کوچۂ سخن
غزل
کارِ اندوہ گری، وحشتِ ہجراں، سائے
میرے ماحول میں رہتے ہیں فراواں سائے
بو گئی یاد مرے دل کی سمادھی پہ گلاب
رقص کرتے ہیں سرِ دیدۂ حیراں سائے
ہو رہا ہے کسی وحشت کا درِ دل پہ نزول
اب کریں گے میری آنکھوں میں چراغاں سائے
جسم کا نوحہ اٹھائے ہوئے سسکارتے ہیں
پسِ زندانِ کوئے اہلِ خراباں سائے
اب کے میں نے بھی شفا یاب کہاں ہونا ہے
پڑ چکے مجھ پہ ترے غم کے نمایاں سائے
حسرتِ دیدۂ وا، آہِ دلِ آوارہ
ماتمِ روحِ بریدہ، تنِ رقصاں، سائے
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
زمامِ وقت کی گردش کو ٹالتا جائے
وہ اک نظر مری کھڑکی پہ ڈالتا جائے
مرے وجود میں اُترے ہر ایک نشتر کو
اب آگیا ہے تو آکر نکالتا جائے
بس اک نظر یونہی سگریٹ کو ہاتھ میں تھامے
مری کتاب کے صفحے کھنگالتا جائے
کبھی کبھی مجھے دیکھے شریر نظروں سے
کبھی کبھی تو مرا دم نکالتا جائے
کسی کسی کو یہ لہجہ نصیب ہوتا ہے
کہ لفظ لفظ نگینوں میں ڈھالتا جائے
بس اک چراغ کی حسرت کہ جو تجلّی سے
مرے نصیب کی ظلمت اُجالتا جائے
یہ لوگ اس پہ ہی ایمان وار کرتے ہیں
جو ٹھوکروں پہ بھی خود کو سنبھالتا جائے
(ایمان قیصرانی۔ ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
غزل
جب تک نہ مرے ساتھ ترا سایہ چلے گا
تب تک یہ سفر میرا بھلا کیسے کٹے گا
توُ عام رفو گر ہے ترے بس میں نہیں ہے
یہ زخمِ جدائی ہے سلیقے سے سلے گا
اب تک تو پلایا ہے اسے آنکھ کا پانی
اب دشت گزارا مری آہوں پہ کرے گا
ہو تیز ہوا جتنی کوئی فکر نہیں ہے
یہ دیپ حسینی ہے بڑی دیر جلے گا
میں اور مری نیند مخالف ہیں غضب کے
اک دیپ مرے بدلے مرے خواب بُنے گا
ساقی نے بڑا ساتھ دیا ہے مرا لیکن
بے کار ترا اور ابھی اور پیے گا
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال)
۔۔۔
غزل
تھکن سفر کی اتارو قبول کر کے مجھے
رسید دینی پڑے گی وصول کر کے مجھے
گلاب کہتے نہیں تھکتے سامنے میرے
جہان والوں پہ ثابت ببول کر کے مجھے
کبھی گناہ کے احساس سے نکلنے دو
دکھاؤ پیار کو زریں اصول کر کے مجھے
وہ دوگھڑی کی رفاقت اڑائے پھرتی ہے
چلے گئے ہیں مسافت کی دھول کر کے مجھے
وہ عنبرینؔ محبت کا ڈھونڈتا ہے ثبوت
جو مسکرانے لگا ہے ملول کر کے مجھے
(عنبرین خان۔لاہور)
۔۔۔
غزل
زہر لگتا ہے، جسے کہتے ہیں آبِ زندگی
کہنہ ہے پھر بد مزہ کیوں ہے شرابِ زندگی
درد کی گہرائیاں ہیں قہقہوں کی اوٹ میں
خواب کی صورت مسلط ہے سرابِ زندگی
زندگی جب روز ہی لیتی رہی ہم سے حساب
حشر میں پھر کس لیے دیں گے حسابِ زندگی
بیشتر متروک الفاظ اور سطریں بے محل
کتنا مشکل ہو گیا ہم پر نصاب زندگی
کس قدر تکلیف دیتا ہے یہ سانسوں کا سفر
موت سے کچھ کم نہیں ہے اضطرابِ زندگی
ہر ورق پر بے رخی، بیچارگی اور بے بسی
میر کے نشتر ہوں یا اپنی کتابِ زندگی
(مزمل بانڈے۔ وادی نیلم)
۔۔۔
غزل
کیسے نکلے جو دب کے بیٹھ گئی
بات دل میں جو سب کے بیٹھ گئی
ایک دیوار بچی تھی گھر کی
وہ بھی بارش میں اب کے بیٹھ گئی
جو کرن ڈھونڈ کے میں لایا تھا
وہ بھی دامن میں شب کے بیٹھ گئی
پھر ہوا کو کرے گی آلودہ
گرد مٹی میں دب کے بیٹھ گئی
اس کی معصومیت بھی افضل جی
چھپ کے پیچھے غضب کے بیٹھ گئی
(افضل چوہان ۔ مظفر گڑھ)
۔۔۔
غزل
بہر سُو جال پھیلائے گئے ہیں
گھنی زلفوں میں الجھائے گئے ہیں
اڑا دی بات کہہ کر ''شکریہ جی''
