حجاب سے انھیں مسئلہ کیا ہے

بھارت میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی بھی اسی اسلام فوبیا کی ایک کڑی ہے

فوٹوفائل

ISLAMABAD:
بھارت کی ریاست کرناٹک کے ایک کالج میں انتہا پسند ہندو ہجوم کی طرف سے ہراساں کی جانے والی مسلمان لڑکی کے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیے جانے کے بعد دنیا بھر کے میڈیا پر حجاب موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ بھارت کی ریاست کرناٹک میں مسلم طالبات پر تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی عاید کی گئی۔

اس کے بعد بھارت کے کئی دیگر علاقوں میں بھی باحجاب مسلم طالبات پر حصول تعلیم کے دروازے بند کردیے گئے۔ انھیں ہراساں کیا گیا اور ان کا حجاب تک نوچا گیا۔ مسلم طالبات کی جانب سے پورے بھارت میں اس پابندی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس دوران سکینڈ ایئرکی طالبہ مسکان خان کو انتہا پسند ہجوم کی جانب سے جے شری رام کے نعرے لگا کر ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی تو اس بہادر لڑکی نے مشتعل ہجوم سے ڈرنے کے بجائے اونچی آواز میں '' اللہ اکبر'' کا نعرہ بلند کردیا۔ دلیری سے ہندو انتہا پسند جتھے کے سامنے ڈٹ جانے والی مسکان خان اور اللہ اکبر کا نعرہ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا اورسوشل میڈیا پر صارفین نے مسکان خان کی ہمت اورجرات کو کھل کر داد دی۔

طالبہ کی بہادری نے دنیا بھرکے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی اور بھارت میں حجاب پر پابندی کا معاملہ عالمی توجہ کا باعث بن گیا۔ بھارت کی کئی سیاسی ، سماجی اور شوبزکی شخصیات نے بہادر طالبہ کی جرات کی تعریف کرتے ہوئے جنونی انتہاپسندوں کے اس طرز عمل کے خلاف آواز اٹھائی۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی سمیت کئی ممالک اور عالمی شخصیات نے بھی بھارت میں حجاب پر پابندی کی کھل کر مذمت کی اور اس طرز عمل کو خواتین دشمنی سے تعبیرکیا۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ بھارت ایک عرصے سے انتہاپسندی کا گڑھ بنا ہوا ہے، لیکن نریندر مودی کے دور میں بھارت میں انتہاپسندی عروج پر ہے۔

بھارت سیکولر ازم کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن وہ اپنے دعوے میں سچا نہیں ہے۔ اس کی انتہا پسندی اس کے دعوے کی نفی کرتی ہے اور مودی سرکار اس انتہا پسندی کی سر پرستی کرتی ہے۔ یہ انتہا پسندی صرف حجاب کے معاملے میں ہی نہیں، بلکہ تمام مذہبی معاملات میں انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ حجاب پہننا مسلم خواتین کی ذاتی پسند اور ان کی مذہبی تعلیمات کا حصہ ہے۔ انھیں اس پر عمل کرنے سے روکنے کا اختیارکسی کو نہیں ہے، لیکن بھارت میں انتہا پسند ہندو زبردستی مسلم لڑکیوں سے حجاب اتروانا چاہتے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی نے سیکولر بھارت کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا ہے۔ پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ بھارت دعویٰ کچھ کرتا ہے اور عمل کچھ کرتا ہے اور یہ بھی دنیا پر واضح ہوگیا ہے کہ بھارت اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کررہا ہے۔ وہاں مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔

حجاب کرنا مسلم خواتین کا بنیادی حق ہے اور حجاب پر پابندی عاید کرنا کھلی انتہا پسندی ہے۔ حجاب پر پابندی عائد کرنا دراصل حجاب فوبیا کی وجہ سے ہے۔ پہلے مغرب حجاب فوبیا کا شکار ہوا تھا اور اب بھارت بھی حجاب فوبیا کا شکار ہوگیا ہے۔ نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا کی شکار مغربی دنیا نے اسلام کی ہر تہذیبی اور ثقافتی علامت کو دہشتگردی اور انتہا پسندی قرار دے کر اس کے خلاف متعصبانہ میڈیا وار شروع کی۔ اسلامی تہذیب کی دیگر علامتوں کی طرح حجاب کوبھی مغربی میڈیا نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ 2003 میں فرانس میں پارلیمنٹ کے ذریعے باقاعدہ قانون سازی کر کے حجاب کے خلاف رائے عامہ ہموار کی گئی۔ فرانس کے بعد ہالینڈ، بیلجیئم ، جرمنی ، روس و دیگر کئی یورپی ممالک میں حجاب کو نشانہ ستم بنایا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا مغرب حجاب فوبیا کی لپیٹ میں چلا گیا۔


