افغانستان ڈاکٹر برائیڈن سے صدربائڈن تک
افغانستان میں برطانیہ کی شکست پر برائیڈن اور امریکہ کی ہار پر بائڈن کے آنسو نکل آئے تھے
کراچی:
نا ئن الیون کے تقریباً پانچ ماہ بعد اس موضوع پر میری کتا ب ''سانحہ نیویارک سے سقوط کابل تک'' الحمد پبلی کیشنر لاہور سے شائع ہو کر مار کیٹ میں آگئی تھی غالباً یہ امریکہ اور نیٹو ممالک کے افغانستان پر تباہ کن اور خوفناک حملے کے بعد کم ازکم اردو زبان میں پہلی کتا ب تھی۔
اُس زمانے میں انٹرنیٹ، وغیرہ عام نہیں تھے مگر اس کے باوجود یہ کتاب ہزاروں افراد نے نہ صرف پڑھی بلکہ سینکڑوں افراد نے رابطے بھی کئے۔ اس کتاب میں اگرچہ بہت سی باتیں بیان کی گئی تھیں لیکن د وباتیں ایسی تھیں جو افغانستان کی تاریخ اور ثقافت کے اعتبار سے بہت اہم ہیں۔
ایک یہ کہ راقم الحرف نے یہ کہا تھا کہ دنیا یاد رکھے گی کہ افغانیوں نے امریکہ کی جانب سے اسامہ بن لادن حوالگی کے مطالبے پر صدر بش سے یہ کہا تھا کہ آپ اسامہ بن لادن کے خلاف نائن الیون کے ثبوت لے آئیں کہ اِن واقعات میں اُ سامہ بن لادن ملوث ہیں تو افغانستان کی عدالت میں کھلے عام اِن پر مقدمہ چلائیں گے، پوری دنیا اس مقدمے کی سماعت کو دیکھے اور سنے گی اور انصاف کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا جب کہ امریکہ نے اپنا وہی مطالبہ دہرا یاکہ فوراً اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کیا جائے ۔
اس پر امارات اسلامی افغانستان کے امیر ملا عمر نے یہ تجویز دی کہ کسی تیسرے اور غیر جانب دار ملک میں کھلی عدالت میں اسامہ بن لادن پر عائد امریکی الزامات پر مقدمہ چلاتے ہیں اور آپ وہاں غیر جانبدار عدالت میں اسامہ بن لادن کے خلاف ثبوت پیش کر دیں۔
جرم ثابت ہو گیا تو اِس مجرم کو ہم بھی سزا دے سکتے ہیں یا امر یکہ کے مجرم کو امریکہ کے حوالے کر سکتے ہیں مگر امریکہ نے طالبان کی تما م تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سکیو رٹی کونسل سے پانچ منٹ کے مختصر وقت میں متفقہ طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قرار داد منظور کروا کر دنیا بھر میں کہیں بھی امریکہ پر دہشت گردی کے حملے سے قبل کی بنیاد پر بھی اُس ملک کے خلاف کاروائی کرنے کا کلنگ لائسنس حاصل کر لیا اور پھر افغانستان میں امریکی بی ٹو بمبار طیاروں نے کارپٹ بمبار منٹ کی یعنی بی بمبار طیاروں سے ایسی بمباری کی جیسے زمین پر آگ اور بارود کے قالین بچھا دئیے جائیں مگر افغانیوں نے اپنی روایت کو عزیز رکھا اور اوسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا۔
اِ س کو دنیا کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں نے اِس کتا ب میں یہ لکھا کہ امریکہ کو چاہیے کہ ابھی ہی مذاکرات کر لے کیونکہ تقریباً ہر جنگ کی طرح اس جنگ کا اختتام آخر مذاکرات پر ہوگا اور بدقسمتی سے اٹھارہ برس بعد پھر صدر ٹرمپ نے اس کو تسلیم کیا اور اس پر مکمل عملدر آمد کرتے ہو ئے صدر جو بائڈن نے امریکی افواج کا انخلا کیا مگر یہ انخلا ایک بڑی شکست اور خصوصاً امریکی ، برطانوی ، اسرائیلی اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی شرمناک ناکامی کی صورت میں ہوا اور اس کو برطانیہ نے تسلیم کیا اور بعد میں بر طانوی وزیر نے یہاں تک کہہ دیا کہ اب امریکہ سپر پاور نہیں رہا ، البتہ ایک بڑی طاقت کے طور پر موجود ہے۔
اسی طرح باقی یورپی ممالک نے بھی امریکہ پر تنقید کی جب کہ بھارت میں بھی حزبِ اختلاف اور تجزیہ نگار امریکہ سمیت نیٹو قوتوں پر شدید تنقید کر ر ہے ہیں یعنی پوری دنیا افغانستان پر امریکی اور نیٹو افوج کی پسپائی اور شکست پر حیرت زدہ ہے۔ اب امریکہ میں بھی ایک بڑا حلقہ ایسا ہے جو یہ چاہتا ہے کہ امریکہ اور نیٹو یہ بھی تسلیم کر لیں کہ وہ افغانستان میں جنگ ہارے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ ایسا کیو ں ہوا ؟یہ امریکہ ، بھارت، اسرائیل سمیت دنیا کے کئی ممالک کے لیے حیرانی و پریشانی کا سبب ہے ۔
افغانستا ن کی حالیہ قومی اور وطنی حیثیت یا ساخت کی تشکیل، ایران کے بادشاہ نادر شاہ کے بعد افغانستان میں احمد شاہ ابدالی کے بر سراقتدار آنے کے بعد پشتونوں کی حکمرانی کی بنیاد پر قائم ہوئی، احمد شاہ ابدالی 1747 ء سے 1772 ء افغانستان کے باد شاہ رہے اور اُنہوں نے ہندوستان پر آٹھ حملے کئے اور ہندوستان میں مرہٹہ قوت کا خاتمہ کیا جب کہ یہی دور ہے جب انگریز نے 1757 ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ کو اس کے غدار وزیر میر جعفر کے تعاون سے شکست دے کر یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم کی تھی ۔
یہ ایک عجیب تاریخی دوراہا تھا کہ ایک جانب ہندوستان میں شیوا جی مرہٹہ قوت ہندوستان میں ہندووں کی حکومت قائم کرنا چاہتی تھی تو دوسری جانب بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا قبضہ مضبوط کر لیا تھا تو تیسری جانب افغانستان میں احمد شاہ ابدالی کی حکو مت قائم تھی جس نے برصغیر میں مر ہٹوں کی قوت کو توڑ دیا تھا اور یہ آخری بادشاہ تھا جو افغانستان سے ہندوستان آیا تھا۔
احمد شاہ ابدالی اُس وقت اِس پوزیشن میں تھا کہ وہ ہندوستان میں مستقل اور مستحکم حکومت قائم کر لیتا مگر اُس سے ہندوستان کی گر می برداشت نہ ہو سکی اس لیے وہ واپس افغانستان آگیا ورنہ وہ مرہٹوں کی شکست کے بعد بنگال جا کر انگریزوں کو بھی شکست دے سکتا تھا مگر ایسا نہ ہو سکا، پھر جب انگریز برصغیر میں زیادہ مضبوط ہوئے تو اُن کو اگر چہ کروڑوں کی آبادی کے ہندوستا ن کے اندر سے اپنے اقتدار کو کسی سے کوئی خاص خطرہ نہ تھا بلکہ اگر خطرہ تھا تو وہ شمال میں افغانستان اور سنٹرل ایشیا اور یہاں سے آگے روس سے خطرہ تھا۔
یوں 1757 ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال پر قبضے کے بعد میسور اور دیگر علاقوں میں اپنے اقتدار کو پھیلانا شروع کیا۔دوسری جانب 1772 ء کے بعد افغانستان میں کوئی طاقتور بادشاہ نہیں آیا اور پھر اُنیسویں صدی میں تو افغانستان اتنا کمزور ہو گیا کہ جب پنجاب میں راجہ رنجیت سنگھ نے اپنی حکومت قائم کی تو اُ س نے افغانستان سے جنگ کر کے پشاور سمیت کئی علاقے چھین لیے، انگر یزوں نے رنجیت سنگھ کی وفات سے چند مہینے قبل پہلی اینگلو افغان جنگ کے لیے رنجیت سنگھ سے تعاون، حمایت اور فوجی مدد مانگی کہ افغانستان پر حملے کے لیے رنجیت سنگھ انگریزوں کی فوج کو اپنی ریاست سے گزر کر کابل پر حملے کا راستہ فراہم کرے۔
1839 ء میں افغانستان پر حملہ سے قبل انگریزوںکا ایک اعلیٰ سطح کا وفد لاہور آیا جس کا رنجیت سنگھ نے بہت شاندار استقبال کیا مگر مذاکرات میں انگریزوں پر واضح کر دیا کہ وہ اپنی دس پندرہ ہزار فوج کے ساتھ طورخم کی جانب سے انگریزوں کی حمایت اور مدد کے لیے کابل پر حملہ کرے گا اور اس سکھ لشکر میں علامتی طور پر وہ دس بار انگریز فوجی افسر بھی شامل کر لے گا مگر بیس با ئیس ہزار کی انگریزی فوج کو اپنی سلطنت کی حدود سے گزرنے نہیں دے گا اور اِس کے لیے راجہ رنجیت سنگھ نے تجویز پیش کی کہ انگریز اپنی بیس بائیس ہزار فوج کے ساتھ کراچی سے سندھ اور پھر بلوچستان سے گذار کر قندھار کے راستے افغانستان پر حملہ آور ہو، اور یوں سکھ اور انگریز فوج پورے افغانستان پر قبضہ کر لے اور جب قبضہ ہو جائے تو سکھ فوج واپس پنجا ب آجائے گی۔
