عوام دوست معاشی پالیسیوں کی ضرورت

مہنگائی میں اضافے کی ایک اور وجہ ٹیکس کا نظام ہے جو بلواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکسوں پر مشتمل ہے


Editorial February 21, 2022
مہنگائی میں اضافے کی ایک اور وجہ ٹیکس کا نظام ہے جو بلواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکسوں پر مشتمل ہے (فوٹو فائل)

میڈیا کی خبر کے مطابق سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے بجلی کی قیمت میں 6 روپے 10 پیسے اضافے کی درخواست نیپرا کو بھیج دی ہے۔

خبر میں نجی ٹی وی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بجلی کی قیمت میں 6 روپے 10 پیسے اضافے کا امکان ہے، سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے نیپرا میں جنوری کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں درخواست دائر کردی ہے۔

نیپرا سی پی پی اے کی درخواست پر28 فروری کو سماعت کرے گا۔سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف پیش کیا گیا ہے کہ جنوری میں ہائیڈل سے 5.83 فیصد، کوئلے سے 33.15 فیصد بجلی پیدا کی گئی، ڈیزل سے 6.73 فیصد، فرنس آئل سے 14.07 فیصد، مقامی گیس سے 14.37 فیصد اور ایل این جی سے 7.12 فیصد بجلی پیدا کی گئی، جوہری ایندھن سے 14.37 فیصد، ہوا سے 2.22 فیصد اور بگاس سے 1.22 فیصد بجلی پیدا کی گئی۔

ادھر گزشتہ روز کی ایک خبر کے مطابق وفاقی وزیر برائے توانائی نے اپنے ٹویٹ میں مژدہ سنایا ہے کہ بجلی کی پیداوار اور استعمال میں سالانہ 9 فیصد اضافہ ہوا ہے، یہ اضافہ معاشی ترقی میں 5 فیصد سے زائد اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔

وفاقی وزیر نے خوشخبری دی کہ معاشی ترقی سے ہرسال لاکھوں نوکریاں اور آمدن میں اضافہ ہورہا ہے، پاکستان میں بجلی کی جنریشن اور استعمال میں سالانہ 9 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے ایک بار پھر مژدہ جانفزا سنایا ہے کہ دنیا کے 139 ملکوں میں پاکستان سب سے سستا ملک ہے۔ وزیراعظم اور وزراء حضرات بھی اکثر یہ امر دہراتے رہتے ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں مہنگائی کم ہے۔

پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ اور اس کا استعمال بڑھنا مثبت پیش رفت ہے۔ اگر بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے تو یقینا آمدہ موسم گرما میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی۔ اگر ایسا نہ بھی ہوا تو لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں کمی ضرور ہو گی۔ دوسرا پہلو مہنگائی کا ہے جس کے بارے میں حکومت کا خیال ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح کم ہے۔

اگر دنیا کے خوشحال ممالک کی کرنسی کی قدر اور پاکستانی روپے کی کرنسی کی قدر کی شرح تبادلہ کے تناسب سے دیکھا جائے تو حکومتی موقف کے مطابق ممکن ہے کہ پاکستان سستا ملک نظر آئے۔ مثلاً امریکا میں ایک درجن انڈوں کی قیمت 2 ڈالر ہے جو پاکستانی روپے میں 360 روپے بنتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکا میں انڈوں کی قیمت 360 روپے فی درجن جب کہ پاکستان میں ایک درجن انڈے 145 سے 150 روپے تک ملتے ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان امریکا کے مقابلے میں سستا ملک ہے۔ یوں پاکستان کے وزیراعظم، وزیر خزانہ اور دیگر وزراء کا یہ کہنا درست ہے کہ پاکستان دنیا میں سستا ملک ہے۔

اب اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو وکی پیڈیا کے اعداد وشمار کے مطابق پتہ چلتا ہے کہ امریکا میں فی کس آمدنی اوسطاً 26 ہزار 460 ڈالر سالانہ ہے جب کہ پاکستان میں فی کس اوسط آمدنی 2022 کے اعداد وشمار کے مطابق 16 سو 66 ڈالر سالانہ کے قریب ہے جب کہ 2021 میں یہ آمدنی 58سو 39ڈالر سالانہ تھی جس میں اب واضح کمی آ چکی ہے۔

ایک امریکی شہری پاکستانی شہری کے مقابلے میں تقریباً 24 ہزار 794 ڈالر زیادہ کماتا ہے یعنی پاکستانی کرنسی میں اس کی سالانہ آمدن 176روپے فی ڈالر کے حساب سے 46 لاکھ 56ہزار 960روپے بنتی ہے یعنی ماہانہ آمدن تقریباً چار لاکھ روپے ہے۔ اس موازنے کو دیکھیں تو پاکستان کے شہری کی ماہانہ آمدنی 25 ہزار کے لگ بھگ ہے لہٰذا وکی پیڈیا کے ان اعداد وشمار کو درست مان لیا جائے تو بھی اس قلیل آمدن میں پاکستانی شہری کے لیے 150 روپے درجن انڈے بھی مہنگے اور امریکی شہری کے لیے 360روپے درجن انڈے انتہائی سستے ہیں۔ بہرحال اس سچائی سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں عام اور روزمرہ استعمال کی اشیا مزید مہنگی ہوگئی ہیں۔

