صحت کارڈ عمران خان کو دعائیں اور کچھ شکوے
صحت سہولت کارڈ دراصل ’’شکایت کارڈ‘‘ بنتا جارہا ہے
WASHINGTON:
پٹرول کی قیمت میں حالیہ کمر شکن اضافے کے باوجود پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے صحت سہولت کارڈ کی آ ج کل چاروں اُور بڑی مشہوریاں ہیں ۔ جناب عمران خان اس کارڈ پر بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں ۔
پہلے یہ پروجیکٹ کے پی کے میں متعارف کروایا گیا اور اب پنجاب میں یہ صحت کارڈ تیزی کے ساتھ عوام تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس پر خان صاحب، وزیر اعلیٰ پنجاب اور اُن کی حکومتوں کو مبارکباد۔ دعویٰ ہے کہ اس کارڈ میں پڑے دس لاکھ روپے دراصل ایک بلینک چیک ہے جس کی بِنا پر کوئی بھی صحت سہوت کارڈ ہولڈر کئی نجی یا سرکاری اسپتالوں سے اپنا ایک ملین روپے تک سالانہ علاج کروا سکتا ہے۔ حکومت نے اُن نجی اور سرکاری اسپتالوں کی ایک تفصیل بھی میڈیا کو فراہم کی ہے جہاں یہ صحت کارڈ بروئے کار سکتا ہے۔
لیکن کیا واقعی صحت سہولت کارڈ کا استعمال، سرکاری دعوؤں کے مطابق، آسان بھی ہے اور اس سے تمام میڈیکل اخراجات ادا کیے جا رہے ہیں ؟ اس کا جائزہ ہم بعد میں لیں گے لیکن پہلے صحت سہولت کارڈ کے حوالے سے چند خوش کن خبریں:
7فروری2022 کو قومی میڈیا پر یہ خوش کن سامنے آئی کہ پہلی بار قومی صحت کارڈ کی بنیاد پر ایک بیمار مستحق شہری کی جگر کی مہنگی پیوند کاری مفت کی گئی ہے۔ اس خبر کی تصدیق کے پی کے وزیر صحت نے بھی کی ہے۔ یہ لیور ٹرانسپلانٹیشن اسلام آباد کے ایک پرائیویٹ اسپتال ( شفا) میں پہلی بار اس لیے بھی ہُوا ہے کہ مبینہ طور پر کے پی کے میں جگر کی پیوند کاری کی جدید سہولیات نہیں ہیں۔ یقینا مریض اور اُن کے لواحقین کے دل سے جناب عمران خان کے لیے دعائیں نکل رہی ہوں گی۔ اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو اس جان لیوا اور مہنگے علاج کے بھاری اور کمر شکن اخراجات اُٹھانے سے قاصر ہیں اور انھیں اب صحت سہولت کارڈ سے مفت کی یہ سہولت مل گئی ہے۔
جناب فرخ حبیب پی ٹی آئی کے نوجوان سیاستدان اور وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات ہیں۔ فیصل آباد سے اُن کا تعلق ہے۔ وہ بھی خان صاحب کے اُن وزرا میں شامل ہیں جنھوں نے صحت سہولت کارڈ کے فائدوں کا جھنڈا مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ جناب فرخ حبیب نے 12 فروری 2022 کو اپنی ایک ٹویٹ میں مسرت سے قوم کو بتایا :''خوشخبری کی بات یہ ہے کہ فیصل آباد میں پہلی ایسی بچی پیدا ہُوئی ہے جس کے تمام اخراجات صحت سہولت کارڈ سے ادا کیے گئے ہیں۔ بچی کے والد صاحب کو مبارک۔'' صحت کارڈ کے حوالے سے یہ خوش کن خبریں ہیں۔
ایسی ہی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب کی وزیر صحت، ڈاکٹر یاسمین راشد، نے اعلان کیا ہے کہ '' محکمہ صحت کے پلیٹ فارم سے ایک نیا ریڈیو بھی لایا جارہا ہے۔ اس ریڈیو سے صحت کارڈ کے بارے میں آگاہی کا دائرہ بھی پھیلایا جائے گا اور اس کے بارے میں سامنے آنے والی شکایات کا ازالہ بھی کیا جائے گا ''۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ صحت سہولت کارڈ بارے سامنے آنے والی شکایات کا ازالہ کیا جارہا ہے نہ اس میں موجود خامیوں کا تدارک کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ صحت سہولت کارڈ دراصل ''شکایت کارڈ'' بنتا جارہا ہے۔