اُس وقت بلوچستان پر خان آف قلات میر محراب خان شہید کی حکومت تھی اِ س تجویز کو انگریزوں نے قبول کر لیا اور اسی پروگرام کے مطابق 1839 ء میں پہلی برطانوی افغان جنگ ہوئی اور انگریزوں نے رنجیت سنگھ کی بھرپور حمایت اور مدد سے افغانستان پر قبضہ کر لیا اور فتح کے بعد وعدے کے مطابق سکھ فوج واپس پنجاب آگئی جب انگریزی فوج بلوچستان کے علاقے سے افغانستان پر حملے کے لیے گزر رہی تھی تو یہاں بلوچ قبائل نے اِن فوجوں پر گو ریلا طرز کے حملے کئے اور چند فوجیوں کو نقصان پہنچایا تھا۔ افغانستان پر قبضہ مستحکم کرنے کے بعد فاتح انگریز جنرل نے بمبئی میں مقیم وائسرائے سے رابط کر کے بلوچستان پر حملے کی اجازت لے لی اور بلوچستان میں میر محراب خان کو شہید کر دیا، پہلی برطانوی افغان جنگ میںفتح کے بعد انگریزوں نے افغانستان کی قبائلی اسلامی ثقافت کا درست انداز ہ نہیں کیا۔
افغانستان کی فتح کے بعد وہاں کے عوام یہ سمجھے تھے کہ انگریزی فوجیں سابق افغان بادشاہ (شاہ شجاع )کو یہاں اقتدار میںلانے کے بعد اُس کی حکومت مستحکم ہو نے پر واپس چلی جائیں گی کیونکہ سکھ فوجیں تو فوراً ہی واپس چلی گئی تھیں لیکن ہوا یہ کہ یہاں انگریزوں کی جو فوج تھی اُس کے افسران تو انگریز تھے مگر فوجی ہندوستانی تھے،انگریزوں نے تھوڑی مدت بعد کوئی دس ہزار فوج ہندوستان واپس بھیج دی، مگر پھر انگریز جرنیلوں نے یہ محسوس کیا کہ جو ساڑھے بارہ ہزار ہندوستانی فوج افغانستان میں موجود ہے یہ سپاہی اپنے بیوی بچوں سے دور مطمئن نہیں ہیں۔
اس لیے انگریزوں نے حکم دیا کہ ان فوجیوںکے بیوی بچوں کو افغانستان لایا جائے۔ اس پر افغان یہ سمجھے کہ انگریز افغانستان کو مستقل اپنے قبضے میں رکھنا چاہتا ہے۔ یوں 1842 ء کے موسم سرما میں جب افغانستان میں سردی، برفباری عروج پر تھی تو افغانیوں نے انگریز فوجوں کے خلاف جنگ شروع کر دی اور پوری ساڑھے بارہ ہزار فوج اور افسران کو قتل کر دیا اور صرف ایک انگر یز میڈیکل ڈاکٹر برائیڈن کو زندہ چھو ڑا جو بہت بری حالت میں جلال آباد سے پشاور پہنچا۔افغانیوں نے ڈاکٹر برائیڈان کو اس لئے زندہ چھوڑا تھا کہ وہ بمبئی میں جا کر افغانستان میں عبرتناک شکست کا آنکھوں دیکھا حال بتا سکے۔
اگر چہ 1842 ء میں افغانستان دوبارہ آزاد ہو گیا مگر 1839 ء میں افغانستان پر بر طانوی حملے کے بعد روس کی زار بادشاہت نے اس برطانوی حملے کو سلطنتِ روس کے لیے خطرہ سمجھا تھا اور اپنی دفاعی لائن کو بڑھاتے ہو ئے سنٹرل ایشیا ترکستان یعنی آج کی وسطیٰ ایشیائی ریاستوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔
دوسری جانب 1842 ء کی عبرتناک شکست سے انگریزوں کوسیاسی، نفسیاتی طور پر شدید نقصان پہنچا تھا ۔ یہ درست ہے کہ احمد شاہ ابدالی کے بعد کسی افغان بادشاہ نے برطانوی ہندوستان پر حملہ کرنے کا ارادہ یا کوشش نہیں کی تھی مگر اس شکست کی وجہ سے یہ اندیشے پیدا ہوگئے تھے کہ کسی بھی موقع پرکوئی ہندوستان کی کوئی مقامی بغاوت افغانستان کو برطانوی ہندوستان پر حملے کی دعوت دے سکتی ہے جیسے 1526 ء میں ابراہیم لودھی کے خلاف راجپوتوں کے مہاراجہ رانا سانگا نے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی تھی پھر پہلی برطانوی افغان جنگ میں انگریز فوج کے ساڑھے بارہ ہزار ہندوستانی فوجیوں کی ہلاکت سے انگریزکی ہندوستانی فوج کے حوصلے بھی پست ہوئے تھے اس لیے اب انگریزوں کی کوشش تھی کہ وہ زیادہ تیاری کے ساتھ افغانستان پر حملہ کرے۔
انگریزوں کی یہ خوش قسمتی رہی کہ 1839 ہی میں پنجاب کی سکھ سلطنت کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا انتقال ہو گیا اور پھر مہاراجہ رنجیت سنگھ کا خاندان اقتدار کی رسہ کشی میں الجھ گیا اور اسی دوران اِنہوں نے انگریزی علاقے پر حملہ کر دیا اور اس جنگ میں فتح کے بعد 1845 ء میں انگریز نے پنجاب پر بھی قبضہ کر لیا۔
اب برٹش انڈیا کی سرحدیں براہ راست افغانستان سے مل گئیں اور انگریزوں نے یہاں سرحد تک دفاعی اعتبار سے تعمیرات کرنا شروع کیں مگر اب خصوصا 1860 ء تا 1864 ء کی امریکی خانہ جنگی کے بعد یہاں برصغیر میں انگریز اپنی پوزیشن کو بہت مضبوط اور مستحکم کرنا چاہتا تھا اور یوں پہلے 1845 ء میں انگریز نے بنگال اور دوسرے ہندوستانی علاقوںسے بھرتی کئی گئی فوج سے پنجاب میں سکھوں کو شکست دی، اس کے بعد یہاں پنجاب سے ایک مضبوط فوج تشکیل دی جس نے 1857 ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کو یہ جنگ جیت کر دی۔
اب انگریز پورے ہندوستان کا مالک تھا اور اپنی بہترین اور مضبوط بحریہ کی وجہ سے برطانیہ روس کی زار سلطنت سے زیادہ طاقتور تھا مگر افغانستان جس کے تعلقات روس سے بھی تھے اس لیے یہاں خشکی کے راستے انگریزوں کو جنگ کے اندیشے تھے اور ایسی کسی جنگ میں اگر روس بھی شامل ہو جاتا تو یہ بر طانوی ہند کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی تھی۔
یوں انگریز نے بہت ہی بہتر منصوبہ بندی اور حکمت ِ عملی کے ساتھ دوسری اینگلو افغان جنگ 1878 میں افغانستان پر حملہ کیا اور فتح کے بعد یہاںبرطانوی مفادات کے تحفظ کو تسلیم کرنے والی حکومت اور بادشاہت سے معاہدے کر کے انگریز نے اپنی فوج واپس ہندوستان بلوالی اور طے پایا کہ افغانستان کی خارجہ پالیسی اور دفاعی امور کے لیے افغان حکومت انگریزوں کی مشاورت اور اجازت کی پا بند رہے گی اور اس کے بدلے انگریزوں نے افغانستان کی حکومت کو ایک معقول رقم سالانہ سبسڈی کے طور پر دینا شروع کر دی یعنی انگریز نے ماضی کے حکمرانوں کی طرح پانی پت میں دفاعی جنگ کی پالیسی کے بجائے افغانستان کی سرحد کے پار اپنے دفاع کو مستحکم کر لیا۔ 1878 ء سے 1919 ء تک یعنی 41 سال تک افغانستان میں انگریز مفادات کی نگران حکومت قائم رہی جو اپنی داخلی خودمختاری کے ساتھ آزاد تھی ۔
اس دوران افغانستان نے سنٹرل ایشیا ایران اور برطانوی ہندوستان کہیں کوئی مداخلت نہیں کی ، یہاں تک کہ پہلی عالمی جنگ1914 ء تا1918 ء کے دوران بھی افغانستان نے انگریز سے کئے گئے وعدے نبھائے مگر افغانستان کو اس کا کوئی صلہ نہیں دیا۔ اس پر صورتحال اُس وقت مختلف ہوئی جب غازی امان اللہ اقتدار میں آئے اور اُنہوں نے انگریز کی سالانہ سبسڈی کے معاہدوں کو ٹھکراتے ہوئے افغانستان کے دفاعی اور خارجی امور میں بھی آزادی کا اعلان کر دیا اور یوں 1919 ء میں تیسری برطانوی افغان جنگ ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم میں ہندوستان کے13 لاکھ فوجی انگریز کی خاطر لڑے تھے پھر چند دن پہلے ہی جلیانوالہ باغ میں انگریز نے قتل عام کیا تھا۔ تیسری برطانوی افغان جنگ کے بعد غازی امان اللہ نے لینن اور اسٹالن سے رابطے کرتے ہوئے روس سے طیارے اور دیگر اسلحہ بھی حاصل کیا تھا۔
1929 ء میں جب ہمارے یہاں قائداعظم نے مشہور چودہ نکات پیش کئے تھے تو انگریزوں نے افغانستان کے اس بادشاہ کے خلاف سازش کر کے اس کا تختہ الٹ دیا اور پھر آخری بادشاہ ظاہر شاہ کے والد محمد نادر شاہ افغانستان کے بادشاہ بنے جو 1933 ء تک یعنی صرف چار سال بادشاہ رہے۔
اس دور میں دنیا میں عظیم عالمی کساد بازاری رونما ہوئی برصغیر کی آزادی کی تحریک کے حوالے سے لندن میں تین گولز میز کانفرنسیں ہوئیں اور افغانستان میں 1933 ء میں ظاہر شاہ اقتدار میں آئے جنہوں نے افغانستان کی بفر اسٹیٹ کی حیثیت کو برقرار رکھا، اُن کا یہ ابتدائی دور نہایت خطرناک تھا کیونکہ عالمی جنگ اور کساد بازاری سے یورپ شدید بحران کا شکار تھا اور ایک جانب سوویت یونین میںاسٹالن کی مضبوط آمریت تھی تو دوسری جانب جرمنی میں ہٹلر مضبوط ہو رہا تھا اور پھر جب 1939 ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو پہلے سوویت یونین کے اسٹالن اور جرمنی کے ایڈولف ہٹلر نے آپس میں اتحاد کرتے ہوئے پولینڈ کو تقسیم کر لیا ۔
یہ صورتحال افغانستان میں 6 سال قبل 1933 ء میںاقتدار میں آنے والے نئے بادشاہ ظاہر شاہ کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا کیونکہ سوویت یونین افغانستان کا ہمسایہ تھا جب کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر یورپی ممالک جو جرمنی کے خلاف اتحاد میں شامل تھے مگر ظاہر شاہ کی خوش قستمی کہ پھر جرمنی نے سوویت یونین پر چڑھائی کر دی اور سوویت یونین اتحادیوں کی صف میں شامل ہو گیا۔ پھر ظاہر شاہ 1973 ء تک افغانستان کے بادشاہ رہے جب سردار دائود خان نے اُن کا تخت الٹ دیا اور پھر 1979-80 ء میں سوویت یونین کی مداخلت ہوئی جو 1988 ء میں جنیوا معاہد ے کے بعد ختم ہوئی۔
اسی سال 17 اگست کو صدر جنرل ضیاالحق ، چیرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل اختر عبدالرحمن، امریکی سفیر Arnold Lewis Raphel رافیل، ملٹری اٹاچی Herbert M Wasoom رابرٹ سمیت 28 اعلیٰ فوجی افسران جان بحق ہوئے، 1991 ء میں سوویت یونین بھی ٹوٹ گئی، یہ وہ دور ہے جب سابق سوویت یونین میں گوربا چوف کی معاشی اور جمہوری اصلاحات،گلاسنیس اور پرسٹرئیکا کے نفاذ کے بعد سوویت یونین بکھر چکی تھی اور اُس کی 15 ریا ستوں نے آزاد ممالک کی حیثیت سے اقوام متحدہ کی رکنیت بھی حاصل کر لی تھی، روس اُس وقت تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا تھا، تب روس کے صدر بورس یلسن تھے۔
1988 ء میں سابق سوویت کی کرنسی روبل کی قمیت ڈالر کے برابر تھی مگر روس کے قیام کے بعد 1992 ء میں ایک ڈالر 419 روسی روبل کا ہو گیا اور اس کی قیمت تیزی سے گرنے لگی۔ 1996 ء میں ایک ڈالر 5900 روسی روبل کا ہو گیا اس سے امریکہ کو بھی تشویش لاحق ہو گئی کہ جدید ایٹمی ہتھیاروں اور بڑی فوجی قوت کا حامل روس اگر شدید معاشی بحران کے نتیجے میں عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے تو اس سے پوری دنیا کے امن کو خطر ہ لاحق ہو جائے گا۔ یوں امریکہ کی سفارش پر آئی ایم ایف نے روس کو 1998 ء میں 23.6 بلین ڈالر کے ایمرجنسی قرضے جاری کئے جس کو روسی حکام نے شفاف طریقے اور بہتر منصوبہ بندی سے استعما ل کرتے ہوئے ملک کو مستحکم کیا۔
اسی دور میں جہاں دنیا بھر کے سابق کیمونسٹ ممالک بحرانوں سے گزرے اور بڑی تباہی اور بربادی کے بعد اکثر نے خود کو یورپی یونین اور نیٹو میں شامل کر دیا وہاں چین میں بھی صدر لی شیان نیان کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد 1989 ء میں 15 اپریل سے 4 جون 1989 ء بیجنگ کےTiananmon Square تیانانمون چوک پر اسٹو ڈنٹ نے حکومت کے خلا ف شدید احتجاج کیا جو جلد ہی چین کے چار سوشہروں میں پھیل گیا۔ یہ اسٹوڈنٹ ملک میں آزادیِ اظہار، آزادی ِ صحافت ، جمہوریت اور احتساب کے مطالبات کر رہے تھے۔
اُس وقت جب سابق سوویت یونین بکھرنے کے قریب تھا اور گورباچوف کی آزاد اقتصادی ، جمہوری اور آزادیِ اظہار کی اصلاحات نافذ العمل ہو رہی تھیں تو ایسی صورت میں چین میں ایسے شدید احتجاج سے دنیا خصوصاً مغربی دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ سابق سوویت یونین سے پہلے چین سے بھی کیمونزم رخصت ہو جائے گا۔
ایسے موقع پر وزیر اعظم لی پنگ نے چین میں مارشل لا نافذ کر کے بیجنگ میں ٹینکوں سمیت300000 پیپلز لبریشن آرمی طلب کر لی اور سختی سے احتجاج کو کچل دیا۔اس دوران سینکڑوں اسٹو ڈنٹ ہلاک اور ہزاروں زخمی اور گرفتار ہوئے۔ صدر یانگ شان کون کے دور میں یہ مار شل لا 20 مئی 1989 ء 10 جنوری 1990 ء تک نافذالعمل رہا ۔ واضح رہے کہ اُس وقت چین نے ابھی اتنی ترقی اور مضبوطی حاصل نہیں کی تھی۔ ساڑھے سات مہینوںکے مارشل لا کے دوران ہی چین میں سیاسی اقتصادی اصلاحا ت کا عمل شروع ہوا۔ اِن کے ہاں بہبود آبادی کی ون چائلڈ پالیسی سختی سے نافذ العمل ہوئی تھی، جس پر امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، یورپ اور جاپان سب ہی خندہ زن تھے۔
مگر یہاںسے ہی چین نے کمال ہوشیاری مستقل مزاجی یکسوئی اور بہترین منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے بہت متوازن اور مستحکم ترقی کی، جبکہ سابق سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد 1999 ء میں حالیہ روس قدرے سنبھلنے لگا تو دوسری جانب امریکہ جلد از جلد مشرقی یورپ مشرق ِ وسطیٰ افریقہ، لاطینی امریکہ میں سابق سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پیدا ہو نے والے خلا کو پُر کرنے کے لیے نہایت تیز رفتاری سے اقدامات کر رہا تھا کیونکہ اب امریکہ واقعی دنیا کی واحد سپر پاور تھا اور اُس کی پشت پر فرانس، برطانیہ سمیت تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک کھڑے تھے اور بھارت بھی امریکہ کا قریبی دوست بن چکا تھا اور امریکہ نے نہ صرف پاکستان سے آنکھیں پھیر لی تھیں بلکہ افغانستان پر کروز میزائل بھی داغے تھے۔
اسی سال پاکستان اور بھارت کے درمیان کارگل کی جنگ بھی ہوئی تھی اور بعد میں نواز شریف کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تھا اور صدر جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آگئے تھے، اس کے ٹھیک دو سال بعد نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا، اور پھر امریکہ پوری دنیا کی سیاسی و عسکری حمایت اور طاقت کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا اور ساتھ ہی مڈل ایسٹ میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے کاروائیاں کیں، اسے نیٹو کی فوجی مدد کے ساتھ اقوام متحدہ کی جانب سے پوری اخلاقی اور سیاسی حمایت حاصل تھی ، جبکہ اسی دوران ایک طرف روس دوبارہ جدید خلائی ٹیکنالوجی اور اسلحہ سازی کے شعبوں میں مستحکم اور مضبوط ہو رہا تھا تو ساتھ ہی چین صنعتی اقتصادی میدان میں امریکہ کے مقابل آرہا تھا، مگر امریکہ تقریباً ایک ارب ڈالر یومیہ کے خرچ کے ساتھ افغانستان ، عراق اور مشرقِ وسطیٰ میں فوجی کاروائیوں میں مصروف تھا تو 2014 ء یعنی آج سے تقریباً آٹھ سال پہلے جب افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج مقیم تھی پاکستان میں دہشت گردی عروج پر تھی۔
بھارت، امریکہ کے ساتھ اُس کے اہم اتحادی کے طور پر سامنے آکر پاکستان کے خلاف خطرناک اقدامات کر رہا تھا کہ 29 اپریل 2014 ء کو پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل مرحوم نے یہ تاریخی بیان دیا ِکہ آج کے دن آپ میری اس بات کو لکھ لیں کہ جلد تاریخ میں لکھا جائے گا کہ پاکستان نے امریکہ کی مدد سے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دی، پھر یہ بھی لکھا جا ئے گا کہ پاکستان نے افغانستان میں امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکست دے دی۔
اُس وقت جنرل حمید گل کی یہ باتیں جو، اب ریکارڈ پر موجود ہیں (مجذوب کی بڑھ) معلو م ہو رہی تھیں مگر آج حیرت ہوتی ہے کہ واقعی 15اگست 2021 ء کو امریکہ نے جس طرح افغانستان سے انخلا کیا ہے وہ بظاہر شکست سے کسی طرح کم نہیں تھا، یہ سوال امریکہ سمیت پوری دنیا میں بھی اور تاریخ میں بھی ہمیشہ اسی طرح گونجتا رہے گا ، جیسے 1842 ء میں پہلی برطانوی افغان جنگ میں برطانیہ کی شکست پر گونجا تھا، واضح رہے کہ 15 اگست 2021 ء کو افغانستان سے امریکہ اور نیٹو افواج کے اس طرح انخلا پر امریکی صدر جو بائیڈن تقریر کرتے ہوئے رو پڑے تھے اور صدر جو بائیڈن کا یہ عمل بھی امریکی عوام کی اکثریت کو ناگوار گزرا تھا کہ امریکہ جسے وہاں کے عوام اب بھی دنیا کی واحد سپر طاقت سمجھتے ہیں، وہ اپنے صدر کو روتا دیکھنا پسند نہیں کرتے۔
