چھلنی میں پانی بھرنا

اگرآپ کسی بات کوترازومیں تولنے کے قابل ہوتے تو یوں سترسال سے چھلنی میں پانی بھرنے کی کوشش نہ کرتے


Saad Ulllah Jaan Baraq February 19, 2022
[email protected]

پرانے یعنی نانی دادی کے زمانے کی کہانی ہے جسے گنجے کی کہانی کہاجاتاتھا،یہ ایک گنجے لیکن چالاک لڑکے کی چالاکیوںپرمبنی کہانیاں ہوتی تھیںجسے ایک ''بلا''پکڑکرلے جاتی تھی لیکن چالاک گنجا اس بلاکواپنی چالاکی سے کسی الجھاوے میں پھنساکربھاگ آتاتھا۔

ایک مرتبہ''بلا'' نے اسے پکڑا اورکھانے سے پہلے اس کی آخری خواہش پوچھی تو گنجے نے فرمائش کی کہ میرے لیے دریا سے چھلنی میں پانی لے آنا،کم عقل بلا چھلنی میں پانی بھرنے میں مصروف ہوگئی اورگنجا بھاگ آیا۔

اب کہانی جوکچھ بھی ہے اسے عقل کے ترازومیں مت تولیے، ویسے بھی اگرآپ کسی بات کوترازومیں تولنے کے قابل ہوتے تو یوں سترسال سے چھلنی میں پانی بھرنے کی کوشش نہ کرتے۔ کہانی کا مرکزی خیال ہے چھلنی میں پانی بھرناجس کی جدید شکل وزیروں، مشیروں، معاونوں اورخصوصیوں کی فوج رکھ کرقرضوں سے اپنی معیشت بہترسنوارنا ۔غالب نے توکہاتھا کہ

دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا

زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا

اور ''ناخن'' بھی ایسے ظالم کہ ڈریکولا کے دانت بھی ان کے آگے پانی بھرے بلکہ یہاں تو زخم کے بھرنے تلک بھی نہیں بلکہ اس سے پہلے ہی ''ناخن''نکلے ہوئے ہوتے ہیں،ادھردوست یعنی آئی ایم ایف نے قسط ریلیزکردی اورناخنوں نے خود کو مزید آب داراور تیزدھارکرلیابلکہ ان میں اضافہ بھی ہوجاتاہے یعنی آبادی سے پہلے ہی ڈاکوؤں نے خیمے لگالیے۔

تم نے تو بیابان میں خیمے لگالیے

تنہاکٹے کسی کا سفرتم کو اس سے کیا؟

اورچھلنی بھی وہ چھلنی نہیں ہے جس میں صرف پیدائشی سوراخ تھے بلکہ یہ وہ آٹومیٹک چھلنی ہے کہ اپنے سوراخ بڑھا بھی سکتی ہے بڑا بھی کرسکتی ہے اورپھیلابھی سکتی ہے۔

پرانے زمانے کے سادہ لوح بزرگ جو اکثر دیواروں کے ساتھ ٹیک لگا کر اقوال زریں کی انڈسٹری چلاتے تھے، ان میں سے کسی کاقول ہے کہ ''سوکمانے والے ایک طرف اورایک بچانے والادوسری طرف'' لیکن وہ تو اگلے وقتوں کے لوگ تھے بقول مرشد

اگلے وقتوں کے ہیںیہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو

جومے ونغمہ کو اندوہ رباکہتے ہیں

ماڈرن،جدید اورنیانویلا بلکہ تبدیل شدہ انصاف داراوروژن کاقول یہ ہے کہ ''آنے'' سے پہلے ہی خرچ کردیاکروتاکہ نہ رہے بانس اورنہ بجے بانسری ۔دولت اورپیسہ ہزار فسادوں کی جڑ ہے، اپنے ساتھ بہت ساری برائیاں لاتاہے، اس لیے اسے ہاتھوں میںٹکنے نہ دو فوراً ہی ہاتھ دھولیاکروبلکہ کسی اچھے صابن سے دھونے کے بعد بھی بیس سیکنڈ تک دھوتے رہو،اوریہ اسی سوچ کی برکت ہے، اسی جدید تبدیلی والے قول زرین کا نتیجہ ہے کہ ہم اپنے ہاتھ ہمیشہ دھوتے رہتے ہیں۔

ان صابنوں سے جن کے نام وزیر،مشیراورخصوصی ہیں، جب دیکھتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں سے آئی ایم ایف یادوسرے مہربانوں سے ہاتھ میلے ہورہے ہیں یاہونے والے ہیں تونلکا گھماکر پانی تیزاورکوئی صابن استعمال کرنے لگتے ہیں۔

