خوابیدہ عالمی ضمیر جھنجھوڑتا بے بس قیدی

قیدکی اذیت جھیلتے ایک اسیرکی زبانی بین الاقوامی سیاست میں اخلاقیات وقانون کوملیامیٹ کرتے انسان دشمن عمل کاچشم کشا قصّہ

قیدکی اذیت جھیلتے ایک اسیرکی زبانی بین الاقوامی سیاست میں اخلاقیات وقانون کوملیامیٹ کرتے انسان دشمن عمل کاچشم کشا قصّہ۔ فوٹو : فائل

سیموئیل پی ہنٹنگٹن امریکا کا ممتاز ماہر ِسیاسیات گذرا ہے۔وہ اپنی مشہور زمانہ کتاب ''تہذیبوں کا تصادم''میں لکھتا ہے: ''مغرب نے اپنے اعلی نظریات، اخلاقی اقدار یا مذہب کے بل بوتے پہ دنیا فتح نہیں کی بلکہ یہ عمل (جدید اسلحے کے ذریعے) منظم جنگیں اور قتل وغارت کر کے حاصل کیا گیا۔مغربی اکثر یہ بات بھول جاتے ہیں مگر غیر مغربی کبھی نہیں بھولتے۔''

یہ بات سولہ آنے سچ ہے۔آج بھی اپنے مفادات کی خاطر مغربی طاقتوں مثلاً امریکا، روس، برطانیہ، فرانس وغیرہ نے عالمی امن خطرے میں ڈال رکھا ہے کیونکہ یہ جدید ترین اسلحے سے لیس ممالک ہیں۔ یہ مغربی قوتیں دنیا میں امن قائم کرنے سے زیادہ جنگیں چھیڑنے کے بہانے ڈھونڈتی ہیں تاکہ اپنے مفادات پورے کر سکیں۔

ان طاقتوں کی شہ پر ہی اسرائیل اور بھارت کے حکمران بھی فلسطینی اور بھارتی مسلمانوں پہ ظلم وتشدد کرتے ہیں اور کوئی مغربی طاقت انھیں روکنے کے لیے عملی اقدام نہیں کرتی۔مغربی طاقتوں نے اخلاقی اقدار اور قانون کو مذاق بنا کر رکھ دیا۔ان کی بے انصافی اور ناجائز سرگرمیاں اقوام عالم میں انتشار و بے چینی پھیلنے کی بڑی وجہ ہے۔مثلاً بھارت سے لے کر امریکا تک میں مسلم خواتین کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ پردہ کرنا چھوڑ دیں۔ یہ خواتین کے حقوق اور آزادی پہ ڈاکا ہے جو نام نہاد جمہوری حکومتیں ڈال رہی ہیں۔

کھلی منافقت
مغربی ممالک کے حکمران کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔ پچھلے سال 26جون کو متاثرینِ تشدد سے یک جہتی کا عالمی دن منایا گیا۔اس موقع پہ امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا:'' امریکا ہر قسم کے تشدد پر پابندی لگانا چاہتا ہے۔ہم دوسروں کو بھی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ کسی انسان کو غیرانسانی سلوک کا نشانہ بنائے۔کسی قیدی پہ تشدد کرنا ہماری قوم کی اعلی اقدار کے خلاف ہے۔کسی انسان پہ تشدد دراصل اجتماعی جرم اور ضمیر پہ بوجھ کے مانند ہے۔''

جن دنوں امریکی صدر نے درج بالا امید افزا بیان دیا، امریکا کے سپریم کورٹ میں ابو زبیدہ کی نظربندی کے خلاف مقدمہ سنا جا رہا تھا۔امریکی حکومت نے اس عرب باشندے کو 2002 ء میں پاکستان سے گرفتار کیا تھا۔وہ تب سے بدنام زمانہ جیل، گوانتانامو میں قید چلا آ رہا ہے۔2002 ء میں اس کی گرفتاری بہت بڑا کارنامہ قرار پائی کیونکہ امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے کے مطابق ابو زبیدہ القاعدہ چیف، اسامہ بن لادن کا دست راست تھا۔

آج وہی سی آئی اے اقرار کر چکی کہ ابو زبیدہ القاعدہ تنظیم میں نچلے درجے سے تعلق رکھنے والا عام رہنما تھا۔ اور یہ کہ اسے ٹوین ٹاورز پہ حملے کی کوئی خبر نہ تھی۔گویا ابو زبیدہ بے گناہ ثابت ہوا۔ سوال یہ ہے کہ پھر امریکی حکمران طبقہ اس بے گناہ کو رہا کرنے کے لیے کیوں تیار نہیں؟

وجہ یہ ہے کہ ابو زبیدہ پہ نہایت خوفناک قسم کا تشدد کیا گیا۔اس تشدد کی داستان کے کچھ حصّے سامنے آ چکے جو پڑھنے والے کے رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں۔امریکی حکومت کو یقین ہے کہ ساری تفصیل سامنے آ ئی تو دنیا بھر میں امریکا کی سُبکی ہو گی۔ ذلت و رسوائی سے بچنے کے لیے امریکی حکمران طبقے نے فیصلہ کیا کہ ابو زبیدہ ساری زندگی جیل میں قید رہے۔

مجرم نہیں پھر بھی اندر!
حقائق سے آشکارا ہے کہ ابو زبیدہ کا معاملہ بڑا انوکھا ہے۔امریکی حکومت تسلیم کر چکی کہ وہ بے گناہ ہے...اور اسی لیے اس کے خلاف کوئی الزام ہی نہیں لگایا گیا۔پھر بھی یہ شخص پچھلے بیس سال سے قید و بند کی سختیاں برداشت کر رہا ہے۔اس تناقص کی وجہ یہی کہ امریکیوں نے گرفتاری کے بعد ابو زبیدہ کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔

اب انھیں خوف ہے کہ ابو زبیدہ کو رہا کیا تو امریکی حکمران طبقے میں شامل وہ شخصیات قانون کی گرفت میں آ سکتی ہیں جنھوں نے ابو زبیدہ پر تشدد کرنے کی اجازت دی۔انھیں قانون سے محفوظ کرنے کے لیے ابو زبیدہ کو زندگی بھر کی خاطر قید میں رکھنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔پاکستان میں بہت سے دانشور مغربی ممالک میں عدل وانصاف کے نظام کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔مگر ابو زبیدہ کے کیس سے عیاں ہے کہ مغربی ملکوں میں نظام ِعدل وانصاف خام ہے۔اگر حکمران طبقے کے مفادات خطرے میں ہوں تو وہ نظام بھی بے اثر ہو جاتا ہے...بلکہ حکمرانوں کی باندی بن کر انھیں اپنا مفاد پورا کرنے میں بھرپور مدد کرتا ہے۔

امریکا میں سپریم کورٹ بظاہر طاقتور ادارہ ہے۔حتی کہ وہ امریکی پارلیمنٹ کے بنائے قوانین ختم کرنے کی قوت رکھتا ہے۔مگر اس میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ امریکی حکومت کی قید سے ایک بے گناہ انسان کو رہا کرا سکے۔ایک طرف تو امریکی اپنے آپ کو انسانی حقوق کا چیمپین،قانون کے رکھوالے اور بااصول کہتے ہیں۔ عملی طور پہ وہ ہر قسم کی غیر انسانی ،غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ابو زبیدہ کا کیس اس امر کا بین ثبوت ہے۔امریکی سپریم کورٹ میں ابو زبیدہ کا مقدمہ کئی برس سے چل رہا ہے مگر اس کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔پچھلے سال بے گناہ قیدی کے وکلا نے اس پہ ہوئے تشدد کے بعض طریقے عدالت میں بیان کیے جو یہ ہیں:

'' ابو زبیدہ کئی ماہ تک مسلسل تشدد کا نشانہ بنا رہا۔2002 ء میںصرف ایک ماہ کے دوران اسے ''تراسی بار''ایک تختے پر ایسی حالت میں لٹکایا گیا کہ سر تا پیر بندھے تھے۔ پھر تفتیش کاروں نے اس کی ناک اور منہ میں زبردستی اتنا زیادہ پانی ڈالا کہ وہ مرنے کے قریب پہنچ گیا۔اس کو مسلسل بیڑیوں سے باندھ کر رکھا گیا۔

کئی بار سر دیوار سے مارا گیا۔اسے برہنہ حالت میں کئی گھنٹے یوں کھڑا رکھا گیا کہ اس کے ہاتھ بلند ہکس سے جڑی بیڑیوں سے بندھے تھے۔اسے کئی کئی دن سونے نہ دیا جاتا ۔اس دوران قیدی پہ مسلسل پانی پھینکا جاتا اور بلند گانے بجائے جاتے۔جب وہ نیند سے مدہوش ہو جاتا تو اس پہ ٹھنڈا پانی پھینکا جاتا۔قیدی کو کئی دن زبردستی تابوت جتنی جگہ میں مقید رکھا گیا۔ایک موقع پہ اسے ایسے ڈبے میں ڈال دیا گیا جو عام میز کے نیچے آسانی سے سما جائے۔قیدی کو ''ریکٹل ریہائڈریشن (rectal rehydration) نامی گھنائونے عمل سے بھی گذارا گیا۔(اس عمل میں مقعد کے اندر نالی ڈال کر اس سے غذا اور پانی آنتوںمیں دبائو سے چھوڑا جاتا ہے۔)''

عالم یہ ہے کہ ابو زبیدہ کے امریکی وکیل اُن ٹھیکے داروں(کنٹریکٹرز)کے پاس پہنچنے میں کامیاب رہے جو قیدی پہ تشدد کرنے کے عمل میں شریک تھے۔وہ عدالت میں گواہی دینے کے لیے تیار بھی ہو گئے۔مگر پہلے ٹرمپ حکومت اور اب جو بائیڈن حکومت نت نئی قانونی موشگافیاں لے آتی ہے... صرف اس لیے کہ سی آئی اے کے سابقہ کنٹریکٹرز سپریم کورٹ میں گواہی پیش نہ کر سکیں۔یہ طرزعمل صدر بائیڈن کے الفاظ سے بالکل منافی اور برعکس ہے۔

اسی لیے امریکی حکمران طبقے کو منافق بھی کہا جاتا ہے۔یہ حکمران عوام کے سامنے تو انسانی حقوق، جمہوریت، آزادی اور اخلاق کے پُراثر لیکچر دیتے ہیں، حقیقت میں مگر مجرموں کی سرپرستی کرتے اور انھیں قانون کی گرفت میں جانے سے بچاتے ہیں۔ اوباما اور بائیڈن جیسے بظاہر دانشور و انسان دوست لیڈر ہوں یا مفادات کے جال میں پھنسے ٹرمپ اور بش جونئیر، امریکی اسٹیبلشمنٹ کی یہ پالیسی بن چکی۔

ابو زبیدہ کون ہے؟
1948 ء میں جب اسرائیل نے فلسطین پہ قبضہ کیا تو وہاں آباد لاکھوں فلسطینی مسلمان کسمپرسی کے عالم میں پڑوسی ممالک ہجرت کر گئے۔ان میں ایک نوجوان، محمد حسین بھی شامل تھا۔وہ سعودی عرب چلا آیا۔ریاض کے ایک اسکول میں بطور استاد اسے ملازمت مل گئی۔کئی سال وہاں پڑھایا۔رقم جمع ہوئی تو مختلف کاروبار کرنے لگا۔

پھر شادی کی جس سے پانچ بیٹے اور پانچ ہی بیٹیاں تولد ہوئیں۔ایک لڑکے کے نام پہ وہ ابو زبیدہ کہلانے لگا۔حتی کہ یہی اس کا نام پڑ گیا۔اللہ نے کاروبار میں برکت دی اور گھرانا خوشحال ہو گیا۔محمد حسین نے بچپن و نوجوانی میں غربت دیکھی تھی۔وہ چاہتا تھا کہ بچوں کو اعلی تعلیم دلوائے تاکہ وہ ترقی کر سکیں۔اس نے بڑے بیٹے کو ڈاکٹربننے پاکستان بھجوا دیا۔دوسرے بیٹے، زین العابدین کو میسور، بھارت بھجوایا جہاں اس نے کمپیوٹر سائنس کی تعلیم پانی تھی۔یہ 1990ء کی بات ہے۔تب زین العابدین کی عمر اٹھارہ سال تھی۔وہ اس عمر کے عام نوجوانوں کی طرح ہلہ گلہ کرنے کا شوقین تھا۔میسور میں حتی کہ اپنی عیسائی ملازمہ سے تعلقات قائم کر لیے۔

میسور میں چند مسلمان لڑکے اس کے دوست بن گئے۔انھوں نے اسے بتایا کہ افغانستان میں حملہ آور روسی فوج کے خلاف جہاد جاری ہے۔دنیا بھر سے مسلم نوجوان وہاں جا رہے ہیں تاکہ مغربی استعمار کو شکست دے سکیں۔ابو زبیدہ بھی جہاد میں دلچسپی لینے لگا۔اس نے جہاد سے متعلق لٹریچر کا مطالعہ کیا۔اب دنیاوی مشاغل میں محو نوجوان کا ذہن بدل گیا۔اس کے من میں بھی جہاد ِافغانستان میں شامل ہونے کی تمنا مچلنے لگی۔


اب یہ نکتہ مقصد ِحیات بن گیا کہ وہ شہادت کا درجہ پائے یا غازی کہلائے گا۔چناں چہ 1991 ء میں کسی نہ کسی طرح زین العابدین افغانستان جا پہنچا ۔وہاں اس نے ایک تربیتی کیمپ میں اسلحہ چلانے کی تربیت پائی۔پھر دیگر عربوں اور افغانوں کے ساتھ دشمن سے لڑنے لگا۔ایک لڑائی میں شدید زخمی ہوا۔سر میں گولی لگنے سے یاداشت متاثر ہوئی۔وہ پھر پاکستان چلا آیا جہاں ڈاکٹر بنتے بھائی نے اس کا علاج کیا۔اسے یہ صلاح بھی دی کہ ڈائری لکھنے لگے تاکہ اس کو روزمرہ کاموں کی تفصیل یاد رہے۔

زین العابدین تندرست ہوا تو اسے پشاور میں اس مہمان خانے کا ناظم بنا دیا گیا جہاں عرب نوجوان آ کر ٹھہرتے تھے۔وہ کچھ عرصہ قیام کر کے افغانستان چلے جاتے اور دشمن سے نبردآزما ہوتے۔مہمان خانے میں زین العابدین ابو زبیدہ کے عرف سے مشہور ہوا۔حتی کہ باپ کی طرح یہی نام لوگوں کی زبانوں پہ چڑھ گیا۔افغان مجاہدین کے دلیرانہ جہاد سے پسپا ہو کر روسی رخصت ہوئے تو افغانستان میں موجود عرب مجاہدین نے فیصلہ کیا تھا کہ جن مسلم اکثریتی علاقوں پہ اغیار کا قبضہ ہے۔

اب انھیں آزاد کرایا جائے۔اس نظریے سے امریکا سمیت سبھی مغربی ممالک اور ان کے ہمنوا مسلم حکمران متفق نہ تھے۔اسی لیے مجاہدین اور ان کا ٹکرائو شروع ہو گیا۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ تصادم بڑھا۔عرب اور ان کی ہم خیال دیگر مسلم مجاہدین اسامہ بن لادن کی زیرقیادت ایک تنظیم، القاعدہ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔ستمبر 2001 ء میں ٹوین ٹاورز، نیویارک کی تباہی کے بعد اس تصادم نے نئی جہت اختیار کر لی۔اب امریکی خونخوار بھیڑیوں کی طرح القاعدہ اور دیگر جہادی تنظیموں کے ارکان کا پیچھا کرنے لگے۔

امریکی حکمران طبقہ اکلوتی سپر پاور ہونے کے باعث بلاشرکت غیرے قوت کا مالک تھا۔اپنی زبردست حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے چاہیے تھا کہ وہ اسرائیل، بھارت، سربیا، فلپائن اور روس پہ دبائو ڈالتا کہ وہ فلسطینی، کشمیری،بوسنین، فلپائنی اور روسی(خصوصاً چیچن)مسلمانوں پہ ظلم وستم کرنا بند کر دیں۔مگر امریکی حکمران طبقہ اس راہ پہ نہیں چلنا چاہتا تھا۔اسی لیے وہ ان مجاہدین کا دشمن بن گیا جو بذریعہ جہاد درج بالا مسلمانوں کو استعمار کے ظلم سے نجات دلانا چاہتے تھے۔

رفتہ رفتہ افغانستان دنیا بھر سے آنے والے مجاہدین کا مرکز بن گیا۔وہ وہاں آ کر عسکری تربیت پاتے اور پھر استعمار سے جا بھڑتے۔سپر پاور ہونے کے ناتے امریکا ان کا بڑا دشمن بن گیا۔ اس سارے عرصے کے دوران ابوزبیدہ نے بیشتر وقت غیر جنگی سرگرمیوں میں مشغول رہ کر گذارا۔جب امریکا نے افغانستان پہ حملہ کیا تو وہ بھی دیگر عرب مجاہدین کی طرح پناہ گاہوں میں مقیم ہو گیا۔کسی نے ڈالروں کے لالچ میں اس کی مخبری کر دی اور وہ پکڑا گیا۔

''ہائی ویلیو ٹارگٹ ''
امریکی حکومت فی الفور پروپیگنڈا کرنے لگی کہ وہ اسامہ بن لادن کا نائب اور القاعدہ میں تیسرا بڑا رہنما ہے۔ دہشت گردی کے منصوبے بنانے میں سرگرم حصہ لیتا ہے۔غرض امریکیوں نے اسے بہت اہم القاعدہ لیڈر بنا دیا۔اور اسی لیے ابو زبیدہ سے ''راز''اگلوانے کی خاطر اس پہ ہر قسم کا تشدد جائز قرار پایا۔یہ پہلا عرب مجاہد ہے جس پہ امریکیوں نے تشدد کے مختلف طریقے آزمائے۔

کئی سال تک امریکی متفرق جگہوں پر اسے لیے لیے پھرے اور ہر جگہ ابو زبیدہ ٹارچر کا نشانہ بنا۔آخر 2008 ء میں کہیں جا کر امریکی خفیہ ایجنسیوں کو اندازہ ہوا کہ وہ ''ہائی ویلیو ٹارگٹ ''نہیں بلکہ عین ممکن ہے کہ القاعدہ سے تعلق ہی نہیں رکھتا۔آج تک اسے عدالت میں اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع نہیں دیا گیا۔سوال یہ ہے کہ امریکیوں کو کیسے علم ہوا کہ ابو زبیدہ القاعدہ کا تیسرا بڑا رہنما ہے؟ کسی گرفتار شدہ القاعدہ لیڈر نے بتایا؟ یا پاکستانیوں نے انھیں الو بنا دیا؟بہرحال اب سبھی امریکی خفیہ ادارے متفق ہیں کہ ابو زبیدہ عام عرب مجاہد اور اسامہ بن لادن کے اندرونی بااعتماد حلقے میں شامل نہ تھا۔پھر بھی انھوں نے بیچارے کو گوانتانامو میں قید کر رکھا ہے اور اسے رہا کرنے کو تیار نہیں۔

فیصل آباد میں ابو زبیدہ کی پناہ گاہ سے اس کی چھ ڈائریاں بھی برآمد ہوئیں جو دس ہزار صفحات پر مشتمل ہیں۔ان ڈائریوں کے مندرجات اس کی شخصیت کے کئی گوشے اجاگر کرتے ہیں۔وہ ابتداً مادی خواہشات میں لت پت نوجوان تھا۔پھر افغان جہاد نے اسے مقصد ِزندگی عطا کر دیا۔مجاہد بننے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ فلسطین کو اسرائیل سے آزاد کرانا چاہتا تھا۔وہ ڈائری میں لکھتا ہے:

''میں ایک فلسطینی ہوںجس کا کوئی وطن نہیں، کوئی شناخت نہیں...ایک ایسا انسان ہوں جو ایسے ملک میں پیدا ہوا جو اس کا اپنا دیس نہیں۔میں ایسی مملکت میں رہتا ہوں جہاں کے باسی مجھے پناہ گزیں سمجھتے ہیں۔جبکہ یہود نے میرے وطن میں ظلم وستم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔میں پہلے یہ امر نظرانداز کر دیتا تھا۔مگر اب اس تلخ سچائی سے فرار نہیں پا سکتا۔''

چشم کشا رپورٹ
ابو زبیدہ پچھلے بارہ برس سے امریکی عدالتوں میں اپنی رہائی کا مقدمہ لڑ رہا ہے۔امریکی نظام مگر اسے انصاف نہیں دے پایا۔اس کے وکلا میں پروفیسر مارک ڈینبیو کس(Mark P. Denbeaux)بھی شامل ہیں۔یہ سیٹن ہال لا اسکول میں ایک ادارے، سینٹر فار پالیسی اینڈ ریسرچ کے سربرا ہ ہیں۔سیٹن ہال یونیورسٹی امریکی ریاست، نیو جرسی میں واقع مشہور کیتھولک درسگاہ ہے۔اس کے لا اسکول کا شمار امریکا کے ممتاز لا اسکولوں میں ہوتا ہے۔ابو زبیدہ نے پروفیسر مارک اور ان کی ٹیم کو تفصیل سے تشدد کے ان طریقوں کی بابت بتایا جو امریکی تفتیش کنندگان نے اس پہ اختیار کیے۔ابو زبیدہ نے انھیں ڈرائنگیں بنا کر بھی دیں تاکہ وہ طریقوں کو سمجھ سکیں۔

پروفیسر مارک نے مع اپنی ٹیم ابو زبیدہ کے انکشافات اور ڈرائنگوں پہ مبنی ایک رپورٹ ''امریکا ٹارچر کیسے کرتا ہے؟''(HOW AMERICA TORTURES)تیار کی جو کچھ عرصہ قبل سامنے آئی۔یہ رپورٹ منکشف کرتی ہے کہ امریکی حکمران طبقہ بظاہر انسانی حقوق کا نام لیوا مگر حقیقت میں بڑا ظالم ہے۔کوئی اس کے مفادات کے خلاف چلے تو اس سے اذیت ناک سلوک کرتا ہے۔گویا امریکی حکومت دو چہرے رکھتی ہے:ایک صاف ستھرا اور دوسرا داغدار۔رپورٹ میں ابو زبیدہ نے اپنی گرفتاری کے بعد پیش آنے والے واقعات کا ذکر کچھ یوں کیا:

''جب میری آنکھ کھلی تو میں نے خود کو ایک سفید پینٹ شدہ کمرے میں پایا۔میرا بستر اسٹیل سے بنا تھا جس پہ مجھے زنجیروں سے باندھا گیا تھا۔میرے زخموں میں تکلیف تھی لہذا سونے کی سعی کرنے لگا۔(دوران گرفتاری ابو زبیدہ شدید زخمی ہوا تھا)مگر اچانک مجھ پہ پانی کی پھوار پڑی اور میں ہڑبڑا کر رہ گیا۔دیکھا کہ کمرے میں انسان نما سیاہ چیز کھڑی ہے۔بغور دیکھا تو پتا چلا کہ آدمی نے سیاہ لباس پہن رکھا ہے۔عینک بھی سیاہ شیشیوں والی تھی۔ہاتھ میں پانی کا پائپ تھا جس سے مجھ پہ تیز دھار ڈال رہا تھا۔

