’’ انتقام کی آگ ‘‘ کوئٹہ میں بننے والی پہلی اور آخری فیچر فلم
کوئٹہ کے چندعام شہریوں کی غیرمعمولی کاوش کی دلچسپ رودادجنہوں نے مکمل بے سروسامانی کے فلم بنانے میں کامیابی حاصل کی
کراچی:
تنویراقبال کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ آواز کی دنیا کے شہسوار ہیں۔ الفاظ کی ادائیگی، اردو کے معیاری تلفظ کی درسگاہ ہیں۔
پی ٹی وی کوئٹہ سے خبروں اور دستاویزی پروگراموں میں ان کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا ہے۔ ریڈیو پاکستان کو اپنی زندگی کا ایک لمبا عرصہ دینے کے بعد آج کل ریٹائرڈ زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔لیکن سمعی اور بصری پروگرامز کی پروڈکشن کا اب بھی جنون کی حد تک شوق ہے۔ یو ٹیوب پر اپنے چینل پر وہ کچھ نا کچھ کرتے رہتے ہیں۔
حال ہی میں انھوں نے اپنے ایک دستاویزی پروگرام کا یو ٹیوب لنک بھیجا ۔ اس لنک کے نیچے موجود مختصرتحریر نے ہمیں چونکا دیا'' کوئٹہ میں بننے والی پہلی فیچر فلم'' ۔ کوئٹہ سے تعلق ہونے کے باوجود ماضی قریب تک ہمیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ کوئٹہ میں بھی کبھی کوئی فیچر فلم بنائی گئی تھی۔ کچھ عرصہ قبل خبروں کے ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر اتنا پڑھنے کو ملا تھا کہ کوئٹہ میں ایک فیچر فلم بنائی گئی تھی جس کا نام ـ'' انتقام کی آگ '' ہے۔لیکن زیادہ تفصیل نا ہونے کی وجہ سے دل میں ایک تجسس تھا کہ اس فلم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانا جائے۔
ایسے میں تنویراقبال کے بھیجے ہوئے لنک نے اس تشنگی کو پورا کر دیا۔ تنویر اقبال سے رابطہ کیا اور اُن سے درخواست کی کہ فروری کے دوسرے ہفتہ کے روز Global Movie Day منایا جاتا ہے ( اِمسال 12 فرور ی کو یہ دن منایاگیا )اس حوالے کچھ لکھنے کا ارادہ ہے اگر آپ اس دستاویزی پروگرام کی معلومات کو اخباری آرٹیکل میں ڈھالنے کی اجازت دیں تو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ماضی کی اس گم شدہ حقیقت کے بارے بتایا جاسکتا ہے۔ اُنھوں نے نا صرف اجازت دے دی بالکل تصاویر بھی فراہم کردیں۔
''پاکستان کا دل بلوچستان۔۔بلوچستان کا دل کوئٹہ۔۔اور کوئٹہ کا دل نہیں۔۔مصروف بازار۔۔سب سے مشہور کاروباری مرکز۔۔لیاقت بازار۔اسی لیاقت بازار میں کوئٹہ کا نا صرف ہر شہری جاتا ہے۔ بلکہ باہر سے جو لوگ کوئٹہ آتے ہیں سیاحت کے لیے وہ اس بازار میں نا صرف جاتے ہیں بلکہ بار بار جاتے ہیں۔ کیونکہ اُن کی پسند کی ہر ایک چیز یہاں دستیاب ہے۔
اسی لیاقت بازار میں ایک خان جنرل اسٹور ہوا کرتا تھا، 1970 کے عشرے تک۔ اس جنرل اسٹور کے مالک عبدالرزاق خان تھے۔ عبدالرزاق خان کہنے کو تو ایک دوکاندار تھے، لیکن اُن کے سینے میںایک فنکار کا دل دھڑکتا تھا، اور یہ فنکار اُنھیں مجبور کررہا تھا کہ ایک فلم بنائی جائے۔ انہوں نے اپنے ہم خیال دوستوں کو اکٹھا کیااُن سے مشورہ کیا اور سب نے اتفاق کر لیا کہ سب مل کر ایک فلم بناتے ہیں۔
حالانکہ کہ کوئٹہ میں پہلے ایسی کسی سرگرمی کی کوئی مثال موجود نہ تھی۔ سب سے پہلا مرحلہ کہانی کے انتخاب کا تھا۔ تو ژوب کے علاقے میں ایک مجاہد تھے جو انگریزوں کے خلاف برسرپیکار رہے۔اُن کا نام تھا شیر جان کاکڑ۔ یہ پاکستان بننے سے قبل کوئی آٹھ دس سال پہلے کی بات ہے۔ شیر جان انگریز کی غلامی پر مضطرب رہتے تھے اور اسی کیفیت میں انہوں نے ژوب کے پولیٹیکل ایجنٹ میجر برنس کے دفتر میں گھس کر اسے ہلاک کردیا اور فرار ہوگئے۔
کسی اپنے ہی کی مخبری پر شیر جان گرفتار ہوئے، اُن پر مقدمہ چلا اور اُنھیں مچھ جیل میں پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ 04 اکتوبر1940 کو اُنھوں نے میجر برنس کو ہلاک کیا تھا اور08 دسمبر1941 میں اُنھیں پھانسی پر چڑھایا گیا۔اُن کی شجاعت کی داستان نا صرف تاریخ میں درج ہے بلکہ پشتو ادب میں بھی اُن کی شجاعت اور بہادری کے قصے موجود ہیں ۔ روایت کی جاتی ہے کہ جب اُنھیں پھانسی دی جا رہی تھی تو اُن سے اُن کی آخری خواہش پوچھی گئی۔اس موقع پر شیر جان نے بڑی بے اعتنائی اور کمال بہادری کے ساتھ کہا کہ وہ پھانسی سے پہلے ایک سیگریٹ سُلگانا چاہتے ہیں۔
اسی کہانی کو فلم کا موضوع بنایا گیا اور فلم کا نام تجویز کیا گیا ''انتقام کی آگ''۔اس کے بعد عبدالرزاق خان، عطا شاد سے ملے۔ عطا شاد پاکستان کے نامور شاعر تھے۔ ریڈیو پاکستان کوئٹہ سے اُنھوں نے اپنے کرئیر کا آغاز کیا تھا۔ اُن سے اس فلم کے لیے نغمے لکھنے کی درخواست کی گئی۔
عطا شاد نے ریڈیو اور ٹیلویژن کے لئے ڈرامے بھی تحریر کیے ہیں۔ تو اُنھیںکہانی کے اُتار چڑھاؤ کی تیکنیک سے آگاہی تھی۔ اُنھوں نے یقیناً شیر جان کی کہانی کی ڈرامائی تشکیل میں مدد کی ہو گی۔ اگلا مرحلہ فلم کی موسیقی ترتیب دینے کا تھا۔ عبدالرزاق خان کے ایک دوست تھے خدائے رحیم۔ خدائے رحیم کو موسیقی سے گہرا لگاو تھا، خود بھی گاتے تھے۔ پہلے 'پریشان' تخلص کیا کرتے تھے بعد میں 'خوشحال' تخلص اختیار کر لیا۔ بہرحال نغموں کی موسیقی اور فلم کا بیک گراونڈ میوزک خدائے رحیم نے دیا۔ ایک مسلہ یہ تھا کہ اس فلم کی عکس بندی کون کرے گا۔ کوئٹہ میں اس شعبے کا کوئی پروفیشنل بندہ میسر نہ تھا۔ ایک صاحب تھے اُنھیں 'ماما' کہہ کر بلاتے تھے۔
ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ میں ملازم تھے اور غالباً سٹل فوٹو گرافی میں مہارت رکھتے تھے، اُنھیں اس کام کے لئے تیار کیا گیا۔ اسی طرح ایک صاحب امریکن سینٹر میں ہوا کرتے تھے سعید قریشی اُن کو بھی آمادہ کرلیا گیا کہ وہ اس فلم کی شوٹ کریں گے۔ اس فلم میں کے سب فنکار بھی نئے تھے۔
سب کہ لیے یہ پہلا موقع تھا اور سب کے سب عبدالرزاق خان کے حلقہ احباب کے لوگ تھے۔ فلم میں دو خواتین کے کردار تھے۔وہ دونوں خواتین لاہور سے بلوائی گئی تھیں۔ یوں اس فلم کا آغاز ہوتا ہے کوئٹہ میں پہلی بار نہایت ہی بے سروسامانی کے عالم میں۔ بالکل کم وسائل کے ساتھ لیکن بہر حال وہ فلم تیار ہوئی۔اُس فلم میں جو لوگ شامل تھے اُن سب کے ذہنوں میں کہیں نا کہیںکچھ یادیں تھیں لیکن وقت کی گرد اتنی اُس پر جم چکی تھی کہ سب کچھ دھندلا چکا تھا۔ بہرحال جب اصرار کیا گیا کہ کچھ اپنی یادیں تازہ کریں تو یہ شخصیت موضی میں جھانکنے پر آمادہ ہو گئے۔
٭ آفتاب خواجہ نے اس فلم میں انگریز کرنل کا کردار ادا کیا تھا۔ وہ کہتے ہیںـ ''لیاقت روڑ پر میری دکان تھی۔ کچھ آٹھ دس دکانیں چھوڑ کے خان صاحب کا جنرل اسٹور تھا۔ اُن کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ کوئی فلم بنارہے ہیں۔تو عجیب سا لگا ہم نے کہا کہ یہ دکان دار بندہ فلم بنا رہا ہے وہ بھی کوئٹہ میں بیٹھ کے۔ ایک دن وہ میری دکان پر آگئے۔ کہنے لگے آفتاب بھائی میں فلم بنا رہا ہوںآپ میرے ساتھ کچھ کام کرلیں۔ میں نے کہا یار! مجھے فلم کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔اسٹیج اور ریڈیوکا تو میں خیر کام کرتا رہا ہوں لیکن فلم کا تجربہ نہیں ہے۔
کہنے لگے وہ سب ہو جائیگا آپ جمعہ کو آجائیں۔ میں نے کہا کہ کیا رول ہے، کہنے لگے کے برطانوی فوج کا ایک کرنل ہے اُس فلم میں۔ تو خیر میں راضی ہوگیا۔ بولان ہوٹل میں ہم لوگ گئے، اُنھوں نے وہاں 2 کمرے لیے ہوئے تھے۔ مجھے ایک وردی دی گئی اچھی سجی ہوئی تھی۔
یہ کباڑی سے خریدی گئی تھی۔ سر پر اُنھوں نے ایک سولا ہیٹ پہننے کو دیا۔ میرے پاس ایک پرانا سویٹر تھا کالے رنگ کا اُس کو کھول کر اُس کی اون ہم لوگوں نے کنگھی کرکے اُسے سپلٹ گم کی مدد سے گل مچے لگا لیے۔تو وہاں ہم نے خان صاحب کی ڈائریکشن میں پہلا شاٹ کیا۔ اسکرپٹ وغیرہ تو نہیں تھا وہ بتا دیتے تھے کہ آپ نے یہ ڈائیلاگ بولنا ہے۔ پہلا تجربہ تھا بعد میں خیر بہت اچھا ہونے لگا۔
ریکارڈنگ کے لیے تو میں نے دیکھا کہ دستی کیمرہ ہوتا ہے جو عام طور پر لوگ شادیوں میں استعمال کرتے ہیں۔آٹھ ایم ایم کا وہ اُنھوں نے ٹرائی پوڈ پر لگا یا ہوا تھا۔اور اُس کے پیچھے سعید قریشی اور اُن کے بھائی تھے۔ وہ ریکارڈنگ کرتے تھے۔ لائٹس وغیرہ کے اسٹینڈ بھی لگائے ہوئے تھے۔آٹھ ایم ایم پر فلم بنانا بہت مشکل تھا۔
مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ اتنی باریک سی فلم ہے اسے کیا کریں گے۔ تو انھوں نے مجھے بتایا کہ اس کو ہمblow-upکریں گے35 پر۔ جو کہ بعد میں انھوں نے کیا بھی۔ لاہور گئے تھے یا شاید کراچی لے گئے تھے۔بہت بڑا کام تھا وہ پاکستان میں میرے خیال میں پہلے یہ تجربہ کبھی نہیں ہوا تھا۔ لیکن blow-upکرنے سے فلم کی ڈبنگ میں کچھ فرق آیا۔ فلم کی ہیروئن لاہور سے بلوائی گئی تھی ۔ اُن کو پے منٹ کی گئی تھی۔
باقی سب معاوضے کے بغیر کام کر رہے تھے۔ ایک جذبہ تھا سب لوگوں میں کہ چلو کوئٹہ میں ایک فلم بن رہی ہے، سب مل جل کر رضاکارانہ طور پر کام کرتے تھے۔خان صاحب نے تو فلم بنانے کے بعد اُس فلم سے متعلق بات کرنی ہی چھوڑ دی تھی۔میرے اُن کا ساتھ رہا باہر جانے کا بھی لیکن وہ فلم کے متعلق بات نہیں کرتے تھے''۔
٭ سعید قریشی نے فلم فلم کی عکس بندی کی تھی۔ وہ بتاتے ہیں، ''خان صاحب سے میری ملاقات اُن کے جنرل اسٹور پر ہوتی رہتی تھی۔اس کے علاوہ وہ امریکن سینٹر آتے تھے۔وہاں بھی ملاقات ہوتی تھی ۔ مجھے فوٹوگرافی کا شوق تھا اسی سلسلے میں اُنھوں نے مجھ سے بات کی کہ میں فلم بنانا چاہ رہا ہوں ۔ اگر آپ میری کچھ مدد کرسکیں میں نے کہا کے مجھے سینماٹوگرافی کا توکوئی تجربہ نہیں ، میں صرف فوٹو گرافی کا شوقین ہوں ہاں البتہ میں نے ویڈیو فلم پر ٹریننگ لی ہوئی ہے۔
امریکن ایمبیسی سے تو تھوڑا بہت مجھے آئیڈیا ہے۔ اس لیے جو کچھ ہوسکا میں کردوں گا۔ اس فلم کی عکس بندی ساری تقریباً16 ایم ایم کے کمرے پر ہوئی تھی۔اس کی کچھ ایڈیٹنگ میں نے خان صاحب کے ساتھ کروائی تھی، میرے پاس امریکن سینٹر میں ایک چھوٹی سی مشین تھی ایڈیٹنگ کے لیے لیکن اُس پر ٹائم بہت لگ رہا تھا۔ اور پھر خان صاحب نے کہا کہ میں کراچی سے ایڈیٹنگ کرالوں گا۔ فلم کے لیے دو لڑکیاں لاہور سے آئیں تھیں۔ ایک کا نام نورین تھا اور دوسری کا چندہ۔ فلم کی ہیروئن نورین تھی۔ فلم میں کل چار گانے تھے۔
تین نگہت سیما کی آواز میں اور ایک ناشناس کی آواز میں تھا۔ نگہت سیما کی آواز میں جو گانے تھے وہ میں نے ریکارڈ کیے تھے۔اور یہ ریکارڈنگ میں نے امریکن سینٹر کے آڈیٹوریم میں کی تھی۔صرف دو مائیکروفون تھے ۔ اس لئے کافی مشکلات پیش آئیں۔ ایک مائیک تو سنگر کے سامنے ہوتا تھا دوسرا تمام میوزیشنز کے لئے تھا۔
شکر الحمد اللہ کافی بہتر ریکارڈنگ ہوگئی تھی۔فلم میں کام کرنے والے کچھ افراد کے نا م مجھے یاد ہیں آفتاب خواجہ صاحب، خدائے رحیم تھے، نوروز چنگیزی تھے، محمد حسین تھے، اسحاق تھے، جان تھے، سلطان تھے، تاج تھے، غلام سرور تھے۔فلم کی عکس بندی ہنہ اوڑک، اسپین کاریز، بلیلی، دشت، کولپور اور پرانا مچھ کے علاقوں میں کی گئی تھی۔کچھ فلم بندی بولان ہوٹل اور ایک مکان جو نئی لائبریری کے سامنے تھا، اس میں کی تھی''۔
'' ظاہر ہے، مایوسی تو ہوئی تھی اور بہت زیادہ مایوس ہوئے ہوں گے عبدالرزاق خان۔ جتنے ولولے اور اُمیدوں کے ساتھ انھوں نے اُس فلم کو conceive کیا، شوٹ کیا، ایڈیٹ کیا، میوزک بنایا اور اُس کے بعد ناظرین تک پہنچانے کی کوشش کی اُنھیں ویسا رسپانس نہیں ملا۔ لیکن اگر آپ دوسری طرف دیکھیںجنہوں نے وہ فلم دیکھی تھی اہل کوئٹہ نے ۔
اُنھوں نے بھی بہت انتظار کیا تھا۔ اُنھیں بہت اشتیاق بھی تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ بہت مایہ ناز اورمعرکتہ الآرا فلم بنی ہوگی آخر مقامی لوگوں نے اسے بنایا تھا لیکن ناتجربہ کاری آڑے آئی اور فلم لوگوں کو متاثرنہ کرسکی اور بہت جلد سنیما ہاؤسز سے اُتر گئی۔ ایک اور بات یہ ہے کہ اس فلم کاکہیں آپ کو تذکرہ نہیں ملتا۔ جو فلم ڈائریکٹیریز ہیں یا فلمی اعداد و شمار اکٹھی کرنے والی ویب سائیٹ ہیں یا ادارے ہوتے ہیں اُن میں سے کسی نے کبھی ''انتقام کی آگ کا'' کوئی ذکر نہیں کیا۔
اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ غالباً عبدالرزاق ایک کام بھوگئے کہ فلم کوسینسر بورڈ میں بھی پیش کیا جائے تاکہ وہاں سے اُس کا کوئی سرٹیفیکیٹ حاصل ہو جائے۔اُس فلم کی رجسٹریشن ہوسکے۔کیونکہ جو لوگ فلمی ڈائریکٹیریزبناتے ہیں اپ ڈیٹ کرتے ہیں وہ یقیناً سینسر بورڈ کی جانب سے جو تفصیلات اُنھیں ملتی ہوں گی وہ اُسی کے مطابق اپنی ڈائریکٹیریزکو maintain کرتے ہوں گے۔ اس فلم کا ُدوستوں نے بتایا ہے کہ' اب پرنٹ بھی دستیاب نہیں ہے۔
وہ پرنٹ اتنا خستہ ہوگیاکہ اب وہ پیش کرنے کے قابل نہیں رہا۔ جو چیز رہ جائے گی وہ اس کا میوزک ہے۔اس کے تین گانے نگھت سیما نے گائے۔ ان کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ تھیں۔ پچاس ساٹھ گانے گائے ہیں انھوں نے فلموں کے لیے۔ ایک نغمہ ناشناس کی آواز میں ہے۔یہ نغمات بھی اب ہر جگہ دستیاب نہیں۔ ناشناس افغان گلوکار تھے جہاں جہاں پشتو فارسی سمجھی جاتی ہے وہاں وہ بہت ہی مشہور فنکار تھے۔
شاید یہ ہی وجہ تھی کہ عبدالرزاق خان نے سوچا کہ اگر وہ اپنی فلم کے لیے ایک نغمہ ناشناس کی آواز میں ریکارڈ کرلیں تو اُن کی واہ واہ ہوجائے گی۔ اس گیت کی ریکارڈنگ کے لیے وہ پہنچتے ہیں افغانستان۔ اس سارے قصے کو اُن کے صاحبزادے حاجی عبدالمنان کاکڑ نے کچھ یوں بیان کیا ''والد صاحب، رحیم اور عبدالمنان ریڈیو پاکستان والے یہ تینوں یہاں سے گئے کابل اور وہاں جا کر ناشناس صاحب سے ملاقات کی اور اُن سے کہا کہ مجھے ایک گانا آپ کی آواز میں چاہیئے۔تو ناشناس نے کہا کہ مجھے تو اجازت نہیں ہے دوسرے ملک کے لیے گانے کے لیے۔ توآپ لوگ ایسا کریںکہ وزیر ثقافت سے اجازت لیں تو اُس کے بعد میں آپ کے لیے گانا اپنی آواز میں ریکارڈ کرا دوں گا۔ والد صاحب نے دوسرے دن وزیر ثقافت سے ملاقات کی۔اُنھیں کہا کہ وہ اس سلسلے میں کوئٹہ سے آئے ہیں۔ وزیر ثقافت نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ناشناس صاحب آپ لوگوں کے لیے جیسا گا سکتے وہ گا لیں''۔
''بہت ہی کسمپرسی کے عالم میں یہ فلم بنی جو فنی سہولتیں تھیں وہ ناکافی تھیںجو سب سے اہم چیز اس میں موجود تھی وہ جذبہ تھا۔ اگر ہم سینما ہاؤسز کی بات کریں تو عام طور پر کوئٹہ میں اتنا رواج نہیں تھا کوئی بھی فلم جو ہے وہ دو دو سنیماؤں میں بیک وقت ریلیز کی جائے کیونکہ چھوٹا شہر تھا اور سینما ہاؤس بھی گنے چنے تھے۔
امداد، غازی،راحت، عصمت، ریگل، ڈیلائٹ، پیراڈائزاور چھاؤنی میں سینما ہوا کرتا تھا پاک فورسز۔لیکن انتقام کی آگ دو سینما ہاوئسز میں ریلیز ہوئی اور وجہ صرف یہی تھی کہ اتنا اشتیاق تھا لوگوں میں کہ ہمارے شہرمیں فلم بنی ہے اسے ضرور دیکھا جائے۔ 03 دسمبر1971 جمعہ کے روز فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ ایک اور بات بھی تھی کہ دسمبر 1971 ہمارے لیے بہت تلخ رہا ہے۔
اسی مہینے پاکستان دو لخت ہوا تھا۔ 03 دسمبر1971 کے روز ہی بھارت نے پاکستان کے خلاف مغربی محاذ کھولا تھا، تو یقیناً اس لحاظ سے بھی یہ دن مناسب نہیں تھا۔ اس کے باوجود لوگوں نے وہ فلم دیکھی تھی۔ اس فلم کے حوالے سے بھی بہت سی یادیں ہمارے دستوں کے ذہنوں میں ہیں''۔
سجاد احمد سابق ڈائریکٹر پروگرام پاکستان ٹیلی ویژن اس حوالے سے بتاتے ہیں ـ''فلم میڈیم ایک مشکل میڈیم ہے اس کے لیے ظاہر ہے آپ کو تکنیکی طور پہ ، فنی طور پہ مضبوط ہونا چاہیے۔ کوئٹہ کی لوکیشن پر ساقی بار ایک جگہ تھی فرح ہوٹل کے قریب ہی۔ وہاں شوٹنگ ہوئی۔ مجھے یاد ہے کہ جس طرح ویسٹرن مویز میں کاؤ بوائے مویز میں انٹر ہوتے ہیں وہ پوری چیزیں جو انھوں نے دیکھی ہوئی تھیں، سنیما میں، اُنھوں نے imitation کی۔ میں بھی بحیثیت کوئٹہ کے ایک شہری اُس وقت میں اسٹوڈنٹ تھا تو میں بڑے بھائی کے ساتھ یہ فلم دیکھنے گیا۔
گھر کے قریب ہی ڈیلائٹ سنیما تھا۔ یقین کریں کوئٹہ کے لوگوں نے اس کا بڑا استقبال کیا، پرجوش طریقے سے۔کوئٹہ کے لوگ جنون کی حد تک اس کے لیے آئے تھے۔مگر فلم دیکھ کر میں بہت مایوس ہوا کیونکہ ٹیکنیکلی بہت کمزور فلم تھی۔ فلم بنتی ہے اسٹوری سے،ویژولز سے اور کانفلیکٹ سے، یہ تینوں چیزیں اس میں مسینگ تھیں۔ مگر میںبار بار کہہ رہا ہوںاس کی اہمیت تاریخی لحاظ سے بہت زیادہ ہے کیونکہ یہ فلم تاریخ رقم کرگئی ہے۔
جو کاوش تھی خان صاحب کی وہ Beyond Imaginationہے۔ اُس زمانہ میں سوائے اسٹیج اور ریڈیو کے کوئی الیکٹرانک میڈیم یعنی سنیما میکنگ یا ٹیلی ویژن دونوں کے حوالے سے کوئٹہ کے لوگوں کو کوئی Know-howنہیں تھی ۔اس کی جو تاریخی اہمیت ہے کہ اُس دور میں ایک بندہ اُٹھے جس کا کوئی تعلق نہیں ہے سنیما سے فلم سے آرٹ سے اور وہ یہ فلم بنالے''۔
سابق ڈائریکٹر جنرل پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس جمال شاہ اس بارے میں کہتے ہیں، ''اس فلم کی کہانی اور گیت لکھے تھے مشہور شاعرعطا شاد نے اور اس کی موسیقی خدائے رحیم پریشان نے تشکیل دی ۔ یہ فلم ڈیلائٹ اور ریگل سنیما میں چلی اور ریگل سنیما میں بے تحاشہ رش تھا پہلے شو پر ۔ تین شوز اس کے ریگل سنیما میں چلے اور اُ سکے بعد وہ فلم اتر گئی۔
وجہ یہ تھی چونکہ ٹیکنیکلی فلم میں بہت سارے مسائل تھے، اس لیے یہ چل نہیں سکی۔لیکن ایک بڑی اچھی کوشش تھی کوئٹہ کی طرف سے۔ میں نے خود یہ فلم دیکھی تھی اور بڑے شوق سے دیکھی تھی۔ بڑے فخر سے دیکھی تھی۔کاش یہ فلم چلتی۔اس کا ایک گیت بڑامشہور ہوا تھاکوئٹہ میں خاص طور پرجو افغانستان کے مشہور سنگرصادق فطرت ناشناس سے اُنھوں نے گوایا تھاکابل جا کے۔ کابل ریڈیو میں اس کی ریکارڈنگ ہوئی تھی۔غمِ محبت۔۔غمِ زمانہ ہزار تھے۔۔ایک دل نشانہ''
ڈاکٹر تمیز الدین، فلم اور فلم موسیقی سے سے گہری وابستگی رکھتے ہیں، وہ بتاتے ہیں ''اس فلم کے سارے نغمات میری آڈیو لائبریری میں محفوظ ہیں۔یہ فلم دو سینماؤں میں ریلز کی گئی ایک ریگل سنیما دوسرا ڈیلائیٹ سنیما۔اس فلم کے پہلے شو لوگوں کا جم غفیر تھا۔ پہلے شو میں اس فلم کے ڈائریکٹر عبد الرزاق خان بھی ریگل سنیما میں موجود تھے۔ اس فلم میںٹیکنیکل خامیاں تو تھیںلیکن اس کی تعریف نا کرنا ناانصافی ہوگی۔
ڈاکٹر عرفان احمد بیگ (تمغہ امتیاز) سنیئر صحافی، محقق اور استاد ہیں ، اس فلم کے حوالے سے اپنی یاداشت کو تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں '' کوئٹہ میں بننے والی فلم ــ'' انتقام کی آگ'' کے لیے شروع سے ہی کوئٹہ کے لوگوں میں بہت اشتیاق تھا۔ اس فلم کے پوسٹر اور تصاویر کوئٹہ کے ریگل سنیما میں آویزاں ہوچکی تھیں جو ہالی وڈ کی ویسٹرن فلموں کی یاد دلاتی تھیں۔ کوئٹہ میں ہزارہ،پشتون اور بلوچی نوجوان اُس وقت دو اقسام کی فلمیں بہت شوق سے دیکھتے تھے ایک ویسٹرن موویز اور دوسری طاقتور ہیروز کی جنگجو طرزکی فلمیں۔ ہم اسکول میں پڑھتے تھے جب عبدالرزاق اور آفتاب خواجہ وغیرہ کی یہ فلم ریلیز ہوئی۔
ہم نے یہ فلم بڑے شوق سے دیکھی۔ لیکن ہاف ٹائم میں گھر واپس آگئے کیونکہ فلم میں بہت سے تکنیکی مسائل تھے خصوصاًساؤنڈ کے۔فائٹنگ میں گھونسے پہلے لگتے تھے اور آواز بعد میں آتی تھی۔ گولی پہلے چلتی تھی آوازبعد میں آتی۔کیونکہ ہالی وڈ کی فلمیں اور اپنی پاکستانی فلمیں دیکھ دیکھ کر ہمارا فلم بینی کا ایک معیار بن چکا تھا۔ اس لئے یہ فلم لوگوں کو متاثر نہیں کرسکی اور دوسرے دن سنیما سے اتر گئی۔اس فلم میں اداکاروں نے اتنے شوق و جذبے سے کام کیا کہ بہت سے زخمی بھی ہوگئے تھے۔
اب میں یہ سوچتا ہوں اس فلم کے تین چار سال بعد ہی یہ تجربہ مشہور فلم اسٹار بدرمنیر نے ''دلہن ایک رات کی'' کے نام سے کیا اور وہ فلم اس لیے کامیاب ہوگئی کہ وہ خود کیمرے کے استعمال سے واقف تھے۔'' انتقام کی آگ'' کے فلم ساز عبدالرزاق خان اس لیے ناکام ہوگئے کہ وہ فلمسازی کی تکنیک سے واقف نہیں تھے۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ بلوچستان میں فلم سازی کی بنیاد رکھنے والے ان معماروں نے بغیر کسی تربیت جن حالات میں اور وسائل کے ساتھ کام کیااور ایک فلم بنالی اور اُسے سینما تک لے آئے یقینا وہ سب داد کے مستحق ہیں''۔
ہم کسی کے کام کی حوصلہ افزائی اورستائش میں ہمیشہ کنجوسی سے کام لیتے ہیں ۔ لیکن دیر اب بھی نہیں ہوئی لوگ ابھی موجود ہیں جو اس فلم سے کسی نا کسی حیثیت سے وابستہ تھے۔ انھیں اکٹھا کریں ۔ان کے کام کی ستائش کریں تعریفی اسناد دیں۔ جو نہیں رہے ان کے لواحقین کو بلائیں۔ یہ چھوٹی سی کوشش ناجانے بلوچستان کی سرزمین میں موجود کتنے ہی پوشیدہ گوہر نایاب کی حوصلہ افزائی کو باعث بنے گی۔
تنویراقبال کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ آواز کی دنیا کے شہسوار ہیں۔ الفاظ کی ادائیگی، اردو کے معیاری تلفظ کی درسگاہ ہیں۔
پی ٹی وی کوئٹہ سے خبروں اور دستاویزی پروگراموں میں ان کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا ہے۔ ریڈیو پاکستان کو اپنی زندگی کا ایک لمبا عرصہ دینے کے بعد آج کل ریٹائرڈ زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔لیکن سمعی اور بصری پروگرامز کی پروڈکشن کا اب بھی جنون کی حد تک شوق ہے۔ یو ٹیوب پر اپنے چینل پر وہ کچھ نا کچھ کرتے رہتے ہیں۔
حال ہی میں انھوں نے اپنے ایک دستاویزی پروگرام کا یو ٹیوب لنک بھیجا ۔ اس لنک کے نیچے موجود مختصرتحریر نے ہمیں چونکا دیا'' کوئٹہ میں بننے والی پہلی فیچر فلم'' ۔ کوئٹہ سے تعلق ہونے کے باوجود ماضی قریب تک ہمیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ کوئٹہ میں بھی کبھی کوئی فیچر فلم بنائی گئی تھی۔ کچھ عرصہ قبل خبروں کے ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر اتنا پڑھنے کو ملا تھا کہ کوئٹہ میں ایک فیچر فلم بنائی گئی تھی جس کا نام ـ'' انتقام کی آگ '' ہے۔لیکن زیادہ تفصیل نا ہونے کی وجہ سے دل میں ایک تجسس تھا کہ اس فلم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانا جائے۔
ایسے میں تنویراقبال کے بھیجے ہوئے لنک نے اس تشنگی کو پورا کر دیا۔ تنویر اقبال سے رابطہ کیا اور اُن سے درخواست کی کہ فروری کے دوسرے ہفتہ کے روز Global Movie Day منایا جاتا ہے ( اِمسال 12 فرور ی کو یہ دن منایاگیا )اس حوالے کچھ لکھنے کا ارادہ ہے اگر آپ اس دستاویزی پروگرام کی معلومات کو اخباری آرٹیکل میں ڈھالنے کی اجازت دیں تو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ماضی کی اس گم شدہ حقیقت کے بارے بتایا جاسکتا ہے۔ اُنھوں نے نا صرف اجازت دے دی بالکل تصاویر بھی فراہم کردیں۔
''پاکستان کا دل بلوچستان۔۔بلوچستان کا دل کوئٹہ۔۔اور کوئٹہ کا دل نہیں۔۔مصروف بازار۔۔سب سے مشہور کاروباری مرکز۔۔لیاقت بازار۔اسی لیاقت بازار میں کوئٹہ کا نا صرف ہر شہری جاتا ہے۔ بلکہ باہر سے جو لوگ کوئٹہ آتے ہیں سیاحت کے لیے وہ اس بازار میں نا صرف جاتے ہیں بلکہ بار بار جاتے ہیں۔ کیونکہ اُن کی پسند کی ہر ایک چیز یہاں دستیاب ہے۔
اسی لیاقت بازار میں ایک خان جنرل اسٹور ہوا کرتا تھا، 1970 کے عشرے تک۔ اس جنرل اسٹور کے مالک عبدالرزاق خان تھے۔ عبدالرزاق خان کہنے کو تو ایک دوکاندار تھے، لیکن اُن کے سینے میںایک فنکار کا دل دھڑکتا تھا، اور یہ فنکار اُنھیں مجبور کررہا تھا کہ ایک فلم بنائی جائے۔ انہوں نے اپنے ہم خیال دوستوں کو اکٹھا کیااُن سے مشورہ کیا اور سب نے اتفاق کر لیا کہ سب مل کر ایک فلم بناتے ہیں۔
حالانکہ کہ کوئٹہ میں پہلے ایسی کسی سرگرمی کی کوئی مثال موجود نہ تھی۔ سب سے پہلا مرحلہ کہانی کے انتخاب کا تھا۔ تو ژوب کے علاقے میں ایک مجاہد تھے جو انگریزوں کے خلاف برسرپیکار رہے۔اُن کا نام تھا شیر جان کاکڑ۔ یہ پاکستان بننے سے قبل کوئی آٹھ دس سال پہلے کی بات ہے۔ شیر جان انگریز کی غلامی پر مضطرب رہتے تھے اور اسی کیفیت میں انہوں نے ژوب کے پولیٹیکل ایجنٹ میجر برنس کے دفتر میں گھس کر اسے ہلاک کردیا اور فرار ہوگئے۔
کسی اپنے ہی کی مخبری پر شیر جان گرفتار ہوئے، اُن پر مقدمہ چلا اور اُنھیں مچھ جیل میں پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ 04 اکتوبر1940 کو اُنھوں نے میجر برنس کو ہلاک کیا تھا اور08 دسمبر1941 میں اُنھیں پھانسی پر چڑھایا گیا۔اُن کی شجاعت کی داستان نا صرف تاریخ میں درج ہے بلکہ پشتو ادب میں بھی اُن کی شجاعت اور بہادری کے قصے موجود ہیں ۔ روایت کی جاتی ہے کہ جب اُنھیں پھانسی دی جا رہی تھی تو اُن سے اُن کی آخری خواہش پوچھی گئی۔اس موقع پر شیر جان نے بڑی بے اعتنائی اور کمال بہادری کے ساتھ کہا کہ وہ پھانسی سے پہلے ایک سیگریٹ سُلگانا چاہتے ہیں۔
اسی کہانی کو فلم کا موضوع بنایا گیا اور فلم کا نام تجویز کیا گیا ''انتقام کی آگ''۔اس کے بعد عبدالرزاق خان، عطا شاد سے ملے۔ عطا شاد پاکستان کے نامور شاعر تھے۔ ریڈیو پاکستان کوئٹہ سے اُنھوں نے اپنے کرئیر کا آغاز کیا تھا۔ اُن سے اس فلم کے لیے نغمے لکھنے کی درخواست کی گئی۔
عطا شاد نے ریڈیو اور ٹیلویژن کے لئے ڈرامے بھی تحریر کیے ہیں۔ تو اُنھیںکہانی کے اُتار چڑھاؤ کی تیکنیک سے آگاہی تھی۔ اُنھوں نے یقیناً شیر جان کی کہانی کی ڈرامائی تشکیل میں مدد کی ہو گی۔ اگلا مرحلہ فلم کی موسیقی ترتیب دینے کا تھا۔ عبدالرزاق خان کے ایک دوست تھے خدائے رحیم۔ خدائے رحیم کو موسیقی سے گہرا لگاو تھا، خود بھی گاتے تھے۔ پہلے 'پریشان' تخلص کیا کرتے تھے بعد میں 'خوشحال' تخلص اختیار کر لیا۔ بہرحال نغموں کی موسیقی اور فلم کا بیک گراونڈ میوزک خدائے رحیم نے دیا۔ ایک مسلہ یہ تھا کہ اس فلم کی عکس بندی کون کرے گا۔ کوئٹہ میں اس شعبے کا کوئی پروفیشنل بندہ میسر نہ تھا۔ ایک صاحب تھے اُنھیں 'ماما' کہہ کر بلاتے تھے۔
ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ میں ملازم تھے اور غالباً سٹل فوٹو گرافی میں مہارت رکھتے تھے، اُنھیں اس کام کے لئے تیار کیا گیا۔ اسی طرح ایک صاحب امریکن سینٹر میں ہوا کرتے تھے سعید قریشی اُن کو بھی آمادہ کرلیا گیا کہ وہ اس فلم کی شوٹ کریں گے۔ اس فلم میں کے سب فنکار بھی نئے تھے۔
سب کہ لیے یہ پہلا موقع تھا اور سب کے سب عبدالرزاق خان کے حلقہ احباب کے لوگ تھے۔ فلم میں دو خواتین کے کردار تھے۔وہ دونوں خواتین لاہور سے بلوائی گئی تھیں۔ یوں اس فلم کا آغاز ہوتا ہے کوئٹہ میں پہلی بار نہایت ہی بے سروسامانی کے عالم میں۔ بالکل کم وسائل کے ساتھ لیکن بہر حال وہ فلم تیار ہوئی۔اُس فلم میں جو لوگ شامل تھے اُن سب کے ذہنوں میں کہیں نا کہیںکچھ یادیں تھیں لیکن وقت کی گرد اتنی اُس پر جم چکی تھی کہ سب کچھ دھندلا چکا تھا۔ بہرحال جب اصرار کیا گیا کہ کچھ اپنی یادیں تازہ کریں تو یہ شخصیت موضی میں جھانکنے پر آمادہ ہو گئے۔
٭ آفتاب خواجہ نے اس فلم میں انگریز کرنل کا کردار ادا کیا تھا۔ وہ کہتے ہیںـ ''لیاقت روڑ پر میری دکان تھی۔ کچھ آٹھ دس دکانیں چھوڑ کے خان صاحب کا جنرل اسٹور تھا۔ اُن کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ کوئی فلم بنارہے ہیں۔تو عجیب سا لگا ہم نے کہا کہ یہ دکان دار بندہ فلم بنا رہا ہے وہ بھی کوئٹہ میں بیٹھ کے۔ ایک دن وہ میری دکان پر آگئے۔ کہنے لگے آفتاب بھائی میں فلم بنا رہا ہوںآپ میرے ساتھ کچھ کام کرلیں۔ میں نے کہا یار! مجھے فلم کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔اسٹیج اور ریڈیوکا تو میں خیر کام کرتا رہا ہوں لیکن فلم کا تجربہ نہیں ہے۔
کہنے لگے وہ سب ہو جائیگا آپ جمعہ کو آجائیں۔ میں نے کہا کہ کیا رول ہے، کہنے لگے کے برطانوی فوج کا ایک کرنل ہے اُس فلم میں۔ تو خیر میں راضی ہوگیا۔ بولان ہوٹل میں ہم لوگ گئے، اُنھوں نے وہاں 2 کمرے لیے ہوئے تھے۔ مجھے ایک وردی دی گئی اچھی سجی ہوئی تھی۔
یہ کباڑی سے خریدی گئی تھی۔ سر پر اُنھوں نے ایک سولا ہیٹ پہننے کو دیا۔ میرے پاس ایک پرانا سویٹر تھا کالے رنگ کا اُس کو کھول کر اُس کی اون ہم لوگوں نے کنگھی کرکے اُسے سپلٹ گم کی مدد سے گل مچے لگا لیے۔تو وہاں ہم نے خان صاحب کی ڈائریکشن میں پہلا شاٹ کیا۔ اسکرپٹ وغیرہ تو نہیں تھا وہ بتا دیتے تھے کہ آپ نے یہ ڈائیلاگ بولنا ہے۔ پہلا تجربہ تھا بعد میں خیر بہت اچھا ہونے لگا۔
ریکارڈنگ کے لیے تو میں نے دیکھا کہ دستی کیمرہ ہوتا ہے جو عام طور پر لوگ شادیوں میں استعمال کرتے ہیں۔آٹھ ایم ایم کا وہ اُنھوں نے ٹرائی پوڈ پر لگا یا ہوا تھا۔اور اُس کے پیچھے سعید قریشی اور اُن کے بھائی تھے۔ وہ ریکارڈنگ کرتے تھے۔ لائٹس وغیرہ کے اسٹینڈ بھی لگائے ہوئے تھے۔آٹھ ایم ایم پر فلم بنانا بہت مشکل تھا۔
مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ اتنی باریک سی فلم ہے اسے کیا کریں گے۔ تو انھوں نے مجھے بتایا کہ اس کو ہمblow-upکریں گے35 پر۔ جو کہ بعد میں انھوں نے کیا بھی۔ لاہور گئے تھے یا شاید کراچی لے گئے تھے۔بہت بڑا کام تھا وہ پاکستان میں میرے خیال میں پہلے یہ تجربہ کبھی نہیں ہوا تھا۔ لیکن blow-upکرنے سے فلم کی ڈبنگ میں کچھ فرق آیا۔ فلم کی ہیروئن لاہور سے بلوائی گئی تھی ۔ اُن کو پے منٹ کی گئی تھی۔
باقی سب معاوضے کے بغیر کام کر رہے تھے۔ ایک جذبہ تھا سب لوگوں میں کہ چلو کوئٹہ میں ایک فلم بن رہی ہے، سب مل جل کر رضاکارانہ طور پر کام کرتے تھے۔خان صاحب نے تو فلم بنانے کے بعد اُس فلم سے متعلق بات کرنی ہی چھوڑ دی تھی۔میرے اُن کا ساتھ رہا باہر جانے کا بھی لیکن وہ فلم کے متعلق بات نہیں کرتے تھے''۔
٭ سعید قریشی نے فلم فلم کی عکس بندی کی تھی۔ وہ بتاتے ہیں، ''خان صاحب سے میری ملاقات اُن کے جنرل اسٹور پر ہوتی رہتی تھی۔اس کے علاوہ وہ امریکن سینٹر آتے تھے۔وہاں بھی ملاقات ہوتی تھی ۔ مجھے فوٹوگرافی کا شوق تھا اسی سلسلے میں اُنھوں نے مجھ سے بات کی کہ میں فلم بنانا چاہ رہا ہوں ۔ اگر آپ میری کچھ مدد کرسکیں میں نے کہا کے مجھے سینماٹوگرافی کا توکوئی تجربہ نہیں ، میں صرف فوٹو گرافی کا شوقین ہوں ہاں البتہ میں نے ویڈیو فلم پر ٹریننگ لی ہوئی ہے۔
امریکن ایمبیسی سے تو تھوڑا بہت مجھے آئیڈیا ہے۔ اس لیے جو کچھ ہوسکا میں کردوں گا۔ اس فلم کی عکس بندی ساری تقریباً16 ایم ایم کے کمرے پر ہوئی تھی۔اس کی کچھ ایڈیٹنگ میں نے خان صاحب کے ساتھ کروائی تھی، میرے پاس امریکن سینٹر میں ایک چھوٹی سی مشین تھی ایڈیٹنگ کے لیے لیکن اُس پر ٹائم بہت لگ رہا تھا۔ اور پھر خان صاحب نے کہا کہ میں کراچی سے ایڈیٹنگ کرالوں گا۔ فلم کے لیے دو لڑکیاں لاہور سے آئیں تھیں۔ ایک کا نام نورین تھا اور دوسری کا چندہ۔ فلم کی ہیروئن نورین تھی۔ فلم میں کل چار گانے تھے۔
تین نگہت سیما کی آواز میں اور ایک ناشناس کی آواز میں تھا۔ نگہت سیما کی آواز میں جو گانے تھے وہ میں نے ریکارڈ کیے تھے۔اور یہ ریکارڈنگ میں نے امریکن سینٹر کے آڈیٹوریم میں کی تھی۔صرف دو مائیکروفون تھے ۔ اس لئے کافی مشکلات پیش آئیں۔ ایک مائیک تو سنگر کے سامنے ہوتا تھا دوسرا تمام میوزیشنز کے لئے تھا۔
شکر الحمد اللہ کافی بہتر ریکارڈنگ ہوگئی تھی۔فلم میں کام کرنے والے کچھ افراد کے نا م مجھے یاد ہیں آفتاب خواجہ صاحب، خدائے رحیم تھے، نوروز چنگیزی تھے، محمد حسین تھے، اسحاق تھے، جان تھے، سلطان تھے، تاج تھے، غلام سرور تھے۔فلم کی عکس بندی ہنہ اوڑک، اسپین کاریز، بلیلی، دشت، کولپور اور پرانا مچھ کے علاقوں میں کی گئی تھی۔کچھ فلم بندی بولان ہوٹل اور ایک مکان جو نئی لائبریری کے سامنے تھا، اس میں کی تھی''۔
'' ظاہر ہے، مایوسی تو ہوئی تھی اور بہت زیادہ مایوس ہوئے ہوں گے عبدالرزاق خان۔ جتنے ولولے اور اُمیدوں کے ساتھ انھوں نے اُس فلم کو conceive کیا، شوٹ کیا، ایڈیٹ کیا، میوزک بنایا اور اُس کے بعد ناظرین تک پہنچانے کی کوشش کی اُنھیں ویسا رسپانس نہیں ملا۔ لیکن اگر آپ دوسری طرف دیکھیںجنہوں نے وہ فلم دیکھی تھی اہل کوئٹہ نے ۔
اُنھوں نے بھی بہت انتظار کیا تھا۔ اُنھیں بہت اشتیاق بھی تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ بہت مایہ ناز اورمعرکتہ الآرا فلم بنی ہوگی آخر مقامی لوگوں نے اسے بنایا تھا لیکن ناتجربہ کاری آڑے آئی اور فلم لوگوں کو متاثرنہ کرسکی اور بہت جلد سنیما ہاؤسز سے اُتر گئی۔ ایک اور بات یہ ہے کہ اس فلم کاکہیں آپ کو تذکرہ نہیں ملتا۔ جو فلم ڈائریکٹیریز ہیں یا فلمی اعداد و شمار اکٹھی کرنے والی ویب سائیٹ ہیں یا ادارے ہوتے ہیں اُن میں سے کسی نے کبھی ''انتقام کی آگ کا'' کوئی ذکر نہیں کیا۔
اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ غالباً عبدالرزاق ایک کام بھوگئے کہ فلم کوسینسر بورڈ میں بھی پیش کیا جائے تاکہ وہاں سے اُس کا کوئی سرٹیفیکیٹ حاصل ہو جائے۔اُس فلم کی رجسٹریشن ہوسکے۔کیونکہ جو لوگ فلمی ڈائریکٹیریزبناتے ہیں اپ ڈیٹ کرتے ہیں وہ یقیناً سینسر بورڈ کی جانب سے جو تفصیلات اُنھیں ملتی ہوں گی وہ اُسی کے مطابق اپنی ڈائریکٹیریزکو maintain کرتے ہوں گے۔ اس فلم کا ُدوستوں نے بتایا ہے کہ' اب پرنٹ بھی دستیاب نہیں ہے۔
وہ پرنٹ اتنا خستہ ہوگیاکہ اب وہ پیش کرنے کے قابل نہیں رہا۔ جو چیز رہ جائے گی وہ اس کا میوزک ہے۔اس کے تین گانے نگھت سیما نے گائے۔ ان کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ تھیں۔ پچاس ساٹھ گانے گائے ہیں انھوں نے فلموں کے لیے۔ ایک نغمہ ناشناس کی آواز میں ہے۔یہ نغمات بھی اب ہر جگہ دستیاب نہیں۔ ناشناس افغان گلوکار تھے جہاں جہاں پشتو فارسی سمجھی جاتی ہے وہاں وہ بہت ہی مشہور فنکار تھے۔
شاید یہ ہی وجہ تھی کہ عبدالرزاق خان نے سوچا کہ اگر وہ اپنی فلم کے لیے ایک نغمہ ناشناس کی آواز میں ریکارڈ کرلیں تو اُن کی واہ واہ ہوجائے گی۔ اس گیت کی ریکارڈنگ کے لیے وہ پہنچتے ہیں افغانستان۔ اس سارے قصے کو اُن کے صاحبزادے حاجی عبدالمنان کاکڑ نے کچھ یوں بیان کیا ''والد صاحب، رحیم اور عبدالمنان ریڈیو پاکستان والے یہ تینوں یہاں سے گئے کابل اور وہاں جا کر ناشناس صاحب سے ملاقات کی اور اُن سے کہا کہ مجھے ایک گانا آپ کی آواز میں چاہیئے۔تو ناشناس نے کہا کہ مجھے تو اجازت نہیں ہے دوسرے ملک کے لیے گانے کے لیے۔ توآپ لوگ ایسا کریںکہ وزیر ثقافت سے اجازت لیں تو اُس کے بعد میں آپ کے لیے گانا اپنی آواز میں ریکارڈ کرا دوں گا۔ والد صاحب نے دوسرے دن وزیر ثقافت سے ملاقات کی۔اُنھیں کہا کہ وہ اس سلسلے میں کوئٹہ سے آئے ہیں۔ وزیر ثقافت نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ناشناس صاحب آپ لوگوں کے لیے جیسا گا سکتے وہ گا لیں''۔
''بہت ہی کسمپرسی کے عالم میں یہ فلم بنی جو فنی سہولتیں تھیں وہ ناکافی تھیںجو سب سے اہم چیز اس میں موجود تھی وہ جذبہ تھا۔ اگر ہم سینما ہاؤسز کی بات کریں تو عام طور پر کوئٹہ میں اتنا رواج نہیں تھا کوئی بھی فلم جو ہے وہ دو دو سنیماؤں میں بیک وقت ریلیز کی جائے کیونکہ چھوٹا شہر تھا اور سینما ہاؤس بھی گنے چنے تھے۔
امداد، غازی،راحت، عصمت، ریگل، ڈیلائٹ، پیراڈائزاور چھاؤنی میں سینما ہوا کرتا تھا پاک فورسز۔لیکن انتقام کی آگ دو سینما ہاوئسز میں ریلیز ہوئی اور وجہ صرف یہی تھی کہ اتنا اشتیاق تھا لوگوں میں کہ ہمارے شہرمیں فلم بنی ہے اسے ضرور دیکھا جائے۔ 03 دسمبر1971 جمعہ کے روز فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ ایک اور بات بھی تھی کہ دسمبر 1971 ہمارے لیے بہت تلخ رہا ہے۔
اسی مہینے پاکستان دو لخت ہوا تھا۔ 03 دسمبر1971 کے روز ہی بھارت نے پاکستان کے خلاف مغربی محاذ کھولا تھا، تو یقیناً اس لحاظ سے بھی یہ دن مناسب نہیں تھا۔ اس کے باوجود لوگوں نے وہ فلم دیکھی تھی۔ اس فلم کے حوالے سے بھی بہت سی یادیں ہمارے دستوں کے ذہنوں میں ہیں''۔