جو بائڈن کا موقف یہ ہے کہ افغانستان سے فوجوں کے انخلا کا فیصلہ اور اس کے لیے ٹائم فریم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا اور انہوںنے معاہدے کو پورا کیا، یہاں تک تو جو بائڈن کی بات درست مگر جہاں تک فوجوں کے انخلا کے ٹائم ٹیبل اور طریقہ کار کی بات ہے تو جو بائڈن اس فوجی انخلا سے ڈونلڈ ٹرمپ کے شیڈول سے اختلاف کرتے ہوئے چند دنوںکی مہلت چاہتے تھے اور یہ اعلان بھی کر چکے تھے کہ فوجوں کا مکمل انخلا 11 ستمبر 2021 ء کو ہو، جس کو طالبان نے قبول نہیں کیا تھا مگر وہ تھوڑی سی اضافی مدت کی خاطر بڑی جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے مگر یہی چند روزہ تاخیری فوجی انخلا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مہنگا پڑا ،کیونکہ جس طرح بڈ گرام اور کابل سے امریکی افواج کا انخلا ہوا ہے اور جس طرح اربوں ڈالر کا اسلحہ یہاں طالبان کے ہاتھ لگا وہ واقعی امریکہ کی شکست کے مترادف ہے، ایسا کیوں ہوا ؟
یہ امریکی منصوبہ بندی و حکمت ِ عملی کی ناکامی تھی جس کی وجہ سے امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا ۔ یہ ایسا ہی نقصان تھا جیسا اس سے قبل سائیگوان ویتنام سے فوجی انخلا کے وقت ہوا تھا۔ اگرچہ آج ویتنام جو چین اور روس کی مدد سے امریکہ کو شکست دے کر آزاد ہوا تھا۔
آج روس اور چین کے مقابلے میں امریکہ کے زیادہ قریب ہے، مگر اس قربت کی تشکیل میں تقریباً 45 بر س لگے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر گوربا چوف جن کو سوویت یونین میں اصلاحات پر بعد میں نوبل پرائز دیا گیا اور مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب دی ہنڈرڈ ( سو عظیم شخصیات ) میں 1990 ء کے بعد کے ایڈیشن میں شامل کیا اگر وہ بھی اِن اصلاحات کو چین کی طرح بتدریج متعارف کرواتے تو شائد روس شدید اور بدترین اقتصادی سیاسی بحران سے نہیں گزرتا مگر پھر بھی یہ صدر پوٹن اور روسی عوام کی کامیابی ہے کہ اُنہوں نے دوبارہ خود کو مضبو ط کر لیا ہے۔
لیکن اگر افغانستان کو دیکھیں جو برطانیہ کے بعد سابق سوویت یونین کی جارحیت کا شکار ہوا اور پھر امریکہ اور نیٹو افواج نے یہاں فوجی ایکشن کیا اور امریکہ نے مدر آف آل بم تک گرایا، اب امریکہ نے یہاں سے فوجی انخلا کے بعد نہ صرف امداد روک لی ہے اور جس امداد کا اقوام متحدہ نے وعدہ کیا ہے وہ بھی اپنی طرز کے انسانی حقوق سے مشروط کر دی اور ساتھ ہی افغانستان کے اپنے اثاثے بھی منجمد کر دئیے ہیں بلکہ 29 جنوری 2022 ء کی بعض اطلاعات کے مطابق امریکہ نے اپنے ہاں افغانستان کا سفارت خانہ بھی بند کر دیا ہے جب کہ افغانستان سے یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ وہاں بھوک اور غربت کی وجہ سے اموات شروع ہو گئی ہیں اور کچھ لوگ اپنے خاندان کے لوگوں کو بچانے کے لیے اپنے گردے فروخت کر رہے ہیں، یوں دنیا میں افغانستان کے حوالے سے انسانی حقوق اور سیاست ایک شدید ابہام کا شکار ہیں۔
مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ 79 سالہ امریکی صدر جوبائڈن جو ایک جانب روس سے یوکرین کے مسئلے پر الجھے ہوئے ہیں اور یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ اگر روس نے یوکرین کے خلاف فوج کشی کی تو یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے خطرناک عالمی مسئلہ ہو گا۔ دوسری جانب وہ چین سے ساوتھ چائنہ سی میں تا ئیوان کے مسئلے پر بھی الجھے ہوئے ہیں، واضح رہے کہ جب جولائی 1971 ء میں پاکستان سے امریکی سیکرٹری ہنری کسنجرکے خفیہ دورہِ چین کے بعد امریکہ اور چین کے تعلقا ت بحال ہوئے تو امریکہ نے چین کے اس دعویٰ کو تسلیم کیا کہ اصل چین '' مین لینڈ چین'' ہی ہے اور تائیوان جس کو اس چین کی جگہ 1945 ء سے 1971 ء تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی رکنیت کے ساتھ سکیورٹی کونسل میں ویٹو پاور بھی دیا گیا تھا۔
اُس تائیوان سے یہ سب کچھ واپس لے کر چین کو دے دیا گیا اور 1972 ء سے چین نہ صرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا رکن ہے بلکہ وہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا مستقل اور ویٹو پاور کا حامل رکن بھی ہے اور چین نے اپنا سب سے پہلا ویٹو بنگلہ دیش کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے کے خلاف اُس وقت تک استعمال کیا تھا جب تک سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت سے شملہ مذاکرات کی بنیاد پر شملہ معاہدہ نہیں کر لیا اور اس کے بعد بنگلہ دیش کو خود پاکستان نے تسلیم کر لیا۔ جہاں تک تائیوان کا تعلق ہے تو اصولی طور پر 1971-72 ء میں یہ تسلیم کر لیا گیا کہ تائیوان چین ہی کا ایک حصہ ہے مگردنیا کے تقریباً 16 ملکوں نے تائیوان کو آزاد ملک تسلیم کر رکھا ہے مگر معاہدے کے مطابق اِن میں امریکہ شامل نہیں مگر اب صورت یہ ہے کہ یہاں بھی جنگ کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہاں افغا نستان کاکیا تاریخی کردار ہے ؟ تو یہی کہا جا سکتا ہے جب آج افغانستان کو امریکہ سمیت سبھی ممالک (عظیم سلطنتوں کا قبرستان) تسلیم کر رہے ہیں تو یہاں اب دنیا میں روس، چین، امریکہ، بھارت، سعودی عرب ، ایران، یمن، مشرق وسطیٰ،سوڈان، اسرائیل، ایتھوپیا، پاکستان کے درمیان ابھی اور آئندہ جو بھی خانہ جنگی ہوتی ہے اور بقول صدر جو بائیڈن اگر دوسری جنگ عظیم سے زیادہ بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو یہ حقیقت ہے کہ اگر 1988 ء کے جینوا معاہدہ کے وقت انصاف کے اصولوں کو مد نظر رکھا جاتا اور سوویت یونین کی فوجوں کی رخصتی کے بعد پاکستان کی مخلصانہ تجاویز پر عمل کیا جاتا تو آج دنیا اس بحران کا شکار نہ ہوتی۔
جب افغانستان کے مسئلے پر جنیوا مذاکرات شروع کئے تھے تو اس سے قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 23 کے مقابلے میں 116 ممالک کی اکثریت سے اپنی ایک قرارداد میں سوویت یونین کو جارحیت کا مر تکب اور افغانستان کی نجیب حکومت کو غیرقانونی قرار دیا تھا اس لیے افغانستان کی حکومت کو بطور ایک فریق جنیوا مذاکرات میں شریک کرنا ہی درست نہیں تھا۔ پاکستان کے اصولی موقف کو پہلے اقوام متحدہ، امریکہ اور روس نے نظرانداز کرتے ہوئے امریکہ ، سابق سوویت یونین اور اقوام متحدہ نے نہ صرف افغان نجیب حکومت کی وزیر خارجہ عبدالوکیل کو جنیوا مذاکرات میں شامل کیا گیا بلکہ جب پاکستان نے یہ دو تجاویز پیش کیں کہ سابق سوویت فوجوں کے رخصت ہونے کے بعد افغانستان میں عبوری نگران حکومت قائم ہوئی جو یہاں انتخابات کرائے اور اس کے بعد منتخب حکومت کو اقتدار سونپ دے۔
دوسری تجویز یہ تھی کہ یہاں قیام امن اور انتخابات تک اقوام متحدہ کی امن فوج تعنیات کی جائے تو افغان حکومت نے نگران حکومت کی اور سوویت یونین اور اقوام متحدہ نے امن فوج کی تجاویز رد کردیں اور اس کے بعد سوویت یونین کی فوجیں اربوں ڈالر کا اسلحہ نجیب حکومت کو دیکر رخصت ہو گئیں اور یہاں پہلے صدر نجیب کی حکومت کے خلاف افغان مجاہدین کی جنگ رہی اور پھر ایک طویل خانہ جنگی جاری رہی اور اس کے بعد جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو اس کے تھوڑے عرصے بعد نائن الیون کا سانحہ رونما ہوا۔
آج دنیا میں پھر جو صورتحال بن رہی ہے یہ دنیا میں 1962 ء کے کیوبن میزائل بحران سے کہیں زیادہ شدید ہے ۔ واضح رہے کہ کیوبن میزائل بحران 1962 ء میں 16 اکتوبر سے28 اکتوبر تک تقریباً 13 دن جاری رہا تھا مگر یوکرائن کے حوالے سے یہ صورتحال دو ماہ سے جاری ہے اور کچھ پتا نہیں کہ کب اس سے اٹھنے والی چنگاری آتش فشاں میںتبدیل ہو جائے اور اگر ایسا ہوا تو اس آتش فشاں میں پوری دنیا بھسم ہو جا ئے گی اس لیے ڈاکٹر برائیڈن کے آنسووں سے صدر پوٹن کے آنسووں تک کے ساتھ دنیا بھرکے آنسووں کے سفر پر پوری دنیا خصوصاً اقوام متحدہ اور سکیورٹی کونسل کے مستقل اراکین امریکہ، بر طانیہ ، فرانس ، روس اور چین غور رکریں ۔
نا ئن الیون کے تقریباً پانچ ماہ بعد اس موضوع پر میری کتا ب ''سانحہ نیویارک سے سقوط کابل تک'' الحمد پبلی کیشنر لاہور سے شائع ہو کر مار کیٹ میں آگئی تھی غالباً یہ امریکہ اور نیٹو ممالک کے افغانستان پر تباہ کن اور خوفناک حملے کے بعد کم ازکم اردو زبان میں پہلی کتا ب تھی۔
اُس زمانے میں انٹرنیٹ، وغیرہ عام نہیں تھے مگر اس کے باوجود یہ کتاب ہزاروں افراد نے نہ صرف پڑھی بلکہ سینکڑوں افراد نے رابطے بھی کئے۔ اس کتاب میں اگرچہ بہت سی باتیں بیان کی گئی تھیں لیکن د وباتیں ایسی تھیں جو افغانستان کی تاریخ اور ثقافت کے اعتبار سے بہت اہم ہیں۔
ایک یہ کہ راقم الحرف نے یہ کہا تھا کہ دنیا یاد رکھے گی کہ افغانیوں نے امریکہ کی جانب سے اسامہ بن لادن حوالگی کے مطالبے پر صدر بش سے یہ کہا تھا کہ آپ اسامہ بن لادن کے خلاف نائن الیون کے ثبوت لے آئیں کہ اِن واقعات میں اُ سامہ بن لادن ملوث ہیں تو افغانستان کی عدالت میں کھلے عام اِن پر مقدمہ چلائیں گے، پوری دنیا اس مقدمے کی سماعت کو دیکھے اور سنے گی اور انصاف کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا جب کہ امریکہ نے اپنا وہی مطالبہ دہرا یاکہ فوراً اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کیا جائے ۔
اس پر امارات اسلامی افغانستان کے امیر ملا عمر نے یہ تجویز دی کہ کسی تیسرے اور غیر جانب دار ملک میں کھلی عدالت میں اسامہ بن لادن پر عائد امریکی الزامات پر مقدمہ چلاتے ہیں اور آپ وہاں غیر جانبدار عدالت میں اسامہ بن لادن کے خلاف ثبوت پیش کر دیں۔
جرم ثابت ہو گیا تو اِس مجرم کو ہم بھی سزا دے سکتے ہیں یا امر یکہ کے مجرم کو امریکہ کے حوالے کر سکتے ہیں مگر امریکہ نے طالبان کی تما م تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سکیو رٹی کونسل سے پانچ منٹ کے مختصر وقت میں متفقہ طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قرار داد منظور کروا کر دنیا بھر میں کہیں بھی امریکہ پر دہشت گردی کے حملے سے قبل کی بنیاد پر بھی اُس ملک کے خلاف کاروائی کرنے کا کلنگ لائسنس حاصل کر لیا اور پھر افغانستان میں امریکی بی ٹو بمبار طیاروں نے کارپٹ بمبار منٹ کی یعنی بی بمبار طیاروں سے ایسی بمباری کی جیسے زمین پر آگ اور بارود کے قالین بچھا دئیے جائیں مگر افغانیوں نے اپنی روایت کو عزیز رکھا اور اوسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا۔
اِ س کو دنیا کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں نے اِس کتا ب میں یہ لکھا کہ امریکہ کو چاہیے کہ ابھی ہی مذاکرات کر لے کیونکہ تقریباً ہر جنگ کی طرح اس جنگ کا اختتام آخر مذاکرات پر ہوگا اور بدقسمتی سے اٹھارہ برس بعد پھر صدر ٹرمپ نے اس کو تسلیم کیا اور اس پر مکمل عملدر آمد کرتے ہو ئے صدر جو بائڈن نے امریکی افواج کا انخلا کیا مگر یہ انخلا ایک بڑی شکست اور خصوصاً امریکی ، برطانوی ، اسرائیلی اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی شرمناک ناکامی کی صورت میں ہوا اور اس کو برطانیہ نے تسلیم کیا اور بعد میں بر طانوی وزیر نے یہاں تک کہہ دیا کہ اب امریکہ سپر پاور نہیں رہا ، البتہ ایک بڑی طاقت کے طور پر موجود ہے۔
اسی طرح باقی یورپی ممالک نے بھی امریکہ پر تنقید کی جب کہ بھارت میں بھی حزبِ اختلاف اور تجزیہ نگار امریکہ سمیت نیٹو قوتوں پر شدید تنقید کر ر ہے ہیں یعنی پوری دنیا افغانستان پر امریکی اور نیٹو افوج کی پسپائی اور شکست پر حیرت زدہ ہے۔ اب امریکہ میں بھی ایک بڑا حلقہ ایسا ہے جو یہ چاہتا ہے کہ امریکہ اور نیٹو یہ بھی تسلیم کر لیں کہ وہ افغانستان میں جنگ ہارے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ ایسا کیو ں ہوا ؟یہ امریکہ ، بھارت، اسرائیل سمیت دنیا کے کئی ممالک کے لیے حیرانی و پریشانی کا سبب ہے ۔
افغانستا ن کی حالیہ قومی اور وطنی حیثیت یا ساخت کی تشکیل، ایران کے بادشاہ نادر شاہ کے بعد افغانستان میں احمد شاہ ابدالی کے بر سراقتدار آنے کے بعد پشتونوں کی حکمرانی کی بنیاد پر قائم ہوئی، احمد شاہ ابدالی 1747 ء سے 1772 ء افغانستان کے باد شاہ رہے اور اُنہوں نے ہندوستان پر آٹھ حملے کئے اور ہندوستان میں مرہٹہ قوت کا خاتمہ کیا جب کہ یہی دور ہے جب انگریز نے 1757 ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ کو اس کے غدار وزیر میر جعفر کے تعاون سے شکست دے کر یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم کی تھی ۔
یہ ایک عجیب تاریخی دوراہا تھا کہ ایک جانب ہندوستان میں شیوا جی مرہٹہ قوت ہندوستان میں ہندووں کی حکومت قائم کرنا چاہتی تھی تو دوسری جانب بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا قبضہ مضبوط کر لیا تھا تو تیسری جانب افغانستان میں احمد شاہ ابدالی کی حکو مت قائم تھی جس نے برصغیر میں مر ہٹوں کی قوت کو توڑ دیا تھا اور یہ آخری بادشاہ تھا جو افغانستان سے ہندوستان آیا تھا۔
احمد شاہ ابدالی اُس وقت اِس پوزیشن میں تھا کہ وہ ہندوستان میں مستقل اور مستحکم حکومت قائم کر لیتا مگر اُس سے ہندوستان کی گر می برداشت نہ ہو سکی اس لیے وہ واپس افغانستان آگیا ورنہ وہ مرہٹوں کی شکست کے بعد بنگال جا کر انگریزوں کو بھی شکست دے سکتا تھا مگر ایسا نہ ہو سکا، پھر جب انگریز برصغیر میں زیادہ مضبوط ہوئے تو اُن کو اگر چہ کروڑوں کی آبادی کے ہندوستا ن کے اندر سے اپنے اقتدار کو کسی سے کوئی خاص خطرہ نہ تھا بلکہ اگر خطرہ تھا تو وہ شمال میں افغانستان اور سنٹرل ایشیا اور یہاں سے آگے روس سے خطرہ تھا۔
یوں 1757 ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال پر قبضے کے بعد میسور اور دیگر علاقوں میں اپنے اقتدار کو پھیلانا شروع کیا۔دوسری جانب 1772 ء کے بعد افغانستان میں کوئی طاقتور بادشاہ نہیں آیا اور پھر اُنیسویں صدی میں تو افغانستان اتنا کمزور ہو گیا کہ جب پنجاب میں راجہ رنجیت سنگھ نے اپنی حکومت قائم کی تو اُ س نے افغانستان سے جنگ کر کے پشاور سمیت کئی علاقے چھین لیے، انگر یزوں نے رنجیت سنگھ کی وفات سے چند مہینے قبل پہلی اینگلو افغان جنگ کے لیے رنجیت سنگھ سے تعاون، حمایت اور فوجی مدد مانگی کہ افغانستان پر حملے کے لیے رنجیت سنگھ انگریزوں کی فوج کو اپنی ریاست سے گزر کر کابل پر حملے کا راستہ فراہم کرے۔
1839 ء میں افغانستان پر حملہ سے قبل انگریزوںکا ایک اعلیٰ سطح کا وفد لاہور آیا جس کا رنجیت سنگھ نے بہت شاندار استقبال کیا مگر مذاکرات میں انگریزوں پر واضح کر دیا کہ وہ اپنی دس پندرہ ہزار فوج کے ساتھ طورخم کی جانب سے انگریزوں کی حمایت اور مدد کے لیے کابل پر حملہ کرے گا اور اس سکھ لشکر میں علامتی طور پر وہ دس بار انگریز فوجی افسر بھی شامل کر لے گا مگر بیس با ئیس ہزار کی انگریزی فوج کو اپنی سلطنت کی حدود سے گزرنے نہیں دے گا اور اِس کے لیے راجہ رنجیت سنگھ نے تجویز پیش کی کہ انگریز اپنی بیس بائیس ہزار فوج کے ساتھ کراچی سے سندھ اور پھر بلوچستان سے گذار کر قندھار کے راستے افغانستان پر حملہ آور ہو، اور یوں سکھ اور انگریز فوج پورے افغانستان پر قبضہ کر لے اور جب قبضہ ہو جائے تو سکھ فوج واپس پنجا ب آجائے گی۔
اُس وقت بلوچستان پر خان آف قلات میر محراب خان شہید کی حکومت تھی اِ س تجویز کو انگریزوں نے قبول کر لیا اور اسی پروگرام کے مطابق 1839 ء میں پہلی برطانوی افغان جنگ ہوئی اور انگریزوں نے رنجیت سنگھ کی بھرپور حمایت اور مدد سے افغانستان پر قبضہ کر لیا اور فتح کے بعد وعدے کے مطابق سکھ فوج واپس پنجاب آگئی جب انگریزی فوج بلوچستان کے علاقے سے افغانستان پر حملے کے لیے گزر رہی تھی تو یہاں بلوچ قبائل نے اِن فوجوں پر گو ریلا طرز کے حملے کئے اور چند فوجیوں کو نقصان پہنچایا تھا۔ افغانستان پر قبضہ مستحکم کرنے کے بعد فاتح انگریز جنرل نے بمبئی میں مقیم وائسرائے سے رابط کر کے بلوچستان پر حملے کی اجازت لے لی اور بلوچستان میں میر محراب خان کو شہید کر دیا، پہلی برطانوی افغان جنگ میںفتح کے بعد انگریزوں نے افغانستان کی قبائلی اسلامی ثقافت کا درست انداز ہ نہیں کیا۔
افغانستان کی فتح کے بعد وہاں کے عوام یہ سمجھے تھے کہ انگریزی فوجیں سابق افغان بادشاہ (شاہ شجاع )کو یہاں اقتدار میںلانے کے بعد اُس کی حکومت مستحکم ہو نے پر واپس چلی جائیں گی کیونکہ سکھ فوجیں تو فوراً ہی واپس چلی گئی تھیں لیکن ہوا یہ کہ یہاں انگریزوں کی جو فوج تھی اُس کے افسران تو انگریز تھے مگر فوجی ہندوستانی تھے،انگریزوں نے تھوڑی مدت بعد کوئی دس ہزار فوج ہندوستان واپس بھیج دی، مگر پھر انگریز جرنیلوں نے یہ محسوس کیا کہ جو ساڑھے بارہ ہزار ہندوستانی فوج افغانستان میں موجود ہے یہ سپاہی اپنے بیوی بچوں سے دور مطمئن نہیں ہیں۔
اس لیے انگریزوں نے حکم دیا کہ ان فوجیوںکے بیوی بچوں کو افغانستان لایا جائے۔ اس پر افغان یہ سمجھے کہ انگریز افغانستان کو مستقل اپنے قبضے میں رکھنا چاہتا ہے۔ یوں 1842 ء کے موسم سرما میں جب افغانستان میں سردی، برفباری عروج پر تھی تو افغانیوں نے انگریز فوجوں کے خلاف جنگ شروع کر دی اور پوری ساڑھے بارہ ہزار فوج اور افسران کو قتل کر دیا اور صرف ایک انگر یز میڈیکل ڈاکٹر برائیڈن کو زندہ چھو ڑا جو بہت بری حالت میں جلال آباد سے پشاور پہنچا۔افغانیوں نے ڈاکٹر برائیڈان کو اس لئے زندہ چھوڑا تھا کہ وہ بمبئی میں جا کر افغانستان میں عبرتناک شکست کا آنکھوں دیکھا حال بتا سکے۔
اگر چہ 1842 ء میں افغانستان دوبارہ آزاد ہو گیا مگر 1839 ء میں افغانستان پر بر طانوی حملے کے بعد روس کی زار بادشاہت نے اس برطانوی حملے کو سلطنتِ روس کے لیے خطرہ سمجھا تھا اور اپنی دفاعی لائن کو بڑھاتے ہو ئے سنٹرل ایشیا ترکستان یعنی آج کی وسطیٰ ایشیائی ریاستوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔
دوسری جانب 1842 ء کی عبرتناک شکست سے انگریزوں کوسیاسی، نفسیاتی طور پر شدید نقصان پہنچا تھا ۔ یہ درست ہے کہ احمد شاہ ابدالی کے بعد کسی افغان بادشاہ نے برطانوی ہندوستان پر حملہ کرنے کا ارادہ یا کوشش نہیں کی تھی مگر اس شکست کی وجہ سے یہ اندیشے پیدا ہوگئے تھے کہ کسی بھی موقع پرکوئی ہندوستان کی کوئی مقامی بغاوت افغانستان کو برطانوی ہندوستان پر حملے کی دعوت دے سکتی ہے جیسے 1526 ء میں ابراہیم لودھی کے خلاف راجپوتوں کے مہاراجہ رانا سانگا نے پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی تھی پھر پہلی برطانوی افغان جنگ میں انگریز فوج کے ساڑھے بارہ ہزار ہندوستانی فوجیوں کی ہلاکت سے انگریزکی ہندوستانی فوج کے حوصلے بھی پست ہوئے تھے اس لیے اب انگریزوں کی کوشش تھی کہ وہ زیادہ تیاری کے ساتھ افغانستان پر حملہ کرے۔
انگریزوں کی یہ خوش قسمتی رہی کہ 1839 ہی میں پنجاب کی سکھ سلطنت کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا انتقال ہو گیا اور پھر مہاراجہ رنجیت سنگھ کا خاندان اقتدار کی رسہ کشی میں الجھ گیا اور اسی دوران اِنہوں نے انگریزی علاقے پر حملہ کر دیا اور اس جنگ میں فتح کے بعد 1845 ء میں انگریز نے پنجاب پر بھی قبضہ کر لیا۔
اب برٹش انڈیا کی سرحدیں براہ راست افغانستان سے مل گئیں اور انگریزوں نے یہاں سرحد تک دفاعی اعتبار سے تعمیرات کرنا شروع کیں مگر اب خصوصا 1860 ء تا 1864 ء کی امریکی خانہ جنگی کے بعد یہاں برصغیر میں انگریز اپنی پوزیشن کو بہت مضبوط اور مستحکم کرنا چاہتا تھا اور یوں پہلے 1845 ء میں انگریز نے بنگال اور دوسرے ہندوستانی علاقوںسے بھرتی کئی گئی فوج سے پنجاب میں سکھوں کو شکست دی، اس کے بعد یہاں پنجاب سے ایک مضبوط فوج تشکیل دی جس نے 1857 ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کو یہ جنگ جیت کر دی۔
اب انگریز پورے ہندوستان کا مالک تھا اور اپنی بہترین اور مضبوط بحریہ کی وجہ سے برطانیہ روس کی زار سلطنت سے زیادہ طاقتور تھا مگر افغانستان جس کے تعلقات روس سے بھی تھے اس لیے یہاں خشکی کے راستے انگریزوں کو جنگ کے اندیشے تھے اور ایسی کسی جنگ میں اگر روس بھی شامل ہو جاتا تو یہ بر طانوی ہند کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی تھی۔
یوں انگریز نے بہت ہی بہتر منصوبہ بندی اور حکمت ِ عملی کے ساتھ دوسری اینگلو افغان جنگ 1878 میں افغانستان پر حملہ کیا اور فتح کے بعد یہاںبرطانوی مفادات کے تحفظ کو تسلیم کرنے والی حکومت اور بادشاہت سے معاہدے کر کے انگریز نے اپنی فوج واپس ہندوستان بلوالی اور طے پایا کہ افغانستان کی خارجہ پالیسی اور دفاعی امور کے لیے افغان حکومت انگریزوں کی مشاورت اور اجازت کی پا بند رہے گی اور اس کے بدلے انگریزوں نے افغانستان کی حکومت کو ایک معقول رقم سالانہ سبسڈی کے طور پر دینا شروع کر دی یعنی انگریز نے ماضی کے حکمرانوں کی طرح پانی پت میں دفاعی جنگ کی پالیسی کے بجائے افغانستان کی سرحد کے پار اپنے دفاع کو مستحکم کر لیا۔ 1878 ء سے 1919 ء تک یعنی 41 سال تک افغانستان میں انگریز مفادات کی نگران حکومت قائم رہی جو اپنی داخلی خودمختاری کے ساتھ آزاد تھی ۔
اس دوران افغانستان نے سنٹرل ایشیا ایران اور برطانوی ہندوستان کہیں کوئی مداخلت نہیں کی ، یہاں تک کہ پہلی عالمی جنگ1914 ء تا1918 ء کے دوران بھی افغانستان نے انگریز سے کئے گئے وعدے نبھائے مگر افغانستان کو اس کا کوئی صلہ نہیں دیا۔ اس پر صورتحال اُس وقت مختلف ہوئی جب غازی امان اللہ اقتدار میں آئے اور اُنہوں نے انگریز کی سالانہ سبسڈی کے معاہدوں کو ٹھکراتے ہوئے افغانستان کے دفاعی اور خارجی امور میں بھی آزادی کا اعلان کر دیا اور یوں 1919 ء میں تیسری برطانوی افغان جنگ ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم میں ہندوستان کے13 لاکھ فوجی انگریز کی خاطر لڑے تھے پھر چند دن پہلے ہی جلیانوالہ باغ میں انگریز نے قتل عام کیا تھا۔ تیسری برطانوی افغان جنگ کے بعد غازی امان اللہ نے لینن اور اسٹالن سے رابطے کرتے ہوئے روس سے طیارے اور دیگر اسلحہ بھی حاصل کیا تھا۔
1929 ء میں جب ہمارے یہاں قائداعظم نے مشہور چودہ نکات پیش کئے تھے تو انگریزوں نے افغانستان کے اس بادشاہ کے خلاف سازش کر کے اس کا تختہ الٹ دیا اور پھر آخری بادشاہ ظاہر شاہ کے والد محمد نادر شاہ افغانستان کے بادشاہ بنے جو 1933 ء تک یعنی صرف چار سال بادشاہ رہے۔
اس دور میں دنیا میں عظیم عالمی کساد بازاری رونما ہوئی برصغیر کی آزادی کی تحریک کے حوالے سے لندن میں تین گولز میز کانفرنسیں ہوئیں اور افغانستان میں 1933 ء میں ظاہر شاہ اقتدار میں آئے جنہوں نے افغانستان کی بفر اسٹیٹ کی حیثیت کو برقرار رکھا، اُن کا یہ ابتدائی دور نہایت خطرناک تھا کیونکہ عالمی جنگ اور کساد بازاری سے یورپ شدید بحران کا شکار تھا اور ایک جانب سوویت یونین میںاسٹالن کی مضبوط آمریت تھی تو دوسری جانب جرمنی میں ہٹلر مضبوط ہو رہا تھا اور پھر جب 1939 ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو پہلے سوویت یونین کے اسٹالن اور جرمنی کے ایڈولف ہٹلر نے آپس میں اتحاد کرتے ہوئے پولینڈ کو تقسیم کر لیا ۔
یہ صورتحال افغانستان میں 6 سال قبل 1933 ء میںاقتدار میں آنے والے نئے بادشاہ ظاہر شاہ کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا کیونکہ سوویت یونین افغانستان کا ہمسایہ تھا جب کہ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دیگر یورپی ممالک جو جرمنی کے خلاف اتحاد میں شامل تھے مگر ظاہر شاہ کی خوش قستمی کہ پھر جرمنی نے سوویت یونین پر چڑھائی کر دی اور سوویت یونین اتحادیوں کی صف میں شامل ہو گیا۔ پھر ظاہر شاہ 1973 ء تک افغانستان کے بادشاہ رہے جب سردار دائود خان نے اُن کا تخت الٹ دیا اور پھر 1979-80 ء میں سوویت یونین کی مداخلت ہوئی جو 1988 ء میں جنیوا معاہد ے کے بعد ختم ہوئی۔
اسی سال 17 اگست کو صدر جنرل ضیاالحق ، چیرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل اختر عبدالرحمن، امریکی سفیر Arnold Lewis Raphel رافیل، ملٹری اٹاچی Herbert M Wasoom رابرٹ سمیت 28 اعلیٰ فوجی افسران جان بحق ہوئے، 1991 ء میں سوویت یونین بھی ٹوٹ گئی، یہ وہ دور ہے جب سابق سوویت یونین میں گوربا چوف کی معاشی اور جمہوری اصلاحات،گلاسنیس اور پرسٹرئیکا کے نفاذ کے بعد سوویت یونین بکھر چکی تھی اور اُس کی 15 ریا ستوں نے آزاد ممالک کی حیثیت سے اقوام متحدہ کی رکنیت بھی حاصل کر لی تھی، روس اُس وقت تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا تھا، تب روس کے صدر بورس یلسن تھے۔
1988 ء میں سابق سوویت کی کرنسی روبل کی قمیت ڈالر کے برابر تھی مگر روس کے قیام کے بعد 1992 ء میں ایک ڈالر 419 روسی روبل کا ہو گیا اور اس کی قیمت تیزی سے گرنے لگی۔ 1996 ء میں ایک ڈالر 5900 روسی روبل کا ہو گیا اس سے امریکہ کو بھی تشویش لاحق ہو گئی کہ جدید ایٹمی ہتھیاروں اور بڑی فوجی قوت کا حامل روس اگر شدید معاشی بحران کے نتیجے میں عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے تو اس سے پوری دنیا کے امن کو خطر ہ لاحق ہو جائے گا۔ یوں امریکہ کی سفارش پر آئی ایم ایف نے روس کو 1998 ء میں 23.6 بلین ڈالر کے ایمرجنسی قرضے جاری کئے جس کو روسی حکام نے شفاف طریقے اور بہتر منصوبہ بندی سے استعما ل کرتے ہوئے ملک کو مستحکم کیا۔
اسی دور میں جہاں دنیا بھر کے سابق کیمونسٹ ممالک بحرانوں سے گزرے اور بڑی تباہی اور بربادی کے بعد اکثر نے خود کو یورپی یونین اور نیٹو میں شامل کر دیا وہاں چین میں بھی صدر لی شیان نیان کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد 1989 ء میں 15 اپریل سے 4 جون 1989 ء بیجنگ کےTiananmon Square تیانانمون چوک پر اسٹو ڈنٹ نے حکومت کے خلا ف شدید احتجاج کیا جو جلد ہی چین کے چار سوشہروں میں پھیل گیا۔ یہ اسٹوڈنٹ ملک میں آزادیِ اظہار، آزادی ِ صحافت ، جمہوریت اور احتساب کے مطالبات کر رہے تھے۔
اُس وقت جب سابق سوویت یونین بکھرنے کے قریب تھا اور گورباچوف کی آزاد اقتصادی ، جمہوری اور آزادیِ اظہار کی اصلاحات نافذ العمل ہو رہی تھیں تو ایسی صورت میں چین میں ایسے شدید احتجاج سے دنیا خصوصاً مغربی دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ سابق سوویت یونین سے پہلے چین سے بھی کیمونزم رخصت ہو جائے گا۔
ایسے موقع پر وزیر اعظم لی پنگ نے چین میں مارشل لا نافذ کر کے بیجنگ میں ٹینکوں سمیت300000 پیپلز لبریشن آرمی طلب کر لی اور سختی سے احتجاج کو کچل دیا۔اس دوران سینکڑوں اسٹو ڈنٹ ہلاک اور ہزاروں زخمی اور گرفتار ہوئے۔ صدر یانگ شان کون کے دور میں یہ مار شل لا 20 مئی 1989 ء 10 جنوری 1990 ء تک نافذالعمل رہا ۔ واضح رہے کہ اُس وقت چین نے ابھی اتنی ترقی اور مضبوطی حاصل نہیں کی تھی۔ ساڑھے سات مہینوںکے مارشل لا کے دوران ہی چین میں سیاسی اقتصادی اصلاحا ت کا عمل شروع ہوا۔ اِن کے ہاں بہبود آبادی کی ون چائلڈ پالیسی سختی سے نافذ العمل ہوئی تھی، جس پر امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، یورپ اور جاپان سب ہی خندہ زن تھے۔
مگر یہاںسے ہی چین نے کمال ہوشیاری مستقل مزاجی یکسوئی اور بہترین منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے بہت متوازن اور مستحکم ترقی کی، جبکہ سابق سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد 1999 ء میں حالیہ روس قدرے سنبھلنے لگا تو دوسری جانب امریکہ جلد از جلد مشرقی یورپ مشرق ِ وسطیٰ افریقہ، لاطینی امریکہ میں سابق سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پیدا ہو نے والے خلا کو پُر کرنے کے لیے نہایت تیز رفتاری سے اقدامات کر رہا تھا کیونکہ اب امریکہ واقعی دنیا کی واحد سپر پاور تھا اور اُس کی پشت پر فرانس، برطانیہ سمیت تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک کھڑے تھے اور بھارت بھی امریکہ کا قریبی دوست بن چکا تھا اور امریکہ نے نہ صرف پاکستان سے آنکھیں پھیر لی تھیں بلکہ افغانستان پر کروز میزائل بھی داغے تھے۔
اسی سال پاکستان اور بھارت کے درمیان کارگل کی جنگ بھی ہوئی تھی اور بعد میں نواز شریف کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تھا اور صدر جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آگئے تھے، اس کے ٹھیک دو سال بعد نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا، اور پھر امریکہ پوری دنیا کی سیاسی و عسکری حمایت اور طاقت کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا اور ساتھ ہی مڈل ایسٹ میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے کاروائیاں کیں، اسے نیٹو کی فوجی مدد کے ساتھ اقوام متحدہ کی جانب سے پوری اخلاقی اور سیاسی حمایت حاصل تھی ، جبکہ اسی دوران ایک طرف روس دوبارہ جدید خلائی ٹیکنالوجی اور اسلحہ سازی کے شعبوں میں مستحکم اور مضبوط ہو رہا تھا تو ساتھ ہی چین صنعتی اقتصادی میدان میں امریکہ کے مقابل آرہا تھا، مگر امریکہ تقریباً ایک ارب ڈالر یومیہ کے خرچ کے ساتھ افغانستان ، عراق اور مشرقِ وسطیٰ میں فوجی کاروائیوں میں مصروف تھا تو 2014 ء یعنی آج سے تقریباً آٹھ سال پہلے جب افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج مقیم تھی پاکستان میں دہشت گردی عروج پر تھی۔
بھارت، امریکہ کے ساتھ اُس کے اہم اتحادی کے طور پر سامنے آکر پاکستان کے خلاف خطرناک اقدامات کر رہا تھا کہ 29 اپریل 2014 ء کو پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل مرحوم نے یہ تاریخی بیان دیا ِکہ آج کے دن آپ میری اس بات کو لکھ لیں کہ جلد تاریخ میں لکھا جائے گا کہ پاکستان نے امریکہ کی مدد سے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دی، پھر یہ بھی لکھا جا ئے گا کہ پاکستان نے افغانستان میں امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکست دے دی۔
اُس وقت جنرل حمید گل کی یہ باتیں جو، اب ریکارڈ پر موجود ہیں (مجذوب کی بڑھ) معلو م ہو رہی تھیں مگر آج حیرت ہوتی ہے کہ واقعی 15اگست 2021 ء کو امریکہ نے جس طرح افغانستان سے انخلا کیا ہے وہ بظاہر شکست سے کسی طرح کم نہیں تھا، یہ سوال امریکہ سمیت پوری دنیا میں بھی اور تاریخ میں بھی ہمیشہ اسی طرح گونجتا رہے گا ، جیسے 1842 ء میں پہلی برطانوی افغان جنگ میں برطانیہ کی شکست پر گونجا تھا، واضح رہے کہ 15 اگست 2021 ء کو افغانستان سے امریکہ اور نیٹو افواج کے اس طرح انخلا پر امریکی صدر جو بائیڈن تقریر کرتے ہوئے رو پڑے تھے اور صدر جو بائیڈن کا یہ عمل بھی امریکی عوام کی اکثریت کو ناگوار گزرا تھا کہ امریکہ جسے وہاں کے عوام اب بھی دنیا کی واحد سپر طاقت سمجھتے ہیں، وہ اپنے صدر کو روتا دیکھنا پسند نہیں کرتے۔
