بڑھتا انتشار

پی پی تو چاہے گی کہ پی ٹی آئی سے ناراض لوگ ان کے پاس آئیں مگر امید نہیں کہ مسلم لیگ انھیں قبول کرسکے


Muhammad Saeed Arain February 20, 2022
[email protected]

SHANGHAI: رواں سال میں برسر اقتدار جماعت ، تحریک انصاف میں انتشارکی خبریں منظر عام پر آنے لگی تھیں ، وہ اس سے قبل کے سوا تین سالوں میں ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔ یوں تو پی ٹی آئی کے قیام کے بعد سے ہی پارٹی پالیسی اور کچھ فیصلے پارٹی رہنماؤں میں اختلافات کا سبب بن گئے تھے، جب پارٹی کے بانی رہنماؤں نے پی ٹی آئی سے علیحدگی شروع کردی تھی۔

ایسے رہنماؤں میں جسٹس وجیہہ الدین، حامد خان نمایاں تھے جب کہ مسلم لیگی رہنما جاوید ہاشمی عمران خان سے آ ملے تھے مگر جلد ہی ان کے خیالات میں تبدیلی آنے لگی اور مسلم لیگ ن حکومت کی مخالفت اور دھرنے کی اصل صورتحال جان کر وہ مصلحت کا شکار نہیں ہوئے تھے اور اپنی حق بات کا قومی اسمبلی میں برملا اظہار کرکے نہ صرف تحریک انصاف کو چھوڑ گئے تھے بلکہ انھوں نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا ، ایسی اخلاقی جرأت قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے کسی رکن اسمبلی نے نہیں دکھائی۔ وہ ایوان اور باہر پارٹی پالیسی پر تنقید تو کرتے رہے مگر جاوید ہاشمی بن کرکسی نے نہیں دکھایا۔

پی ٹی آئی میں انتشار تو 2018 میں اس کی حکومت بنتے ہی ضمنی انتخابات میں ظاہر ہو گیا تھا جب پی ٹی آئی وزیراعظم عمران خان کی چھوڑی ہوئی لاہور اور پشاورکی نشستیں بھی نہ بچا سکی تھی۔ راولپنڈی اور اٹک کی پی ٹی آئی کی نشستیں ، کمزور لوگوں کو ٹکٹ دینے سے پی ٹی آئی کے امیدوار ہارے تھے مگر پارٹی قیادت نے غلطی نہیں مانی تھی اور اب پی ٹی آئی کو کے پی میں جو بلدیاتی شکست ہوئی اس میں بھی اصل حقائق سے آنکھیں چھپائی گئیں اور یہ کہہ دیا گیا کہ امیدواروں کا چناؤ درست نہ ہونے سے شکست ہوئی جب کہ حقائق اس کے برعکس تھے مگر پی ٹی آئی اصل غلطی نہیں مان رہی کہ ان امیدواروں کو عوام اب ان کی اندھی محبت میں ووٹ اس لیے نہیں دے رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں ریکارڈ مہنگائی، بے روزگاری اور اپنے ہر اعلان سے انحراف ان کی بڑھتی غیر مقبولیت کا واضح ثبوت ہیں۔جب کہ حکومت اپنے دعوؤں اور نعروں میں اپنی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کا مسلسل دعویٰ کر رہی ہے۔ ح

کومت کی مقبولیت کا اندازہ خیبر پختون خواہ کے بلدیاتی انتخابات کے ایک مرحلے میں اس کی مختلف حلقوں میں شکست سے لگایا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت مہنگائی کم کرتی' بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے بناتی تو ممکن تھا کہ اس کے عوامی مقبولیت کے دعوے سچے ثابت ہوتے۔

سوشل میڈیا اور بعد میں مین اسٹریم میڈیا پر نشر ہونے والے انٹرویوز میں جسٹس وجیہہ الدین کو نوٹس دینے کا اعلان کرنے والی حکومت نے خاموشی میں بہتری جانی اور جسٹس وجیہہ الدین کے الزامات خود حکومت نے درست ثابت کر دیے ، ورنہ الزامات لگانے والوں کو کٹہرے میں نہیں لایا گیا ۔

پی ٹی آئی سے بڑی توقعات لگانے والوں نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے مایوس کیا۔ ملک سے کرپشن ختم کرائی جاسکی نہ لوٹی جانے والی کرپشن کی رقم واپس آئی اور نہ ہی مبینہ کرپشن میں گرفتار کرائے گئے کسی اپوزیشن رہنما پر کسی بھی عدالت میں کرپشن کا الزام ثابت کرایا گیا اور ثبوت نہ ملنے پر وہ سب ضمانت پر رہا ہوتے گئے۔

عام انتخابات کے قریب آتے ہی پی ٹی آئی میں سوا تین سال خاموش رہنے والے ارکان اسمبلی اور حکومتی اتحادی اب اپنے مستقبل سے پریشان ہیں اور بقول سابق اسپیکر سردار ایاز صادق کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی بارش شروع ہونے والی ہے اور ایسا ماضی میں بھی ہوتا آیا ہے۔

پی ٹی آئی چھوڑنے کے خواہش مند بھی ایسا کریں گے اور اگر انھیں مسلم لیگ (ن) نے قبول نہ کیا تو ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کے نظریاتی بانی رہنما جسٹس وجیہہ الدین کی قیادت میں متحد ہو کر پی ٹی آئی میں ہی اپنا نظریاتی گروپ بنا لیں اور موجودہ قیادت سے مایوس تحریک انصاف کے رہنماؤں اور ہمدردوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں۔

پی پی تو چاہے گی کہ پی ٹی آئی سے ناراض لوگ ان کے پاس آئیں مگر امید نہیں کہ مسلم لیگ انھیں قبول کرسکے۔ وزیر اعظم کی عوامی رابطہ مہم کے جلسوں سے ان کی مقبولیت واضح ہوگی کہ وہ اب عوام میں کتنے مقبول ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