خیبرپختون خوا میں کاشی کاری کا آخری سانس لیتا فن
اس خوب صورت روایت کو ازسرنو زندہ کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے
اب تک ہمارے مختلف علاقوں، جن میں موئنجوداڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا، سوات، تخت بھائی، جمال گڑھی، چار سدہ اور آکرہ (بنوں ) جسے خاص طور پر قابل ذکر تاریخی مقامات شامل ہیں، میں کھدائی کے دوران ماضی کے جو قدیم آثار، آلات و اوزار، مجسمے، تختیاں، کھانے پکانے کے برتن وغیرہ دریافت ہوئے ہیں۔
ان کی روشنی میں ہمارے محققین اور ماہرین آثار قدیمہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آج سے ہزاروں سال قبل حجر ی دور (پتھر کے زمانے ) میں رہنے والے انسان کو پتھر کے چاک پر مٹی کے نقشی برتن بنانے اور ان برتنوں کو آگ میں پکانے کا ہنر اور سلیقہ بھی آتا تھا۔ اس نے پکی ہوئی مٹی کے پائے دار برتن بنائے اور نسل انسانی کی بڑی صنعتوں میں سے اہم کارآمد صنعت کی بنیاد ڈالی۔
لہٰذا دریافت ہونے والے آثارقدیمہ کے جتنے بھی نمونے ہاتھ آئے ہیں یا کھدائی کے دوران مزید دریافت ہورہے ہیں، وہ اس بات کی نشان د ہی کرتے ہیں کہ آج سے ہزاروں سال قبل قدیم دور کا انسان ظروف سازی کے متعلق بہت کچھ جانتا تھا، اگرچہ اس نے چیزوں کو بطور ایک آرٹ نہیں بل کہ ضروریات زندگی کے تحت متعارف کروایا لیکن ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے، کے تحت جب قدیم دور کے انسان نے اپنے ہاتھوں سے جانوروں کی کھال، پتھر اور مٹی سے اپنے لیے مختلف چیزیں بنائیں۔
انہیں سادہ ڈیزائنوں سے سجایا اور برتن سازی (ظروف سازی) کی داغ بیل ڈالی تو یہ ابتدا نہ صرف ایک بہترین صنعت ثابت ہوئی بل کہ ایک بہترین آرٹ بھی سامنے آیا۔ اس آرٹ کو مزید سجانے، نکھارنے اور پھیلانے میں فطرت نے انسان کو بہت کچھ سکھایا، کیوں کہ فطرت بذات خود قدرت کا ایک بہت ہی حسین و جمیل آرٹ ہے اور اسی آرٹ کے مختلف النوع مظاہر، مناظر اور رنگ مثلاً پہاڑ، دریا، چشمے، آبشاریں، درخت، پھول، جانور، پرندے اور حشرات الارض کے بے شمار نمونوں کی نقالی اور تصویر گری قدیم دور کے انسانوں کی باقیات میں آج بھی ہمیں نظر آتی ہے۔
زمین اور آسمان کے تمام رنگ اور مناظر کو غار سے لے کر گھر اور محل تک نقش کرنے میں انسان نے تاریخ کے ہر دور میں اپنی صناعی اور ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے، جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ قدیم دور کا انسان جسے آج ہم وحشی، درندہ اور جاہل جیسے ناموں سے یاد کرتے ہیں، وہ نقاشی، مصوری، مجسمہ سازی، شاعری، موسیقی اور دیگر فنون سے بخوبی واقفیت رکھتا تھا۔ ملک کے مختلف شہروں کے عجائب گھروں میں رکھے ہوئے نمونوں کا مشاہدہ اور اس کا تاریخی پس منظر پکار پکار کر کہتا ہے کہ ہمیں تخلیق کرنے والا شکاری انسان ایک بڑا صناع، کاریگر اور اپنے زمانے کا بہت بڑا فن کار تھا۔
اب جہاں تک خیبرپختون خوا کے بیشتر علاقوں میں دریافت ہونے والے (ظروف) برتن سازی کے مختلف نمونوں کا تعلق ہے تو ان نمونوں پر مختلف ادوار کے سماجی، تہذیبی، مذہبی اور سیاسی اثرات نمایاں نظر آتے ہیں اس ضمن میں معروف ترقی پسند دانش ور سید سبط حسن کی ان چند سطروں کو غور سے پڑھنا ور سمجھنا نہایت ضروری ہے۔
وہ اپنی کتاب ''پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء'' میں لکھتے ہیں کہ ''جس چیز کو آج کل گندھارا آرٹ کا نام دیا جاتا ہے وہ دراصل آرین ' یونانی، ساکا، پارتھی اور کشن تہذیبوں کا نچوڑ ہے، گندھارا آرٹ کو ہماری تہذیب میں بہت اہم مقام حاصل ہے۔
اس لیے عربوں کی آمد سے بیشتر کی تہذیب کا سب سے حسین مرقع گندھارا آرٹ ہی ہے گندھارا کا مرکز تو ٹیکسلا تھا لیکن اس کی جڑیں پشاور، مردان، سوات، افغانستان حتیٰ کہ وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی ہیں'' سبط حسن کے اقتباس کی روشنی میں جب بھی ہم اپنے ہاں (خیبرپختون خوا) میں دریافت ہونے والے ظروف سازی کے مختلف نمونوں کا تاریخی جائزہ لیتے ہیں تو اس حقیقت سے شناسائی ہوتی ہے کہ یہاں کی برتن سازی کے فن و ہنر پر مذکورہ اقوام کی تہذیب اور مذہب کا بہت گہرا اثر رہا ہے۔
جن پودوں، جانوروں ، دیوی دیوتاؤں اور درختوں سے ان اقوام کا تہذیبی، معاشرتی اور مذہبی تعلق اور رشتہ استوار تھا ان چیزوں کی تصویر گری اور نقاشی مختلف آلات و اوزار اور خصوصاً برتن سازی میں آج بھی نظر آرہی ہے تاریخی تسلسل کے ساتھ مغلیہ دور سے پہلے بھی اس مٹی کے رہنے والوں میں فن نقاشی، مصوری اور آرٹ کے دیگر شعبوں کے حوالے سے ایک فنی شعور اور تیکنیک موجود تھی لیکن کاشی کاری کے فن کو بطور ایک پیشہ اور ایک عمدہ آرٹ کی شکل میں متعارف کروانے اور اسے بام عروج تک پہنچانے کا سہرا مغل حکم رانوں کے سر ہے۔