2009کو مروا الشربینی نامی مصری خاتون کو جرمنی کی بھری عدالت میں حجاب پہننے کی پاداش میں ایک متعصب شخص نے موت کے گھاٹ اتار دیا اور عدالت منہ دیکھتی رہ گئی۔ حجاب پر پابندی کی بات کرنے والوں کی طرف سے یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ اسلام میں عورت کو محدود کر کے رکھا گیا ہے۔

اس کی آزادی چھین لی گئی ہے، جب کہ ہر شعور رکھنے والا انسان اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ اسلام نے خواتین کو جس عزت و وقار سے نوازا ہے، کسی بھی مذہب و تہذیب نے اتنی عزت نہیں دی اور یہ اعتراض کرنے والی اپنی منافقت کا اندازہ کیجیے کہ ایک طرف رہن سہن ، لباس ، طور طریقوں میں خواتین کی آزادی کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف مسلم خواتین کے حجاب لینے پر ہمیشہ ان کی پیشانیاں شکن آلود رہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ خواتین کو لباس کے انتخاب کی آزادی نہیں دیتے، بلکہ اپنے طے شدہ لباس پہننے پر مجبورکرنا چاہتے ہیں۔

دوسروں پر خواتین کو دبانے اور ان پر اپنی مرضی تھوپنے کا الزام لگاتے ہیں، لیکن اپنی مرضی سے حجاب کرنے والی طالبات کو بے حجاب ہونے پر یہ لوگ خود مجبور کر رہے ہیں، ان کے قول و عمل میں ہمیشہ تضاد ہوتا ہے۔مسلم خواتین کے لیے حجاب ہت اہم بات ہے۔ مسلم لڑکیاں حجاب زبردستی نہیں پہنتیں، بلکہ یہ مذہب سے محبت اور اپنی عفت و عصمت کی حفاظت اور اطمینان کے لیے پہنا جاتا ہے۔

حجاب کوئی رسم یا فیشن نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی مذہب یا تہذیب کے خلاف اعلان جنگ کا نام ہے۔ حجاب خواتین کے لیے شرم و حیا کی ضمانت اور بقائے عفت کا ذریعہ ہے۔اس کا مقصود صرف عورت کی جسمانی ساخت کو ڈھانپنا ہی نہیں، بلکہ یہ خواتین کو بیمار ذہنیت والے مردوں کی بد نگاہی اور چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رکھنے کا ایک اہم ذریعہ اور ڈھال بھی ہے۔ حجاب محض کپڑے کے ایک ٹکڑے کا نام نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام اخلاق کا نام ہے جو حیا ، عفت اور عصمت جیسے اوصاف پر استوار ہے۔

حجاب عورت کے لیے آئینی قلعہ ہے۔ حجاب در حقیقت عورت کی عزت ، وقار اور تقدس کا استعارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف مسلم خواتین ہی نہیں، بلکہ بہت سی غیر مسلم خواتین بھی حجاب میں خود کو محفوظ خیال کرتی ہیں۔

نائن الیون کے بعد یورپ میں جہاں ایک طرف لوگوں کی ایک بڑی تعداد قرآنی تعلیمات، حقائق، سچائی اور دلائل پر مبنی ریسرچ اور تحقیق کے بعد اسلام میں داخل ہوئے، وہیں بہت سی غیر مسلم خواتین نے حجاب کی افادیت سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا، جن میں کئی پڑھے لکھے اور معروف نام بھی ہیں۔مغرب کی طرح اب بھارت میں بھی اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ بات اسلام دشمنوں کو ہضم نہیں ہورہی۔ اسی لیے ان کی طرف سے مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ بھارت میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی بھی اسی اسلام فوبیا کی ایک کڑی ہے۔
Load Next Story