نو رتن سے دس رتن تک
مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے محض 14 سال کی عمر میں ہندوستان کی بادشاہت سنبھالی
لاہور:
مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے محض 14 سال کی عمر میں ہندوستان کی بادشاہت سنبھالی جس میں سب سے اہم کردار ان کے اتالیق بیرم خان کا تھا۔ اکبر بادشاہ نے 1556 سے 1605تک تقریباً پچاس سال ہندوستان پر حکومت کی۔ اکبر بادشاہ اعلیٰ دماغ کے مالک، انسان شناس اور علم و ہنر کے قدر دان تھے، یہی وجہ ہے کہ مختلف النوع شخصیات کو ان کے دربار تک رسائی حاصل تھی۔ ان میں سپاہیانہ، ذہانت، فطانت، ظرافت، علم و حکمت اور فنکارانہ صلاحیتوں کے مالک افراد ان کے اہم درباری تھے۔ ان ہی میں اکبر بادشاہ کے وہ مشہور زمانہ '' نو رتن'' بھی شامل تھے جو اپنے اپنے شعبے میں باکمال تھے۔
اردو لغت میں '' نو رتن'' کے معنی نو طرح کے جواہرات ہیں۔ موتی ، ہیرا ، زمرد ، لعل، نیم، پکھراج ، مونگا، لاجورد اور یاقوت۔ جب کہ ''نو رتن'' کے مجازی معنی ہیں نو قابل اور یکتا آدمیوں کی مجلس۔ اکبرکے نو رتن بھی ان کے لیے کسی نیلم، زمرد، پکھراج اور یاقوت سے کم نہ تھے جو ان کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی تھے۔ چند ایک نے اپنا بڑھاپا غموں میں گزارتے ہوئے جان دے دی اورکوئی آخری دم تک اکبر بادشاہ کی خواہش کے مطابق اپنی ذمے داریاں پوری وفاداری سے نبھاتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑا رہا۔
اکبر بادشاہ نے اپنے نو رتنوں کی مشاورت سے اپنی حکومت کو نہ صرف مستحکم کیا بلکہ شورش زدہ علاقوں میں سازشوں کا سدباب کیا اور اپنی سلطنت کو بھی وسعت دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اکبر کے نو رتنوں میں پہلا نمبر راجا بیربل کا تھا جس نے اپنی لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی کی وجہ سے اکبر بادشاہ کا قرب حاصل کیا۔ دوسرے نمبر پر ابو الفیض فیضی کا نام آتا ہے جو بلند خیال شاعر اور شگفتہ مزاج عالم تھے۔ انھوں نے قرآن مجید کی تفسیر لکھی جس میں نقطے والا کوئی حرف شامل نہیں تھا۔
تیسرے نمبر پر ابوالفضل کا نام آتا ہے جو اپنے بڑے بھائی فیضی کے ہمراہ دربار اکبری کا حصہ بنے۔ یہ اپنے وقت کے علامہ اور بلند پایہ مصنف اور کمال کے واقعہ نویس تھے۔ اکبرنامہ ، آئین اکبری اور خطوط کا مجموعہ مکتوب علامی، ابوالفضل کی وہ تحریریں ہیں جنھیں فارسی ادب کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اکبر بادشاہ کے ''دین الٰہی'' کے پس پردہ اصل کردار اور دماغ ابوالفضل ہی کا تھا۔ چوتھے نو رتن تھے تان سین۔ برصغیر کی کلاسیکی موسیقی ان ہی کے راگوں پر زندہ ہے۔ انھیں ہندوستان کے موسیقار اعظم کی حیثیت حاصل ہے۔ پانچواں نمبر عبدالرحیم کا ہے جو بیرم خان کے فرزند تھے۔
موصوف بہادر سپاہی، عالم فاضل اور عربی، فارسی، ترکی، سنسکرت کے ماہر اور اعلیٰ شعری ذوق رکھتے تھے۔ چھٹا نمبر راجہ مان سنگھ کا ہے۔ ان کی وفاداری اور ملن ساری اکبر بادشاہ کے دل پر نقش ہوگئی تھی۔ یہ بہادری اور جواں مردی میں اپنی مثال آپ تھے۔ شاہی فوج کے سپہ سالار بھی بنے اور اکبری سلطنت کو وسعت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ملا دوپیازہ بھی اکبر کے نو رتنوں میں شامل ہیں ان کا اصل نام ابوالحسن تھا۔ انھوں نے اپنی خوش خلقی اور لطیفہ گوئی سے شہرت پائی۔