کارڈ بارے بڑھتی شکایات پی ٹی آئی اور عمران خان صاحب کے اس مبینہ'' شاندار صحت سہولت پروگرام'' کارڈ کی افادیت اور خوبصورتی کو کم کررہی ہیں۔ یہ شکایات صحت سہولت کارڈ کے حوالے سے جناب وزیر اعظم کے دعووں کو گزند پہنچانے کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ مثال کے طور پر 12 فروری 2022 کو لاہور کے ایک نجی اسپتال میں ایک واقعہ پیش آیا جس نے صحت سہولت کارڈ کے بارے میں سامنے آنے والی شکایات میں ایک نیا اضافہ کیا ہے۔ ایک غریب آدمی کی بچی کو مذکورہ اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں بیمار بچی کو جان بچانے والے ایک مہنگے انجکشن کی ضرورت تھی۔
طاہر اقبال اپنی غربت کی بِنا پر یہ انجکشن خریدنے سے قاصر تھے۔ انھوں نے اپنے بنے صحت کارڈ کی بنیاد پر اسپتال مذکور کی انتظامیہ اور ڈاکٹروں سے درخواست کی کہ اس میں مبینہ طور پر دس لاکھ روپے میں سے اس انجکشن( جس کی قیمت ساڑھے 33 ہزار روپے بتائی گئی ہے) کی خریداری کر لی جائے۔
اسپتال مذکور نے مگر بیمار بچی کے مجبور والد کو ٹکا سا جواب دیا کہ ''اتنا مہنگا انجکشن اس صحت کارڈ کے پیکیج میں شامل نہیں ہے ۔'' تنگ آ کر اس نے وزیر اعظم کے مشہور پورٹل پر اس واقعے کی شکایت درج کرائی لیکن کوئی سنوائی نہ ہُوئی۔
بیمار اور ضرورت مند بچی کے والد نجی ٹی وی پر اسپتال کے سامنے روتے کُرلاتے اور اپنی سفید ڈاڑھی کو اشکوں سے بھگوتے ہُوئے کہہ رہے تھے :'' وزیر اعظم کے پورٹل پر بھی کسی نے میری فریاد نہ سُنی۔ سوال یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم عمران خان کے مشہور کردہ صحت کارڈ پر مَیں اپنی بیمار بیٹی کے لیے ساڑھے 33 ہزار روپے کا انجکشن بھی خریدنے سے قاصر ہُوں اور اسپتال مجھے یہ سہولت فراہم کرنے سے صاف انکاری ہے تویہ کارڈ میرے کس کام کا ؟''
عمران خان کے جاری کردہ صحت کارڈ کی، سرکاری سطح پر، مشہوری تو بہت کی جارہی ہے لیکن اس صحت کارڈ کی اپنی صحت کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے۔ اس کے استعمال کے بارے میں شکایات روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ یوں خان صاحب سے گلے شکوے بھی بڑھ رہے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی حکومت اور جناب وزیر اعظم نے صحت کارڈ کے بارے میں تیزی سے بڑھتی شکایات کا فوری اور موثر نوٹس نہ لیا تو یہ صحت کارڈ گتّے کا ایک لاحاصل اور بے معنی ٹکڑا بن کررہ جائے گا۔ صحت کارڈ کے حوالے سے ایک غریب کی فریاد 16فروری 2022 کو بھی میڈیا کے توسط سے سامنے آئی ہے۔
خبر کے مطابق :''لاہورمیں صحت کارڈ پر مبینہ طورپربچے کا آپریشن نہ ہونے پر شہری سراپا احتجاج بن گیا، اس کی بھی وڈیو وائرل ہوئی ہے، وڈیو وائرل ہونے کے بعد وزیرِ صحت پنجاب، ڈاکٹر یاسمین راشد، نے نوٹس لیا''۔ یہ حکومت نوٹس تو بہت لیتی ہے لیکن ان نوٹسوں کا فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔
پنجاب کے محکمہ صحت نے اس وائرل وڈیو پر جو موقف پیش کیا ہے، اس میں بہت سے سُقم اور تضادات ہیں۔ خود مجھے بھی صحت کارڈ کے حوالے سے بہت سے دھچکے لگے ہیں جب راقم اپنا علاج کرانے کے لیے راولپنڈی کے ایک نجی اسپتال میں متعلقہ ڈاکٹرز کے پاس حاضر ہُوا۔ اس کی تلخ تفصیل جلد لکھوں گا۔