ظہیر الدین بابر سے لے کر اورنگ زیب عالم گیر تک ہر مغل حکم راں نے پورے برصغیر میں کاشی کاری کے علاوہ فن آرٹ کے ہر شعبے، نقاشی مصوری، فن خطاطی اور موسیقی کے فن کو اپنی درباری سرپرستی دے کر خوب جلابخشی جس کے بے شمار نمونے آج بھی پاکستان اور ہندوستان کی مختلف تاریخی عمارتوں مقبروں، مساجد، قلعوں اور بارہ دریوں کی شکل میں مغل آرٹ کے نام سے دنیا کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں مغل حکم راں وسطی ایشیا اور ایران سے اپنے ساتھ بڑے بڑے صناعوں، شاعروں، مصوروں اور موسیقاروں کو بھی ساتھ لائے اور ان سے صرف ان کے ہنر اور ذوق کے متعلق فن اور آرٹ کا کام لیا۔
انہیں درباری سرپرستی دی انہیں سہولیات، خطابات، انعامات اور تمغوں سے نوازا۔ فنِ کاشی کاری کے تاریخی پس منظر اور وجہ تسمیہ کے بارے میں اردو زبان کے ادیب سید امجد علی لکھتے ہیں کہ ''روغنی ٹائلوں پر نقش و نگار بنانے کا فن کاشی کاری کے نام سے موسوم ہے اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اس فن کو ایران کے شہر (کاشان) کے لوگوں نے پروان چڑھایا اس فن کے نادر نمونے اصفہان کی قدیم عمارات میں سب سے زیادہ نظر آتے ہیں۔ اصفہانی عمارات میں جو ٹائلیں استعمال ہوئی ہیں۔
ان میں فن کا مظاہرہ پھول، پتیوں یا پھر کچھ اقلیدسی ڈیزائنوں اور اشکال میں کیا گیا ہے، لاہور کے قلعے کی ٹائلوں میں شاہ جہاں کے زمانے کے ثقافتی و سماجی مناظر کی خوب تصویرکشی کی گئی ہے۔ مرد، عورتیں، چرند، پرند اور پھول بوٹے سب کچھ ہی موجود ہیں۔ ان ٹائلوں میں بے شمار رنگ استعمال کیے گئے ہیں۔ قدیم انداز کی ٹائل سازی کا فن اب تقریباً معدوم ہوچکا ہے اس کے گراں قدر نمونے اب صرف قدیم عمارات ہی میں دیکھے جاسکتے ہیں۔''
ایک زمانہ تھا کہ فن کاشی کاری سے مزین برتنوں اور دیگر مصنوعات کے شوقین دنیا کے کونے کونے سے پشاور آیا کرتے تھے اور یہاں سے فن کاشی کاری سے مزین برتن اور دیگر سازوسامان خرید کر لے جایا کرتے تھے۔
خصوصاً سوئٹزرلینڈ، امریکا اور عرب امارات کے تاجر تو پشاور کے فن کاروں کے ہاتھ کے نمونوں کے دیوانے بن گئے تھے مگر آج پورے صوبے میں کاشی کاری کا فن آخری سانسیں لے رہا ہے، جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آج پورے شہر میں صرف گنتے کے دو چار کاری گر ایسے ہیں جو اس مرتے ہوئے فن کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان میں ایک معروف اور سنیئر نام جان محمد کا ہے، جو جانی استاد کے نام سے شہرت رکھتے ہیں اور دوسرا نام نوجوان فہد کا ہے جو استادجان محمد کے شاگرد ہیں اور عرصہ تین سال سے کاشی کاری کے ذریعے پیتل اور چاندنی کے مختلف برتنوں اور ڈیکوریشن کے سامان پر اپنے فن کے نقوش ثبت کررہے ہیں۔
فہد کے بڑے بھائی حیات نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ ''یہ ہمارا خاندانی فن اور کاروبار ہے پہلے ہمارا کاروبار خوب چلتا تھا، کیوں کہ بیرون ممالک سے لوگ چیزیں خریدنے کے لیے سیدھا پشاور آتے تھے امن وامان کا کوئی مسئلہ نہیں تھا کاشی کاری سے مزین برتنوں کے شوقین بے خوف وخطر پورے شہر میں گھومتے پھرتے تھے مگر گذشتہ کئی سال سے پورے ملک بالخصوص پشاور میں عدم تحفظ کے بڑھتے ہوئے احساس نے غیرملکی تاجروں اور کاشی کاری کو پسند کرنے والوں کی آمد روک دی ہے۔
اگر مہینوں بعد کوئی غیرملکی خریداری کے لیے آتا بھی ہے تو وہ بھی پولیس اور خفیہ ایجنسی کے اہل کاروں کی نگرانی میں آتا ہے پورے صوبہ اور خصوصاً پشاور میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور عدم تحفظ کے احساس نے ہمارے کاروبار کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے، کیوں کہ ہمارے کاروبار کا زیادہ تر دارومدار غیرملکیوں کے آنے پر ہے، مقامی لوگ تو گھڑوں، مٹوں اور دیگچیوں کے علاوہ دیگر سامان خریدنے کی نہ تو استطاعت رکھتے ہیں اور نہ ہی اس فن سے کوئی خاص دل چسپی رکھتے ہیں۔ پہلے خریدار یہاں آتے تھے جب کہ آج ہمیں اپنے نمونے لے کر اسلام آباد جانا پڑتا ہے۔
رہی سہی کسر مہنگائی نے پوری کردی۔ پہلے ہمیں پیتل کی شیٹ فی کلو130 روپے کی ملتی تھی جب کہ آج اس کی قیمت ہزاروں میں ملتی ہے۔ مہینوں مہینوں تک ہماری آنکھیں گاہگ کے انتظار میں سفید ہوجاتی ہیں۔''
