اب نہیں توکبھی نہیں
جب سے ہماری یہ کائنات معرض وجود میں آئی ہے ، ہر آن ہر پل تبدیلی کا عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے
ISLAMABAD:
سکوں محال ہے ، قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
جب سے ہماری یہ کائنات معرض وجود میں آئی ہے ، ہر آن ہر پل تبدیلی کا عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے ۔ اٹھارویں صدی کے صنعتی انقلاب نے دنیا کی کایا ہی پلٹ کر رکھ دی۔ ایسی ایسی ایجادیں ہوئیں کہ جنھوں نے دنیا کو حیران کردیا ۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسان کوکہاں سے کہاں پہنچا دیا۔
وہ جسے کبھی کبھی خواب و خیال سمجھا جاتا تھا ، ترقی کی برق رفتاری کی وجہ سے حقیقت کا روپ دھارکر سامنے آ موجود ہوا۔ بھلا کس نے یہ سوچا ہوگا کہ ایک دن وہ بھی آئے گا کہ جب انسان چاند پر قدم جمائے گا اور اب وہ دن بھی زیادہ دور نہیں جب انسان مریخ پر قدم بڑھائے گا۔ اقبالؒ نے جو کچھ کہا ہے ، حرف بہ حرف ویسا ہی ہورہا ہے۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
ترقی کی اس ہیجان انگیز دوڑ میں جو ذرا بھی رک گیا وہ پھسڈی رہ جائے گا۔ محشر بدایونی نے کیا خوب کہا ہے:
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے عہد حاضرکا نقطہ آغاز انگلستان تھا جو اب ترقی کی دوڑ میں دیگرکئی ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا ہے ، مگر چین نے ترقی کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے وہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں عزم محکم اور انتھک محنت پر یقین رکھتی ہے ، دنیا میں وہی اپنا مقام بناتی ہیں اور جو قومیں تساہل اور غفلت میں مبتلا ہو جاتی ہیں وہ پست ہمتی کا شکار ہو کر دوسروں سے پیچھے رہ جاتی ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ بقول اقبالؒ:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
کامیابی کا اصل راز یہ ہے کہ چیلنج کو موقع اور مسائل کو وسائل میں تبدیل کردیا جائے یعنی: Turning the challenge into opportunity
چین نے جو ہمارے بعد آزاد ہوا تھا یہی کیا۔ آبادی میں بکثرت اضافہ اس کا سب سے بڑا مسئلہ تھا جسے بروئے کار لا کر اس نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ بڑھتی ہوئی آبادی ہمارا بھی سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن بے تحاشہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ہم پسماندگی کا شکار ہیں حالانکہ صوبہ بلوچستان کے لق و دق وسیع و عریض علاقے میں معدنی وسائل کے بے شمار خزانے مدفون ہیں ، اگر ان معدنی ذخائر جس میں تانبے کی بھاری مقدارکے علاوہ سونا بھی شامل ہے ، خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جائے تو نہ صرف بلوچستان سے بلکہ پورے پاکستان سے غربت کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوسکتا ہے۔
سچ پوچھیے تو یہ خزانے قارون کے خزانے سے بھی زیادہ اورکبھی ختم نہ ہونے والے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کہ صرف سوئی گیس اور کوئلے کے علاوہ ان خزانوں کو بروئے کار لانا توکجا چھوا تک نہیں گیا ، جس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے سیاست دانوں اور ارباب اختیار کے آپس کے اختلافات ہیں جو نہ صرف ختم ہونے میں نہیں آ رہے بلکہ گزرنے والے وقت کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے ازلی دشمن ان اختلافات سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہمارے لیے نت نئے مسائل کھڑے کر رہے ہیں، جس کے لیے ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کی سرزمین کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
ہمارے دشمن کی ان سازشوں کے پس پشت وہ عناصر ہیں جو میر جعفر اور میر قاسم کے روپ میں ہماری صفوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم کے چین کے حالیہ تاریخی دورے کے موقع پر بھی اپنے آقاؤں کے اشارے پر ان عناصر نے سر اٹھانے کی کوشش کی تھی جسے ہمارے فوجی جوانوں نے کچل کر رکھ دیا۔
یہ بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ہمارے ازلی دشمن ہرگز نہیں چاہتے کہ بلوچستان کے صوبے میں امن وامان قائم رہے اور اس علاقے کی پسماندگی ختم ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی عناصر بلوچستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر حائل رہے ہیں ، لیکن چین اور پاکستان کے مشترکہ منصوبے سی پیک سے ان عناصر کا قلع قمع ہونا یقینی ہے۔ چین کے اس تاریخی موقع کو ضایع کروانے کے لیے امریکا نے بھی پاکستان پر اپنے مخصوص انداز میں اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی جسے وزیر اعظم عمران خان نے خاطر میں نہ لاکر ناکام بنا دیا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہماری ماضی کی دور اندیش قیادت نے حالات اور معاملات کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اور بھارت کے تجربہ سے سبق حاصل کرتے ہوئے عظیم عوامی جمہوریہ چین کی اس وقت کی چینی قیادت سے مذاکرات کے ذریعے ممکنہ متنازعہ معاملات نہایت خوش اسلوبی سے طے کر لیے ، جس کے نتیجے میں پاک چین مثالی دوستی نے جنم لیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہے۔ اس دوستی کی جڑیں عوام کی دوستی کی شکل میں گہری سے گہری ہوچکی ہے اور حکومت خواہ کوئی بھی ہو اس دوستی پر ان شاء اللہ کوئی آنچ نہیں آنے پائے گی۔
ملک اور قوم کے مفاد اعظم اور حب الوطنی کا تقاضہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں خلفشار اور انتشارکی صورتحال کے پیدا ہونے سے گریز کیا جائے اور افہام و تفہیم کی فضا پیدا کی جائے تاکہ پاکستان اور چین کے درمیان طے پانے والے معاہدے سے بلا تاخیر اور بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سی پیک ایک گیم چینجر ہے جس کی تکمیل سے وطن عزیزکی نہ صرف کایا ہی پلٹ جائے گی ، بلکہ تقدیر بدل جائے گی، چونکہ موجودہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان رسہ کشی کہ کیفیت مسلسل جاری ہے ، اس لیے دونوں فریقوں سے استدعا ہے کہ خدارا ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کی خاطرکسی بھی ایسے اقدام سے گریزکیا جائے جس سے ناسازگاری کی فضا پیدا ہو اور نوبت یہاں تک آن پہنچے کہ سی پیک کا عظیم منصوبہ کھٹائی میں پڑجائے۔ خدانخواستہ اگر یہ موقع ہاتھوں سے نکل گیا تو پھر دوبارہ میسر نہیں آئے گا۔ باالفاظ دیگر Now or Never
اب نہیں تو پھر کبھی نہیں !