پٹرول کی قیمت میں حالیہ کمر شکن اضافے کے باوجود پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے صحت سہولت کارڈ کی آ ج کل چاروں اُور بڑی مشہوریاں ہیں ۔ جناب عمران خان اس کارڈ پر بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں ۔
پہلے یہ پروجیکٹ کے پی کے میں متعارف کروایا گیا اور اب پنجاب میں یہ صحت کارڈ تیزی کے ساتھ عوام تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس پر خان صاحب، وزیر اعلیٰ پنجاب اور اُن کی حکومتوں کو مبارکباد۔ دعویٰ ہے کہ اس کارڈ میں پڑے دس لاکھ روپے دراصل ایک بلینک چیک ہے جس کی بِنا پر کوئی بھی صحت سہوت کارڈ ہولڈر کئی نجی یا سرکاری اسپتالوں سے اپنا ایک ملین روپے تک سالانہ علاج کروا سکتا ہے۔ حکومت نے اُن نجی اور سرکاری اسپتالوں کی ایک تفصیل بھی میڈیا کو فراہم کی ہے جہاں یہ صحت کارڈ بروئے کار سکتا ہے۔
لیکن کیا واقعی صحت سہولت کارڈ کا استعمال، سرکاری دعوؤں کے مطابق، آسان بھی ہے اور اس سے تمام میڈیکل اخراجات ادا کیے جا رہے ہیں ؟ اس کا جائزہ ہم بعد میں لیں گے لیکن پہلے صحت سہولت کارڈ کے حوالے سے چند خوش کن خبریں:
7فروری2022 کو قومی میڈیا پر یہ خوش کن سامنے آئی کہ پہلی بار قومی صحت کارڈ کی بنیاد پر ایک بیمار مستحق شہری کی جگر کی مہنگی پیوند کاری مفت کی گئی ہے۔ اس خبر کی تصدیق کے پی کے وزیر صحت نے بھی کی ہے۔ یہ لیور ٹرانسپلانٹیشن اسلام آباد کے ایک پرائیویٹ اسپتال ( شفا) میں پہلی بار اس لیے بھی ہُوا ہے کہ مبینہ طور پر کے پی کے میں جگر کی پیوند کاری کی جدید سہولیات نہیں ہیں۔ یقینا مریض اور اُن کے لواحقین کے دل سے جناب عمران خان کے لیے دعائیں نکل رہی ہوں گی۔ اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو اس جان لیوا اور مہنگے علاج کے بھاری اور کمر شکن اخراجات اُٹھانے سے قاصر ہیں اور انھیں اب صحت سہولت کارڈ سے مفت کی یہ سہولت مل گئی ہے۔
جناب فرخ حبیب پی ٹی آئی کے نوجوان سیاستدان اور وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات ہیں۔ فیصل آباد سے اُن کا تعلق ہے۔ وہ بھی خان صاحب کے اُن وزرا میں شامل ہیں جنھوں نے صحت سہولت کارڈ کے فائدوں کا جھنڈا مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ جناب فرخ حبیب نے 12 فروری 2022 کو اپنی ایک ٹویٹ میں مسرت سے قوم کو بتایا :''خوشخبری کی بات یہ ہے کہ فیصل آباد میں پہلی ایسی بچی پیدا ہُوئی ہے جس کے تمام اخراجات صحت سہولت کارڈ سے ادا کیے گئے ہیں۔ بچی کے والد صاحب کو مبارک۔'' صحت کارڈ کے حوالے سے یہ خوش کن خبریں ہیں۔
ایسی ہی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب کی وزیر صحت، ڈاکٹر یاسمین راشد، نے اعلان کیا ہے کہ '' محکمہ صحت کے پلیٹ فارم سے ایک نیا ریڈیو بھی لایا جارہا ہے۔ اس ریڈیو سے صحت کارڈ کے بارے میں آگاہی کا دائرہ بھی پھیلایا جائے گا اور اس کے بارے میں سامنے آنے والی شکایات کا ازالہ بھی کیا جائے گا ''۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ صحت سہولت کارڈ بارے سامنے آنے والی شکایات کا ازالہ کیا جارہا ہے نہ اس میں موجود خامیوں کا تدارک کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ صحت سہولت کارڈ دراصل ''شکایت کارڈ'' بنتا جارہا ہے۔