اس وقت پورے پشاور شہر میں فن کاشی کاری کا آخری چراغ استاد جان محمد نے بتایا کہ ''یہ فن ہمیں اپنے آباواجداد سے میراث میں ملی ہے مجھ سے پہلے میرے والد عبدالکریم بخش اپنے زمانے کے ایک مانے ہوئے کاری گر تھے ان کے علاوہ میرے چچاالہیٰ بخش کا شمار بھی شہر کے بڑے استادوں میں ہوتا تھا۔ میں پچھلے بیس سال سے کاشی کاری سے وابستہ ہوں۔ میرے زمانے کے جتنے بھی استاد اور کاری گر تھے وہ سب وفات پاچکے ہیں، تاہم اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے میں نے اپنے بیٹے کامران جان کے علاوہ اپنے دو شاگردوں فہد اور فہیم خان جو افغان مہاجر ہیں، کو بھی کام سکھایا ہے۔
پہلے غیرملکی سیدھا ہمارے پاس آتے تھے اور ہمیں اپنے کام کا اچھا خاصا معاوضہ دینے کے علاوہ ہماری عزت بھی کیا کرتے تھے مگر جب سے یہاں امن وامان کی حالت خراب ہوئی ہے تو غیرملکیوں نے آنا چھوڑ دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے مقامی کارخانہ داروں اور دکان داروں نے بھی ہمارا استحصال شروع کررکھا ہے۔
ہماری غربت اور مجبوری کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں نہ تو اپنے کام کا معقول اور بروقت معاوضہ دیتا ہے اور اگر دیتا بھی ہے تو بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہوتا ہے جس سے ہم پیٹ بھرکر کھانا بھی نہیں کھاسکتے۔ چوں کہ اس فن کے علاوہ ہمیں کوئی اور کام اور ہنر بھی نہیں آتا اس لیے مجبوراً اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر ہم فریاد کے سوا اور کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں اور نہ کرسکتے ہیں۔''
جان محمد کی باتیں سن کریہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت کی بے پروائی اور مقامی کارخانہ داروں اور دکان داروں کا فن کاشی کاری سے وابستہ کاری گروں اور ہنرمندوں کے خون پسینے کو پانی کی طرح پینے کے عمل نے آج پورے پشاور میں کاشی کاری کے فن کو موت کے دہانے لاکھڑا کیا ہے۔
ہوسکتا ہے اس کے خاتمے میں دیگر سماجی اور تہذیبی وجوہات بھی ہوں مگر سب سے بنیادی وجہ مقامی کارخانہ داروں اور دکان داروں کا اس فن سے وابستہ کا ری گروں کا استحصال ہے۔ چوں کہ اب بھی جو اکادکا غیرملکی خریدار آتے ہیں تو وہ انہی کارخانہ داروں اور دکان دارواں کے پاس آتے ہیں اور جو فن پارہ کاری گر سے دس ہزار کے عوض تیار کرایا ہو غیرملکیوں سے اس کا دوچند معاوضہ وصول کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں کاشی کاری کی تاریخ بہت پرانی ہے مغلیہ دور سے انگریزوں کے دور تک فن کاشی کاری ہوتی رہی جس کے نمونے آج بھی پشاور شہر میں موجود ہیں جن میں مسجد مہابت خان کے علاوہ محلہ سیٹھیاں اور دیگر قدیم عمارات دیکھنے کے قابل ہیں جن کے بارے میں اردو زبان کے ادیب شمیم بھیروی اپنے ایک مضمون ''نقش فریادی'' کے زیرعنوان لکھتے ہیں کہ ''پشاور کی قدیم عمارات کے چوبی نقش و نگار اور قد یم وضع کے مکانات کے ''چینی خانے'' اور ان کی میناکاری انسانی دست کاری و نقش و نگاری کے شاہ کار ہیں۔ مغرب کو فن تعمیر پر ناز ہوسکتا ہے لیکن سیٹھیوں کے محلوں میں ان کے قدیم مکانات دیکھ کر مغرب کی تعمیریں اہل نظر کو ہیچ معلوم ہوتی ہیں۔
یہ مکانات قدیم ایشیائی تہذیب کی زندہ جاوید نشانیاں ہیں کشادہ اور روشن صحن، بیٹھک، خانے، ہوادار او منور کمرے انسان کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج عہد جمہور میں حرم سراؤں کے خواب زندہ ہو کر ان مکانات کی شکل میں آگئے ہیں''۔
لیکن آج یہ ایک خواب و خیال کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس خواب و خیال کو نئی تعبیر کے ساتھ نئی نئی شکل میں پیش کرنے والے کاری گر بھی نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے صوبے میں کاشی کاری کا فن اس مقام اور مرتبے تک نہیں پہنچ سکا جس مقام اور مرتبے کو دنیا کے دیگر ممالک کی اقوام نے پہنچایا، جن میں چائنا، ملائشیا، فرانس، ایران اور وسطی ایشیاء کے ممالک وغیرہ شامل ہیں۔ اپنے ملک پاکستان کے دیگر شہروں مثلاً کراچی، لاہور، ملتان او فیصل آباد کے مقابلے میں بھی صوبے کا دارالحکومت پشاور بہت پیچھے اور پس ماندہ رہا کیوں کہ آج کی ترقی یافتہ اور سائنسی دنیا مصنوعات، ملبوسات، ظروف سازی اور تعمیرات کے حوالے سے نئی نئی سوچ اور نئے نئے ڈیزائن کی دنیا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت اور ایک عالم گیر آزاد تجارتی لین دین کی وجہ سے آج دنیا میں ایک عالم گیر ثقافت اور ایک سائنسی کلچر کا تصور پروان چڑھ رہا ہے۔ نئی نئی فنی اور تکنیکی ایجادات و اختراعات سامنے آرہی ہیں آج کی دنیا میں کسی بھی قوم کی تہذیب وثقافت ادب اور تاریخی ورثے کی حفاظت، ترقی، ترویج اور بقاء سائنس اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے مربوط ہوگئی ہے۔ گلوبلائزیشن کے زیر اثر مختلف ممالک کے ٹی وی چینلز، کیبل اور انٹرنیٹ کے ذریعے ثقافت اور تہذیبی مقابلے کا جو رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
اس رجحان نے جس طرح ہمارے ملک کے دیگر بڑے شہروں کے ہنرمندوں اور فن کاروں کو بیدار اور متحرک کیا ہوا ہے اور وہاں فن و آرٹ کو جس نئے انداز اور عصری تقاضوں کے مطابق انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ دیا گیا ہے اس کے مقابلے میں صوبے کے ہنرمند اور فن کار تا حال پس ماندگی اور ترقی کی اس دوڑ میں بہت پیچھے نظر آرہے ہیں۔
اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ یہاں فنی اور تخلیقی جمود ہے یا ہنر مند اور کاریگر موجود نہیں ہیں، یہاں فن بھی ہے اور چند فن کار بھی موجود ہیں مگر فن تب ہوگا جب فن کار ہوں گے اگر حکومت اور کارخانہ دار، دکان دار یا دیگر متعلقہ ادارے چاہتے ہوں کہ صوبے میں کاشی کاری کا فن موت سے بچ جائے تو اسے اس وقت موجود گنتی کے دوچار ہنرمندوں کو زندہ رکھنے کے لیے اتنا کچھ دینا ہوگا جس سے وہ غربت کے پنجوں سے نکل کر ''عمر'' نہیں بل کہ ''زندگی'' گزارسکیں اور اس طرح اس فن کو بڑی خوشی کے ساتھ اپنی اگلی نسلوں تک بھی منتقل کرسکیں۔
اس فن کو دنیا کی دیگر اقوام کے سامنے پیش کرنے اور اسے باقاعدہ ایک صنعت کے طور پر ترقی دینے کے لیے جو ذرائع اور وسائل درکار ہیں خیبرپختون خوا کے ہنر مند اور فن کار تاحال ان تمام ذرائع اور وسائل سے محروم ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ اپنے فن کو اس طرح پیش نہیں کرسکے جس نئی شکل اور نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے ملک کے دیگر شہروں کے فن کار اپنے فن کو پیش کررہے ہیں یہ حقیقت اپنی جگہ کہ آج پوری دنیا کو پلاسٹک اور سٹیل کلچر نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے مٹی، پیتل، چاندنی اور کانسی کے برتنوں کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے۔
تاہم پھر بھی فن کاشی کاری کے حوالے سے آئے دن ملک کے دیگر شہروں سے جو برتن، آرائش و زیبائش کا جو سامان مختلف قسم کے ڈیزائنوں، رنگوں اور شکلوں میں مارکیٹ میں آرہا ہے اس طرح کی چیزیں بنانے سے خیبرپختوں خوا کے فن کار ا ور ہنر مند لاچار نہیں ہے مگر ان کے پاس وہ وسائل اور ذرائع نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صوبے کے بیشتر علاقوں اور دیہاتوں میں مٹی کے برتن بنانے والے آج بھی اسی انداز اور شکل میں برتن بناتے ہیں جس انداز اور شکل میں آج سے کئی سال قبل ان کے آباؤ اجداد بناتے رہے، ہمارا کمہار آج بھی اس بھٹی میں مٹی کے برتن پکانے کے لیے بیٹھا رہتا ہے جو بھٹی اسے اپنے آباؤ اجداد سے میراث میں ملی ہے۔ بھلا اس قسم کی دیہی اور گھریلو صنعت شہر کی جدید ٹیکنالوجی پر چلنے والی صنعت اور مصنوعات کا مقابلہ کیسے کرے گی؟ بقول خوش حال خان خٹک
یا کشتی دہ زورورو سرہ مکڑہ
یا ددوئی غوندے پیدا کڑہ مڑوندونہ
(یا تو زورآور لوگوں سے کشتی مت لڑو یا ان جیسے اپنے بازو میں طاقت پیداکرو) نہ تو ہمارے ہاں کوئی ایسا سرکاری ادارہ یا انسٹی ٹیوٹ موجود ہے جو دیہاتوں میں رہنے والے ہنر مندوں کو تربیت دے کر نئے نئے ڈیزائنوں او نئی ٹیکنالوجی سے متعارف کرائے ان کے پاس جو فن وہنر ہے اسے دوسروں تک پہنچائے ساتھ انہیں اس بات کی تعلیم دے کہ آج فن صرف برائے فن نہیں بل کہ یہ ایک صنعت بھی ہے جسے عصری تقاضوں کے مطابق نئے خطوط کے ساتھ دیگر اقوام کے مقابلے میں لاکھڑا کرنا چاہیے۔
ہمارے دیہات میں بہت ساری ایسی خواتین بھی موجود ہیں جو کہ اپنے گھروں میں مختلف فنون کے نادر نمونے تخلیق کرتی رہتی ہیں خصوصاً دست کاری، کشیدہ کاری اور مٹی کے برتنوں پر روغن اور چینی کی چڑھائی کا فن، ازاربند، پراندے، شال ، چادریں اور اس طرح کھیلوں اور آرائش وزیبائش کے مختلف نمونے بناتی ہیں جو کہ صرف ان کے گھر محلے یا زیادہ سے زیادہ گاؤں کے کسی چھوٹے سے بازار تک محدود رہتے ہیں۔
اگر حکومت اور ثقافت کے فروغ کے نام پر قائم سرکاری اور غیرسرکاری ادارے واقعی اپنی مٹی ، تہذیب اور ثقافت کے ساتھ مخلص ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا کی تہذیب میں ہماری بھی کچھ نہ کچھ پہچان بنے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے پس ماندہ علاقوں اور شہروں میں دیگر ضروری سہولیات کے ساتھ ساتھ فن و ثقافت کی ترقی کے لیے بھی عملی اقدامات اٹھانے چاہییں۔ صوبے میں امن وامان کی ایک ایسی فضا برقرار رکھنی ہوگی جس میں بیرون ممالک کے تاجر اور فن کاشی کاری کے شائقین بلاخوف خطر پشاور کے بازاروں میں گھوم پھر سکے۔
حکومت فن کاشی کاری کو زندہ رکھنے کے لیے آرٹس سوسائٹیاں، کالجز اور اس قسم کے دیگر ادارے بنائیں اور انہیں آج کی دنیا کے منظرنامے کے مطابق سہولیات فراہم کرکے ضروری ٹیکنالوجی سے لیس کرکے ا پنی تہذیب و ثقافت کو مرمٹنے سے بچائیں ورنہ اس فن اور صنعت سے وابستہ سینکڑوں گھروں کے چولہے بجھ جائیں گے۔
ان کی روشنی میں ہمارے محققین اور ماہرین آثار قدیمہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آج سے ہزاروں سال قبل حجر ی دور (پتھر کے زمانے ) میں رہنے والے انسان کو پتھر کے چاک پر مٹی کے نقشی برتن بنانے اور ان برتنوں کو آگ میں پکانے کا ہنر اور سلیقہ بھی آتا تھا۔ اس نے پکی ہوئی مٹی کے پائے دار برتن بنائے اور نسل انسانی کی بڑی صنعتوں میں سے اہم کارآمد صنعت کی بنیاد ڈالی۔
لہٰذا دریافت ہونے والے آثارقدیمہ کے جتنے بھی نمونے ہاتھ آئے ہیں یا کھدائی کے دوران مزید دریافت ہورہے ہیں، وہ اس بات کی نشان د ہی کرتے ہیں کہ آج سے ہزاروں سال قبل قدیم دور کا انسان ظروف سازی کے متعلق بہت کچھ جانتا تھا، اگرچہ اس نے چیزوں کو بطور ایک آرٹ نہیں بل کہ ضروریات زندگی کے تحت متعارف کروایا لیکن ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے، کے تحت جب قدیم دور کے انسان نے اپنے ہاتھوں سے جانوروں کی کھال، پتھر اور مٹی سے اپنے لیے مختلف چیزیں بنائیں۔
انہیں سادہ ڈیزائنوں سے سجایا اور برتن سازی (ظروف سازی) کی داغ بیل ڈالی تو یہ ابتدا نہ صرف ایک بہترین صنعت ثابت ہوئی بل کہ ایک بہترین آرٹ بھی سامنے آیا۔ اس آرٹ کو مزید سجانے، نکھارنے اور پھیلانے میں فطرت نے انسان کو بہت کچھ سکھایا، کیوں کہ فطرت بذات خود قدرت کا ایک بہت ہی حسین و جمیل آرٹ ہے اور اسی آرٹ کے مختلف النوع مظاہر، مناظر اور رنگ مثلاً پہاڑ، دریا، چشمے، آبشاریں، درخت، پھول، جانور، پرندے اور حشرات الارض کے بے شمار نمونوں کی نقالی اور تصویر گری قدیم دور کے انسانوں کی باقیات میں آج بھی ہمیں نظر آتی ہے۔
زمین اور آسمان کے تمام رنگ اور مناظر کو غار سے لے کر گھر اور محل تک نقش کرنے میں انسان نے تاریخ کے ہر دور میں اپنی صناعی اور ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے، جو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ قدیم دور کا انسان جسے آج ہم وحشی، درندہ اور جاہل جیسے ناموں سے یاد کرتے ہیں، وہ نقاشی، مصوری، مجسمہ سازی، شاعری، موسیقی اور دیگر فنون سے بخوبی واقفیت رکھتا تھا۔ ملک کے مختلف شہروں کے عجائب گھروں میں رکھے ہوئے نمونوں کا مشاہدہ اور اس کا تاریخی پس منظر پکار پکار کر کہتا ہے کہ ہمیں تخلیق کرنے والا شکاری انسان ایک بڑا صناع، کاریگر اور اپنے زمانے کا بہت بڑا فن کار تھا۔
اب جہاں تک خیبرپختون خوا کے بیشتر علاقوں میں دریافت ہونے والے (ظروف) برتن سازی کے مختلف نمونوں کا تعلق ہے تو ان نمونوں پر مختلف ادوار کے سماجی، تہذیبی، مذہبی اور سیاسی اثرات نمایاں نظر آتے ہیں اس ضمن میں معروف ترقی پسند دانش ور سید سبط حسن کی ان چند سطروں کو غور سے پڑھنا ور سمجھنا نہایت ضروری ہے۔
وہ اپنی کتاب ''پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء'' میں لکھتے ہیں کہ ''جس چیز کو آج کل گندھارا آرٹ کا نام دیا جاتا ہے وہ دراصل آرین ' یونانی، ساکا، پارتھی اور کشن تہذیبوں کا نچوڑ ہے، گندھارا آرٹ کو ہماری تہذیب میں بہت اہم مقام حاصل ہے۔
اس لیے عربوں کی آمد سے بیشتر کی تہذیب کا سب سے حسین مرقع گندھارا آرٹ ہی ہے گندھارا کا مرکز تو ٹیکسلا تھا لیکن اس کی جڑیں پشاور، مردان، سوات، افغانستان حتیٰ کہ وسطی ایشیا تک پھیلی ہوئی ہیں'' سبط حسن کے اقتباس کی روشنی میں جب بھی ہم اپنے ہاں (خیبرپختون خوا) میں دریافت ہونے والے ظروف سازی کے مختلف نمونوں کا تاریخی جائزہ لیتے ہیں تو اس حقیقت سے شناسائی ہوتی ہے کہ یہاں کی برتن سازی کے فن و ہنر پر مذکورہ اقوام کی تہذیب اور مذہب کا بہت گہرا اثر رہا ہے۔
جن پودوں، جانوروں ، دیوی دیوتاؤں اور درختوں سے ان اقوام کا تہذیبی، معاشرتی اور مذہبی تعلق اور رشتہ استوار تھا ان چیزوں کی تصویر گری اور نقاشی مختلف آلات و اوزار اور خصوصاً برتن سازی میں آج بھی نظر آرہی ہے تاریخی تسلسل کے ساتھ مغلیہ دور سے پہلے بھی اس مٹی کے رہنے والوں میں فن نقاشی، مصوری اور آرٹ کے دیگر شعبوں کے حوالے سے ایک فنی شعور اور تیکنیک موجود تھی لیکن کاشی کاری کے فن کو بطور ایک پیشہ اور ایک عمدہ آرٹ کی شکل میں متعارف کروانے اور اسے بام عروج تک پہنچانے کا سہرا مغل حکم رانوں کے سر ہے۔