ایک دعوت میں کھانا بہت پسند آیا تو کھانے کا نام پوچھا جواب ملا ''دو پیازہ پلاؤ''۔ بس اسی نسبت سے '' ملا دو پیازہ '' کے نام سے مشہور ہوگئے۔ آٹھواں نمبر راجہ ٹوڈرمل کا ہے۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ ہر معاملے کی تہہ تک پہنچ کر اسے حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اسی نسبت سے معاملہ فہم، قابل اور دانش مند درباری کہلائے۔ آخری اور نواں نمبر اکبر کے رضاعی مرزا عزیز کوکلتاش کا ہے۔ ان کی والدہ نے اکبر کو بھی دودھ پلایا تھا۔ انھیں دربار اکبری سے خان اعظم کا خطاب بھی حاصل ہوا۔ یہ علمی و عملی صلاحیتوں میں عالمانہ مقام پر براجمان تھے۔ اکبر بادشاہ ہر وقت انھیں اپنے ساتھ رکھتے۔
اکبر بادشاہ کے تو ''نو رتن'' تھے جنھیں دربار میں خاص مقام حاصل تھا، جب کہ ہماری حکومت نے دس رتنوں کا اعلان کرتے ہوئے انھیں باقاعدہ تعریفی اسناد دے کر وطن عزیز کی سیاست میں ایک نئی طرح ڈال دی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت میں اس نئی روایت کی بنیاد پڑنے سے ملک کے سیاسی، صحافتی، عوامی اور دانشور حلقوں میں نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔
دس رتنوں میں پہلا نمبر حاصل کرنے والے کے پاس مواصلات کا شعبہ ہے۔ موجودہ حکومت کو یقین واثق ہے انھوں نے پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھا دیا ہے۔ دوسرے نمبر پر آنے والے کو ابتداً معیشت کا قلم دان سونپا گیا پھر مطلوبہ کارکردگی نہ ملنے پر معاشی قلم دان چھین لیا گیا۔ بعد ازاں پلاننگ کا شعبہ دے دیا گیا۔ وہ قومی پلاننگ کے شعبے میں حیران کن طور پر دوسرے نمبر پر آگئے۔ ملک میں غربت اور فاقہ مستی کا یہ عالم ہے کہ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں لیکن تخفیف غربت شعبے کیکارکردگی تیسرے نمبر پر ہے۔ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی و کامیابی کا پہلا زینہ ہے۔
ہمارا نظام تعلیم آج بھی لارڈ میکالے کے تعلیمی سحر سے باہر نہیں آسکا۔ ملک میں یکساں تعلیم نظام کا دعویٰ کرنے والے حکمران 4 سال گزرنے کے بعد بھی تعلیمی سمت کا تعین نہ کرسکے لیکن اس شعبے کی کارکردگی چوتھے نمبر پر ہے۔ ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کا یہ منظر چرخ کہن نے بھی دیکھا کہ کس طرح محب وطن لوگوں نے ایک غیر ملکی کو بیچ سڑک پر نذر آتش کردیا۔ لیکن انسانی حقوق کی وزارت کے ماتھے پر پانچواں نمبر جگمگا رہا ہے۔
اسٹیل ملز جیسا بڑا ادارہ جو ''مدر انڈسٹری'' کہلاتا ہے بند پڑا ہے لیکن انچارج وزیر برائے صنعت و پیداوار چھٹے نمبر پر براجمان ہیں۔ قومی سلامتی جو حساس ترین موضوع ہے اور اپوزیشن اس پر سوالات اٹھاتی رہتی ہے اور حکومت طفل تسلیاں دے کر مطمئن اور اس کے متعلقہ وزیر متمکن ہیں ساتویں نمبر پر۔ تجارتی شعبے میں برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن سے معاشی پریشانیاں بڑھ رہی ہیں لیکن اس کے وزیر آٹھویں نمبر پر مطمئن ہیں۔ ملک کی داخلی صورت حال پر کئی سوالات، بم دھماکوں اور خودکش حملوں پھر ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں لیکن متعلقہ وزیر نویں نمبر پر شاداں ہیں۔
وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے بھی اپنی ''کارکردگی'' سے دسواں نمبر حاصل کرلیا۔ اکبر بادشاہ کے نو رتنوں نے تو اپنی ذہانت و فطانت سے خود بھی شہرت حاصل کی اکبری سلطنت کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا لیکن موجودہ حکومت کے دس رتنوں نے حکومت کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ اسے دوسری مرتبہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے۔ بس ''اوپر'' سے ''اشارے'' کا انتظار ہے۔
مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے محض 14 سال کی عمر میں ہندوستان کی بادشاہت سنبھالی جس میں سب سے اہم کردار ان کے اتالیق بیرم خان کا تھا۔ اکبر بادشاہ نے 1556 سے 1605تک تقریباً پچاس سال ہندوستان پر حکومت کی۔ اکبر بادشاہ اعلیٰ دماغ کے مالک، انسان شناس اور علم و ہنر کے قدر دان تھے، یہی وجہ ہے کہ مختلف النوع شخصیات کو ان کے دربار تک رسائی حاصل تھی۔ ان میں سپاہیانہ، ذہانت، فطانت، ظرافت، علم و حکمت اور فنکارانہ صلاحیتوں کے مالک افراد ان کے اہم درباری تھے۔ ان ہی میں اکبر بادشاہ کے وہ مشہور زمانہ '' نو رتن'' بھی شامل تھے جو اپنے اپنے شعبے میں باکمال تھے۔
اردو لغت میں '' نو رتن'' کے معنی نو طرح کے جواہرات ہیں۔ موتی ، ہیرا ، زمرد ، لعل، نیم، پکھراج ، مونگا، لاجورد اور یاقوت۔ جب کہ ''نو رتن'' کے مجازی معنی ہیں نو قابل اور یکتا آدمیوں کی مجلس۔ اکبرکے نو رتن بھی ان کے لیے کسی نیلم، زمرد، پکھراج اور یاقوت سے کم نہ تھے جو ان کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی تھے۔ چند ایک نے اپنا بڑھاپا غموں میں گزارتے ہوئے جان دے دی اورکوئی آخری دم تک اکبر بادشاہ کی خواہش کے مطابق اپنی ذمے داریاں پوری وفاداری سے نبھاتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑا رہا۔
اکبر بادشاہ نے اپنے نو رتنوں کی مشاورت سے اپنی حکومت کو نہ صرف مستحکم کیا بلکہ شورش زدہ علاقوں میں سازشوں کا سدباب کیا اور اپنی سلطنت کو بھی وسعت دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اکبر کے نو رتنوں میں پہلا نمبر راجا بیربل کا تھا جس نے اپنی لطیفہ گوئی اور حاضر جوابی کی وجہ سے اکبر بادشاہ کا قرب حاصل کیا۔ دوسرے نمبر پر ابو الفیض فیضی کا نام آتا ہے جو بلند خیال شاعر اور شگفتہ مزاج عالم تھے۔ انھوں نے قرآن مجید کی تفسیر لکھی جس میں نقطے والا کوئی حرف شامل نہیں تھا۔
تیسرے نمبر پر ابوالفضل کا نام آتا ہے جو اپنے بڑے بھائی فیضی کے ہمراہ دربار اکبری کا حصہ بنے۔ یہ اپنے وقت کے علامہ اور بلند پایہ مصنف اور کمال کے واقعہ نویس تھے۔ اکبرنامہ ، آئین اکبری اور خطوط کا مجموعہ مکتوب علامی، ابوالفضل کی وہ تحریریں ہیں جنھیں فارسی ادب کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اکبر بادشاہ کے ''دین الٰہی'' کے پس پردہ اصل کردار اور دماغ ابوالفضل ہی کا تھا۔ چوتھے نو رتن تھے تان سین۔ برصغیر کی کلاسیکی موسیقی ان ہی کے راگوں پر زندہ ہے۔ انھیں ہندوستان کے موسیقار اعظم کی حیثیت حاصل ہے۔ پانچواں نمبر عبدالرحیم کا ہے جو بیرم خان کے فرزند تھے۔
موصوف بہادر سپاہی، عالم فاضل اور عربی، فارسی، ترکی، سنسکرت کے ماہر اور اعلیٰ شعری ذوق رکھتے تھے۔ چھٹا نمبر راجہ مان سنگھ کا ہے۔ ان کی وفاداری اور ملن ساری اکبر بادشاہ کے دل پر نقش ہوگئی تھی۔ یہ بہادری اور جواں مردی میں اپنی مثال آپ تھے۔ شاہی فوج کے سپہ سالار بھی بنے اور اکبری سلطنت کو وسعت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ملا دوپیازہ بھی اکبر کے نو رتنوں میں شامل ہیں ان کا اصل نام ابوالحسن تھا۔ انھوں نے اپنی خوش خلقی اور لطیفہ گوئی سے شہرت پائی۔
ایک دعوت میں کھانا بہت پسند آیا تو کھانے کا نام پوچھا جواب ملا ''دو پیازہ پلاؤ''۔ بس اسی نسبت سے '' ملا دو پیازہ '' کے نام سے مشہور ہوگئے۔ آٹھواں نمبر راجہ ٹوڈرمل کا ہے۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ ہر معاملے کی تہہ تک پہنچ کر اسے حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اسی نسبت سے معاملہ فہم، قابل اور دانش مند درباری کہلائے۔ آخری اور نواں نمبر اکبر کے رضاعی مرزا عزیز کوکلتاش کا ہے۔ ان کی والدہ نے اکبر کو بھی دودھ پلایا تھا۔ انھیں دربار اکبری سے خان اعظم کا خطاب بھی حاصل ہوا۔ یہ علمی و عملی صلاحیتوں میں عالمانہ مقام پر براجمان تھے۔ اکبر بادشاہ ہر وقت انھیں اپنے ساتھ رکھتے۔
اکبر بادشاہ کے تو ''نو رتن'' تھے جنھیں دربار میں خاص مقام حاصل تھا، جب کہ ہماری حکومت نے دس رتنوں کا اعلان کرتے ہوئے انھیں باقاعدہ تعریفی اسناد دے کر وطن عزیز کی سیاست میں ایک نئی طرح ڈال دی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت میں اس نئی روایت کی بنیاد پڑنے سے ملک کے سیاسی، صحافتی، عوامی اور دانشور حلقوں میں نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔
دس رتنوں میں پہلا نمبر حاصل کرنے والے کے پاس مواصلات کا شعبہ ہے۔ موجودہ حکومت کو یقین واثق ہے انھوں نے پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھا دیا ہے۔ دوسرے نمبر پر آنے والے کو ابتداً معیشت کا قلم دان سونپا گیا پھر مطلوبہ کارکردگی نہ ملنے پر معاشی قلم دان چھین لیا گیا۔ بعد ازاں پلاننگ کا شعبہ دے دیا گیا۔ وہ قومی پلاننگ کے شعبے میں حیران کن طور پر دوسرے نمبر پر آگئے۔ ملک میں غربت اور فاقہ مستی کا یہ عالم ہے کہ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں لیکن تخفیف غربت شعبے کیکارکردگی تیسرے نمبر پر ہے۔ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی و کامیابی کا پہلا زینہ ہے۔
ہمارا نظام تعلیم آج بھی لارڈ میکالے کے تعلیمی سحر سے باہر نہیں آسکا۔ ملک میں یکساں تعلیم نظام کا دعویٰ کرنے والے حکمران 4 سال گزرنے کے بعد بھی تعلیمی سمت کا تعین نہ کرسکے لیکن اس شعبے کی کارکردگی چوتھے نمبر پر ہے۔ ملک میں انسانی حقوق کی پامالی کا یہ منظر چرخ کہن نے بھی دیکھا کہ کس طرح محب وطن لوگوں نے ایک غیر ملکی کو بیچ سڑک پر نذر آتش کردیا۔ لیکن انسانی حقوق کی وزارت کے ماتھے پر پانچواں نمبر جگمگا رہا ہے۔
اسٹیل ملز جیسا بڑا ادارہ جو ''مدر انڈسٹری'' کہلاتا ہے بند پڑا ہے لیکن انچارج وزیر برائے صنعت و پیداوار چھٹے نمبر پر براجمان ہیں۔ قومی سلامتی جو حساس ترین موضوع ہے اور اپوزیشن اس پر سوالات اٹھاتی رہتی ہے اور حکومت طفل تسلیاں دے کر مطمئن اور اس کے متعلقہ وزیر متمکن ہیں ساتویں نمبر پر۔ تجارتی شعبے میں برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن سے معاشی پریشانیاں بڑھ رہی ہیں لیکن اس کے وزیر آٹھویں نمبر پر مطمئن ہیں۔ ملک کی داخلی صورت حال پر کئی سوالات، بم دھماکوں اور خودکش حملوں پھر ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں لیکن متعلقہ وزیر نویں نمبر پر شاداں ہیں۔
وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے بھی اپنی ''کارکردگی'' سے دسواں نمبر حاصل کرلیا۔ اکبر بادشاہ کے نو رتنوں نے تو اپنی ذہانت و فطانت سے خود بھی شہرت حاصل کی اکبری سلطنت کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا لیکن موجودہ حکومت کے دس رتنوں نے حکومت کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ اسے دوسری مرتبہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے۔ بس ''اوپر'' سے ''اشارے'' کا انتظار ہے۔