پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور قوت خرید
حالیہ اضافے سے ہر طرف سے مہنگائی کا طوفان اٹھے گا، کیونکہ ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوگا
حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد تیل کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچیں، اسی روز اسٹاک مارکیٹ بھی شدید متاثر رہی۔ ٹرانسپورٹرز نے بھی ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ کرایہ وصول کرنے کی تیاری مکمل کرلی ہے۔
حالیہ اضافے سے ہر طرف سے مہنگائی کا طوفان اٹھے گا، کیونکہ ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔ پہلے ہی رواں بجٹ کے نفاذ سے 15 دن قبل سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور ابھی 9 ماہ پورے بھی نہ ہوئے کہ حکومت پورے ایک درجن بار قیمتیں بڑھاتی رہی کہ اب پٹرول 160 روپے فی لیٹر تک جا پہنچا۔
مختلف حلقوں سے تیل قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں مہنگائی کی لہر آئی تھی جس کا ایک سبب یہ بتایا جا رہا تھا کہ عالمی منڈی میں خوراک، تیل، گیس اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات سے لے کرکھانے پینے اور دیگر ہر شے مہنگی ہوکر رہ گئی تھی۔
حکومت کی طرف سے یہ بیانات سامنے آتے رہے کہ انھیں مہنگائی کا احساس ہے، غربت کا احساس ہے، اجرت کم ہونے کا خیال ہے، تنخواہیں بھی کم ہونے کا احساس ہے لہٰذا مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی خاطر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں یکم مارچ سے اضافے کا اعلان کیا۔
سرمایہ داروں، صنعتکاروں سے ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اجرتوں میں اضافہ کیا جائے گا ، لیکن مزدوروں کی اجرتوں میں اضافے کے لیے کوئی لائحہ عمل اختیار نہیں کیا گیا۔ اسی طرح پنشن یافتہ افراد کے لیے بھی ان کی پنشن میں کسی قسم کے اضافے کا اعلان نہیں کیا گیا۔
بات دراصل یہ ہے کہ حکومت صرف 9 ماہ کے عرصے میں ہی بارہ مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کرتی چلی آ رہی ہے۔ ایسے میں قیمتوں کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جب قیمتوں کی سطح میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے تو ایسی صورت میں لوگوں کو اشیا کی خریداری، مکان کے کرایوں کی ادائیگی، نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ اور دیگر وجوہات کی بنا پر زیادہ زر درکار ہوتا ہے۔
ایسے میں اجرتوں میں اضافہ لازمی ہوتا ہے ، تاکہ مزدور اتنی خوراک، کم سے کم رہائشی سہولیات اور گزارا کے لیے چند کپڑے سال بھر میں ایک جوڑا جوتے کا یا با امر مجبوری کہیں سفر کرنے کے اخراجات کے لیے اسے زیادہ زر کی ضرورت ہوتی ہے ، لہٰذا اجرتوں میں اضافہ لازمی ہوتا ہے۔ اسی طرح حکومت نے سرکاری ملازمین کو اضافی تنخواہ دینے کا اعلان یکم مارچ سے کر رکھا ہے ، لیکن پنشن یافتہ افراد کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے عمر کے 40 یا 42 سال وطن عزیز کی خدمت میں صرف کیے۔
اب اس بڑھاپے میں ان کے کمزور اور ناتواں جسم مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ مہنگائی کا طوفان ان کو بہائے لے جا رہا ہے، کیونکہ رہائشی کرایوں میں بھی زبردست اضافہ ہو چکا ہے۔ ٹرانسپورٹروں کی طرف سے کرایوں میں پہلے ہی بہت اضافہ کیا جاچکا ہے اب مزید اضافے کے اعلانات ہو رہے ہیں۔
کھانے پینے کی ہر شے کی قیمت پہلے جتنی بڑھی تھی اس میں مزید اضافہ یقینی ہے۔ لہٰذا حکومت کو اس سلسلے میں فوری غور کرتے ہوئے ان کی پنشن میں بھی اضافہ کرنا چاہیے اور مزدوروں کی اجرت میں فوری اضافے کا اعلان کرنے کے لیے حکومت اور صنعتکار متفقہ لائحہ عمل طے کریں۔
پٹرولیم قیمتوں میں حالیہ اضافے سے اور پہلے کے اضافے اور عالمی منڈی میں ہر شے کی قیمت میں اضافے نے پاکستان میں افراط زر کی صورت حال کو تو پیدا کر رکھا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوئے چلا جا رہا ہے ، لیکن اس مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ واپس لینے کی اشد ضرورت ہے اور صرف یہی کافی نہیں ہوگا بلکہ اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا کہ اس وقت معاشرے کے 98 فیصد افراد جن کی ماہانہ جتنی بھی آمدن ہو مہنگائی کے باعث ان کی مالی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
کیونکہ ہر ایک کے پاس جتنی بھی ماہانہ آمدن ہے اس کی قدر پہلے کی نسبت بہت گھٹ چکی ہے۔ پہلے زر کی جتنی مقدار خرچ کرکے اشیا خدمات کی جتنی مقدار خریدی جاسکتی تھی اب اتنی اشیا بالکل نہیں خرید سکتے کیونکہ قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔
لہٰذا زر کی رسد بڑھائی جائے تاکہ اشیا و خدمات کی ایک معینہ مقدار حاصل کی جاسکے ، اگر حکومت پنشن یافتہ افراد کی پنشن میں اضافہ نہیں کرتی، صنعتکار، مزدوروں کی اجرت نہیں بڑھاتی، ہر سطح پر کام کرنے والے نجی اداروں کے ملازمین کی ماہانہ اجرت، تنخواہ یا مشاہرہ وغیرہ میں اضافہ نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں اشیا و خدمات کی طلب میں کمی واقع ہوگی۔ لہٰذا جب ہر شے کی طلب میں کمی آتی ہے تو ایسی صورت میں پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔ پیداوار میں کمی آنے کا مطلب روزگار کے مواقعوں کا کم ہونا ہے۔ بالآخر معیشت پر جمود کی کیفیت بھی طاری ہو سکتی ہے۔ اس طرح معیشت ایک منحوس چکر میں پھنس کر رہ سکتی ہے۔
یہ بات اپنی جگہ بالکل بجا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور مزید اضافے کے امکانات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ خوراک اور دیگر اشیا کی بھی قیمتوں میں عالمی سطح پر اضافہ ہو رہا ہے ۔ جس سے ملک کے اکثریتی طبقے کی قوت خرید میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔
اس میں تقریباً ہر شخص شامل ہے چاہے وہ ملازم یا پنشن یافتہ یا صنعتی مزدور یا زرعی مزدور ہیں یا چھوٹے زمیندار ہیں، یا دکاندار ہیں یا ہنرمند اور غیر ہنرمند مزدور ہیں سب کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔ کیونکہ جیب میں اتنی رقم نہیں کہ مختلف اشیا خرید سکیں۔
حالیہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے نقل و حمل کی سرگرمیوں میں خاصی کمی واقع ہو جائے گی۔ کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر، اس میں کمی آنے سے معاشی سرگرمیوں میں بھی کمی آجاتی ہے۔ پاکستان کا اہم مسئلہ یہاں کی سوئی ہوئی معیشت ہے۔
اسے رواں دواں رکھنے اس کی سست رفتاری کو تیز رفتاری میں بدلنے کے لیے اسے متحرک کرنا ضروری ہے اور اس کا متحرک ہونا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو کم کرنے پر منحصر ہے ، اگر معیشت کے دوسرے شعبے اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہوتے، معاشی ترقی کی شرح اتنی ہوتی جوکہ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کر رہی ہوتی اور پیداواری لاگت بھی کم ہوتی تو بات دوسری تھی۔
پہلے ہی مہنگائی کے مسئلے اتنے تیز ہیں کہ اس میں پٹرول بم گرانے سے مزید مہنگائی کی آگ ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر نظر ثانی کرے۔
حالیہ اضافے سے ہر طرف سے مہنگائی کا طوفان اٹھے گا، کیونکہ ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔ پہلے ہی رواں بجٹ کے نفاذ سے 15 دن قبل سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور ابھی 9 ماہ پورے بھی نہ ہوئے کہ حکومت پورے ایک درجن بار قیمتیں بڑھاتی رہی کہ اب پٹرول 160 روپے فی لیٹر تک جا پہنچا۔
مختلف حلقوں سے تیل قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں مہنگائی کی لہر آئی تھی جس کا ایک سبب یہ بتایا جا رہا تھا کہ عالمی منڈی میں خوراک، تیل، گیس اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات سے لے کرکھانے پینے اور دیگر ہر شے مہنگی ہوکر رہ گئی تھی۔
حکومت کی طرف سے یہ بیانات سامنے آتے رہے کہ انھیں مہنگائی کا احساس ہے، غربت کا احساس ہے، اجرت کم ہونے کا خیال ہے، تنخواہیں بھی کم ہونے کا احساس ہے لہٰذا مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی خاطر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں یکم مارچ سے اضافے کا اعلان کیا۔
سرمایہ داروں، صنعتکاروں سے ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اجرتوں میں اضافہ کیا جائے گا ، لیکن مزدوروں کی اجرتوں میں اضافے کے لیے کوئی لائحہ عمل اختیار نہیں کیا گیا۔ اسی طرح پنشن یافتہ افراد کے لیے بھی ان کی پنشن میں کسی قسم کے اضافے کا اعلان نہیں کیا گیا۔
بات دراصل یہ ہے کہ حکومت صرف 9 ماہ کے عرصے میں ہی بارہ مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کرتی چلی آ رہی ہے۔ ایسے میں قیمتوں کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جب قیمتوں کی سطح میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے تو ایسی صورت میں لوگوں کو اشیا کی خریداری، مکان کے کرایوں کی ادائیگی، نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ اور دیگر وجوہات کی بنا پر زیادہ زر درکار ہوتا ہے۔
ایسے میں اجرتوں میں اضافہ لازمی ہوتا ہے ، تاکہ مزدور اتنی خوراک، کم سے کم رہائشی سہولیات اور گزارا کے لیے چند کپڑے سال بھر میں ایک جوڑا جوتے کا یا با امر مجبوری کہیں سفر کرنے کے اخراجات کے لیے اسے زیادہ زر کی ضرورت ہوتی ہے ، لہٰذا اجرتوں میں اضافہ لازمی ہوتا ہے۔ اسی طرح حکومت نے سرکاری ملازمین کو اضافی تنخواہ دینے کا اعلان یکم مارچ سے کر رکھا ہے ، لیکن پنشن یافتہ افراد کو یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے عمر کے 40 یا 42 سال وطن عزیز کی خدمت میں صرف کیے۔
اب اس بڑھاپے میں ان کے کمزور اور ناتواں جسم مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ مہنگائی کا طوفان ان کو بہائے لے جا رہا ہے، کیونکہ رہائشی کرایوں میں بھی زبردست اضافہ ہو چکا ہے۔ ٹرانسپورٹروں کی طرف سے کرایوں میں پہلے ہی بہت اضافہ کیا جاچکا ہے اب مزید اضافے کے اعلانات ہو رہے ہیں۔
کھانے پینے کی ہر شے کی قیمت پہلے جتنی بڑھی تھی اس میں مزید اضافہ یقینی ہے۔ لہٰذا حکومت کو اس سلسلے میں فوری غور کرتے ہوئے ان کی پنشن میں بھی اضافہ کرنا چاہیے اور مزدوروں کی اجرت میں فوری اضافے کا اعلان کرنے کے لیے حکومت اور صنعتکار متفقہ لائحہ عمل طے کریں۔
پٹرولیم قیمتوں میں حالیہ اضافے سے اور پہلے کے اضافے اور عالمی منڈی میں ہر شے کی قیمت میں اضافے نے پاکستان میں افراط زر کی صورت حال کو تو پیدا کر رکھا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوئے چلا جا رہا ہے ، لیکن اس مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ واپس لینے کی اشد ضرورت ہے اور صرف یہی کافی نہیں ہوگا بلکہ اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا کہ اس وقت معاشرے کے 98 فیصد افراد جن کی ماہانہ جتنی بھی آمدن ہو مہنگائی کے باعث ان کی مالی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
کیونکہ ہر ایک کے پاس جتنی بھی ماہانہ آمدن ہے اس کی قدر پہلے کی نسبت بہت گھٹ چکی ہے۔ پہلے زر کی جتنی مقدار خرچ کرکے اشیا خدمات کی جتنی مقدار خریدی جاسکتی تھی اب اتنی اشیا بالکل نہیں خرید سکتے کیونکہ قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔
لہٰذا زر کی رسد بڑھائی جائے تاکہ اشیا و خدمات کی ایک معینہ مقدار حاصل کی جاسکے ، اگر حکومت پنشن یافتہ افراد کی پنشن میں اضافہ نہیں کرتی، صنعتکار، مزدوروں کی اجرت نہیں بڑھاتی، ہر سطح پر کام کرنے والے نجی اداروں کے ملازمین کی ماہانہ اجرت، تنخواہ یا مشاہرہ وغیرہ میں اضافہ نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں اشیا و خدمات کی طلب میں کمی واقع ہوگی۔ لہٰذا جب ہر شے کی طلب میں کمی آتی ہے تو ایسی صورت میں پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔ پیداوار میں کمی آنے کا مطلب روزگار کے مواقعوں کا کم ہونا ہے۔ بالآخر معیشت پر جمود کی کیفیت بھی طاری ہو سکتی ہے۔ اس طرح معیشت ایک منحوس چکر میں پھنس کر رہ سکتی ہے۔
یہ بات اپنی جگہ بالکل بجا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور مزید اضافے کے امکانات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ خوراک اور دیگر اشیا کی بھی قیمتوں میں عالمی سطح پر اضافہ ہو رہا ہے ۔ جس سے ملک کے اکثریتی طبقے کی قوت خرید میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔
اس میں تقریباً ہر شخص شامل ہے چاہے وہ ملازم یا پنشن یافتہ یا صنعتی مزدور یا زرعی مزدور ہیں یا چھوٹے زمیندار ہیں، یا دکاندار ہیں یا ہنرمند اور غیر ہنرمند مزدور ہیں سب کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔ کیونکہ جیب میں اتنی رقم نہیں کہ مختلف اشیا خرید سکیں۔
حالیہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے نقل و حمل کی سرگرمیوں میں خاصی کمی واقع ہو جائے گی۔ کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر، اس میں کمی آنے سے معاشی سرگرمیوں میں بھی کمی آجاتی ہے۔ پاکستان کا اہم مسئلہ یہاں کی سوئی ہوئی معیشت ہے۔
اسے رواں دواں رکھنے اس کی سست رفتاری کو تیز رفتاری میں بدلنے کے لیے اسے متحرک کرنا ضروری ہے اور اس کا متحرک ہونا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو کم کرنے پر منحصر ہے ، اگر معیشت کے دوسرے شعبے اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہوتے، معاشی ترقی کی شرح اتنی ہوتی جوکہ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کر رہی ہوتی اور پیداواری لاگت بھی کم ہوتی تو بات دوسری تھی۔
پہلے ہی مہنگائی کے مسئلے اتنے تیز ہیں کہ اس میں پٹرول بم گرانے سے مزید مہنگائی کی آگ ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر نظر ثانی کرے۔