طلبا یونین کی بحالی کا بل
حال ہی میں سندھ اسمبلی نے طلبا یونین بحالی کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا
حال ہی میں سندھ اسمبلی نے طلبا یونین بحالی کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ ایک تاریخی اقدام ہے۔ سندھ بحالی کا اقدام کرنے والا پہلا صوبہ ہے انھوں نے امید ظاہر کی کہ طلبا یونین بحالی سے مثبت ماحول پروان چڑھے گا۔ یونینز نفرت و اشتعال انگیز سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گی۔
اساتذہ کی تکریم اور اعلیٰ سماجی و تعلیمی معیارکو یقینی بنانا طلبا یونینز کی ذمے داری ہوگی۔ اس موقع پر ایوان کو بتایا گیا کہ جامعات دو ماہ میں طلبا یونین بحالی کے لیے ضروری قواعد ومرتب کریں گی۔ ہر سال انتخابات ہوں گے سات سے گیارہ طلبا یونین کا انتخاب کیا جائے گا۔ طلبا یونین کا ایک نمایندہ درسگاہ کی انسداد ہراسگی کمیٹی میں شامل ہوگا، تعلیمی اداروں میں خلاف قانون سرگرمیوں، نفرت و اشتعال انگیز اقدامات اور اسلحہ لانے پر پابندی ہوگی، تعلیمی و انتظامی امور میں رخنہ ڈالنا جرم ہوگا۔
اساتذہ کی تکریم سماجی و جمہوری اقدار کا فروغ صحت مند ، بامعنی اور بامقصد مکالمے کا فروغ طلبا یونین نمایندوں کی بنیادی ذمے داری ہوگی کلاسز کا بائیکاٹ، ہڑتال اور تعلیمی ادارے کے قواعد کی خلاف ورزی پر کارروائی ہوگی۔تعلیمی اداروں میں تشدد اور بدامنی کو جواز بنا کر 1984 میں مارشل لا ضابطہ کے تحت پابندی عائد کی گئی تھی جس کے تحت تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو کسی بھی طالبعلم کے اخراج، داخلہ روکنے یا محدود کرنے کے اختیارات دے دیے گئے تھے۔ خلاف ورزی پر پانچ سال تک قید و جرمانے کی سزا سنانے کا اختیار بھی تعلیمی اداروں میں تشدد کے عنصر کو جواز بنا کر دیا گیا تھا۔
1988 میں بے نظیر حکومت نے طلبا یونینز پر پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا اس کے بعد سندھ اسمبلی نے پابندی کے خاتمے کا بل پاس کیا تھا لیکن کوئی عملی اقدامات نہ اٹھائے جاسکے۔ 1990 میں صرف پنجاب میں طلبا یونینز کے انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ یوسف رضاگیلانی کے برسر اقتدار آنے کے بعد پابندی ہٹانے کا عندیہ دیا گیا تھا۔
سینیٹ کے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی نے بحالی کی قرارداد لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں تمام جامعات کے وائس چانسلرز کو مدعو کیا گیا تھا جنھوں نے مشترکہ طور پر رائے دی تھی کہ یونینز پر سے پابندی نہ ہٹائی جائے ان کے پاس کوئی ایسی فورس نہیں ہے جس سے طلبا کو کنٹرول کیا جاسکے۔
بلاشبہ صحت مندانہ طلبا یونینز سرگرمیوں سے طلبا کی ذہنی جلا، فکری، شعوری اور سیاسی و سماجی تربیت سرانجام پاتی ہے۔ نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں اور مکالمہ کے کلچر سے طلبا میں انتقامی، انقلابی سوچ بیدار ہوتی ہے وہ ملکی معاملات سے باخبر ہوتے ہیں ان میں ملک و قوم کی فلاح و بہبود کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور وہ اس میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کی وجہ سے ان کی پوشیدہ صلاحیتیں عیاں ہوتی ہیں وہ سیاست کے حقیقی رموز سے آشنا ہوتے ہیں۔