وہ ایک اورکہانی بہت پرانی دم ہلانے لگی ہے بلکہ اس کے ساتھ ایک گانابھی ہے ۔

گراموفون ریکارڈوں کے زمانے کا مشہور پشتوریکارڈ تھا،

سل پہ لالی پورے دایو پہ دبنگڑو

یعنی ویسے بھی ''لالی'' پرسو روپے کاقرضہ چڑھا ہواہے یہ ایک روپیہ میری چوڑیوں کااورسہی۔

گانے کادوسرامصرعہ کچھ نازیباساہے لیکن سنسربھی نہیں کرسکتے ۔دوسرامصرعہ ہے۔

رنگ دخزو ورک شہ بیخ اوباسی داسڑو

یعنی خدا سفید رنگت والی عورتوں سے بچائے کیوں کہ یہ مردوں کوبربادکردیتی ہیں۔

دراصل یہ نیامعاشی بلکہ نیاپاکستانی فلسفہ ہے کہ زیادہ خرچ کروتو زیادہ آئے گا ویسے بھی اونٹ پر جہاںچارمن کابارلداہواہے تو ایک چھلنی اورسے کیا فرق پڑتاہے جو ڈوب گیاہواس کے سرکے اوپرپانی ایک نیزہ ہویادس نیزے ؟کیافرق پڑتاہے۔

فضول بحث پربھی ایک کہانی موجود ہے، ایک بنیے یعنی ہندو سوداگر کے پڑوس میں ایک مزدور رہتا تھا جو روزانہ کادیہاڑی دار تھاوہ گھرلوٹتاتواپنے ساتھ بہت کچھ کھانے پینے کی اشیاء لاتااوراس کے گھرسے ہر وقت مصالحے دارتڑکوں اورپکوانوں کی خوشبوئیں آتی رہتیں۔ بنیے کی بیوی نے ایک دن بنیے سے کہادیکھوہم اتنے مالدار ہیں لیکن قسمت میں ایک دال ہی لکھی ہے۔

ادھر اس مزدورکودیکھوجس دن دیہاڑی نہیں لگتی بھوکار ہتا ہے لیکن پھر بھی اس کے ہاں پکوانوں کی ریل پیل ہے۔اس پر بنیے نے کہا یہی تومسئلہ ہے کہ اس نے بچت سیکھی ہی نہیں،اب تم دیکھومیں کیاکرتاہوں، اس نے سوروپے ایک پوٹلی میں باندھ کرمزدورکے گھرپھینک دیے۔دوسرے دن سے مزدورکے گھرسے نہ خوشبونکلی نہ پکوانوں اورتڑکوں کی آوازیں آئیں۔وہ جتنے کما لیتا سارے لا کراس پوٹلی میں شامل کردیتاتھا۔

لیکن افسوس کہ ہم نے پڑوس بھی اچھا نہیں پایا کہ ہمارا پڑوسی بنیاتوہے یہ ترکیب اسے یاتوآتی نہیں یااسے ہمارے مالدارہونے سے خطرہ ہے،اگر وہ اپنے بزرگ بنیے کی پالیسی پرعمل پیراہوکرہمارے ہاں کوئی پوٹلی پھینک دیتا توہم بھی چھلنی پھینک کر ''گھڑا'' اٹھالیتے۔سچ کہاہے بزرگوں نے کہ اچھاپڑوسی بھی قسمت سے ملتاہے ،یہ نہ تھی ہماری قسمت۔کہ بنیے کے بجائے چھلنی ملی۔

زباں ملی ہے مگر ہمزباں نہیں ملتا

ویسے اپنی حکومت کی ہم اتنی مدد کرسکتے ہیں کہ اسے بتادیں کہ ابھی چھلنی میں مزید سوراخوں کی بھی گنجائش ہے۔ مثلاً یہ جوسوراخ ہیں، وزیروں، مشیروں، معاونوں، کھڑی کمیٹیوں، لیٹی کمیٹیوں اور سوئی ہوئی کمیٹیوں کے۔اس میں ہرہرسوراخ کے ساتھ دوچار سوراخوں کی گنجائش ہے۔

آخر بیچارے معاونوں کو معاونوں کی ضرورت ہے اورپھر معاونوں کے معاونوں کے معاونوں کے معاونوں کی بھی، اس کے لیے اس شخص کی مثال موجودہے جس نے خالص دودھ کے لیے بھینس خریدی اورپھر بھینس کے لیے معاونین رکھتا گیا، یہاں تک کہ اسے بغیرکسی ملاوٹ کے خالص پانی ملنے گا۔

کیوں نہ ڈوبے رہیں یہ دیدہ تر پانی میں

ہے بنا مثل حباب اپنا تو گھر پانی میں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں