کچھ یادیں لیاری سے متعلق
کہتے ہیں کہ جہاں انسان بستے ہیں، وہاں انسانی ضروریات کے متعلق مسائل بھی ہوتے ہیں
ISLAMABAD:
کہتے ہیں کہ جہاں انسان بستے ہیں، وہاں انسانی ضروریات کے متعلق مسائل بھی ہوتے ہیں۔ لیاری میں بھی انسان بستے ہیں، ایسے میں انسانی مسائل کا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ لیاری کراچی کی ماں کہلاتی ہے جہاں سے عروس البلاد کراچی نے جنم لیا اور جہاں نئی نئی سوسائٹیاں آباد ہوئی اور ترقی یافتہ علاقوں میں ان کا شمار ہونے لگا ، لیکن لیاری آج بھی ان مسائل میں گرفتار ہے، جن کا برسوں پہلے شکار تھا۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ہم 1980کی دہائی کی بات کرتے ہیں جب لیاری سماجی مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا تھا۔
ایک طرح سے لیاری سیاسی حوالے سے لاوارث تھا ، ایسے میں لیاری کا درد رکھنے والے لیاری کے مخلص بے لوث سماجی رہنما وکارکنان نے بغیرکسی لالچ کے اپنی مدد آپ کے تحت لیاری میں فری ایجوکیشن کی بنیاد رکھی جو اسٹریٹ اسکولز کے نام سے معروف ہوئے۔ بہت جلد لیاری میں اسٹریٹ اسکولوں کا جال بچھ گیا۔ اس طرح غریب گھرانوں کے بچے بھی تعلیم کے زیور سے مستفید ہونے لگے۔
اس زمانے میں پینے کا پانی لیاری سے ناپید ہوچکا تھا ، لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے گھروں میں بورنگ کا انتظام کیا اور جن کی مالی استطاعت نہ تھی ، وہ ایسا نہ کرسکے تھے، مائیں بہنیں ، آدھی رات کو دور دراز علاقوں سے پانی کی تلاش میں سرگرداں رہی ہیں ، ایک وقت ایسا آیا کہ زیر زمین پانی بھی خشک ہوگیا ، لوگ پینے کے پانی کی بوند بوندکو ترسنے لگے، سیاسی انتقام کی آگ میں لیاری کے گٹر (مین ہولز) میں بوری ، پتھر ڈال کر بندکردینے کی سازش معمول بن چکی تھی ، جس کے نتیجے میں لیاری کی ہرگلی، ہر سڑک گندے پانی کا تالاب کا منظر پیش کیا کرتی تھی، حتیٰ کہ مساجد کے اور اسکولوں کے سامنے گٹرکا گندہ پانی جمع ہونا معمول بن چکا تھا۔
مساجد سے اعلانات ہوا کرتے تھے کہ مسجد میں پانی نہیں ہے ، اپنے گھروں سے وضوکرکے آئیں ، جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لیاری کے لوگ نماز پڑھنے سے بھی قاصر تھے ، ایسے میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر جمع ہوتے تھے ، جن سے تعفن اٹھتا تھا ان پر مچھر مکھیوں کی بھرمار ہوتی تھی ، جس کے سبب لیاری میں وبائی امراض پھوٹ پڑتے اور اموات کی شرح بڑھ جاتی تھی۔
برساتی نالے سیوریج نالوں میں تبدیل ہوچکے تھے ، یہ نالے اس قدرگندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوئے کہ ان میں گھاس اور پودے اگ آئے تھے اور بچے ان پرکھیلا کرتے تھے ، دلدل نما ان نالوں میں کئی بچے گرکر جاں بحق ہوئے تھے، ایک بچے کو تو راقم الحروف نے خود نالے سے نکالا تھا جو ڈوب کر مرچکا تھا۔ لیاری کی تمام گلیاں اور سڑکیں آثار قدیمہ کا نمونہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں ،گاڑیاں سڑکوں پر ہچکولے کھاتیں،کھلاڑی تو تھے لیکن کھیل کے میدان چند تھے جو عدم توجہی کے باعث ویران تھے۔
لیاری کے نوجوانوں کے لیے سرکاری دفاترکے دروازے بندکر دیے گئے تھے ، لیاری کی مائیں بہنیں اپنے گھروں کے سامنے کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرکے اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ پالتی تھیں۔ لیاری میں جو چیز وافر مقدار میں دستیاب تھی ، وہ صرف منشیات تھی، جوگاہکوں کو باآسانی مل جایا کرتی تھی۔
ایسے مشکل ترین حالات میں سماجی تحریکیں وجود میں آنا شروع ہوگئی تھی، ایسی ہی ایک سماجی تحریک 1990ء کی دہائی میں قیام عمل میں لائی گئی تھی جو لیاری کی مختلف سماجی اداروں پر مشتمل تھی جس کا نام '' لیاری سوشل ایکشن کمیٹی'' تھا جس کے جنرل سیکریٹری شکور شاد تھے جو اب ماشاء اللہ لیاری سے تحریک انصاف کے منتخب رکن قومی اسمبلی ہیں اور اس سماجی فیڈریشن کا پریس سیکریٹری راقم الحروف تھا۔
اس ادارے کی شبانہ روز سماجی جدوجہد سے اس وقت کی سرکارکے کان کھڑے ہوگئے اور اس کی توجہ لیاری پر مرکوز ہوئی اور اس سوشل ایکشن کمیٹی کی جدوجہد سے لیاری کے سماجی مسائل حل ہونا شروع ہوگئے تھے ، اس دوران سماجی جلسوں میں ، میں اپنے درج ذیل یہ اشعار پڑھا کرتا تھا جو بہت مقبول ہوئے تھے۔
میں ہوں پسماندہ لیاری کا ایک بندہ
علاقہ ہے میرا برسوں سے گندہ
میری غریبی کا تم نہ قصہ پوچھو
گلے میں پڑا ہے میرے بھوک کا پھندا
بہت بھاگا میں تلاش معاش کے لیے
ملا نہیں لیکن کوئی دھندہ
تھک ہارکرکیا ہیروئن کا دھندہ
ایک دن پکڑا گیا ہاتھوں رنگا
لیکن چھوٹ گیا دیکر چندہ
اب تو لیاری میں سماجی کاموں کی صورت ہی تبدیل ہوکر رہ گئی ہے، بعض مفادات پرست عناصر نسل نو کی احساس محرومی ختم کرانے کے لیے ، ان کے نام پر شہرکے بڑے ہوٹلوں میں پروگرامز منعقدکراتے ہیں، اگر ان سوشل ایکٹوسٹ حضرات سے کہا جائے کہ فلاں سماجی مسئلے کو حل کرانے میں ہمارا ہاتھ بٹائیں تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ'' اس میں میرا کیا فائدہ ہے ؟ '' یعنی اس کام کوکرنے میں مجھے کتنی رقم ملے گی؟
یہ ہے لیاری میں آج کی سوشل ورکنگ۔ لیاری کے جو بچے کچے پرانے حقیقی سماجی رہنما اورکارکن ہیں۔ ان میں سے کچھ حالات نے انھیں خاموش کردیا ہے اورکچھ اب بھی خلق خدا کی خدمت میں مصروف ہیں۔ مجموعی طور پر لیاری میںدیانت دارانہ سیاست اور حقیقی سماجی خدمت ختم ہوتی جا رہی ہے ، ان کی جگہ سیاسی مفاد پرست اور جدید سوشل ایکٹوسٹ لے رہے ہیں، غالبا یہی وجہ ہے کہ لیاری میں سماجی مسائل میں دن بہ دن اضا فہ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
کہتے ہیں کہ جہاں انسان بستے ہیں، وہاں انسانی ضروریات کے متعلق مسائل بھی ہوتے ہیں۔ لیاری میں بھی انسان بستے ہیں، ایسے میں انسانی مسائل کا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ لیاری کراچی کی ماں کہلاتی ہے جہاں سے عروس البلاد کراچی نے جنم لیا اور جہاں نئی نئی سوسائٹیاں آباد ہوئی اور ترقی یافتہ علاقوں میں ان کا شمار ہونے لگا ، لیکن لیاری آج بھی ان مسائل میں گرفتار ہے، جن کا برسوں پہلے شکار تھا۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ہم 1980کی دہائی کی بات کرتے ہیں جب لیاری سماجی مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا تھا۔
ایک طرح سے لیاری سیاسی حوالے سے لاوارث تھا ، ایسے میں لیاری کا درد رکھنے والے لیاری کے مخلص بے لوث سماجی رہنما وکارکنان نے بغیرکسی لالچ کے اپنی مدد آپ کے تحت لیاری میں فری ایجوکیشن کی بنیاد رکھی جو اسٹریٹ اسکولز کے نام سے معروف ہوئے۔ بہت جلد لیاری میں اسٹریٹ اسکولوں کا جال بچھ گیا۔ اس طرح غریب گھرانوں کے بچے بھی تعلیم کے زیور سے مستفید ہونے لگے۔
اس زمانے میں پینے کا پانی لیاری سے ناپید ہوچکا تھا ، لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے گھروں میں بورنگ کا انتظام کیا اور جن کی مالی استطاعت نہ تھی ، وہ ایسا نہ کرسکے تھے، مائیں بہنیں ، آدھی رات کو دور دراز علاقوں سے پانی کی تلاش میں سرگرداں رہی ہیں ، ایک وقت ایسا آیا کہ زیر زمین پانی بھی خشک ہوگیا ، لوگ پینے کے پانی کی بوند بوندکو ترسنے لگے، سیاسی انتقام کی آگ میں لیاری کے گٹر (مین ہولز) میں بوری ، پتھر ڈال کر بندکردینے کی سازش معمول بن چکی تھی ، جس کے نتیجے میں لیاری کی ہرگلی، ہر سڑک گندے پانی کا تالاب کا منظر پیش کیا کرتی تھی، حتیٰ کہ مساجد کے اور اسکولوں کے سامنے گٹرکا گندہ پانی جمع ہونا معمول بن چکا تھا۔