سجاد احمد سابق ڈائریکٹر پروگرام پاکستان ٹیلی ویژن اس حوالے سے بتاتے ہیں ـ''فلم میڈیم ایک مشکل میڈیم ہے اس کے لیے ظاہر ہے آپ کو تکنیکی طور پہ ، فنی طور پہ مضبوط ہونا چاہیے۔ کوئٹہ کی لوکیشن پر ساقی بار ایک جگہ تھی فرح ہوٹل کے قریب ہی۔ وہاں شوٹنگ ہوئی۔ مجھے یاد ہے کہ جس طرح ویسٹرن مویز میں کاؤ بوائے مویز میں انٹر ہوتے ہیں وہ پوری چیزیں جو انھوں نے دیکھی ہوئی تھیں، سنیما میں، اُنھوں نے imitation کی۔ میں بھی بحیثیت کوئٹہ کے ایک شہری اُس وقت میں اسٹوڈنٹ تھا تو میں بڑے بھائی کے ساتھ یہ فلم دیکھنے گیا۔
گھر کے قریب ہی ڈیلائٹ سنیما تھا۔ یقین کریں کوئٹہ کے لوگوں نے اس کا بڑا استقبال کیا، پرجوش طریقے سے۔کوئٹہ کے لوگ جنون کی حد تک اس کے لیے آئے تھے۔مگر فلم دیکھ کر میں بہت مایوس ہوا کیونکہ ٹیکنیکلی بہت کمزور فلم تھی۔ فلم بنتی ہے اسٹوری سے،ویژولز سے اور کانفلیکٹ سے، یہ تینوں چیزیں اس میں مسینگ تھیں۔ مگر میںبار بار کہہ رہا ہوںاس کی اہمیت تاریخی لحاظ سے بہت زیادہ ہے کیونکہ یہ فلم تاریخ رقم کرگئی ہے۔
جو کاوش تھی خان صاحب کی وہ Beyond Imaginationہے۔ اُس زمانہ میں سوائے اسٹیج اور ریڈیو کے کوئی الیکٹرانک میڈیم یعنی سنیما میکنگ یا ٹیلی ویژن دونوں کے حوالے سے کوئٹہ کے لوگوں کو کوئی Know-howنہیں تھی ۔اس کی جو تاریخی اہمیت ہے کہ اُس دور میں ایک بندہ اُٹھے جس کا کوئی تعلق نہیں ہے سنیما سے فلم سے آرٹ سے اور وہ یہ فلم بنالے''۔
سابق ڈائریکٹر جنرل پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس جمال شاہ اس بارے میں کہتے ہیں، ''اس فلم کی کہانی اور گیت لکھے تھے مشہور شاعرعطا شاد نے اور اس کی موسیقی خدائے رحیم پریشان نے تشکیل دی ۔ یہ فلم ڈیلائٹ اور ریگل سنیما میں چلی اور ریگل سنیما میں بے تحاشہ رش تھا پہلے شو پر ۔ تین شوز اس کے ریگل سنیما میں چلے اور اُ سکے بعد وہ فلم اتر گئی۔
وجہ یہ تھی چونکہ ٹیکنیکلی فلم میں بہت سارے مسائل تھے، اس لیے یہ چل نہیں سکی۔لیکن ایک بڑی اچھی کوشش تھی کوئٹہ کی طرف سے۔ میں نے خود یہ فلم دیکھی تھی اور بڑے شوق سے دیکھی تھی۔ بڑے فخر سے دیکھی تھی۔کاش یہ فلم چلتی۔اس کا ایک گیت بڑامشہور ہوا تھاکوئٹہ میں خاص طور پرجو افغانستان کے مشہور سنگرصادق فطرت ناشناس سے اُنھوں نے گوایا تھاکابل جا کے۔ کابل ریڈیو میں اس کی ریکارڈنگ ہوئی تھی۔غمِ محبت۔۔غمِ زمانہ ہزار تھے۔۔ایک دل نشانہ''
ڈاکٹر تمیز الدین، فلم اور فلم موسیقی سے سے گہری وابستگی رکھتے ہیں، وہ بتاتے ہیں ''اس فلم کے سارے نغمات میری آڈیو لائبریری میں محفوظ ہیں۔یہ فلم دو سینماؤں میں ریلز کی گئی ایک ریگل سنیما دوسرا ڈیلائیٹ سنیما۔اس فلم کے پہلے شو لوگوں کا جم غفیر تھا۔ پہلے شو میں اس فلم کے ڈائریکٹر عبد الرزاق خان بھی ریگل سنیما میں موجود تھے۔ اس فلم میںٹیکنیکل خامیاں تو تھیںلیکن اس کی تعریف نا کرنا ناانصافی ہوگی۔
ڈاکٹر عرفان احمد بیگ (تمغہ امتیاز) سنیئر صحافی، محقق اور استاد ہیں ، اس فلم کے حوالے سے اپنی یاداشت کو تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں '' کوئٹہ میں بننے والی فلم ــ'' انتقام کی آگ'' کے لیے شروع سے ہی کوئٹہ کے لوگوں میں بہت اشتیاق تھا۔ اس فلم کے پوسٹر اور تصاویر کوئٹہ کے ریگل سنیما میں آویزاں ہوچکی تھیں جو ہالی وڈ کی ویسٹرن فلموں کی یاد دلاتی تھیں۔ کوئٹہ میں ہزارہ،پشتون اور بلوچی نوجوان اُس وقت دو اقسام کی فلمیں بہت شوق سے دیکھتے تھے ایک ویسٹرن موویز اور دوسری طاقتور ہیروز کی جنگجو طرزکی فلمیں۔ ہم اسکول میں پڑھتے تھے جب عبدالرزاق اور آفتاب خواجہ وغیرہ کی یہ فلم ریلیز ہوئی۔
ہم نے یہ فلم بڑے شوق سے دیکھی۔ لیکن ہاف ٹائم میں گھر واپس آگئے کیونکہ فلم میں بہت سے تکنیکی مسائل تھے خصوصاًساؤنڈ کے۔فائٹنگ میں گھونسے پہلے لگتے تھے اور آواز بعد میں آتی تھی۔ گولی پہلے چلتی تھی آوازبعد میں آتی۔کیونکہ ہالی وڈ کی فلمیں اور اپنی پاکستانی فلمیں دیکھ دیکھ کر ہمارا فلم بینی کا ایک معیار بن چکا تھا۔ اس لئے یہ فلم لوگوں کو متاثر نہیں کرسکی اور دوسرے دن سنیما سے اتر گئی۔اس فلم میں اداکاروں نے اتنے شوق و جذبے سے کام کیا کہ بہت سے زخمی بھی ہوگئے تھے۔
اب میں یہ سوچتا ہوں اس فلم کے تین چار سال بعد ہی یہ تجربہ مشہور فلم اسٹار بدرمنیر نے ''دلہن ایک رات کی'' کے نام سے کیا اور وہ فلم اس لیے کامیاب ہوگئی کہ وہ خود کیمرے کے استعمال سے واقف تھے۔'' انتقام کی آگ'' کے فلم ساز عبدالرزاق خان اس لیے ناکام ہوگئے کہ وہ فلمسازی کی تکنیک سے واقف نہیں تھے۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ بلوچستان میں فلم سازی کی بنیاد رکھنے والے ان معماروں نے بغیر کسی تربیت جن حالات میں اور وسائل کے ساتھ کام کیااور ایک فلم بنالی اور اُسے سینما تک لے آئے یقینا وہ سب داد کے مستحق ہیں''۔
ہم کسی کے کام کی حوصلہ افزائی اورستائش میں ہمیشہ کنجوسی سے کام لیتے ہیں ۔ لیکن دیر اب بھی نہیں ہوئی لوگ ابھی موجود ہیں جو اس فلم سے کسی نا کسی حیثیت سے وابستہ تھے۔ انھیں اکٹھا کریں ۔ان کے کام کی ستائش کریں تعریفی اسناد دیں۔ جو نہیں رہے ان کے لواحقین کو بلائیں۔ یہ چھوٹی سی کوشش ناجانے بلوچستان کی سرزمین میں موجود کتنے ہی پوشیدہ گوہر نایاب کی حوصلہ افزائی کو باعث بنے گی۔