گھر کا نہ گھاٹ کا
پاکستانی وزارت خارجہ کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ عمران خان کو روس کا دورہ کرنے کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے
MILAN:
حکومت اس وقت اپنے مسائل میں ایسی الجھی ہوئی ہے کہ لگتا ہے اسے عوامی مسائل کا کوئی خیال ہی نہیں ہے۔ پٹرول کیا پہلے کم مہنگا تھا جو اب مزید مہنگا کردیا گیا ہے ، عوام کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے جو تیز رفتاری سے بڑھتی جا رہی ہے ، رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔
عوام کا یہ حال ہے کہ انھیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے کہ کس طرح زندگی گزاریں۔ کم آمدنی والے خاندان خاص طور پر سخت مایوسی کا شکار ہیں۔ کیا اسی کا نام تبدیلی ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ تبدیلی تو آنا ہی تھی اس لیے کہ لوگ دو روایتی سیاسی پارٹیوں کی باریوں سے بور ہو چکے تھے۔
لوگ سمجھنے لگے تھے کہ ایک پارٹی کی حکومت آتی ہے تو دوسری اسے ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی اور عوام کو یقین دلاتی ہے کہ اقتدار میں موجود پارٹی ان کے مسائل حل نہیں کر سکتی اور اگر وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں تو وہ دوسری پارٹی جو اس وقت اپوزیشن میں ہے کو ووٹ دیکر کامیاب بنائیں اور وہ اقتدار میں آکر عوام کے تمام مسائل حل کردیں گے۔
جب دوسری پارٹی اقتدار میں آ جاتی تو پہلے والی جو اب اپوزیشن میں آ چکی ہوتی وہ عوام کو سبز باغ دکھاتی کہ ان کے مسائل کو حل اسی کے پاس ہے اور اقتدار میں آنے والی موجودہ پارٹی نے عوام کو دھوکا دیا ہے۔اسی طرح باریاں لگی ہوئی تھیں ،عوام کی ایک تعداد تبدیلی کے دونوں کے وعدے اور نعرے سن سن کر تنگ آ چکی تھی اور حقیقی معنوں میں تبدیلی چاہتی تھی۔ تبدیلی تو یقیناً ملک میں آئی ہے اور صرف زبانی جمع خرچ کے طور پر نہیں حقیقت میں تبدیلی آئی ہے جس سے ملک کا پورا ڈھانچہ ہی بدل گیا ہے۔
آج اسٹیٹ بینک آزاد ہے، نیب بے لگام ہے اور ملک پر آئی ایم ایف کی حکمرانی قائم ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جس آئی ایم ایف کو غاصب قرار دیا گیا تھا اور قرضے لینے کو ملکی معیشت کی تباہی کا سبب گردانا گیا تھا ،اسی آئی ایم ایف کو ملکی معیشت بہتر بنانے کا ''مسیحا'' بنا لیا گیا۔اب آئی ایم ایف کے کہنے پر عوام کی قوت خرید کو جانچا جا رہا ہے۔
حکمرانوں کا خیال ہے کہ عوام کے ایک طبقے کے پاس بہت زیادہ دولت ہے اور عوام کا یہ طبقہ ٹیکس چور بھی ہے،لہٰذا اس طبقے سے دولت چھیننے کے لیے حکومت پٹرول ،بجلی اور گیس سمیت دیگر اشیا مہنگی کرنے کا حربہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ پچھلی حکومتوں میں کبھی وزیروں کی کارکردگی کے مقابلے منعقد نہیں ہوئے تھے جب ہی تو ان کی کارکردگی کا کچھ پتا ہی نہیں چلتا تھا مگر اب کارکردگی کو باقاعدہ جانچا پرکھا جارہا ہے۔ اچھی کارکردگی والوں کو تعریفی اسناد دی گئی ہیں مگر کمزورکارکردگی والوں کو کوئی وارننگ جاری نہیں کی گئی۔