ظہیر الدین بابر سے لے کر اورنگ زیب عالم گیر تک ہر مغل حکم راں نے پورے برصغیر میں کاشی کاری کے علاوہ فن آرٹ کے ہر شعبے، نقاشی مصوری، فن خطاطی اور موسیقی کے فن کو اپنی درباری سرپرستی دے کر خوب جلابخشی جس کے بے شمار نمونے آج بھی پاکستان اور ہندوستان کی مختلف تاریخی عمارتوں مقبروں، مساجد، قلعوں اور بارہ دریوں کی شکل میں مغل آرٹ کے نام سے دنیا کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں مغل حکم راں وسطی ایشیا اور ایران سے اپنے ساتھ بڑے بڑے صناعوں، شاعروں، مصوروں اور موسیقاروں کو بھی ساتھ لائے اور ان سے صرف ان کے ہنر اور ذوق کے متعلق فن اور آرٹ کا کام لیا۔
انہیں درباری سرپرستی دی انہیں سہولیات، خطابات، انعامات اور تمغوں سے نوازا۔ فنِ کاشی کاری کے تاریخی پس منظر اور وجہ تسمیہ کے بارے میں اردو زبان کے ادیب سید امجد علی لکھتے ہیں کہ ''روغنی ٹائلوں پر نقش و نگار بنانے کا فن کاشی کاری کے نام سے موسوم ہے اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اس فن کو ایران کے شہر (کاشان) کے لوگوں نے پروان چڑھایا اس فن کے نادر نمونے اصفہان کی قدیم عمارات میں سب سے زیادہ نظر آتے ہیں۔ اصفہانی عمارات میں جو ٹائلیں استعمال ہوئی ہیں۔
ان میں فن کا مظاہرہ پھول، پتیوں یا پھر کچھ اقلیدسی ڈیزائنوں اور اشکال میں کیا گیا ہے، لاہور کے قلعے کی ٹائلوں میں شاہ جہاں کے زمانے کے ثقافتی و سماجی مناظر کی خوب تصویرکشی کی گئی ہے۔ مرد، عورتیں، چرند، پرند اور پھول بوٹے سب کچھ ہی موجود ہیں۔ ان ٹائلوں میں بے شمار رنگ استعمال کیے گئے ہیں۔ قدیم انداز کی ٹائل سازی کا فن اب تقریباً معدوم ہوچکا ہے اس کے گراں قدر نمونے اب صرف قدیم عمارات ہی میں دیکھے جاسکتے ہیں۔''
ایک زمانہ تھا کہ فن کاشی کاری سے مزین برتنوں اور دیگر مصنوعات کے شوقین دنیا کے کونے کونے سے پشاور آیا کرتے تھے اور یہاں سے فن کاشی کاری سے مزین برتن اور دیگر سازوسامان خرید کر لے جایا کرتے تھے۔
خصوصاً سوئٹزرلینڈ، امریکا اور عرب امارات کے تاجر تو پشاور کے فن کاروں کے ہاتھ کے نمونوں کے دیوانے بن گئے تھے مگر آج پورے صوبے میں کاشی کاری کا فن آخری سانسیں لے رہا ہے، جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آج پورے شہر میں صرف گنتے کے دو چار کاری گر ایسے ہیں جو اس مرتے ہوئے فن کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان میں ایک معروف اور سنیئر نام جان محمد کا ہے، جو جانی استاد کے نام سے شہرت رکھتے ہیں اور دوسرا نام نوجوان فہد کا ہے جو استادجان محمد کے شاگرد ہیں اور عرصہ تین سال سے کاشی کاری کے ذریعے پیتل اور چاندنی کے مختلف برتنوں اور ڈیکوریشن کے سامان پر اپنے فن کے نقوش ثبت کررہے ہیں۔
فہد کے بڑے بھائی حیات نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ ''یہ ہمارا خاندانی فن اور کاروبار ہے پہلے ہمارا کاروبار خوب چلتا تھا، کیوں کہ بیرون ممالک سے لوگ چیزیں خریدنے کے لیے سیدھا پشاور آتے تھے امن وامان کا کوئی مسئلہ نہیں تھا کاشی کاری سے مزین برتنوں کے شوقین بے خوف وخطر پورے شہر میں گھومتے پھرتے تھے مگر گذشتہ کئی سال سے پورے ملک بالخصوص پشاور میں عدم تحفظ کے بڑھتے ہوئے احساس نے غیرملکی تاجروں اور کاشی کاری کو پسند کرنے والوں کی آمد روک دی ہے۔
اگر مہینوں بعد کوئی غیرملکی خریداری کے لیے آتا بھی ہے تو وہ بھی پولیس اور خفیہ ایجنسی کے اہل کاروں کی نگرانی میں آتا ہے پورے صوبہ اور خصوصاً پشاور میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور عدم تحفظ کے احساس نے ہمارے کاروبار کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے، کیوں کہ ہمارے کاروبار کا زیادہ تر دارومدار غیرملکیوں کے آنے پر ہے، مقامی لوگ تو گھڑوں، مٹوں اور دیگچیوں کے علاوہ دیگر سامان خریدنے کی نہ تو استطاعت رکھتے ہیں اور نہ ہی اس فن سے کوئی خاص دل چسپی رکھتے ہیں۔ پہلے خریدار یہاں آتے تھے جب کہ آج ہمیں اپنے نمونے لے کر اسلام آباد جانا پڑتا ہے۔
رہی سہی کسر مہنگائی نے پوری کردی۔ پہلے ہمیں پیتل کی شیٹ فی کلو130 روپے کی ملتی تھی جب کہ آج اس کی قیمت ہزاروں میں ملتی ہے۔ مہینوں مہینوں تک ہماری آنکھیں گاہگ کے انتظار میں سفید ہوجاتی ہیں۔''
اس وقت پورے پشاور شہر میں فن کاشی کاری کا آخری چراغ استاد جان محمد نے بتایا کہ ''یہ فن ہمیں اپنے آباواجداد سے میراث میں ملی ہے مجھ سے پہلے میرے والد عبدالکریم بخش اپنے زمانے کے ایک مانے ہوئے کاری گر تھے ان کے علاوہ میرے چچاالہیٰ بخش کا شمار بھی شہر کے بڑے استادوں میں ہوتا تھا۔ میں پچھلے بیس سال سے کاشی کاری سے وابستہ ہوں۔ میرے زمانے کے جتنے بھی استاد اور کاری گر تھے وہ سب وفات پاچکے ہیں، تاہم اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے میں نے اپنے بیٹے کامران جان کے علاوہ اپنے دو شاگردوں فہد اور فہیم خان جو افغان مہاجر ہیں، کو بھی کام سکھایا ہے۔
