خوش گمانیوں اور آبادیوں کے جنگل
سارے عمل میں کلیدی انتظامی افسران کی آشیر باد سے معاملات باآسانی چلتے رہتے ہیں
اوائل عمری کا ایک عرصہ اس احساسَ برتری کے ساتھ گذرا کہ ہم کوئی عام سا ملک نہیں، ہمارے ہاں تو اکثر چیزیں ایشیا میں سب سے بڑی پائی جاتی ہیں۔
ایشیا کا سب سے لمبا پُل، سب سے اونچا پل، سب سے بڑا ڈانسنگ فاؤنٹین، سب سے بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی، سب سے بڑا ریل جنکشن وغیرہ وغیرہ۔ مگر پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ ہمیں ایشیا دیکھنے کا موقع مل گیا، احساس برتری کا رومانس چھناکے سے ٹوٹ گیا۔
حالیہ سالوں میں جو بھی حکومت آئی وہ ایک روایت ضرور نبھاتی ہے۔ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔ سرمایہ کاری کے لیے موجود مواقع اور ترغیبات کا خلاصہ ایک فقرے میں کچھ یوں سمویا ہوتا کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے جنت ہے۔
ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ جب کبھی ہمارے حکمرانوں کو دنیا کے ان ممالک کا شہری و صنعتی انفرااسٹرکچر اور سہولیات دیکھنے کا موقع ملا جن کے ہاں اربوں ڈالرز لگانے کے لیے سرمایہ کار دوڑے چلے آتے ہیں تو ان پر کیا گزرے گی۔
کیا ان کے اس دعویٰ کا حشر بھی ویسا ہی ہوگا جو ہمار ے احساس برتری کا ایشیا دیکھنے کے بعد ہوا! ہمیں گزشتہ اتوار ایک عرصے بعد لاہور سے براستہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ جانے کا موقع ملا ۔ کچھ عرصہ قبل ہمیں لاہور تا گوجرانوالہ جی ٹی روڈ پر بارہا سفر کرنے کا موقع ملا۔ دو رویہ سڑک کا کوئی نہ کوئی حصہ زیر تعمیر یا زیر مرمت ضرور پایا۔ ٹریفک کا بہاؤ ہمیشہ شدید پایا ، سونے پر مزید سہاگہ یہ کہ بیشتر ڈرائیور حضرات کو آگے نکلنے کی اس قدر جلدی ہوتی تھی کہ وہ سب سے پہلے ٹریفک رولز روندتے اور پھر کسی اور کو۔
ہر بار کوئی نہ کوئی تعمیر جاری دیکھ کر یہی سننے کو ملتا کہ جناب؛ بس یہ والا حصہ مکمل ہوگیا تو اس رش سے جان چھوٹ جائے گی، وہ جان کل چھوٹی نہ آج۔ اس کا احساس ہمیں گزشتہ اتوار کو بھی ہوا۔ شاہراہوں پر ٹریفک کا اژدھام کیوں نہ ہو کہ شہروں کا پھیلاؤ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ مدت ہوئی سرکاری اداروں نے ماسٹر پلان کے تحت نئی ہاؤسنگ آبادیوں کے انتظامات اورمربوط انفرااسٹرکچر کی سر دردی ترک کرکے یہ بلا نجی شعبے کے حوالے کر دی ہے۔
جس کے بعد شہروں کے باہر بے ہنگم، بے ترتیب خود رو انداز میں آبادیوں کے جنگل اگ رہے ہیں۔ اس دھندے میں کرپشن اور سٹّے کا اسقدر پیسہ شامل ہے کہ خدا کی پناہ! چند سو کنال جگہ، ایک خوب صورت دفتر اور ایک پر کشش اشتہاری مہم اور مارکیٹنگ۔ بکنگ فارمز اور فائلوں ہی سے ٹھیک ٹھاک ہن برستا ہے۔ مزید منافع تو خیر اپنی جگہ۔ بیچی جانے والی زمین ملکیت سے کہیں زائد ہوتی ہے، خریدار رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ نیب کے پاس سب سے زیادہ کیسز ہاؤسنگ سوسائٹیزز ہی کے ہیں۔
ہر بڑے ڈویلپرز کے پیچھے کوئی نہ کوئی مضبوط سیاسی شخصیت علانیہ یا غیر علانیہ موجود ہوتی ہے۔ ایسے میں زمینوں پر قبضے، کاغذات میں ہیر پھیر یا بقول شخصے درستی اور سرکاری اسکیموں کے تحت سیاسی اثر و رسوخ سے سڑکوں کے ساتھ لنک آسان ہوجاتا ہے۔
اس سارے عمل میں کلیدی انتظامی افسران کی آشیر باد سے معاملات باآسانی چلتے رہتے ہیں۔ عوام بھی عادی ہوگئے کہ سرکاری سطح پر منظم ہاؤسنگ اسکیمیں دستیاب نہیں، جو چند ایک موجود ہیں وہاں سٹے باز ان کی قیمتیں آسمان کے ہم سر کر چکے۔ یہ سارا گھن چکر ایک غیر محسوس انداز میں پچھلی چار دِہائیوں میں اس سرعت سے پھیلا ہے کہ اب پراپرٹی کا دھندہ ایک آرٹ ہے جو عفریت کی طرح شہروں کے آس پاس زرعی زمینیں نگل رہا ہے، رابطہ سڑکیں ایک مسلسل ہڑبونگ اور اذیت کا نمونہ پیش کرتی ہیں۔
کچھ یہی عالم سرکاری انتظام کے تحت بنائی گئی انڈسٹریل اسٹیٹس کا ہے۔ ویسے تو پاکستان بھر میں ماضی میں ستر اسی کے قریب بنائی گئی انڈسٹریل اسٹیٹس میں سے بمشکل ایک ڈیڑھ درجن ہی کامیاب ہوئیں۔ بیشتر آج بھی بھائیں بھائیں کر رہی ہیں۔ جنوبی کوریا، تائیوان، چین، ویت نام، ملائیشیا اور دیگر ممالک کے ہاں انڈسٹریل اسٹیٹس دیکھنے کے بعد اپنے ہاں کی انڈسٹریل اسٹیٹس دیکھیں تو دیوار سے سر مارنے کو جی چاہتا ہے۔
پنجاب کی ایک قابل فخر انڈسٹریل اسٹیٹ کے رابطے یعنی Connectivity کا یہ عالم ہے کہ اس کا براہ راست کسی بڑی سڑک اور ریل سے رابطہ نہیں۔ ایک خستہ حال رابطہ سڑک سندر اور دوسری رائے ونڈ کی جانب جاتی ہے جو خستگی ، تنگی اور صبح شام ٹریفک جام کا شکار رہتی ہے۔ لاہور جانے کا راستہ یا تو لاہور رائے ونڈ روڈ سے ہے جہاں پہلے ہی ہاؤسنگ کالونیز کی بہتات کے سبب ٹریفک کا سونامی جاری رہتا ہے یا پھر سندر روڈ سے جاتی عمرہ کی جانب سے ہیوی ٹریفک کا اژدھام آئے روز صبر کا امتحان لیتا ہے۔
یہ ہے پنجاب کی سب سے بڑی اور فخریہ انڈسٹریل اسٹیٹ کے رابطے کا عالم۔ صنعتی پلاٹ کی قیمتیں آٹھ دس کروڑ فی ایکڑ ( دنیا بھر میں صنعتی زمین حکومت ڈویلپ کرکے لیز پر فراہم کرتی ہے تاکہ پلاٹ بیچنے کی حوصلہ شکنی ہو اور زمینوں کی بڑھتی قیمتوں کا فائدہ حکومت کے اثاثوں میں رہے )۔
ایشیا کا سب سے لمبا پُل، سب سے اونچا پل، سب سے بڑا ڈانسنگ فاؤنٹین، سب سے بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی، سب سے بڑا ریل جنکشن وغیرہ وغیرہ۔ مگر پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ ہمیں ایشیا دیکھنے کا موقع مل گیا، احساس برتری کا رومانس چھناکے سے ٹوٹ گیا۔
حالیہ سالوں میں جو بھی حکومت آئی وہ ایک روایت ضرور نبھاتی ہے۔ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔ سرمایہ کاری کے لیے موجود مواقع اور ترغیبات کا خلاصہ ایک فقرے میں کچھ یوں سمویا ہوتا کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لیے جنت ہے۔
ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ جب کبھی ہمارے حکمرانوں کو دنیا کے ان ممالک کا شہری و صنعتی انفرااسٹرکچر اور سہولیات دیکھنے کا موقع ملا جن کے ہاں اربوں ڈالرز لگانے کے لیے سرمایہ کار دوڑے چلے آتے ہیں تو ان پر کیا گزرے گی۔
کیا ان کے اس دعویٰ کا حشر بھی ویسا ہی ہوگا جو ہمار ے احساس برتری کا ایشیا دیکھنے کے بعد ہوا! ہمیں گزشتہ اتوار ایک عرصے بعد لاہور سے براستہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ جانے کا موقع ملا ۔ کچھ عرصہ قبل ہمیں لاہور تا گوجرانوالہ جی ٹی روڈ پر بارہا سفر کرنے کا موقع ملا۔ دو رویہ سڑک کا کوئی نہ کوئی حصہ زیر تعمیر یا زیر مرمت ضرور پایا۔ ٹریفک کا بہاؤ ہمیشہ شدید پایا ، سونے پر مزید سہاگہ یہ کہ بیشتر ڈرائیور حضرات کو آگے نکلنے کی اس قدر جلدی ہوتی تھی کہ وہ سب سے پہلے ٹریفک رولز روندتے اور پھر کسی اور کو۔
