صبر اور شُکر
شُکر ان چیزوں پر جس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور اﷲ نے ہمیں نواز دیا
انسان بھی بہت عجب ہے، آج تک زندگی کے فلسفے کو سمجھ ہی نہیں پایا، شاید اسی لیے ہم سب بے یقینی اور بے چینی کا شکار ہیں۔ ہر کوئی اپنے آپ سے الجھا ہُوا ہے، مسائل اپنی جگہ سب کے ساتھ ہوتے ہیں ہر انسان کسی نا کسی چیز کی طلب اور سوچ میں مبتلا ہے کہ کیا کرے۔۔۔؟ جس کے پاس دولت ہے وہ اور دولت کمانا چاہتا ہے، جس کے پاس نہیں ہے وہ ہر ذریعے سے حاصل کرنا چاہتا ہے، چاہے حرام ہو یا حلال۔ جس کے پاس اولاد ہے وہ اولاد کے مسائل میں الجھا ہوا ہے، تعلیم دلانے کے لیے پریشان ہے۔ جس کے پاس تعلیم ہے وہ اچھی ملازمت کے لیے سرگرداں ہے۔ ہر شخص زندگی میں الجھا ہُوا ہے اور جو چیز ہماری زندگی میں نہیں ہے وہ ہے صبر اور شُکر۔
صبر ان چیزوں پر جو ہمیں نہ ملیں اور جو مل جانے کے بعد ہم سے لے لی گئیں۔ چاہے دولت ہو، شہرت ہو، اولاد ہو یا پھر مالی آسائش۔ ان سب چیزوں کا ملنا اﷲ کی رضا اور نہ ملنا بھی اس کی مصلحت۔ اﷲ نے ان کے لیے دو درجات رکھے ہیں جو مل گیا اس پر شُکر اور جو نہ ملا اس پر صبر۔ اور یہی زندگی گزارنے کے بہترین درجات ہیں۔
اگر دولت ہے تو آسائش ہے اور زندگی بہترین ہے۔ اور اگر دولت ہے اور صحت نہیں ہے تو دولت بے کار ہے۔ اگر صحت ہے اور آسائش نہیں ہے تو زندگی بے کار۔ سو انسان ہمیشہ کسی نا کسی اضطراب میں ہے لیکن یہ غور نہیں کرتا کہ یہ اُس کا اصول ہے کہ جو مل گیا اس پر شُکر اور جو نہ ملا اس پر صبر اور یہی زندگی کی حقیقت ہے، لیکن انسان اس آسان سی بات پر غور کرنے کے بہ جائے الجھا ہُوا ہے اور نقصان میں ہے۔ جب اُس کا حکم ہے کہ جو ملا ہے اس پر شُکر اور جو نہ ملا، اور جو مل کر چھن گیا اس پر صبر یہی دو درجات ہیں جو زندگی کی آسانی کا ذریعہ ہیں۔
اگر ہم زندگی پر نظر ڈالیں تو اکثر فیصلوں پر ہم پچھتاتے ہیں کہ غلط تھا لیکن اگر شُکر کریں اور دیکھیں کہ اس فیصلے کے کیا اثرات ہیں اور ہم کس چیز سے بچے تو اﷲ آسانیاں اور اطمینان مقدر میں لکھ دیتا ہے۔ یہ اُس کا ارشاد ہے کہ صابرین اور شاکرین کے لیے اعلیٰ درجات ہیں۔
اکثر لوگ اولاد کے لیے ترستے ہیں لیکن اگر ہم ان لوگوں کو دیکھیں جو صاحب اولاد تو ہیں لیکن بچے ذہنی معذور ہیں اور ماں باپ کے لیے امتحان ہے تو پھر اولاد نہ ہونے پر صبر سب سے بہترین درجہ ہے۔ اور یہی اﷲ کا حکم ہے کہ جو ملا اس پر شُکر اور جو نہ ملے اس پر صبر۔ کیوں کہ ہر چیز میں اس کی حکمت ہے اور وہی جانتا ہے کہ انسان کی بھلائی کس میں ہے۔ کیوں کہ جب وہ ستّر ماؤں جتنا چاہتا ہے تو پھر ہمیں تکلیف کیسے دے سکتا ہے، انسان بے صبرا ہے اس لیے غور کرتا ہے، صبر کرتا ہے اور نہ شُکر۔ صبر ان چیزوں پر جو ہم کو نہیں ملیں اور یا مل کر اس نے واپس لے لیں یا جن چیزوں کی خواہش تو تھی وہ حاصل نہ ہوسکیں ان پر صبر کرنا اس کا حکم ہے اور اعلیٰ درجے کی بشارت بھی۔
شُکر ان چیزوں پر جس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور اﷲ نے ہمیں نواز دیا پھر چاہے مال و دولت ہو، اولاد ہو، رشتے ہوں، صحت ہو، عمر ہو، یا پھر دین۔ اور اﷲ پر توّکل یہ سب نعمتیں ملنے پر اﷲ کا شُکر ہمیں فراوانی سے نوازتا ہے اور شاید یہی آسان سا فلسفہ ہماری زندگی میں آسانی اور اطمینان لاتا ہے۔ بہت آسان کہ جو ملا اس پر شُکر اور جو نہ ملا اس پر صبر، پھر اس کے کرم کی تو انتہا ہی نہیں ہے لیکن افراتفری اور بے چینی سے نکل کر اگر غور کریں اور یہ آسان سی بات اور فلسفہ سمجھ لیں تو شاید دنیا اور آخرت دونوں بہت بہترین ہوں۔ اﷲ سب کو اس بات کو سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین