بس اللہ مالک ہے

پاکستانیوں کے پاس ایسی تمام سمسیاؤں کے سمادھان کے لیے ایک ہی آسان جواب ہے

ISLAMABAD:
یہ تو ہم بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں کہ دنیا کے رقبے کا ایک چوتھائی خشکی اور باقی پانی ہے،اگر اسی پانی کو ایک فرضی بالٹی میں جمع کر لیا جائے تو اس بالٹی میں میٹھے پانی کی مقدار چائے کے کپ کے برابر ہے۔ (میٹھے پانی کا یہ کپ گلیشیرز ، دریاؤں ، جھیلوں اور زیرِ زمین پانی کی شکل میں دستیاب ہے ۔)

اس کپ میں سے چائے کے چمچ کے برابر پانی انسانی استعمال میں ہے۔اب اگر چائے کے چمچ میں میسر پانی بھی ہم اپنی غفلت سے آلودہ کر دیں تو پھر ہماری دماغی صحت کسی بھی صورت اس زعم سے لگا نہیں کھاتی کہ ہم ہی اشرف المخلوقات ہیں۔ویسے کہنے کو آپ بھلے لاکھ بار روزانہ '' پانی ہی زندگی ہے'' جاپتے رہیں۔

میٹھے پانی کی اس قدر قلیل مقدار کے باوجود بھی حال یہ ہے کہ صرف چھتیس فیصد پاکستانیوں کو پینے کا صاف معیاری پانی میسر ہے۔پاکستان کا شمار چوٹی کے ان دس ممالک میں ہوتا ہے جہاں انسانوں کو گھر کے قریب صاف پانی تک سب سے کم رسائی ہے۔کم ازکم اکیس ملین پاکستانیوں کو یہ صاف پانی طویل فاصلہ طے کر کے گھر تک لانا پڑتا ہے۔

پاکستان اس اعتبار سے خوش قسمت ہے کہ یہاں زیرِ زمین پانی کا چوتھا بڑا عالمی ذخیرہ پایا جاتا ہے اور اس ذخیرے کو استعمال کرنے والا تیسرا بڑا مقداری ملک بھی پاکستان ہے۔ دنیا میں موجود زیرِ زمین پانی کے ذخیرے کا نو فیصد پاکستان کے زیرِاستعمال ہے۔یہ استعمال عاقلانہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔مگر استعمال بنا منصوبہ بندی اندھا دھند ہے۔چنانچہ زیرِ زمین پانی ضایع کرنے والے ممالک کی فہرست میں بھی پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔

جتنا بھی زیرِ زمین پانی نکالا جاتا ہے اس پر مقامی صنعت کا انحصار سو فیصد ، پینے کا انحصار نوے فیصد اور زراعت کا انحصار ساٹھ فیصد تک ہے۔ گزشتہ دو عشروں سے ایک اور نیا استعمالی مہمان آن دھمکا ہے۔یعنی بوتل بند پانی فروخت کرنے والی کمپنیاں جو سپریم کورٹ کی آبزرویشن کے مطابق کوڑیوں سے بھی کم قیمت ادا کرکے پانی کھینچ کے سونے کے بھاؤ فروخت کرتی ہیں۔مزید قیامت ان بارہ لاکھ ٹیوب ویلوں نے ڈھا رکھی ہے جو زرعی و صنعتی مقاصد کے لیے زیرِ زمین پانی کھینچتے ہیں۔ وہ کسی نظام الاوقات یا قیمت کی ادائی کے پابند نہیں۔ان میں سے آٹھ لاکھ ٹیوب ویل صرف صوبہ پنجاب میں نصب ہیں۔

مزید بدقسمتی یہ ہے کہ جو بھی پانی زیرِ زمین ذخائر ، دریاؤں اور جھیلوں سے زراعت کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔اس کی ساٹھ فیصد مقدار کھیت تک پہنچنے کے دوران یا پہنچنے کے بعد ضایع ہو جاتی ہے۔کچھ شملہ برداروں کو اپنے کھیت لبالب کر دینے تک کی آبی مقدار تک رسائی ہے اور بہت سے کسانوں کو بقدرِ اشکِ بلبل پانی بھی سنچائی کے لیے مل جائے تو مارے خوشی ان کے پاؤں ہی نہیں ٹکتے۔

اس وقت پاکستان میں لگ بھگ بارہ وفاقی و صوبائی محکمے سطح ِ زمین پر موجود پانی کے انتظام و انصرام اور سیلابی صورت ِ حال سے نپٹنے کے نام پر قائم ہیں۔مگر زیرِ زمین پانی کی نگرانی اور باقاعدگی پر نگاہ رکھنے کے لیے ایک بھی وقف ادارہ نہیں۔وہ الگ بات کہ چار برس قبل سپریم کورٹ زیرِ زمین آبی ذخائر کی دیکھ ریکھ اور پانی کے نرخ طے کرنے کی بابت ایک واضح حکم جاری کر چکی ہے۔

اس ملک میں ریت اٹھانے اور اس کے استعمال کے لیے تو اجازت نامہ درکار ہے مگر زیرِ زمین پانی استعمال کرنے کے لیے کوئی لائسنس درکار نہیں۔دو ہزار اٹھارہ میں جاری ہونے والی قومی واٹر پالیسی میں رہنما خطوط تو موجود ہیں مگر ان خطوط کے نفاذ کے لیے جس طرح کی قانون سازی اور اس پر عمل درآمد اور اس عمل درآمد کی ذمے داری کے لیے جو ادارہ سازی چاہیے وہ ندارد ہے۔

آبادی اور تعمیرات میں بنا منصوبہ بندی بے لگام اضافے اور ضوابط و قوانین کی غیر موجودی یا عمل درآمد نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں زیرِزمین پانی سالانہ اوسطاً ایک میٹر ( ساڑھے تین فٹ ) نیچے جا رہا ہے۔کوئٹہ میں زیرِ زمین پانی تک رسائی کے لیے بارہ سو فٹ تک کھدائی کرنا پڑتی ہے جب کہ لاہور میں پچھتر یا ایک سو چونسٹھ فٹ گہرائی درکار ہے۔


پانی کی فراہمی و نکاسی کے ذمے دار شہری ادارے واسا کا کہنا ہے کہ انتظامی اقدامات اور ضوابط پر عمل درآمد کے سبب لاہور میں زیرِ زمین پانی کے ذخیرے کی مقدار میں پچھلے تین برس سے کوئی کمی نہیں ہوئی، مگر ایسا دعویٰ لاہور سے باہر پانی کی قلت کے شکار کسی اور شہر کی جانب سے تاحال سنائی نہیں دیا۔

رہی بات ہماری زرعی ، صنعتی اور انسانی زندگی کے ضامن سطحِ زمین پر بہنے والے دریاؤں نالوں اور جھیلوں کی۔تو ہم نے ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جو دشمن کے ساتھ بھی ناممکن ہے۔انسانی، زرعی اور صنعتی استعمال سے آلودہ ترانوے فیصد پانی بنا کسی صفائی سیدھا دریاؤں میں جاتا ہے۔اس آلودہ پانی میں فضلے ، زہریلے مادوں بالخصوص سنکھیا اور دھاتوں کی مقدار اس قدر ہے کہ اگر اس پانی کو ہی ابتدائی صفائی کے بعد دریا تک رسائی دی جائے تو پاکستان میں مریضوں کی سالانہ تعداد میں پچاس لاکھ تک کمی آ سکتی ہے۔

ترقی کے نام پر سندھ میں صنعتی و زرعی فضلہ سمندر تک پہنچانے کے لیے جس طرح لیفٹ بینک اور رائٹ بینک نکاسی کینالز کو تعمیر کر کے استعمال کیا گیا ہے۔اس کے بعد سندھو دریا اور سمندر تو برباد ہوا ہی ہے۔میٹھے پانی کی سب سے بڑی قومی جھیل منچھر بھی تباہ ہو کے رہ گئی ہے اور کلری و ہالیجی بھی جاں بلب ہے۔سندھ کے تقریباً چوبیس اضلاع میں پینے کے لیے جو پانی میسر ہے اس کا معیار طے شدہ عالمی پیمانے کے اعتبار سے کہیں ابتر ہے۔

اور مرے پے سوواں درہ امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی وہ تازہ رپورٹ ہے جس میں راوی کو دنیا کا سب سے آلودہ دریا قرار دیا گیا ہے۔راوی کے پانی میں ادویاتی و طبی فضلے کی سب سے زیادہ مقدار پائی گئی ہے۔راوی کے بعد بولیویا اور ایتھوپیا کے دریا یہ عذاب سب سے زیادہ جھیل رہے ہیں۔ لاہور، شیخوپورہ اور فیصل آباد کے صنعتی فضلے نے مغلوں کے چہیتے دریا کو ایک تعفن زدہ نالے میں تبدیل کر دیا ہے۔

سندھ تاس معاہدے کے مطابق راوی پر پہلا حق بھارت کا ہے۔بھارت نہ صرف راوی کا پانی پورا پورا استعمال کر رہا ہے بلکہ بدلے میں ہڈیارہ نالے کا آلودہ پانی بھی راوی میں ڈال کے پاکستان بھیج رہا ہے اور اب پیشِ خدمت ہے راوی اربن ڈویلپمنٹ میگا پروجیکٹ۔یعنی راوی کنارے اور آس پاس کی زرعی زمینوں پر اسلام آباد جیسا ایک نیا شہر بسانے کی تیاری۔

اس نئے شہر کے باسیوں کا فضلہ کہاں ٹھکانے لگے گا ؟ اس بارے میں وزیرِ اعظم کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے۔اس فضلے اور آلودہ پانی کو ٹریٹمنٹ پلانٹس` سے گذار کے دریا میں ڈالا جائے گا۔مگر اس نئے شہر کے بسنے سے پہلے ہی یہ دریا جس ماحولیاتی ریپ کا مسلسل شکار ہے کیا یہ ناسور چار ٹریٹمنٹ پلانٹ نئے منصوبے میں نصب کرنے سے مندمل ہو سکتا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں راوی خاموش ہے۔

اور نئی آبادی پانی بھی تو پئے گی اور نہائے دھوئے گی بھی۔اس کے بعد قلتِ آب کے شکار لاہور اور گرد و نواح میں زیرِ زمین پانی کے ذخائر میں کتنی کمی بیشی ہو گی۔راوی اس بابت بھی مہر بلب ہے۔

ہم پاکستانیوں کے پاس ایسی تمام سمسیاؤں کے سمادھان کے لیے ایک ہی آسان جواب ہے ''اللہ مالک ہے ''۔مگر اللہ صرف انسانوں کا تو نہیں پانی کا بھی مالک ہے۔اور ہم جس طرح اس نعمت کا شکر ادا کرنے پر تلے ہوئے ہیں وہ بھی تو اللہ کے نوٹس میں ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story