یونین کا مقصد تعلیمی ادارے کی پالیسی کیمطابق طلبا کے مفادات و حقوق کا تحفظ کرنا انھیں سیاسی فہم و آگہی سے روشناس کرانا، اجتماعی فیصلہ سازی اور رائے دہی میں طلبا کی تربیت کرکے سیاسی طور پر ایک باشعور شہری بننے میں ان کا مددگار ثابت ہونا ہوتا ہے۔ جب تک یہ عمل جاری تھا طلبا ملک و قوم کی فلاح و بہبود میں موثر کردار ادا کر رہے تھے تعلیمی اداروں سے اچھے شہری اور نامور سیاستدان پیدا ہو رہے تھے جو ملک کے معاملات کو پورے فہم و فراست کے ساتھ نبھاتے تھے۔
ان میں متوسط طبقے کے طلبا ہوتے تھے جو وڈیروں اور سرمایہ داروں کی سوچ اور شکنجے سے آزاد ہوتے تھے۔ جنھوں نے آمروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے خلاف جدوجہد کی ایک تاریخ رقم کی جن میں ہمیں جاوید ہاشمی، معراج محمد خان، منور حسن، لیاقت بلوچ، شفیع نقی جامعی اور حسین حقانی جیسے لاتعداد نام نظر آتے ہیں۔ صحت مندانہ طلبا یونین سرگرمیوں کے خاتمے سے ملک میں باصلاحیت و مخلص قیادت کا فقدان پیدا ہو گیا۔
معاشرہ ذہنی و فکری انحطاط کا شکار اور اہل لیڈر شپ سے محروم ہوا تو سیاسی نظام کو نقصان پہنچا اس پر جاگیرداروں، سرمایہ کاروں اور آمروں کی گرفت و غلبہ ہو گیا اور مکالمے کی جگہ تشدد، دھونس، دھاندلی اور بلیک میلنگ نے لے لی۔حکمرانوں، سیاستدانوں و ایوانوں کے کردار اور حالت زار دیکھ کر عوام الناس ان سے بدظن و مایوس بلکہ لاتعلق ہو چکے ہیں ملکی امور سے لاتعلقی ملک و قوم کے مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ حکومت سندھ نے طلبا یونین بحالی کا جو بل منظور کرایا ہے وہ یقینا ایک تاریخی اقدام ہے۔
سندھ پہلا صوبہ ہے جس نے اتنا بڑا ہائی رسک اقدام کیا ہے۔ اس بل کی منظوری کے ساتھ اس کے کاندھوں پر ایک بڑی ذمے داری آن پڑی ہے کہ وہ طلبا یونینز کی بحالی کے ساتھ ساتھ اس قسم کے فوری و عملی اقدامات اٹھائے کہ تعلیمی اداروں میں بدنظمی و بدانتظامی اور قانون شکنی اور تعلیمی تعطل کی فضا پیدا نہ ہو۔
اس بل کی منظوری کے موقع پر وزیر اعلیٰ سندھ نے جہاں اس امید کا اظہار کیا کہ طلبا یونینز بحالی سے تعلیمی اداروں میں مثبت ماحول پروان چڑھے گا وہیں انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یونینز نفرت و اشتعال انگیز سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گی، اساتذہ کی تکریم، سماجی و جمہوری اقدار کا فروغ، صحت مند بامعنی اور بامقصد مکالمے کا فروغ طلبا یونین نمایندوں کی بنیادی ذمے داری ہوگی، کلاسوں کا بائیکاٹ تعلیمی ادارے میں ہڑتال اور اس کے قواعد کی خلاف ورزی پر کارروائی ہوگی۔ وزیر اعلیٰ کے ان خیالات میں ان کے تحفظات کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔جب 1984طلبا یونینز پر پابندی عائد کی گئی تھی اس وقت تعلیمی اداروں کے نظم و نسق کا برا حال تھا مکالمہ کلچر کی جگہ تشدد کلچر جڑیں پکڑ رہا تھا۔ سیاسی جماعتیں اپنے ونگ بنا کر اسلحہ فراہم کرتی تھیں تاکہ وہ ان کے اہداف پورا کرنے میں معاونت فراہم کریں۔