جو بائڈن کا موقف یہ ہے کہ افغانستان سے فوجوں کے انخلا کا فیصلہ اور اس کے لیے ٹائم فریم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیا تھا اور انہوںنے معاہدے کو پورا کیا، یہاں تک تو جو بائڈن کی بات درست مگر جہاں تک فوجوں کے انخلا کے ٹائم ٹیبل اور طریقہ کار کی بات ہے تو جو بائڈن اس فوجی انخلا سے ڈونلڈ ٹرمپ کے شیڈول سے اختلاف کرتے ہوئے چند دنوںکی مہلت چاہتے تھے اور یہ اعلان بھی کر چکے تھے کہ فوجوں کا مکمل انخلا 11 ستمبر 2021 ء کو ہو، جس کو طالبان نے قبول نہیں کیا تھا مگر وہ تھوڑی سی اضافی مدت کی خاطر بڑی جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے مگر یہی چند روزہ تاخیری فوجی انخلا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مہنگا پڑا ،کیونکہ جس طرح بڈ گرام اور کابل سے امریکی افواج کا انخلا ہوا ہے اور جس طرح اربوں ڈالر کا اسلحہ یہاں طالبان کے ہاتھ لگا وہ واقعی امریکہ کی شکست کے مترادف ہے، ایسا کیوں ہوا ؟
یہ امریکی منصوبہ بندی و حکمت ِ عملی کی ناکامی تھی جس کی وجہ سے امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچا ۔ یہ ایسا ہی نقصان تھا جیسا اس سے قبل سائیگوان ویتنام سے فوجی انخلا کے وقت ہوا تھا۔ اگرچہ آج ویتنام جو چین اور روس کی مدد سے امریکہ کو شکست دے کر آزاد ہوا تھا۔
آج روس اور چین کے مقابلے میں امریکہ کے زیادہ قریب ہے، مگر اس قربت کی تشکیل میں تقریباً 45 بر س لگے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر گوربا چوف جن کو سوویت یونین میں اصلاحات پر بعد میں نوبل پرائز دیا گیا اور مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب دی ہنڈرڈ ( سو عظیم شخصیات ) میں 1990 ء کے بعد کے ایڈیشن میں شامل کیا اگر وہ بھی اِن اصلاحات کو چین کی طرح بتدریج متعارف کرواتے تو شائد روس شدید اور بدترین اقتصادی سیاسی بحران سے نہیں گزرتا مگر پھر بھی یہ صدر پوٹن اور روسی عوام کی کامیابی ہے کہ اُنہوں نے دوبارہ خود کو مضبو ط کر لیا ہے۔
لیکن اگر افغانستان کو دیکھیں جو برطانیہ کے بعد سابق سوویت یونین کی جارحیت کا شکار ہوا اور پھر امریکہ اور نیٹو افواج نے یہاں فوجی ایکشن کیا اور امریکہ نے مدر آف آل بم تک گرایا، اب امریکہ نے یہاں سے فوجی انخلا کے بعد نہ صرف امداد روک لی ہے اور جس امداد کا اقوام متحدہ نے وعدہ کیا ہے وہ بھی اپنی طرز کے انسانی حقوق سے مشروط کر دی اور ساتھ ہی افغانستان کے اپنے اثاثے بھی منجمد کر دئیے ہیں بلکہ 29 جنوری 2022 ء کی بعض اطلاعات کے مطابق امریکہ نے اپنے ہاں افغانستان کا سفارت خانہ بھی بند کر دیا ہے جب کہ افغانستان سے یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ وہاں بھوک اور غربت کی وجہ سے اموات شروع ہو گئی ہیں اور کچھ لوگ اپنے خاندان کے لوگوں کو بچانے کے لیے اپنے گردے فروخت کر رہے ہیں، یوں دنیا میں افغانستان کے حوالے سے انسانی حقوق اور سیاست ایک شدید ابہام کا شکار ہیں۔
مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ 79 سالہ امریکی صدر جوبائڈن جو ایک جانب روس سے یوکرین کے مسئلے پر الجھے ہوئے ہیں اور یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ اگر روس نے یوکرین کے خلاف فوج کشی کی تو یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے خطرناک عالمی مسئلہ ہو گا۔ دوسری جانب وہ چین سے ساوتھ چائنہ سی میں تا ئیوان کے مسئلے پر بھی الجھے ہوئے ہیں، واضح رہے کہ جب جولائی 1971 ء میں پاکستان سے امریکی سیکرٹری ہنری کسنجرکے خفیہ دورہِ چین کے بعد امریکہ اور چین کے تعلقا ت بحال ہوئے تو امریکہ نے چین کے اس دعویٰ کو تسلیم کیا کہ اصل چین '' مین لینڈ چین'' ہی ہے اور تائیوان جس کو اس چین کی جگہ 1945 ء سے 1971 ء تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی رکنیت کے ساتھ سکیورٹی کونسل میں ویٹو پاور بھی دیا گیا تھا۔
اُس تائیوان سے یہ سب کچھ واپس لے کر چین کو دے دیا گیا اور 1972 ء سے چین نہ صرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا رکن ہے بلکہ وہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا مستقل اور ویٹو پاور کا حامل رکن بھی ہے اور چین نے اپنا سب سے پہلا ویٹو بنگلہ دیش کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے کے خلاف اُس وقت تک استعمال کیا تھا جب تک سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت سے شملہ مذاکرات کی بنیاد پر شملہ معاہدہ نہیں کر لیا اور اس کے بعد بنگلہ دیش کو خود پاکستان نے تسلیم کر لیا۔ جہاں تک تائیوان کا تعلق ہے تو اصولی طور پر 1971-72 ء میں یہ تسلیم کر لیا گیا کہ تائیوان چین ہی کا ایک حصہ ہے مگردنیا کے تقریباً 16 ملکوں نے تائیوان کو آزاد ملک تسلیم کر رکھا ہے مگر معاہدے کے مطابق اِن میں امریکہ شامل نہیں مگر اب صورت یہ ہے کہ یہاں بھی جنگ کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہاں افغا نستان کاکیا تاریخی کردار ہے ؟ تو یہی کہا جا سکتا ہے جب آج افغانستان کو امریکہ سمیت سبھی ممالک (عظیم سلطنتوں کا قبرستان) تسلیم کر رہے ہیں تو یہاں اب دنیا میں روس، چین، امریکہ، بھارت، سعودی عرب ، ایران، یمن، مشرق وسطیٰ،سوڈان، اسرائیل، ایتھوپیا، پاکستان کے درمیان ابھی اور آئندہ جو بھی خانہ جنگی ہوتی ہے اور بقول صدر جو بائیڈن اگر دوسری جنگ عظیم سے زیادہ بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو یہ حقیقت ہے کہ اگر 1988 ء کے جینوا معاہدہ کے وقت انصاف کے اصولوں کو مد نظر رکھا جاتا اور سوویت یونین کی فوجوں کی رخصتی کے بعد پاکستان کی مخلصانہ تجاویز پر عمل کیا جاتا تو آج دنیا اس بحران کا شکار نہ ہوتی۔
جب افغانستان کے مسئلے پر جنیوا مذاکرات شروع کئے تھے تو اس سے قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 23 کے مقابلے میں 116 ممالک کی اکثریت سے اپنی ایک قرارداد میں سوویت یونین کو جارحیت کا مر تکب اور افغانستان کی نجیب حکومت کو غیرقانونی قرار دیا تھا اس لیے افغانستان کی حکومت کو بطور ایک فریق جنیوا مذاکرات میں شریک کرنا ہی درست نہیں تھا۔ پاکستان کے اصولی موقف کو پہلے اقوام متحدہ، امریکہ اور روس نے نظرانداز کرتے ہوئے امریکہ ، سابق سوویت یونین اور اقوام متحدہ نے نہ صرف افغان نجیب حکومت کی وزیر خارجہ عبدالوکیل کو جنیوا مذاکرات میں شامل کیا گیا بلکہ جب پاکستان نے یہ دو تجاویز پیش کیں کہ سابق سوویت فوجوں کے رخصت ہونے کے بعد افغانستان میں عبوری نگران حکومت قائم ہوئی جو یہاں انتخابات کرائے اور اس کے بعد منتخب حکومت کو اقتدار سونپ دے۔
دوسری تجویز یہ تھی کہ یہاں قیام امن اور انتخابات تک اقوام متحدہ کی امن فوج تعنیات کی جائے تو افغان حکومت نے نگران حکومت کی اور سوویت یونین اور اقوام متحدہ نے امن فوج کی تجاویز رد کردیں اور اس کے بعد سوویت یونین کی فوجیں اربوں ڈالر کا اسلحہ نجیب حکومت کو دیکر رخصت ہو گئیں اور یہاں پہلے صدر نجیب کی حکومت کے خلاف افغان مجاہدین کی جنگ رہی اور پھر ایک طویل خانہ جنگی جاری رہی اور اس کے بعد جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو اس کے تھوڑے عرصے بعد نائن الیون کا سانحہ رونما ہوا۔
آج دنیا میں پھر جو صورتحال بن رہی ہے یہ دنیا میں 1962 ء کے کیوبن میزائل بحران سے کہیں زیادہ شدید ہے ۔ واضح رہے کہ کیوبن میزائل بحران 1962 ء میں 16 اکتوبر سے28 اکتوبر تک تقریباً 13 دن جاری رہا تھا مگر یوکرائن کے حوالے سے یہ صورتحال دو ماہ سے جاری ہے اور کچھ پتا نہیں کہ کب اس سے اٹھنے والی چنگاری آتش فشاں میںتبدیل ہو جائے اور اگر ایسا ہوا تو اس آتش فشاں میں پوری دنیا بھسم ہو جا ئے گی اس لیے ڈاکٹر برائیڈن کے آنسووں سے صدر پوٹن کے آنسووں تک کے ساتھ دنیا بھرکے آنسووں کے سفر پر پوری دنیا خصوصاً اقوام متحدہ اور سکیورٹی کونسل کے مستقل اراکین امریکہ، بر طانیہ ، فرانس ، روس اور چین غور رکریں ۔