''میں جیسے ہی آنکھیں بند کرتا،وہ میرے چہرے پر پانی کی دھار مار دیتا۔تھوڑی دیر بعد کمرے میں موسیقی کی ہولناک آواز آنے لگی۔آواز اتنی زیادہ بلند تھی کہ میرے کان شور سے پھٹنے لگے۔تب مجھے احساس ہوا کہ یہ لوگ مجھے نیند جیسی دولت سے محروم کرنا چاہتے تھے۔میں تادیر پانی اور شور کی اذیت برداشت کرتا رہا۔آخر دو لوگ آئے اور بستر کے ساتھ پڑی کرسیوں پہ بیٹھ گئے۔ان کے ہاتھ میں قلم اور کاپیاں تھیں۔اب مجھ سے تفتیش شروع ہوئی۔وہ جاننا چاہتے تھے کہ القاعدہ کیا منصوبے بناتی ہے اور اس کے اہم رہنما کون ہیں۔

''میں کئی گھنٹے اذیت برداشت کرنے کی وجہ سے ذہنی طور پہ مفلوج ہو چکا تھا۔ان کے ایک بھی سوال کا جواب نہیں دے پایا۔یہ دیکھ کر انھوں نے موسیقی بند کرا دی۔پانی پھینکنے والا آدمی بھی چلا گیا۔جب میرے حواس بحال ہوئے تو انھیں یہی بتایا کہ میرا القاعدہ سے کوئی قریبی تعلق نہیں۔میں بس اس سے ہمدردی رکھتا تھا۔مگر وہ یہی کہتے رہتے کہ تم القاعدہ کے سینئر رہنما ہو، تم بہت کچھ جانتے ہو۔

''چند ہفتے بعد وہ مجھے ایک پلاسٹک کرسی پہ بٹھانے لگے۔میرے سارے کپڑے اتار کر مجھے برہنہ کر دیا گیا۔پھر انھوں نے مجھے کرسی سے باندھ دیا۔میں نیچے پڑے ایک برتن میں بول بزار کیا کرتا۔مگر مجھے اتنی سختی سے باندھا جاتا کہ میں معمولی سا بھی ہل نہ پاتا۔لہذا اکثر پیشاب میرے بدن پہ گرتا۔اور میری پٹیاں گیلی ہو جاتیں۔تادیر وہ مجھے بھوکا پیاسا رکھتے اور میں کرسی سے بندھا رہتا۔

''اس دوران ٹارچر کا سلسلہ جاری ہو جاتا۔کبھی مجھ پہ پانی کی تیز دھار مار دی جاتی۔کبھی ائرکنڈیشنر کھول دیا جاتا اور میں گیلا ہونے کی وجہ سے سردی کے مارے تھر تھر کانپنے لگتا۔موسیقی کا خوفناک شور بھی میرے اعصاب توڑ مروڑ دیتا۔مگر میں رفتہ رفتہ اس تشدد کا عادی ہو گیا۔میں تب ایک سیکنڈ کی نیند لے لیتا جو مجھے تازہ دم کر دیتی۔حتی کہ ایسا وقت آیا ،پانی کی دھار مجھ پہ پڑ رہی ہوتی، تب بھی میں چند سیکنڈ کی نیند لے لیتا۔

''جب انھوں نے دیکھا کہ میں چند سیکنڈ کے لیے سو جاتا ہوں تو وہ مجھے کھڑا رکھنے لگے۔وقتاً فوقتاً ٹہلا دیتے۔تب میرے زخموں میں شدید درد ہوتا۔میں انسان تھا،یہ ہولناک ٹارچر کب تک برداشت کرتا؟آخر میرے ہوش وحواس گم ہو گئے اور میں اول فول بکنے لگا۔تب انھوں نے مجھے کچھ دیر سونے کی اجازت دے دی۔آہستہ آہستہ میں دوران ٹارچر سونا سیکھ گیا۔ایک سیکنڈ کے لیے آنکھیں بند کرتا اور پھر کھول لیتا۔ایک سیکنڈ سوتا، دوسرے سیکنڈ جاگ جاتا۔اس طرح نیند کی کمی دور کرنے لگتا۔''

یہ ابو زبیدہ کی داستانِ تشدد کے محض چندخوفناک نمونے ہیں جو ابھی ختم نہیں ہوئی۔امریکی حکمران طبقے نے تو اس بے گناہ کو زندہ درگور کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔کیا اُن کے ملک کو ترقی یافتہ ، روشن خیال اور آزادی پسند کہا جا سکتا ہے؟
Load Next Story