کارڈ بارے بڑھتی شکایات پی ٹی آئی اور عمران خان صاحب کے اس مبینہ'' شاندار صحت سہولت پروگرام'' کارڈ کی افادیت اور خوبصورتی کو کم کررہی ہیں۔ یہ شکایات صحت سہولت کارڈ کے حوالے سے جناب وزیر اعظم کے دعووں کو گزند پہنچانے کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ مثال کے طور پر 12 فروری 2022 کو لاہور کے ایک نجی اسپتال میں ایک واقعہ پیش آیا جس نے صحت سہولت کارڈ کے بارے میں سامنے آنے والی شکایات میں ایک نیا اضافہ کیا ہے۔ ایک غریب آدمی کی بچی کو مذکورہ اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں بیمار بچی کو جان بچانے والے ایک مہنگے انجکشن کی ضرورت تھی۔
طاہر اقبال اپنی غربت کی بِنا پر یہ انجکشن خریدنے سے قاصر تھے۔ انھوں نے اپنے بنے صحت کارڈ کی بنیاد پر اسپتال مذکور کی انتظامیہ اور ڈاکٹروں سے درخواست کی کہ اس میں مبینہ طور پر دس لاکھ روپے میں سے اس انجکشن( جس کی قیمت ساڑھے 33 ہزار روپے بتائی گئی ہے) کی خریداری کر لی جائے۔
اسپتال مذکور نے مگر بیمار بچی کے مجبور والد کو ٹکا سا جواب دیا کہ ''اتنا مہنگا انجکشن اس صحت کارڈ کے پیکیج میں شامل نہیں ہے ۔'' تنگ آ کر اس نے وزیر اعظم کے مشہور پورٹل پر اس واقعے کی شکایت درج کرائی لیکن کوئی سنوائی نہ ہُوئی۔
بیمار اور ضرورت مند بچی کے والد نجی ٹی وی پر اسپتال کے سامنے روتے کُرلاتے اور اپنی سفید ڈاڑھی کو اشکوں سے بھگوتے ہُوئے کہہ رہے تھے :'' وزیر اعظم کے پورٹل پر بھی کسی نے میری فریاد نہ سُنی۔ سوال یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم عمران خان کے مشہور کردہ صحت کارڈ پر مَیں اپنی بیمار بیٹی کے لیے ساڑھے 33 ہزار روپے کا انجکشن بھی خریدنے سے قاصر ہُوں اور اسپتال مجھے یہ سہولت فراہم کرنے سے صاف انکاری ہے تویہ کارڈ میرے کس کام کا ؟''
عمران خان کے جاری کردہ صحت کارڈ کی، سرکاری سطح پر، مشہوری تو بہت کی جارہی ہے لیکن اس صحت کارڈ کی اپنی صحت کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے۔ اس کے استعمال کے بارے میں شکایات روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ یوں خان صاحب سے گلے شکوے بھی بڑھ رہے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی حکومت اور جناب وزیر اعظم نے صحت کارڈ کے بارے میں تیزی سے بڑھتی شکایات کا فوری اور موثر نوٹس نہ لیا تو یہ صحت کارڈ گتّے کا ایک لاحاصل اور بے معنی ٹکڑا بن کررہ جائے گا۔ صحت کارڈ کے حوالے سے ایک غریب کی فریاد 16فروری 2022 کو بھی میڈیا کے توسط سے سامنے آئی ہے۔
خبر کے مطابق :''لاہورمیں صحت کارڈ پر مبینہ طورپربچے کا آپریشن نہ ہونے پر شہری سراپا احتجاج بن گیا، اس کی بھی وڈیو وائرل ہوئی ہے، وڈیو وائرل ہونے کے بعد وزیرِ صحت پنجاب، ڈاکٹر یاسمین راشد، نے نوٹس لیا''۔ یہ حکومت نوٹس تو بہت لیتی ہے لیکن ان نوٹسوں کا فائدہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔
پنجاب کے محکمہ صحت نے اس وائرل وڈیو پر جو موقف پیش کیا ہے، اس میں بہت سے سُقم اور تضادات ہیں۔ خود مجھے بھی صحت کارڈ کے حوالے سے بہت سے دھچکے لگے ہیں جب راقم اپنا علاج کرانے کے لیے راولپنڈی کے ایک نجی اسپتال میں متعلقہ ڈاکٹرز کے پاس حاضر ہُوا۔ اس کی تلخ تفصیل جلد لکھوں گا۔