ہر بار کوئی نہ کوئی تعمیر جاری دیکھ کر یہی سننے کو ملتا کہ جناب؛ بس یہ والا حصہ مکمل ہوگیا تو اس رش سے جان چھوٹ جائے گی، وہ جان کل چھوٹی نہ آج۔ اس کا احساس ہمیں گزشتہ اتوار کو بھی ہوا۔ شاہراہوں پر ٹریفک کا اژدھام کیوں نہ ہو کہ شہروں کا پھیلاؤ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ مدت ہوئی سرکاری اداروں نے ماسٹر پلان کے تحت نئی ہاؤسنگ آبادیوں کے انتظامات اورمربوط انفرااسٹرکچر کی سر دردی ترک کرکے یہ بلا نجی شعبے کے حوالے کر دی ہے۔
جس کے بعد شہروں کے باہر بے ہنگم، بے ترتیب خود رو انداز میں آبادیوں کے جنگل اگ رہے ہیں۔ اس دھندے میں کرپشن اور سٹّے کا اسقدر پیسہ شامل ہے کہ خدا کی پناہ! چند سو کنال جگہ، ایک خوب صورت دفتر اور ایک پر کشش اشتہاری مہم اور مارکیٹنگ۔ بکنگ فارمز اور فائلوں ہی سے ٹھیک ٹھاک ہن برستا ہے۔ مزید منافع تو خیر اپنی جگہ۔ بیچی جانے والی زمین ملکیت سے کہیں زائد ہوتی ہے، خریدار رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ نیب کے پاس سب سے زیادہ کیسز ہاؤسنگ سوسائٹیزز ہی کے ہیں۔
ہر بڑے ڈویلپرز کے پیچھے کوئی نہ کوئی مضبوط سیاسی شخصیت علانیہ یا غیر علانیہ موجود ہوتی ہے۔ ایسے میں زمینوں پر قبضے، کاغذات میں ہیر پھیر یا بقول شخصے درستی اور سرکاری اسکیموں کے تحت سیاسی اثر و رسوخ سے سڑکوں کے ساتھ لنک آسان ہوجاتا ہے۔
اس سارے عمل میں کلیدی انتظامی افسران کی آشیر باد سے معاملات باآسانی چلتے رہتے ہیں۔ عوام بھی عادی ہوگئے کہ سرکاری سطح پر منظم ہاؤسنگ اسکیمیں دستیاب نہیں، جو چند ایک موجود ہیں وہاں سٹے باز ان کی قیمتیں آسمان کے ہم سر کر چکے۔ یہ سارا گھن چکر ایک غیر محسوس انداز میں پچھلی چار دِہائیوں میں اس سرعت سے پھیلا ہے کہ اب پراپرٹی کا دھندہ ایک آرٹ ہے جو عفریت کی طرح شہروں کے آس پاس زرعی زمینیں نگل رہا ہے، رابطہ سڑکیں ایک مسلسل ہڑبونگ اور اذیت کا نمونہ پیش کرتی ہیں۔
کچھ یہی عالم سرکاری انتظام کے تحت بنائی گئی انڈسٹریل اسٹیٹس کا ہے۔ ویسے تو پاکستان بھر میں ماضی میں ستر اسی کے قریب بنائی گئی انڈسٹریل اسٹیٹس میں سے بمشکل ایک ڈیڑھ درجن ہی کامیاب ہوئیں۔ بیشتر آج بھی بھائیں بھائیں کر رہی ہیں۔ جنوبی کوریا، تائیوان، چین، ویت نام، ملائیشیا اور دیگر ممالک کے ہاں انڈسٹریل اسٹیٹس دیکھنے کے بعد اپنے ہاں کی انڈسٹریل اسٹیٹس دیکھیں تو دیوار سے سر مارنے کو جی چاہتا ہے۔
پنجاب کی ایک قابل فخر انڈسٹریل اسٹیٹ کے رابطے یعنی Connectivity کا یہ عالم ہے کہ اس کا براہ راست کسی بڑی سڑک اور ریل سے رابطہ نہیں۔ ایک خستہ حال رابطہ سڑک سندر اور دوسری رائے ونڈ کی جانب جاتی ہے جو خستگی ، تنگی اور صبح شام ٹریفک جام کا شکار رہتی ہے۔ لاہور جانے کا راستہ یا تو لاہور رائے ونڈ روڈ سے ہے جہاں پہلے ہی ہاؤسنگ کالونیز کی بہتات کے سبب ٹریفک کا سونامی جاری رہتا ہے یا پھر سندر روڈ سے جاتی عمرہ کی جانب سے ہیوی ٹریفک کا اژدھام آئے روز صبر کا امتحان لیتا ہے۔
یہ ہے پنجاب کی سب سے بڑی اور فخریہ انڈسٹریل اسٹیٹ کے رابطے کا عالم۔ صنعتی پلاٹ کی قیمتیں آٹھ دس کروڑ فی ایکڑ ( دنیا بھر میں صنعتی زمین حکومت ڈویلپ کرکے لیز پر فراہم کرتی ہے تاکہ پلاٹ بیچنے کی حوصلہ شکنی ہو اور زمینوں کی بڑھتی قیمتوں کا فائدہ حکومت کے اثاثوں میں رہے )۔