پہلے غیرملکی سیدھا ہمارے پاس آتے تھے اور ہمیں اپنے کام کا اچھا خاصا معاوضہ دینے کے علاوہ ہماری عزت بھی کیا کرتے تھے مگر جب سے یہاں امن وامان کی حالت خراب ہوئی ہے تو غیرملکیوں نے آنا چھوڑ دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے مقامی کارخانہ داروں اور دکان داروں نے بھی ہمارا استحصال شروع کررکھا ہے۔
ہماری غربت اور مجبوری کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں نہ تو اپنے کام کا معقول اور بروقت معاوضہ دیتا ہے اور اگر دیتا بھی ہے تو بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہوتا ہے جس سے ہم پیٹ بھرکر کھانا بھی نہیں کھاسکتے۔ چوں کہ اس فن کے علاوہ ہمیں کوئی اور کام اور ہنر بھی نہیں آتا اس لیے مجبوراً اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر ہم فریاد کے سوا اور کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں اور نہ کرسکتے ہیں۔''
جان محمد کی باتیں سن کریہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت کی بے پروائی اور مقامی کارخانہ داروں اور دکان داروں کا فن کاشی کاری سے وابستہ کاری گروں اور ہنرمندوں کے خون پسینے کو پانی کی طرح پینے کے عمل نے آج پورے پشاور میں کاشی کاری کے فن کو موت کے دہانے لاکھڑا کیا ہے۔
ہوسکتا ہے اس کے خاتمے میں دیگر سماجی اور تہذیبی وجوہات بھی ہوں مگر سب سے بنیادی وجہ مقامی کارخانہ داروں اور دکان داروں کا اس فن سے وابستہ کا ری گروں کا استحصال ہے۔ چوں کہ اب بھی جو اکادکا غیرملکی خریدار آتے ہیں تو وہ انہی کارخانہ داروں اور دکان دارواں کے پاس آتے ہیں اور جو فن پارہ کاری گر سے دس ہزار کے عوض تیار کرایا ہو غیرملکیوں سے اس کا دوچند معاوضہ وصول کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں کاشی کاری کی تاریخ بہت پرانی ہے مغلیہ دور سے انگریزوں کے دور تک فن کاشی کاری ہوتی رہی جس کے نمونے آج بھی پشاور شہر میں موجود ہیں جن میں مسجد مہابت خان کے علاوہ محلہ سیٹھیاں اور دیگر قدیم عمارات دیکھنے کے قابل ہیں جن کے بارے میں اردو زبان کے ادیب شمیم بھیروی اپنے ایک مضمون ''نقش فریادی'' کے زیرعنوان لکھتے ہیں کہ ''پشاور کی قدیم عمارات کے چوبی نقش و نگار اور قد یم وضع کے مکانات کے ''چینی خانے'' اور ان کی میناکاری انسانی دست کاری و نقش و نگاری کے شاہ کار ہیں۔ مغرب کو فن تعمیر پر ناز ہوسکتا ہے لیکن سیٹھیوں کے محلوں میں ان کے قدیم مکانات دیکھ کر مغرب کی تعمیریں اہل نظر کو ہیچ معلوم ہوتی ہیں۔
یہ مکانات قدیم ایشیائی تہذیب کی زندہ جاوید نشانیاں ہیں کشادہ اور روشن صحن، بیٹھک، خانے، ہوادار او منور کمرے انسان کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج عہد جمہور میں حرم سراؤں کے خواب زندہ ہو کر ان مکانات کی شکل میں آگئے ہیں''۔
لیکن آج یہ ایک خواب و خیال کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس خواب و خیال کو نئی تعبیر کے ساتھ نئی نئی شکل میں پیش کرنے والے کاری گر بھی نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے صوبے میں کاشی کاری کا فن اس مقام اور مرتبے تک نہیں پہنچ سکا جس مقام اور مرتبے کو دنیا کے دیگر ممالک کی اقوام نے پہنچایا، جن میں چائنا، ملائشیا، فرانس، ایران اور وسطی ایشیاء کے ممالک وغیرہ شامل ہیں۔ اپنے ملک پاکستان کے دیگر شہروں مثلاً کراچی، لاہور، ملتان او فیصل آباد کے مقابلے میں بھی صوبے کا دارالحکومت پشاور بہت پیچھے اور پس ماندہ رہا کیوں کہ آج کی ترقی یافتہ اور سائنسی دنیا مصنوعات، ملبوسات، ظروف سازی اور تعمیرات کے حوالے سے نئی نئی سوچ اور نئے نئے ڈیزائن کی دنیا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت اور ایک عالم گیر آزاد تجارتی لین دین کی وجہ سے آج دنیا میں ایک عالم گیر ثقافت اور ایک سائنسی کلچر کا تصور پروان چڑھ رہا ہے۔ نئی نئی فنی اور تکنیکی ایجادات و اختراعات سامنے آرہی ہیں آج کی دنیا میں کسی بھی قوم کی تہذیب وثقافت ادب اور تاریخی ورثے کی حفاظت، ترقی، ترویج اور بقاء سائنس اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے مربوط ہوگئی ہے۔ گلوبلائزیشن کے زیر اثر مختلف ممالک کے ٹی وی چینلز، کیبل اور انٹرنیٹ کے ذریعے ثقافت اور تہذیبی مقابلے کا جو رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
اس رجحان نے جس طرح ہمارے ملک کے دیگر بڑے شہروں کے ہنرمندوں اور فن کاروں کو بیدار اور متحرک کیا ہوا ہے اور وہاں فن و آرٹ کو جس نئے انداز اور عصری تقاضوں کے مطابق انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ دیا گیا ہے اس کے مقابلے میں صوبے کے ہنرمند اور فن کار تا حال پس ماندگی اور ترقی کی اس دوڑ میں بہت پیچھے نظر آرہے ہیں۔
اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ یہاں فنی اور تخلیقی جمود ہے یا ہنر مند اور کاریگر موجود نہیں ہیں، یہاں فن بھی ہے اور چند فن کار بھی موجود ہیں مگر فن تب ہوگا جب فن کار ہوں گے اگر حکومت اور کارخانہ دار، دکان دار یا دیگر متعلقہ ادارے چاہتے ہوں کہ صوبے میں کاشی کاری کا فن موت سے بچ جائے تو اسے اس وقت موجود گنتی کے دوچار ہنرمندوں کو زندہ رکھنے کے لیے اتنا کچھ دینا ہوگا جس سے وہ غربت کے پنجوں سے نکل کر ''عمر'' نہیں بل کہ ''زندگی'' گزارسکیں اور اس طرح اس فن کو بڑی خوشی کے ساتھ اپنی اگلی نسلوں تک بھی منتقل کرسکیں۔
اس فن کو دنیا کی دیگر اقوام کے سامنے پیش کرنے اور اسے باقاعدہ ایک صنعت کے طور پر ترقی دینے کے لیے جو ذرائع اور وسائل درکار ہیں خیبرپختون خوا کے ہنر مند اور فن کار تاحال ان تمام ذرائع اور وسائل سے محروم ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ اپنے فن کو اس طرح پیش نہیں کرسکے جس نئی شکل اور نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے ملک کے دیگر شہروں کے فن کار اپنے فن کو پیش کررہے ہیں یہ حقیقت اپنی جگہ کہ آج پوری دنیا کو پلاسٹک اور سٹیل کلچر نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے مٹی، پیتل، چاندنی اور کانسی کے برتنوں کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے۔
تاہم پھر بھی فن کاشی کاری کے حوالے سے آئے دن ملک کے دیگر شہروں سے جو برتن، آرائش و زیبائش کا جو سامان مختلف قسم کے ڈیزائنوں، رنگوں اور شکلوں میں مارکیٹ میں آرہا ہے اس طرح کی چیزیں بنانے سے خیبرپختوں خوا کے فن کار ا ور ہنر مند لاچار نہیں ہے مگر ان کے پاس وہ وسائل اور ذرائع نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صوبے کے بیشتر علاقوں اور دیہاتوں میں مٹی کے برتن بنانے والے آج بھی اسی انداز اور شکل میں برتن بناتے ہیں جس انداز اور شکل میں آج سے کئی سال قبل ان کے آباؤ اجداد بناتے رہے، ہمارا کمہار آج بھی اس بھٹی میں مٹی کے برتن پکانے کے لیے بیٹھا رہتا ہے جو بھٹی اسے اپنے آباؤ اجداد سے میراث میں ملی ہے۔ بھلا اس قسم کی دیہی اور گھریلو صنعت شہر کی جدید ٹیکنالوجی پر چلنے والی صنعت اور مصنوعات کا مقابلہ کیسے کرے گی؟ بقول خوش حال خان خٹک
یا کشتی دہ زورورو سرہ مکڑہ
یا ددوئی غوندے پیدا کڑہ مڑوندونہ
(یا تو زورآور لوگوں سے کشتی مت لڑو یا ان جیسے اپنے بازو میں طاقت پیداکرو) نہ تو ہمارے ہاں کوئی ایسا سرکاری ادارہ یا انسٹی ٹیوٹ موجود ہے جو دیہاتوں میں رہنے والے ہنر مندوں کو تربیت دے کر نئے نئے ڈیزائنوں او نئی ٹیکنالوجی سے متعارف کرائے ان کے پاس جو فن وہنر ہے اسے دوسروں تک پہنچائے ساتھ انہیں اس بات کی تعلیم دے کہ آج فن صرف برائے فن نہیں بل کہ یہ ایک صنعت بھی ہے جسے عصری تقاضوں کے مطابق نئے خطوط کے ساتھ دیگر اقوام کے مقابلے میں لاکھڑا کرنا چاہیے۔
ہمارے دیہات میں بہت ساری ایسی خواتین بھی موجود ہیں جو کہ اپنے گھروں میں مختلف فنون کے نادر نمونے تخلیق کرتی رہتی ہیں خصوصاً دست کاری، کشیدہ کاری اور مٹی کے برتنوں پر روغن اور چینی کی چڑھائی کا فن، ازاربند، پراندے، شال ، چادریں اور اس طرح کھیلوں اور آرائش وزیبائش کے مختلف نمونے بناتی ہیں جو کہ صرف ان کے گھر محلے یا زیادہ سے زیادہ گاؤں کے کسی چھوٹے سے بازار تک محدود رہتے ہیں۔
اگر حکومت اور ثقافت کے فروغ کے نام پر قائم سرکاری اور غیرسرکاری ادارے واقعی اپنی مٹی ، تہذیب اور ثقافت کے ساتھ مخلص ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا کی تہذیب میں ہماری بھی کچھ نہ کچھ پہچان بنے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے پس ماندہ علاقوں اور شہروں میں دیگر ضروری سہولیات کے ساتھ ساتھ فن و ثقافت کی ترقی کے لیے بھی عملی اقدامات اٹھانے چاہییں۔ صوبے میں امن وامان کی ایک ایسی فضا برقرار رکھنی ہوگی جس میں بیرون ممالک کے تاجر اور فن کاشی کاری کے شائقین بلاخوف خطر پشاور کے بازاروں میں گھوم پھر سکے۔
حکومت فن کاشی کاری کو زندہ رکھنے کے لیے آرٹس سوسائٹیاں، کالجز اور اس قسم کے دیگر ادارے بنائیں اور انہیں آج کی دنیا کے منظرنامے کے مطابق سہولیات فراہم کرکے ضروری ٹیکنالوجی سے لیس کرکے ا پنی تہذیب و ثقافت کو مرمٹنے سے بچائیں ورنہ اس فن اور صنعت سے وابستہ سینکڑوں گھروں کے چولہے بجھ جائیں گے۔