وزیر اعظم کی جانب سے مقررکردہ کمیٹی نے صرف دس وزراء کو کامیاب قرار دیا ہے مگر باقی کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کے بارے میں مبصرین لکھ رہے ہیں کہ انھیں اپنی کارکردگی کو حکومت کی توقعات کے مطابق بنا لینا چاہیے ورنہ استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر انھوں نے واقعی استعفیٰ دے دیا تو پھر حکومت کا قائم رہنا بھی ایک امتحان بن جائے گا کیونکہ ان وزرا اور مشیروں میں بہت سے، بہت پہنچے ہوئے ہیں وہ اگر حکومت سے ناراض ہوگئے تو پھر نہ صرف انھیں منانا مشکل ہوگا بلکہ اپوزیشن کے آگے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا مشکل ہوگا۔
وزرا کو کارکردگی پر دیے گئے تعریفی اسناد پر اپوزیشن کے ضرور تحفظات ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ایک بے کار سی مشق ہے اس سے چند وزرا اور مشیروں کو حکومت ضرورخوش کررہی ہے مگر بقیہ کے دل میں ملال آنا قدرتی بات ہے۔بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر تعریفی اسناد دینا ہی تھی تو تمام وزرا کو دی جاتی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی کہ حکومت کی کارکردگی سابق حکومتوں سے بہت زیادہ بہتر ہے۔یہ اپوزیشن اور عوام کا ایک خاص ناشکرا طبقہ ہی ہے جو حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کو تسلیم نہیں کر رہا ورنہ ایسی بے مثال کارکردگی والی حکومت ماضی میں نہیں آئی۔
اسناد سے محروم وزرا نے برملا شکوے شکایتیں شروع کردی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی وزارتوں کی کارکردگی بہترین تھی وہ رات دن محنت کرتے رہے ہیں ان کے مطابق ان کے اپوزیشن کے خلاف بیانات بھی بہت سخت رہے ہیں مگر انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ضمن میں وزیر ریلوے کے بیان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے مطابق انھوں نے اپنی وزارت کی کارکردگی کو پہلے سے بہت بہترکردیا ہے مگر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان سے پہلے ریلوے کی کارکردگی تنقید کے دائرے میں تھی۔
سواتی صاحب کو یہ بات ضرور دھیان میں رکھنی چاہیے کہ ان سے پہلے ریلوے کی وزارت شیخ رشید کے زیر سایہ تھی اور انھوں نے جس وزارت کو پکڑا اس کی کارکردگی کو عروج پر پہنچا کر ہی دم لیا۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے ہی زمانے میں ریلوں کے پے درپے حادثے ہوئے جن میں درجنوں لوگ ہلاک ہوگئے اور ریلوے کو زبردست مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ شاید ان ہی مسائل کی وجہ سے انھوں نے ریلوے کی وزارت سے جان چھڑائی اور پھر وزارت داخلہ سنبھال لی اب وہ اس وزارت کو بڑے انہماک سے چلا رہے ہیں۔
ان کے بیانوں کے مطابق ملک میں امن و امان کی فضا پہلے سے بہت بہتر ہوئی ہے ، البتہ لاہور میں ہونے والے دھماکے سے لاہوریوں کو ان سے ضرور شکایت پیدا ہوگئی تھی مگر اب لوگ مطمئن ہیں ، اس لیے کہ اس دھماکے کے بعد پھر کوئی دوسرا دھماکا ابھی تک نہیں ہوا ہے البتہ بلوچستان اور شمالی وزیرستان میں حالات کشیدہ ہیں کیونکہ تخریبی کارروائیوں کا سلسلہ وہاں رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے تاہم وزیر صاحب پرسکون ہیں کیونکہ حکومت کہیں نہیں جا رہی ہے ان کے مطابق وہ اپنے پانچ سال پورے کرکے رہے گی۔
شاید ان کے اسی حسن ظن کی وجہ سے ان کی وزارت کی کارکردگی کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ انھیں ایوارڈ کا اہل بھی قرار دیا گیا۔ اب جہاں تک وزارت خارجہ کا تعلق ہے اس کی کارکردگی معیاری ثابت نہ ہوسکی۔
شاہ محمود قریشی نے تعریفی سند کے نہ ملنے پر برملا گلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے رات دن ایک کرکے اپنی وزارت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ یہ بات تو ماننا ہی پڑے گی کہ انھوں نے کمال مہارت سے ملک کی خارجہ پالیسی کو جو پہلے امریکا تک محدود تھی اب روس تک درازکردیا ہے۔ روس جو کبھی پاکستان کا دشمن نمبر ایک قرار دیا جاتا تھا آج وہ نہ صرف پاکستان کا دم بھر رہا ہے بلکہ اپنے پرانے حلیف بھارت کو تقریباً چھوڑ چکا ہے۔
ادھر چین سے بھی تعلقات کو ایک نئی جہت دے دی گئی ہے۔ عرب ممالک سے بھی تعلقات سرد مہری کے بعد اب بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ اب سعودی عرب کے حکمران پاکستان کے مداح بن گئے ہیں اور پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے میں مصروف ہیں۔
سعودی عرب کی ناراضگی کا دور ہونا ملک کے لیے نیک فال ثابت ہوا ہے۔ سعودی عرب نے اپنے ہاں ہونے والا او آئی سی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد منتقل کردیا ہے۔ متحدہ امارات تو پہلے ہی کشمیر کو بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دے چکا ہے اب دیگر مسلم ممالک بھی مسئلہ کشمیر پر پہلے جیسی سرگرمی نہیں دکھا رہے ہیں۔
اس وقت پاکستانی وزارت خارجہ کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ عمران خان کو روس کا دورہ کرنے کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے وہ اگلے ہفتے روس کا دورہ کرنے جا رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اگر وہاں پوٹن نے یوکرین کے مسئلے پر ہمارا تعاون مانگا تو ہمارا جواب کیا ہوگا؟ بھارت تو پہلے ہی یوکرین کے مسئلے پر امریکا کا ساتھ دینے سے منع کرچکا ہے مگر وہ ایسا کرکے پھنس گیا ہے کیونکہ اب وہ نہ امریکا کا رہا اور نہ روس کا گویا گھر کا رہا نہ گھاٹ کا پھر وہ کدھر جائے ، ادھر چین اسے پہلے سے سرخ سرخ آنکھیں دکھا رہا ہے۔
حکومت اس وقت اپنے مسائل میں ایسی الجھی ہوئی ہے کہ لگتا ہے اسے عوامی مسائل کا کوئی خیال ہی نہیں ہے۔ پٹرول کیا پہلے کم مہنگا تھا جو اب مزید مہنگا کردیا گیا ہے ، عوام کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے جو تیز رفتاری سے بڑھتی جا رہی ہے ، رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔
عوام کا یہ حال ہے کہ انھیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے کہ کس طرح زندگی گزاریں۔ کم آمدنی والے خاندان خاص طور پر سخت مایوسی کا شکار ہیں۔ کیا اسی کا نام تبدیلی ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ تبدیلی تو آنا ہی تھی اس لیے کہ لوگ دو روایتی سیاسی پارٹیوں کی باریوں سے بور ہو چکے تھے۔
لوگ سمجھنے لگے تھے کہ ایک پارٹی کی حکومت آتی ہے تو دوسری اسے ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی اور عوام کو یقین دلاتی ہے کہ اقتدار میں موجود پارٹی ان کے مسائل حل نہیں کر سکتی اور اگر وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں تو وہ دوسری پارٹی جو اس وقت اپوزیشن میں ہے کو ووٹ دیکر کامیاب بنائیں اور وہ اقتدار میں آکر عوام کے تمام مسائل حل کردیں گے۔
جب دوسری پارٹی اقتدار میں آ جاتی تو پہلے والی جو اب اپوزیشن میں آ چکی ہوتی وہ عوام کو سبز باغ دکھاتی کہ ان کے مسائل کو حل اسی کے پاس ہے اور اقتدار میں آنے والی موجودہ پارٹی نے عوام کو دھوکا دیا ہے۔اسی طرح باریاں لگی ہوئی تھیں ،عوام کی ایک تعداد تبدیلی کے دونوں کے وعدے اور نعرے سن سن کر تنگ آ چکی تھی اور حقیقی معنوں میں تبدیلی چاہتی تھی۔ تبدیلی تو یقیناً ملک میں آئی ہے اور صرف زبانی جمع خرچ کے طور پر نہیں حقیقت میں تبدیلی آئی ہے جس سے ملک کا پورا ڈھانچہ ہی بدل گیا ہے۔
آج اسٹیٹ بینک آزاد ہے، نیب بے لگام ہے اور ملک پر آئی ایم ایف کی حکمرانی قائم ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جس آئی ایم ایف کو غاصب قرار دیا گیا تھا اور قرضے لینے کو ملکی معیشت کی تباہی کا سبب گردانا گیا تھا ،اسی آئی ایم ایف کو ملکی معیشت بہتر بنانے کا ''مسیحا'' بنا لیا گیا۔اب آئی ایم ایف کے کہنے پر عوام کی قوت خرید کو جانچا جا رہا ہے۔
حکمرانوں کا خیال ہے کہ عوام کے ایک طبقے کے پاس بہت زیادہ دولت ہے اور عوام کا یہ طبقہ ٹیکس چور بھی ہے،لہٰذا اس طبقے سے دولت چھیننے کے لیے حکومت پٹرول ،بجلی اور گیس سمیت دیگر اشیا مہنگی کرنے کا حربہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ پچھلی حکومتوں میں کبھی وزیروں کی کارکردگی کے مقابلے منعقد نہیں ہوئے تھے جب ہی تو ان کی کارکردگی کا کچھ پتا ہی نہیں چلتا تھا مگر اب کارکردگی کو باقاعدہ جانچا پرکھا جارہا ہے۔ اچھی کارکردگی والوں کو تعریفی اسناد دی گئی ہیں مگر کمزورکارکردگی والوں کو کوئی وارننگ جاری نہیں کی گئی۔
وزیر اعظم کی جانب سے مقررکردہ کمیٹی نے صرف دس وزراء کو کامیاب قرار دیا ہے مگر باقی کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کے بارے میں مبصرین لکھ رہے ہیں کہ انھیں اپنی کارکردگی کو حکومت کی توقعات کے مطابق بنا لینا چاہیے ورنہ استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر انھوں نے واقعی استعفیٰ دے دیا تو پھر حکومت کا قائم رہنا بھی ایک امتحان بن جائے گا کیونکہ ان وزرا اور مشیروں میں بہت سے، بہت پہنچے ہوئے ہیں وہ اگر حکومت سے ناراض ہوگئے تو پھر نہ صرف انھیں منانا مشکل ہوگا بلکہ اپوزیشن کے آگے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا مشکل ہوگا۔
وزرا کو کارکردگی پر دیے گئے تعریفی اسناد پر اپوزیشن کے ضرور تحفظات ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ایک بے کار سی مشق ہے اس سے چند وزرا اور مشیروں کو حکومت ضرورخوش کررہی ہے مگر بقیہ کے دل میں ملال آنا قدرتی بات ہے۔بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر تعریفی اسناد دینا ہی تھی تو تمام وزرا کو دی جاتی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی کہ حکومت کی کارکردگی سابق حکومتوں سے بہت زیادہ بہتر ہے۔یہ اپوزیشن اور عوام کا ایک خاص ناشکرا طبقہ ہی ہے جو حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کو تسلیم نہیں کر رہا ورنہ ایسی بے مثال کارکردگی والی حکومت ماضی میں نہیں آئی۔
اسناد سے محروم وزرا نے برملا شکوے شکایتیں شروع کردی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی وزارتوں کی کارکردگی بہترین تھی وہ رات دن محنت کرتے رہے ہیں ان کے مطابق ان کے اپوزیشن کے خلاف بیانات بھی بہت سخت رہے ہیں مگر انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ضمن میں وزیر ریلوے کے بیان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے مطابق انھوں نے اپنی وزارت کی کارکردگی کو پہلے سے بہت بہترکردیا ہے مگر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان سے پہلے ریلوے کی کارکردگی تنقید کے دائرے میں تھی۔
سواتی صاحب کو یہ بات ضرور دھیان میں رکھنی چاہیے کہ ان سے پہلے ریلوے کی وزارت شیخ رشید کے زیر سایہ تھی اور انھوں نے جس وزارت کو پکڑا اس کی کارکردگی کو عروج پر پہنچا کر ہی دم لیا۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے ہی زمانے میں ریلوں کے پے درپے حادثے ہوئے جن میں درجنوں لوگ ہلاک ہوگئے اور ریلوے کو زبردست مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ شاید ان ہی مسائل کی وجہ سے انھوں نے ریلوے کی وزارت سے جان چھڑائی اور پھر وزارت داخلہ سنبھال لی اب وہ اس وزارت کو بڑے انہماک سے چلا رہے ہیں۔
ان کے بیانوں کے مطابق ملک میں امن و امان کی فضا پہلے سے بہت بہتر ہوئی ہے ، البتہ لاہور میں ہونے والے دھماکے سے لاہوریوں کو ان سے ضرور شکایت پیدا ہوگئی تھی مگر اب لوگ مطمئن ہیں ، اس لیے کہ اس دھماکے کے بعد پھر کوئی دوسرا دھماکا ابھی تک نہیں ہوا ہے البتہ بلوچستان اور شمالی وزیرستان میں حالات کشیدہ ہیں کیونکہ تخریبی کارروائیوں کا سلسلہ وہاں رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے تاہم وزیر صاحب پرسکون ہیں کیونکہ حکومت کہیں نہیں جا رہی ہے ان کے مطابق وہ اپنے پانچ سال پورے کرکے رہے گی۔
شاید ان کے اسی حسن ظن کی وجہ سے ان کی وزارت کی کارکردگی کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ انھیں ایوارڈ کا اہل بھی قرار دیا گیا۔ اب جہاں تک وزارت خارجہ کا تعلق ہے اس کی کارکردگی معیاری ثابت نہ ہوسکی۔
شاہ محمود قریشی نے تعریفی سند کے نہ ملنے پر برملا گلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے رات دن ایک کرکے اپنی وزارت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ یہ بات تو ماننا ہی پڑے گی کہ انھوں نے کمال مہارت سے ملک کی خارجہ پالیسی کو جو پہلے امریکا تک محدود تھی اب روس تک درازکردیا ہے۔ روس جو کبھی پاکستان کا دشمن نمبر ایک قرار دیا جاتا تھا آج وہ نہ صرف پاکستان کا دم بھر رہا ہے بلکہ اپنے پرانے حلیف بھارت کو تقریباً چھوڑ چکا ہے۔
ادھر چین سے بھی تعلقات کو ایک نئی جہت دے دی گئی ہے۔ عرب ممالک سے بھی تعلقات سرد مہری کے بعد اب بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ اب سعودی عرب کے حکمران پاکستان کے مداح بن گئے ہیں اور پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے میں مصروف ہیں۔
سعودی عرب کی ناراضگی کا دور ہونا ملک کے لیے نیک فال ثابت ہوا ہے۔ سعودی عرب نے اپنے ہاں ہونے والا او آئی سی ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد منتقل کردیا ہے۔ متحدہ امارات تو پہلے ہی کشمیر کو بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دے چکا ہے اب دیگر مسلم ممالک بھی مسئلہ کشمیر پر پہلے جیسی سرگرمی نہیں دکھا رہے ہیں۔
اس وقت پاکستانی وزارت خارجہ کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ عمران خان کو روس کا دورہ کرنے کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے وہ اگلے ہفتے روس کا دورہ کرنے جا رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اگر وہاں پوٹن نے یوکرین کے مسئلے پر ہمارا تعاون مانگا تو ہمارا جواب کیا ہوگا؟ بھارت تو پہلے ہی یوکرین کے مسئلے پر امریکا کا ساتھ دینے سے منع کرچکا ہے مگر وہ ایسا کرکے پھنس گیا ہے کیونکہ اب وہ نہ امریکا کا رہا اور نہ روس کا گویا گھر کا رہا نہ گھاٹ کا پھر وہ کدھر جائے ، ادھر چین اسے پہلے سے سرخ سرخ آنکھیں دکھا رہا ہے۔