مساجد سے اعلانات ہوا کرتے تھے کہ مسجد میں پانی نہیں ہے ، اپنے گھروں سے وضوکرکے آئیں ، جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لیاری کے لوگ نماز پڑھنے سے بھی قاصر تھے ، ایسے میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر جمع ہوتے تھے ، جن سے تعفن اٹھتا تھا ان پر مچھر مکھیوں کی بھرمار ہوتی تھی ، جس کے سبب لیاری میں وبائی امراض پھوٹ پڑتے اور اموات کی شرح بڑھ جاتی تھی۔
برساتی نالے سیوریج نالوں میں تبدیل ہوچکے تھے ، یہ نالے اس قدرگندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوئے کہ ان میں گھاس اور پودے اگ آئے تھے اور بچے ان پرکھیلا کرتے تھے ، دلدل نما ان نالوں میں کئی بچے گرکر جاں بحق ہوئے تھے، ایک بچے کو تو راقم الحروف نے خود نالے سے نکالا تھا جو ڈوب کر مرچکا تھا۔ لیاری کی تمام گلیاں اور سڑکیں آثار قدیمہ کا نمونہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں ،گاڑیاں سڑکوں پر ہچکولے کھاتیں،کھلاڑی تو تھے لیکن کھیل کے میدان چند تھے جو عدم توجہی کے باعث ویران تھے۔
لیاری کے نوجوانوں کے لیے سرکاری دفاترکے دروازے بندکر دیے گئے تھے ، لیاری کی مائیں بہنیں اپنے گھروں کے سامنے کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرکے اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ پالتی تھیں۔ لیاری میں جو چیز وافر مقدار میں دستیاب تھی ، وہ صرف منشیات تھی، جوگاہکوں کو باآسانی مل جایا کرتی تھی۔
ایسے مشکل ترین حالات میں سماجی تحریکیں وجود میں آنا شروع ہوگئی تھی، ایسی ہی ایک سماجی تحریک 1990ء کی دہائی میں قیام عمل میں لائی گئی تھی جو لیاری کی مختلف سماجی اداروں پر مشتمل تھی جس کا نام '' لیاری سوشل ایکشن کمیٹی'' تھا جس کے جنرل سیکریٹری شکور شاد تھے جو اب ماشاء اللہ لیاری سے تحریک انصاف کے منتخب رکن قومی اسمبلی ہیں اور اس سماجی فیڈریشن کا پریس سیکریٹری راقم الحروف تھا۔
اس ادارے کی شبانہ روز سماجی جدوجہد سے اس وقت کی سرکارکے کان کھڑے ہوگئے اور اس کی توجہ لیاری پر مرکوز ہوئی اور اس سوشل ایکشن کمیٹی کی جدوجہد سے لیاری کے سماجی مسائل حل ہونا شروع ہوگئے تھے ، اس دوران سماجی جلسوں میں ، میں اپنے درج ذیل یہ اشعار پڑھا کرتا تھا جو بہت مقبول ہوئے تھے۔
میں ہوں پسماندہ لیاری کا ایک بندہ
علاقہ ہے میرا برسوں سے گندہ
میری غریبی کا تم نہ قصہ پوچھو
گلے میں پڑا ہے میرے بھوک کا پھندا
بہت بھاگا میں تلاش معاش کے لیے
ملا نہیں لیکن کوئی دھندہ
تھک ہارکرکیا ہیروئن کا دھندہ
ایک دن پکڑا گیا ہاتھوں رنگا
لیکن چھوٹ گیا دیکر چندہ
اب تو لیاری میں سماجی کاموں کی صورت ہی تبدیل ہوکر رہ گئی ہے، بعض مفادات پرست عناصر نسل نو کی احساس محرومی ختم کرانے کے لیے ، ان کے نام پر شہرکے بڑے ہوٹلوں میں پروگرامز منعقدکراتے ہیں، اگر ان سوشل ایکٹوسٹ حضرات سے کہا جائے کہ فلاں سماجی مسئلے کو حل کرانے میں ہمارا ہاتھ بٹائیں تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ'' اس میں میرا کیا فائدہ ہے ؟ '' یعنی اس کام کوکرنے میں مجھے کتنی رقم ملے گی؟
یہ ہے لیاری میں آج کی سوشل ورکنگ۔ لیاری کے جو بچے کچے پرانے حقیقی سماجی رہنما اورکارکن ہیں۔ ان میں سے کچھ حالات نے انھیں خاموش کردیا ہے اورکچھ اب بھی خلق خدا کی خدمت میں مصروف ہیں۔ مجموعی طور پر لیاری میںدیانت دارانہ سیاست اور حقیقی سماجی خدمت ختم ہوتی جا رہی ہے ، ان کی جگہ سیاسی مفاد پرست اور جدید سوشل ایکٹوسٹ لے رہے ہیں، غالبا یہی وجہ ہے کہ لیاری میں سماجی مسائل میں دن بہ دن اضا فہ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