انتہاپسندی
سنکیانگ میں چینی حکام کو اصل چیلنج انتہا پسندی کا ہے
PESHAWAR:
نیلی بار Nele Bar کے سرسبز علاقہ کی تحصیل میاں چنوں کے گاؤں تلمبہ میں ایک ذہنی مریض مشتاق انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ پاکستان میں انتہا پسند انسانیت کو پامال کررہے ہیں۔ دستیاب اطلاعات کے مطابق رانا مشتاق خانیوال کا رہنے والا تھا وہ ذہنی مریض تھا اس کی بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
وہ گھر سے سگریٹ پینے کا کہہ کر نکلا تھا۔ وہ ملتان کے ایک معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر کے زیرِ علاج تھا۔ اس کے بھائی کا بیان ہے کہ وہ راستہ بھول گیا اور پناہ لینے کے لیے تلمبہ گاؤں پہنچ گیا جہاں رات کو سردی سے بچنے کے لیے وہ مسجد میں داخل ہوا ہوگا اور سخت سردی میں ٹھٹھر رہا ہوگا۔
یہ قیاس کیا جارہا ہے کہ اس نے سردی سے بچنے کے لیے آگ جلائی ہو گی۔ لوگوں نے خیال کیا کہ اس نے مقدس اوراق کی بے حرمتی کی ہے۔ انھوں نے مشتاق کو درخت سے باندھا ۔ شاید پولیس کو اطلاع مل گئی اور پولیس والے موقع پر پہنچ گئے مگر اتنے ہجوم کے سامنے پولیس کچھ نہ کر سکی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہجوم سے مزاحمت کرتے ہوئے ایک ایس ایچ او زخمی ہوا۔
جب مشتاق کے قتل اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا اور ایف آئی آر میں مشتاق کے قتل کا ذمے دار 300 نامعلوم افراد کو قرار دیا گیا تو پولیس والے دعویٰ کر رہے ہیں کہ سی سی ٹی وی کی مدد سے 62 ملزمان گرفتار ہوئے ہیں۔ فوجداری مقدمات کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ 300 افراد کا نام ایف آئی آر میں درج کرکے ملزمان کی ضمانتوں کا قانونی انتظام کیا گیا۔ جب وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس واقعہ کا نوٹس لیا تو ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کے روایتی بیانات جاری ہوئے۔
چند ماہ قبل سیالکوٹ میں ایک سری لنکن باشندے کو ہجوم نے قتل کیا۔ پشاور میں ایک پادری نامعلوم افراد کی فائرنگ سے گھائل ہوئے اور دنیا فانی سے رخصت ہوئے اور اب میاں چنوں کا مشتاق زندگی کی جنگ ہار گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے انتہاپسندی کو تقویت دینے کی پالیسی پر عملدرآمد شروع ہوا۔ انتہا پسندی پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جنگ سے واپس آنے والے مخالف مسلک کے ڈاکٹروں ، انجینئروں اور وکلاء کو نشانہ بناتے تھے۔
نئی صدی کے آغاز کے ساتھ دہشت گردی کی وارداتیں بڑھ گئیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کی خبریں بین الاقوامی ذرایع ابلاغ میں شایع ہونے لگیں تو دہشت گردی کے موضوع پر ہمارے ارباب اختیار کو سنجیدگی سے اہمیت دینی پڑی۔
حکومت نے فیصلہ کیا کہ جدید تعلیمی اداروں اور مدارس کے نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے سائنسی مضامین کی کتب میں جو مذہبی مواد شامل کیا گیا ہے اس کو حذف کیا جائے اور تمام سطحوں پر پڑھائے جانے والے نصاب میں مختلف فرقوں اور مذاہب کے خلاف مواد کو بھی نکال دیا جائے گا۔ مدارس کی رجسٹریشن ہوگی ، لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر بھی نظر رکھی جائے گی۔
خواتین کی حیثیت کو کم تر ظاہر کرنے والے مواد کو خارج کیا جائے گا۔ پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ ختم کیا جائے گا۔ ان فیصلوں پر عملدرآمد شروع ہوا تھا کہ بعض سیاستدانوں کی جانب سے اعتراضات سامنے آنے لگے۔ پشاور پبلک اسکول کے بچوں کا دہشت گردوں نے قتل عام کیا۔ حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں نیشنل ایکشن پلان پر متفق ہوئیں۔ مدارس کی رجسٹریشن شروع ہوئی ، ان کے نصاب پر نظرثانی پر توجہ دی گئی۔ ذرایع ابلاغ سے دہشت گردوں کو ہیرو بنانے پر مشتمل مواد پر پابندی لگادی گئی۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں اس ایکشن پلان پر کسی حد تک عمل ہوا۔ چاروں صوبوں کے جدید تعلیمی اداروں کے نصاب پر نظرثانی ہوئی۔ مساجد کے امام صاحبان کو اس بات پر تیار کیا گیا کہ وہ اپنے وعظ میں نفرت آمیز مواد شامل نہ کریں ۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد وفاق کے علاوہ تین صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومتیں قائم ہوئیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے طالبان سے محبت کا اظہار کرنا شروع کیا۔ ملک میں یکساں نصاب کا نعرہ لگا جس کے نتیجہ میں رجعت پسندانہ مواد کا تناسب پنجاب کے اسکولوں کے نصاب میں بڑھ گیا۔
موجودہ حکومت کو اچانک خیال آیا کہ مختلف اداروں میں مذہبی نظام کے نفاذ کے لیے ایک اتھارٹی قائم کی جائے جس کے فیصلوں سے انتہا پسندی کو مزید تقویت ملے گی اور اس طرح کے واقعات میں کمی نہیں ہوگی۔ تحریک انصاف کے دور میں ولی خان یونیورسٹی کے ابلاغ عامہ کے طالب علم مشال خان کو اسی طرح کے ہجوم نے زندگی سے محروم کیا۔
عمران خان اور مذہبی جماعتوں سمیت تمام رہنماؤں نے اس واقعہ کی مذمت کی تھی ۔ مشال خان کے بہادر باپ اب تک انصاف کے لیے سینہ سپر ہیں مگر مشال خان کی ہمشیرہ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان افراد نے مشال خان کے خاندان کے سماجی بائیکاٹ کی مہم چلائی۔ مشال کی ہمشیرہ نے شکوہ کیا تھا کہ ان کے لیے تعلیم کا سلسلہ برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ، جب تک یہ دہرا معیار رہے گا مذہبی انتہا پسندی کے واقعات جاری رہیں گے۔ فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے مسئلہ پر ایک نیا جھگڑا کھڑا ہوا۔
فرانس پاکستان کی ایوی ایشن انڈسٹری کو فعال کرنے میں سب سے زیادہ معاون ثابت ہوا ہے۔ فرانس کی دفاعی ٹیکنالوجی پاکستان استعمال کرتا ہے۔ فرانس نے یورپی یونین سے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
اب اس صورتحال سے فرانس سے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے۔ یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں پاکستان میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر مذمت کی قرارداد ایجنڈا کا حصہ بنی۔ پاکستان اس وقت بین الاقوامی منظر نامہ میں تنہائی کا شکار ہے۔ صرف چین تمام معاملات پر پاکستان کی حمایت کرتا ہے مگر سلامتی کونسل میں مولانا مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے پر عالمی دباؤ پر چین کے مؤقف میں تبدیلی آگئی تھی۔ پاکستان سنکیانگ کے مسئلہ پر چین کی حمایت کرتا ہے۔
سنکیانگ میں چینی حکام کو اصل چیلنج انتہا پسندی کا ہے۔ ناقدین کا بیانیہ ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس بناء پر حکومت نے انتہا پسندی کا بیانیہ اپنا لیا ہے ، بہرحال حکومت کو بانی پاکستان کی 11اگست 1947کی آئین ساز اسمبلی میں پالیسی تقریر پر توجہ دینی چاہیے ، ورنہ مشتاق رانا کے تینوں بچے انصاف سے محروم رہیں گے۔
معروف بھارتی دانشور اورن دتی رائے نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہندو انتہاپسندی بھارت کو توڑ دے گی۔ ایک پاکستانی مدبرکہتے ہیں کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اس ملک کو ساری دنیا سے تنہا کردے گی جس کا نتیجہ مزید مسائل کی صورت میں نکلے گا۔