دل اداس بہت ہے

بیچنے کو تو لوگ اپنے بچے بھی بیچتے ہیں، ان بچوں کے بازار دبئی میں لگتے ہیں اور تو اور یہ جو دنیا میں ٹریفکنگ ہوتی ہے


جاوید قاضی February 20, 2022
[email protected]

یہ توآپ کے سامنے ہے، کس طرح افغانستان کے لوگ ایک دم سے فاقوں پرآگئے۔ بچے نیلام کرنے لگے ، مائیں اپنا ایک گردہ بیچنے لگیں،گردے تو ہمارے سندھ وسائوتھ پنجاب کے لوگ بھی بیچتے ہیں۔

بیچنے کو تو لوگ اپنے بچے بھی بیچتے ہیں، ان بچوں کے بازار دبئی میں لگتے ہیں اور تو اور یہ جو دنیا میں ٹریفکنگ ہوتی ہے، ان میں یہ ان غریب گھروں کی لڑکیاں بھی ہوتی ہیں ، جو بین الاقوامی منڈی میں فروخت ہوتی ہیں۔ شاید خدا نے ان غریبوں کو دو گردے اس لیے دیے تھے کہ جب بھوک ستائے اور بھوک مٹانے کا کوئی اور چارہ نہ ہو تو اے غریبو، جا کے ایک گردہ بازار میں بیچ دینا۔

کس طرح پھر قضا آتی ہے ، آمریتوں کی کوکھ سے نکلتی ہے یہ قضا ، اس بیانیے سے جس کے تحت ریاست اپنے عوام سے حق حکومت چھین لیتی ہے۔ یہ بھنور ہے جس سے کبھی سیالکوٹ میں سری لنکا کے باشندے کو سنگسارکیا جاتا ہے ، یا پھر جنوبی پنجاب کے قصبہ تلمبہ میں ایک ذہنی معذورکو سنگسارکیا گیا۔ سنا ہے آج کل درگاہوں پر ان غربت اور ذلتوں کے مارے لوگوں کی تعداد بڑھ گئی ہے ، جب گھر چھت نہیں دے سکتا ، جب چولہے چوری ہوجاتے ہیں ، جب جسم خستہ ہونے لگتے ہیں ، یہ لوگ درگاہوں میں پناہ لیتے ہیں کہ یہاں ان کے لیے آشرم بھی نہیں ہیں۔ جو معذور ہیں یا کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہیں، وہ جن نکلوانے کے لیے کسی پیر سائیں کے پاس جانے پر مجبور ہوتے کیونکہ یہاں ان ذہنی امراض کے اسپتال بھی نہیں۔کم از کم ان درگاہوں پر ان غریبوں کو دو وقت کھانا تو مل جاتا ہے۔

خان صاحب کہتے ہیں کہ بائیس کروڑ لوگوں کا یہ ملک ہے مگر ٹیکس صرف بیس لاکھ لوگ دیتے ہیں۔ ہم کیا کریں! ہم خان صاحب کی باتیں سنتے سنتے اب ہمارے کان پک گئے ہیں۔ خان صاحب کو ان ڈائریکٹ ٹیکسزکہیں بھی نظر نہیں آرہے ہیں، جو آپ کی حکومت نے کل بارہ روپے کا ٹیکس پٹرول پر بڑھایا، اس کا اسی فیصد کون استعمال کرتا ہے؟ یہی بائیس کروڑ عوام ۔ یہ جو آپ کی حکومت نے بجلی کے نرخے آسمانوں تک پہنچا رکھے ہیں، اس کا اسی فیصد کون استعمال کرتا ہے؟ یہی بائیس کروڑ عوام۔ خان صاحب کیا آپ کو اس کی تفصیلات کا پتا ہے؟

پہلے میں سمجھتا تھا ، یہ جاگیردار، قبائلی سرداروں اور کارخانے داروں کا پاکستان ہے اوریہ طبقات نگل گئے پورا پاکستان ، پلاٹوں سے لے کر پرمٹوں تک۔ آج کل شاندار اپارٹمنٹ بن رہے ہیں ، فلاحی اداروں کے نام پر ان سے چندے لیے جاتے ہیں اور یہ چندے بڑے بڑے بلڈرز دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک آج کل برطانیہ کے جیلوں میں گل سڑ رہا ہے اور اس کی کسٹڈی اب امریکا کی عدالتوں نے مانگ لی ہے ، نام لینے میں کوئی بھی حرج نہ ہوگا لیکن نام کو چھوڑیے۔ یہ ڈونر دونوں طرف یاترا کرتے ہیں، جمہوری دور ہو یا آمریت ہو۔ ان کو دونوں دسترخوان مہمان کرتے ہیں۔

یہ اشرافیہ عرف شرفاء کا پاکستان نہیں، ان کا تو وطن ہی نہیں ہوتا۔ جنرل مشرف ہوں یا کوئی اور یہ سب اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ملک چلے جاتے ہیں، وہ جو عوام کی جنگ لڑتے ہیں وہ بھی ، پھر بھی یہ سیاستدان ہیں، میں ان سے لاکھ اختلاف رکھتے ہوئے بھی ان کو اس سیاسی اسٹیج پر دارکی خشک ٹہنیوں پر وار ہوتے ہوتے دیکھا ، قتل گاہوں میں ان کی میتوں کو اٹھتے ہوئے دیکھا، کبھی چلتے چلتے ، کبھی تقریر فرماتے، گولی سینے میں اترگئی،کبھی خودکش حملوں میں مارے گئے ، ان کے قتل کے نشان تک مٹائے گئے۔ ان شرفاء کا کیا ہے ۔ پٹرول چار سو لیٹرکیوں نہ ہو، چینی، بجلی سب جس بھائو پے ملے یہ خرید سکتے ہیں، بس صرف ان کو لْوٹنے کی اجازت ہو۔

جنرل ایوب ہو یا جنرل یحیٰ ہو، جنرل مشرف ہو یا جنرل ضیاالحق یہ لوگ زرعی زمین اور شہری پلاٹ بطور تحفہ ہتیلھیوں پر رکھ کردیتے تھے ، ان کو جو اپنی وفاداریاں بدل دیتے تھے۔ ایک ایسے شرفاء کا تسلسل ہمیں ملا جو انگریزوں کے آلہ کار تھے، ان کو جائیدادیں ملیں کہ وہ انگریز سامراج کے ساتھ کھڑے ہوں،کہا ں تھے وہ وطن پرست، جو انگریزوں کے سامنے وطن پرست تھے وہ تو بالخصوص سندھ میں شہید اللہ بخش سومرو یا سورہیہ بادشاہ (پیر پگارا) تھے۔ ان کو ملیں پھانسیاں۔ کیونکہ وہ انگریز سامراج کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ شرفاء کی کوئی زمین نہیں ہوتی، ان کا کوئی وطن بھی نہیں ہوتا، وہ تو اڑ جاتے ہیں اپنی جائیداد بیچ کے۔ ان کے آدھی جائیداد ادھر ہوتی ہے اور آدھی جائیداد باہر۔

یہ دراصل غریبوں کا پاکستان ہے۔ یہی سنتے ہیں وہ راگ جو ہم الاپتے ہیں، وفا داریوں کا ، محبتوں کا ، وطن پرستی کا۔ ان کے پاس اس وطن کے سوا اور ہے بھی کیا۔ یہ ہے غریبوں کا پاکستان ، افلاس کے ماروں کا پاکستان ، جنھیں حکمران اشرافیہ صرف نعروں ، وعدوں پر لگائے رکھتے ہیں،'' گھبرانا نہیں ''کے بھاشن دیتے رہتے ہیں۔ ہمارا ملک دنیا کے پس منظر میں ایک کچی آبادی ہے۔ کل کے اخبارات میں ہم نے پڑھا کہ لاہور کا راوی دریا دنیا کا آلودگی کے حوالے سے بد ترین دریا ہے جس کا پانی زہرکے سوا اورکچھ بھی نہیں۔ ہم اس کے وجود کو کاٹ کر وہاں بھی ہائوسنگ اسکیم بنا رہے ہیں، امیروںکے لیے۔ غریبوں کے لیے کچھ نہیںکیونکہ غریبوں کے لیے ہے یہ پاکستان۔ ایک الزام لگادو کہ اس نے یہ کیا ہے ، ہم سنگسارکرنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں ، یہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا ۔ میں نے ایسا سوال ارد شیرکائوس جی سے اپنے ایک انٹرویو میں کیا تھا توکہنے لگے '' یہ کیا جہاں رومن امپائر نہیں رہا '' انتہائی بڑی چھلانگ لگنے والی ہے۔ آیندہ بیس تیس برسوں میں دنیا کی شکل تبدیل ہونے والی ہے۔ اب حکومتیں نہیں ،کمپنیاں راج کریں گی، ٹیکنالوجی والی کمپنیاں۔ سرحدیں ماند پڑجائیں گی۔

یہ جو تاریخ کے لبادے میں ہم اپنے بچوں کو مسخ شدہ حقائق بتاتے ہیں، یہ آیندہ کا مورخ رد کرے گا ، ہمیں اب ابلاغ عامہ پرکنٹرول نہیں رہا۔ بہت تیزی سے انفارمیشن پھیل رہی ہے۔ اب جو اس سے پہلے اسٹیج پر جو ڈس انفارمیشن ہونی تھی وہ خود اپنے آپ آیندہ کچھ سالوں میں بحران کا شکار ہوگی۔

ہم سمجھتے ہیں یوکرائن کو فتح کرکے روس کوئی دنیا کی کایا پلٹ دیگا۔ یہ دھند آنیوالے صرف چند برس کی ہے پھر سے ایک نئی دنیا تشکیل ہونے کو ہے۔ آج جس زمین پر پاکستان وجود رکھتا ہے ، اس کی تاریخ ہزاروں برس پر پھیلی ہوئی ہے ، دنیا کی قدیم ترین تہذیب جس کو انڈس ویلی کہا جاتا ہے ، یہ ہے پاکستان کا اصل شجرہ مگر آج کے پاکستان کو تو پتا نہیںکہ اس شناخت اور شجرہ کیا ہے۔کبھی وہ ارتغل کے پیچھے دوڑتا ہے تو کبھی غوریوں اور غزنویوں کے پیچھے۔ ہم ابھی تک اس چکر میں پڑے ہیں کہ پانی پت کے میدانوں میں کون جیتا۔

دیکھیے ہم نے کیا حال کر دیا ہے ، قائد کے پاکستان کا۔ جہاں جناح خود اجنبی ہوچکا ہے۔ جہاں ان کی گیارہ اگست والی تقریرکسی سناٹے میں خود اپنے آپ سے ٹکرا جاتی ہے ، کسی نگار خانے میں طوطی کی مانند۔

بھوک اور افلاس کے اس پاکستان میں ، ہمارے چینل خود اپنا بنایا منجن بیچ رہے ہیں، کسی کو کچھ بھی خبر نہیں کہ اس غریبوں کے پاکستان میں ان پرکیا گذر رہی ہے۔ انصاف تو لینا ہو تو عمر بیت جاتی ہے ، کورٹس کے چکرکاٹتے کاٹتے۔ اسپتال تو ہیں مگر دوائیاں ، بستر ، ڈاکٹر نہیں ۔ اسکول بند ، ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں ، ہماری عورتوں کی پسماندگی دنیا میں اول نمبر پر ہے۔ ہمارے تمام انسانی ترقی کے انڈیکٹر ہمیں دنیا کے چند غریب ترین ممالک کی صف میں شامل کرتے ہیں۔ ہم نے اب بھی دلی کا لال قلعہ فتح کرنے کا عزم کیا ہوا ہے۔

نہ دید ہے نہ سخن اب نہ حرف ہے نہ پیام
کوئی بھی حیلہ تسکیں نہیں اورآس بہت ہے

امید یار نظر کا مزاج درد کا رنگ
تم آج کچھ بھی نہ پوچھوکہ دل اداس بہت ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں