پنجاب کے ہرانتخابی حلقے، ہر گاؤں، ہر ادارے میں سنی جائے، اور اس کا اسٹیٹس ہو اور پھر جب اتنی زیادہ مہنگائی ہو رہی ہے تو اس وقت حکومت بیچ منجدھار اکیلے کھڑی نظر آرہی ہے، لہٰذااسے ڈوبنے سے بچانے کے لیے اگر حکومت بغیر کسی اہتمام حجت یہ کام کر لے تو اسی میں سب کی بھلائی ہے ورنہ بقول شاعر
ہم تو ڈوبے ہیں صنم
تم کو بھی لے ڈوبیں گے
اس ساری پیش رفت سے ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ موجودہ حالات میں چوہدری برادران نے اپنی اہمیت ثابت کی ہے۔ ق لیگ آنے والے دنوں میں حکومت کے لیے فائدہ مند بھی ہو سکتی ہے اور نقصان دہ بھی۔ میرے خیال میں ابھی حکومت کے پاس وقت ہے کہ وہ ق لیگ سے معاملات درست کر لے۔ ویسے بھی پنجاب حکومت لاکھ اچھے کام کر لے مگر وہ جب تک عوام کی نظروں میں نہیں ہوں گے، تب تک اُن کا کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہو سکتا۔
حکومت کا میڈیا سیل پتہ نہیں کیا کر رہا ہے کیونکہ عوام مرکزی اور صوبائی حکومت سے نالاں نظر آرہے ہیں، موجودہ حکومت صحت کارڈ کی بھی صحیح انداز میں تشہیر نہیں کر سکی، جب کہ اس کی مخالفت کی تشہیر زیادہ ہو رہی ہے۔ ق لیگ کی قیادت کو پتہ ہے کہ عوام کی نظروں میں کیسے اپنی اہمیت کو منوایا جاتا ہے، بیوروکریسی سے بھی اُن کی اچھی دوستی ہے، پنجاب میں تو ویسے بھی حکومت کو ایماندار بیوروکریسی کی سخت ضرورت ہے، اور یہاں اگر بیوروکریسی کسی پر اعتماد کرتی ہے، تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ ق لیگ کی قیادت ہے ۔
ق لیگ کا دور حکومت مکمل کیا ہوا تو اُس وقت پنجاب کا خزانہ 100 ارب روپے سرپلس میں تھا،جب کہ 2018 میں پنجاب پر 2000 ارب روپے سے زائد کا قرض ہے۔ ق لیگ کے دور میںتعلیم پر توجہ دی گئی ،اُس وقت اسکولوں میں بچوں کو دوپہر کا کھانا ملنا شروع ہوگیا تھا۔ پھر پنجاب ہائی وے پٹرولنگ پولیس کا قیام بھی اچھا کام تھا۔ جس سے مسافروں کو خاصا تحفظ حاصل ہوا۔ ریسکیو 1122 کا قیام،انڈسٹریل اسٹیٹ اور ٹریفک وارڈنز سٹسم بھی اس وقت تشکیل دیا گیا ۔ ق لیگ کی حکومت نے 2007 میں فرانزک لیب قانون کے منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔شہبازشریف نے فرانزک منصوبے پر 5 سال تک کام روکے رکھا۔
یہ تمام منصوبے گنوانے کا مطلب کسی کی کاسہ لیسی کرنا نہیں بلکہ وزیر اعظم عمران خان کو یہ باور کرانا ہے کہ وہ پنجاب کی سیاسی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اگر آخری سال اور چند ماہ کے لیے ق لیگ کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دے دی جائے تو صوبے کی حالت بہتر ہوجائے گی۔ پی ٹی آئی اور ق لیگ مل کر حکومت کریں تو ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز ہوگی ، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا مقابلہ بخوبی کیا جاسکے گا اور ساتھ پنجاب کی بیوروکریسی کی حالت بھی بہتر ہو جائے گی ۔
بہرکیف ہمیں اس ملک سے غرض ہونی چاہیے، عثمان بزدار یقینا بہترین وزیر اعلیٰ ہیں مگر وہ اپنے کاموں کی تشہیر کرنے سے قاصر ہیں، جس کی اس وقت تحریک انصاف کو اشد ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھActiveورک ریلیشن شپ کی ضرورت ہے، جو کہیں نظر نہیں آرہی۔بادی النظر میں اگر یہ سب کچھ نہ ہوا توموجودہ حکومت 2023کے الیکشن میں فتح کے قریب بھی نہیں ہوگی۔
اس لیے میرے خیال میں پنجاب میں حکومتی سیٹ اپ میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے، ایسی تبدیلی جو پنجاب کے ہرانتخابی حلقے، ہر گاؤں، ہر ادارے میں سنی جائے، اور اس کا اسٹیٹس ہو اور پھر جب اتنی زیادہ مہنگائی ہو رہی ہے تو اس وقت حکومت بیچ منجدھار اکیلے کھڑی نظر آرہی ہے، لہٰذااسے ڈوبنے سے بچانے کے لیے اگر حکومت بغیر کسی اہتمام حجت یہ کام کر لے تو اسی میں سب کی بھلائی ہے ورنہ بقول شاعر
ہم تو ڈوبے ہیں صنم
تم کو بھی لے ڈوبیں گے