بڑی جدّت سے ٹھکرائے گئے ہیں
خلش ہر آن بڑھتی جا رہی ہے
بڑی شدّت سے تڑپائے گئے ہیں
بلا نوشی کیا کرتے تھے ، لیکن
پیے بن آج بہکائے گئے ہیں
بہت کمزور ہے اپنا مقدّر
درِ منزل سے لوٹائے گئے ہیں
حسینوں تک رسائی کب ہماری
سو تصویروں سے بہلائے گئے ہیں
ظفر جی بے تکلف دوستی تھی
مگر ہوٹل میں ٹھہرائے گئے ہیں
(ظفر حیات ظفر ۔لیاقت پور)
۔۔۔
غزل
کچھ کتابیں ،تیری یادیں، اک قلم اور شاعری
میں،مرا کمرہ، اندھیرا ،آنکھ نم اور شاعری
یہ اثاثہ ہے مرا اس پر ہی اتراتی ہوں میں
کرب ، وحشت ، اک اذیت تیرا غم اور شاعری
خلد میں حوروں کو ٹھکرا کر کہے گا رب سے وہ
مجھ کو ہے کافی فقط میرا صنم اور شاعری
آخری پیغام تھا اس کا کہ اب راہیں جدا
ساتھ میں تھی بھول جانے کی قسم اور شاعری
(لاریب کاظمی ۔ مانسہرہ)
۔۔۔
غزل
غم میں لپٹی ہو جو تحریر جلا دیتے ہیں
داعیِ امن ہیں شمشیر جلا دیتے ہیں
اپنے جیسے بھی خرابات کہا ں ہیں ملتے
اپنے چہرے سے جو تصویر جلا دیتے ہیں
دشت صحرا کے مسافر کی ضرورت ہی نہیں
مل بھی جائے اسے جاگیر جلا دیتے ہیں
کون جوڑے گا محبت کے نگینے ہم پر
بخت کی ہر لکھی تقدیر جلا دیتے ہیں
قید دنیا میں کوئی کیسے رکھے گا ہم کو
پاؤں کے ساتھ ہی زنجیر جلا دیتے ہیں
جب تبسم نے ہے سیکھا ہی محبت کرنا
بھری نفرت سے ہو تقریر جلا دیتے ہیں
(تبسم فیضی۔منڈی بہاء الدین)
۔۔۔
غزل
یہ جو دکھ رہا ہوں میں اس قدر اجالوں میں
گفتگو بہت کی ہے آپ سے خیالوں میں
آپ کے حوالے سے مجھ کو یاد پڑتاہے
میں کہاں کہاں پہ تھا آپ کے حوالوں میں
آپ گر چلے آؤ تو سبھی کو دکھلاوں
ہو بھلا بیاں کیسے زندگی مثالوں میں
خواب کے جزیروں سے روز پھول چُنتا ہوں
روز بانٹ دیتا ہوں آنے جانے والوں میں
رنگ زندگانی کے کروٹیں بدلتے ہیں
آپ ہی کے ہونٹوں پر آپ ہی کے گالوں میں
(ندیم ناجد۔ خانیوال)
۔۔۔
غزل
جب آنکھیں گھما کر اس نے زلف کو لہرایا
تب کرتا تو کیا کرتا اک ماں کا جایا
اک دل تھا کہ اسے چھو لوں اور اک رب کا ڈر
پھر نیک تمنا جاگی جس نے سمجھایا
جوں جوں ساتھ چلے دل کو سکون ملا لیکن
جب جب اس نے قدم ٹھہرایا جی گھبرایا
پھر نازک سے اک پھول سے اک خوشبو مہکی
جیسے کہ لبوں پر ان کے میرا نام آیا
احسان فراموش تھیں یادیں بھی کہ انہوں نے
جب جس دل میں ٹھکانا پایا اسی کو رلایا
ثانی یہ جدائی بھی ایک قیامت تھی کہ تھی
یہ وہی جانے جس نے اپنا خون بہایا
(جون ثانی۔ چوک اعظم)
۔۔۔
غزل
خانہ خراب اور یہ شعلہ بیاں کے لوگ
آنکھیں نکالتے ہیں مجھے کیوں جہاں کے لوگ
اک بار آ کے دیکھ فقیروں کی بے بسی
بے چین کر رہے ہیں صف دشمناں کے لوگ
پاؤں کے آبلے نہیں تکتا مرے کوئی
چلتے ہی جا رہے ہیں مرے کارواں کے لوگ
اہل ِزباں نہیں نہ سہی کم بھی ہم نہیں
اٹھ اٹھ کے داد دیتے ہیں ہم کو زباں کے لوگ
ارباب وہ کسی سے بھی کرتے نہیں کلام
ملتے نہیں کسی سے ترے آستاں کے لوگ
(ارباب اقبال بریار۔ احاطہ دیوی دیال، گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
نگاہوں کے آگے دھواں ہی دھواں ہے
حقیقت بھی سچ میں فریبِ گماں ہے
بشر کی حیاتی میں رکھا ہی کیا ہے
حیاتِ بشر تو زیاں ہی زیاں ہے
مقید زماں میں ہر اک آدمی ہے
زماں ہی کی حرکت سے قائم مکاں ہے
ہے لفظوں کی دنیا میں ابہامِ معنی
محل شیش جیسا یہ لُغوی جہاں ہے
(شاہ فہد۔کراچی)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی