آواز سنے بغیر بھی گفتگو سمجھنے والا اسمارٹ کیمرا
کورنیل یونیورسٹی کے سائنس دان نے لاکٹ کیمرا بنایا ہے جو ٹھوڑی کی حرکت سے گفتگو سمجھ لیتا ہے
کراچی:
فون اور ایمیزون کے وائس اسسٹنٹ ایلسا اور سِری آواز سن کر ہماری مدد کرتے ہیں لیکن اب ایک بصری نظام کی بدولت کسی قسم کی آواز سنے بغیر بھی صرف ٹھوڑی کی حرکات سے معلوم کرسکتا ہے کہ درحقیقت کیا کہا جارہا ہے۔
سری اور ایلکسا وغیرہ آواز سننے میں غلطی کرسکتے ہیں لیکن اب کورنیل یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ویڈیو کیمرے پر مبنی ایک سسٹم بنایا ہے جو مکمل طور پر ہینڈزفری ہے۔ اس سسٹم کا نام اسپی چِن رکھا گیا ہے جو درحقیقت ایک انفراریڈ کیمرا ہے۔
کورنیل یونیورسٹی کے چینگ زینگ اور ان کے شاگرد رؤڈونگ زینگ کا کیمرا گلے میں پہنا جاتا ہے۔ یہ سینے کے اوپری حصے پر رہتے ہوئے ٹھوڑی اور اس کے نیچے کے عضلات کی حرکات کو نوٹ کرتا رہتا ہے۔ اب بولنے والا خواہ سرگوشی کرے یا پھر صرف ہونٹ ہلائے تب بھی وہ اسے محسوس کرلیتا ہے۔
ٹھوڑی اور گلے کی حرکات کو پہلے ایک سافٹ ویئر دیکھتا ہے اور الگورتھم بتاتا ہے کہ خاموشی سے کیا الفاظ بولے گئے ہیں۔ اس کے بعد یہ ہدایات وہاں بھیجی جاسکتی ہیں جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔
تاہم اس سسٹم پر بولنے والے کو کچھ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہلے مرحلے میں اسے 20 افراد پرآزمایا گیا۔ ان میں سے دس افراد کو انگریزی میں گنتی یا سادہ الفاظ بولنے کو کہا گیا ۔ بقیہ دس افراد کو چینی زبان میں 44 سادہ الفاظ کہنے کا کہا گیا۔ کچھ تربیت کے بعد کیمرا انگریزی کے 90 فیصد اور چینی زبان کے 91 فیصد الفاظ بہت اچھی طرح پہچاننے لگ گیا۔
پھر چلتے ہوئے یہی الفاظ دہرائے گئے تو اس کی صلاحیت کم ہوئی کیونکہ ویڈیو میں حلق اور ٹھوڑی کی حرکت درست انداز میں رجسٹر نہیں ہورہی تھی تاہم سائنس دانوں نے کہا ہے کہ بہت جلد سافٹ ویئر کو مزید تربیت دے کر یہ نقص دور کرلیا جائے گا۔
اس پورے نظام کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں نصب ہائی ریزولوشن کیمرا صرف گلے کے عضلات اور ٹھوڑی کے نیچے کے حصے کو دیکھتے ہوئے بولے جانے والے الفاظ کو ریکارڈ کرتا ہے خواہ وہ منہ میں ہی کیوں نہ دہرائے گئے ہوں۔
فون اور ایمیزون کے وائس اسسٹنٹ ایلسا اور سِری آواز سن کر ہماری مدد کرتے ہیں لیکن اب ایک بصری نظام کی بدولت کسی قسم کی آواز سنے بغیر بھی صرف ٹھوڑی کی حرکات سے معلوم کرسکتا ہے کہ درحقیقت کیا کہا جارہا ہے۔
سری اور ایلکسا وغیرہ آواز سننے میں غلطی کرسکتے ہیں لیکن اب کورنیل یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ویڈیو کیمرے پر مبنی ایک سسٹم بنایا ہے جو مکمل طور پر ہینڈزفری ہے۔ اس سسٹم کا نام اسپی چِن رکھا گیا ہے جو درحقیقت ایک انفراریڈ کیمرا ہے۔
کورنیل یونیورسٹی کے چینگ زینگ اور ان کے شاگرد رؤڈونگ زینگ کا کیمرا گلے میں پہنا جاتا ہے۔ یہ سینے کے اوپری حصے پر رہتے ہوئے ٹھوڑی اور اس کے نیچے کے عضلات کی حرکات کو نوٹ کرتا رہتا ہے۔ اب بولنے والا خواہ سرگوشی کرے یا پھر صرف ہونٹ ہلائے تب بھی وہ اسے محسوس کرلیتا ہے۔
ٹھوڑی اور گلے کی حرکات کو پہلے ایک سافٹ ویئر دیکھتا ہے اور الگورتھم بتاتا ہے کہ خاموشی سے کیا الفاظ بولے گئے ہیں۔ اس کے بعد یہ ہدایات وہاں بھیجی جاسکتی ہیں جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔
تاہم اس سسٹم پر بولنے والے کو کچھ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہلے مرحلے میں اسے 20 افراد پرآزمایا گیا۔ ان میں سے دس افراد کو انگریزی میں گنتی یا سادہ الفاظ بولنے کو کہا گیا ۔ بقیہ دس افراد کو چینی زبان میں 44 سادہ الفاظ کہنے کا کہا گیا۔ کچھ تربیت کے بعد کیمرا انگریزی کے 90 فیصد اور چینی زبان کے 91 فیصد الفاظ بہت اچھی طرح پہچاننے لگ گیا۔
پھر چلتے ہوئے یہی الفاظ دہرائے گئے تو اس کی صلاحیت کم ہوئی کیونکہ ویڈیو میں حلق اور ٹھوڑی کی حرکت درست انداز میں رجسٹر نہیں ہورہی تھی تاہم سائنس دانوں نے کہا ہے کہ بہت جلد سافٹ ویئر کو مزید تربیت دے کر یہ نقص دور کرلیا جائے گا۔
اس پورے نظام کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں نصب ہائی ریزولوشن کیمرا صرف گلے کے عضلات اور ٹھوڑی کے نیچے کے حصے کو دیکھتے ہوئے بولے جانے والے الفاظ کو ریکارڈ کرتا ہے خواہ وہ منہ میں ہی کیوں نہ دہرائے گئے ہوں۔