تعلیمی ادارے سیاسی اکھاڑے نظر آتے تھے اور درس گاہیں اور ہاسٹل مقتل گاہوں اور ٹارچر سینٹروں کا منظر پیش کرتے تھے محض سیاسی و نظریاتی اختلاف پر زندگیوں کے چراغ گل کردیے جاتے تھے۔ اسلحہ کا بے دریغ استعمال کا یہ عالم تھا کہ مرنیوالوں کے بھیجے اور دیگر اعضا در و دیوار اور چھتوں سے چپکے ملتے تھے یہاں تک کہ وائس چانسلر کی سطح تک کے اساتذہ کو قتل کیا گیا۔ ہاسٹل غیر متعلقہ و جرائم پیشہ عناصر کی پناگاہیں تھیں جہاں ڈاکوؤں و قاتلوں سے لیکچر اسلحہ و منشیات سب کچھ موجود ہوتا تھا اور یہ عناصر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دسترس سے بھی محفوظ رہتے تھے قانون نافذ کرنیوالے اداروں پر غفلت برتنے اور جانبداری کے الزامات بھی لگتے تھے۔
یونین بحالی کے خلاف طلبا کا کہنا ہے کہ یونین سرگرمیوں کی طرف مائل ہونے سے طلبا کا دھیان تعلیم سے ہٹ جاتا ہے جو منتخب ہو جاتے ہیں اساتذہ کے ساتھ بدسلوکی سے لے کر فساد برپا کرنے تک تمام غلط کام کرتے ہیں جب کہ اساتذہ کا موقف ہے کہ گھر کی طرف سے تربیت و نگہداشت کا پہلو انتہائی کمزور ہو چکا ہے جہاں سے بنیادی کردار سازی ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے سماج کا یہ پہلو بھی انتہائی کمزور ہو چکا ہے۔آج کے عدم برداشت و عدم رواداری کے معاشرے میں جہاں جرائم و قانون شکنی اور کرپشن اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے تعلیمی اداروں تک میں ہراسگی اور طالبات کی خودکشیوں کے واقعات تواتر کے ساتھ پیش آ رہے ہوں۔
کمیونیکیشن کے تمام ذرایعاور جرائم کے نت نئے طریقے ہر خاص و عام کے علم اور پہنچ میں ہوں ایسے میں حکومت سندھ کی اولین ذمے داری یہ بنتی ہے کہ وہ طلبا یونینز کی بحالی سے قبل اس بات کو یقینی بنائے کہ تعلیمی اداروں کا تعلیمی ماحول متاثر نہ ہو وہاں سیاسی، فرقہ ورانہ و لسانی گروہوں اور بیرونی عناصر کا عمل دخل اور در اندازی ممکن نہ ہو۔ طلبا اور اساتذہ اور املاک کے تحفظ کے لیے قانون نافذ کرنیوالے ادارے مستعد و متحرک اور غیر جانبدار ہوں، اس مقصد کے لیے خصوصی فورس کے قیام کا جائزہ بھی لینا چاہیے جس کی طرف جامعات کے وائس چانسلر کے اجلاس میں تذکرہ کیا گیا تھا۔ ورنہ حکومت کا یہ انقلابی اقدام دنگا فساد اور خون خرابہ اور ناکامی کا سبب بن سکتا ہے۔
اساتذہ کی تکریم اور اعلیٰ سماجی و تعلیمی معیارکو یقینی بنانا طلبا یونینز کی ذمے داری ہوگی۔ اس موقع پر ایوان کو بتایا گیا کہ جامعات دو ماہ میں طلبا یونین بحالی کے لیے ضروری قواعد ومرتب کریں گی۔ ہر سال انتخابات ہوں گے سات سے گیارہ طلبا یونین کا انتخاب کیا جائے گا۔ طلبا یونین کا ایک نمایندہ درسگاہ کی انسداد ہراسگی کمیٹی میں شامل ہوگا، تعلیمی اداروں میں خلاف قانون سرگرمیوں، نفرت و اشتعال انگیز اقدامات اور اسلحہ لانے پر پابندی ہوگی، تعلیمی و انتظامی امور میں رخنہ ڈالنا جرم ہوگا۔
اساتذہ کی تکریم سماجی و جمہوری اقدار کا فروغ صحت مند ، بامعنی اور بامقصد مکالمے کا فروغ طلبا یونین نمایندوں کی بنیادی ذمے داری ہوگی کلاسز کا بائیکاٹ، ہڑتال اور تعلیمی ادارے کے قواعد کی خلاف ورزی پر کارروائی ہوگی۔تعلیمی اداروں میں تشدد اور بدامنی کو جواز بنا کر 1984 میں مارشل لا ضابطہ کے تحت پابندی عائد کی گئی تھی جس کے تحت تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو کسی بھی طالبعلم کے اخراج، داخلہ روکنے یا محدود کرنے کے اختیارات دے دیے گئے تھے۔ خلاف ورزی پر پانچ سال تک قید و جرمانے کی سزا سنانے کا اختیار بھی تعلیمی اداروں میں تشدد کے عنصر کو جواز بنا کر دیا گیا تھا۔
1988 میں بے نظیر حکومت نے طلبا یونینز پر پابندی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا اس کے بعد سندھ اسمبلی نے پابندی کے خاتمے کا بل پاس کیا تھا لیکن کوئی عملی اقدامات نہ اٹھائے جاسکے۔ 1990 میں صرف پنجاب میں طلبا یونینز کے انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ یوسف رضاگیلانی کے برسر اقتدار آنے کے بعد پابندی ہٹانے کا عندیہ دیا گیا تھا۔
سینیٹ کے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی نے بحالی کی قرارداد لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں تمام جامعات کے وائس چانسلرز کو مدعو کیا گیا تھا جنھوں نے مشترکہ طور پر رائے دی تھی کہ یونینز پر سے پابندی نہ ہٹائی جائے ان کے پاس کوئی ایسی فورس نہیں ہے جس سے طلبا کو کنٹرول کیا جاسکے۔
بلاشبہ صحت مندانہ طلبا یونینز سرگرمیوں سے طلبا کی ذہنی جلا، فکری، شعوری اور سیاسی و سماجی تربیت سرانجام پاتی ہے۔ نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں اور مکالمہ کے کلچر سے طلبا میں انتقامی، انقلابی سوچ بیدار ہوتی ہے وہ ملکی معاملات سے باخبر ہوتے ہیں ان میں ملک و قوم کی فلاح و بہبود کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور وہ اس میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کی وجہ سے ان کی پوشیدہ صلاحیتیں عیاں ہوتی ہیں وہ سیاست کے حقیقی رموز سے آشنا ہوتے ہیں۔
یونین کا مقصد تعلیمی ادارے کی پالیسی کیمطابق طلبا کے مفادات و حقوق کا تحفظ کرنا انھیں سیاسی فہم و آگہی سے روشناس کرانا، اجتماعی فیصلہ سازی اور رائے دہی میں طلبا کی تربیت کرکے سیاسی طور پر ایک باشعور شہری بننے میں ان کا مددگار ثابت ہونا ہوتا ہے۔ جب تک یہ عمل جاری تھا طلبا ملک و قوم کی فلاح و بہبود میں موثر کردار ادا کر رہے تھے تعلیمی اداروں سے اچھے شہری اور نامور سیاستدان پیدا ہو رہے تھے جو ملک کے معاملات کو پورے فہم و فراست کے ساتھ نبھاتے تھے۔
ان میں متوسط طبقے کے طلبا ہوتے تھے جو وڈیروں اور سرمایہ داروں کی سوچ اور شکنجے سے آزاد ہوتے تھے۔ جنھوں نے آمروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے خلاف جدوجہد کی ایک تاریخ رقم کی جن میں ہمیں جاوید ہاشمی، معراج محمد خان، منور حسن، لیاقت بلوچ، شفیع نقی جامعی اور حسین حقانی جیسے لاتعداد نام نظر آتے ہیں۔ صحت مندانہ طلبا یونین سرگرمیوں کے خاتمے سے ملک میں باصلاحیت و مخلص قیادت کا فقدان پیدا ہو گیا۔
معاشرہ ذہنی و فکری انحطاط کا شکار اور اہل لیڈر شپ سے محروم ہوا تو سیاسی نظام کو نقصان پہنچا اس پر جاگیرداروں، سرمایہ کاروں اور آمروں کی گرفت و غلبہ ہو گیا اور مکالمے کی جگہ تشدد، دھونس، دھاندلی اور بلیک میلنگ نے لے لی۔حکمرانوں، سیاستدانوں و ایوانوں کے کردار اور حالت زار دیکھ کر عوام الناس ان سے بدظن و مایوس بلکہ لاتعلق ہو چکے ہیں ملکی امور سے لاتعلقی ملک و قوم کے مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ حکومت سندھ نے طلبا یونین بحالی کا جو بل منظور کرایا ہے وہ یقینا ایک تاریخی اقدام ہے۔
سندھ پہلا صوبہ ہے جس نے اتنا بڑا ہائی رسک اقدام کیا ہے۔ اس بل کی منظوری کے ساتھ اس کے کاندھوں پر ایک بڑی ذمے داری آن پڑی ہے کہ وہ طلبا یونینز کی بحالی کے ساتھ ساتھ اس قسم کے فوری و عملی اقدامات اٹھائے کہ تعلیمی اداروں میں بدنظمی و بدانتظامی اور قانون شکنی اور تعلیمی تعطل کی فضا پیدا نہ ہو۔
اس بل کی منظوری کے موقع پر وزیر اعلیٰ سندھ نے جہاں اس امید کا اظہار کیا کہ طلبا یونینز بحالی سے تعلیمی اداروں میں مثبت ماحول پروان چڑھے گا وہیں انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یونینز نفرت و اشتعال انگیز سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گی، اساتذہ کی تکریم، سماجی و جمہوری اقدار کا فروغ، صحت مند بامعنی اور بامقصد مکالمے کا فروغ طلبا یونین نمایندوں کی بنیادی ذمے داری ہوگی، کلاسوں کا بائیکاٹ تعلیمی ادارے میں ہڑتال اور اس کے قواعد کی خلاف ورزی پر کارروائی ہوگی۔ وزیر اعلیٰ کے ان خیالات میں ان کے تحفظات کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔جب 1984طلبا یونینز پر پابندی عائد کی گئی تھی اس وقت تعلیمی اداروں کے نظم و نسق کا برا حال تھا مکالمہ کلچر کی جگہ تشدد کلچر جڑیں پکڑ رہا تھا۔ سیاسی جماعتیں اپنے ونگ بنا کر اسلحہ فراہم کرتی تھیں تاکہ وہ ان کے اہداف پورا کرنے میں معاونت فراہم کریں۔
تعلیمی ادارے سیاسی اکھاڑے نظر آتے تھے اور درس گاہیں اور ہاسٹل مقتل گاہوں اور ٹارچر سینٹروں کا منظر پیش کرتے تھے محض سیاسی و نظریاتی اختلاف پر زندگیوں کے چراغ گل کردیے جاتے تھے۔ اسلحہ کا بے دریغ استعمال کا یہ عالم تھا کہ مرنیوالوں کے بھیجے اور دیگر اعضا در و دیوار اور چھتوں سے چپکے ملتے تھے یہاں تک کہ وائس چانسلر کی سطح تک کے اساتذہ کو قتل کیا گیا۔ ہاسٹل غیر متعلقہ و جرائم پیشہ عناصر کی پناگاہیں تھیں جہاں ڈاکوؤں و قاتلوں سے لیکچر اسلحہ و منشیات سب کچھ موجود ہوتا تھا اور یہ عناصر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دسترس سے بھی محفوظ رہتے تھے قانون نافذ کرنیوالے اداروں پر غفلت برتنے اور جانبداری کے الزامات بھی لگتے تھے۔
یونین بحالی کے خلاف طلبا کا کہنا ہے کہ یونین سرگرمیوں کی طرف مائل ہونے سے طلبا کا دھیان تعلیم سے ہٹ جاتا ہے جو منتخب ہو جاتے ہیں اساتذہ کے ساتھ بدسلوکی سے لے کر فساد برپا کرنے تک تمام غلط کام کرتے ہیں جب کہ اساتذہ کا موقف ہے کہ گھر کی طرف سے تربیت و نگہداشت کا پہلو انتہائی کمزور ہو چکا ہے جہاں سے بنیادی کردار سازی ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے سماج کا یہ پہلو بھی انتہائی کمزور ہو چکا ہے۔آج کے عدم برداشت و عدم رواداری کے معاشرے میں جہاں جرائم و قانون شکنی اور کرپشن اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے تعلیمی اداروں تک میں ہراسگی اور طالبات کی خودکشیوں کے واقعات تواتر کے ساتھ پیش آ رہے ہوں۔
کمیونیکیشن کے تمام ذرایعاور جرائم کے نت نئے طریقے ہر خاص و عام کے علم اور پہنچ میں ہوں ایسے میں حکومت سندھ کی اولین ذمے داری یہ بنتی ہے کہ وہ طلبا یونینز کی بحالی سے قبل اس بات کو یقینی بنائے کہ تعلیمی اداروں کا تعلیمی ماحول متاثر نہ ہو وہاں سیاسی، فرقہ ورانہ و لسانی گروہوں اور بیرونی عناصر کا عمل دخل اور در اندازی ممکن نہ ہو۔ طلبا اور اساتذہ اور املاک کے تحفظ کے لیے قانون نافذ کرنیوالے ادارے مستعد و متحرک اور غیر جانبدار ہوں، اس مقصد کے لیے خصوصی فورس کے قیام کا جائزہ بھی لینا چاہیے جس کی طرف جامعات کے وائس چانسلر کے اجلاس میں تذکرہ کیا گیا تھا۔ ورنہ حکومت کا یہ انقلابی اقدام دنگا فساد اور خون خرابہ اور ناکامی کا سبب بن سکتا ہے۔