پاکستانی معیشت جس طرح مشکلات کا شکار ہوتی جارہی ہے ، اس کا سوچ کر ہر محب وطن پاکستانی خوف اور فکر میں گھرتا جا رہا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات اور رپورٹس کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح دو سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، شہری علاقوں میں مہنگائی 13 فیصد اور دیہی علاقوں میں 12.9 فیصد تک پہنچ گئی ہے جب کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے ، دوسری جانب نیپرا کی جانب سے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 3 روپے سے زائد اضافے سے عوام پر 30ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا جائے گا ، جب کہ حکومتی وزراء عوام کو کفایت شعاری اور قناعت پسندی کے درس دے رہے ہیں ۔

2022 کا آغاز منی بجٹ کی صورت میں رونما ہوا ہے۔ موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو عوام کو توقعات تھیں کہ ماضی میں جو کرپشن ہوتی رہی ، وہ بند ہوجائے ، معاشی استحکام آئے اور مہنگائی کنٹرول میں رہے گی، لیکن تقریباً چار برس گزرنے کے بعد مہنگائی بڑھنے کی رفتار حدود سے آگے نکل گئی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا ٍموقف ہے کہ ''مہنگائی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ عوام صبر کریں کیونکہ مہنگائی کم کرنے میں وقت لگے گا''۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے یہ عندیہ بھی دے دیا ہے کہ مہنگائی فوری طور پر جانے والی نہیں ہے اور کم از کم موجودہ مالی سال کے باقی ماندہ مہینوں میں بھی مہنگائی 11 فیصد یا اس سے زائد ہی رہے گی۔ اس کے برعکس حکومت نے موجودہ مالی سال کے لیے مہنگائی کا ہدف 9 سے 11 فیصد طے کیا تھا۔ ایک سادہ سوال ہے کہ کیا مہنگائی میں اضافہ صرف بیرونی عوامل کی وجہ سے ہوا ہے یا آیندہ مزید ہوگا؟ ایسا نہیں ہے، اگر عالمی سطح پر مہنگائی کی شرح میں کمی ہو بھی جائے تب بھی پاکستان میں مہنگائی کی شرح دو ہندسوں میں رہے گی۔

اس کی بڑی وجہ مانیٹری پالیسی کمیٹی کے جاری اعلامیے اور گورنر اسٹیٹ بینک کے خطاب میں سامنے آئی کہ حکومت کی جانب سے جو ضمنی بجٹ منظور کیا گیا ہے اس میں بڑے پیمانے پر مراعات کو ختم کردیا گیا ہے اور عام استعمال کی بہت سی ایسی ایشیا جن کو پہلے ٹیکس سے چھوٹ حاصل تھی ان پر سیلز ٹیکس عائد ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ شعبہ جات جہاں پر پہلے سے سیلز ٹیکس عائد تھا ، وہاں ٹیکس کی شرح میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ حکومت کے یہ اقدامات بھی مہنگائی کی شرح کو بڑھانے کا سبب بنیں گے۔

گزرے برس ، پٹرول41فیصد، ڈیزل 37فیصد، گھی 54فیصد، کوکنگ آئل51فیصد، آٹا 21 فیصد، چینی چار فیصد، پیمپرز 48فیصد، دالیں، گوشت، چائے کی پتی، دودھ، روٹی، دہی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ اس وقت مہنگائی کی طوفانی لہر شدت کے ساتھ پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ تیل، چینی، آٹا، دالیں، سبزیاں، انڈے، گوشت، بجلی وگیس کے بل اور اسکول فیس آبادی کے بڑے طبقے کی برداشت سے باہر ہو چکے ہیں۔

اس کی واضح مثالیں عوام ملک میں آٹا ، چینی اور پٹرول کی قلت کے بحرانوں کی صورت میں عملی طور پر دیکھ چکے ہیں۔ دوسری جانب حکومت آئی ایم ایف کو ڈالر کی قسطیں پوری کرنے کے چکر میں ضروری اشیاء درآمد ہی نہیں کرتی یا تاخیر سے درآمد کرتی ہے خواہ وہ تیل، LNG ہو یا گندم، چینی اور دیگر اجناس، تاکہ ڈالر کو بچا کر کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ کم کیا جا سکے اور بین الاقوامی سود کی قسطیں پوری کی جا سکیں، خواہ عوام کے پاس دو وقت کے کھانے کی روٹی ہی کیوں نہ ختم ہو جائے، یوں سپلائی کی قلت قیمتوں کے بڑھنے پر منتج ہوتی ہے اور مہنگائی کا سبب بنتی ہے۔ مہنگائی میں اضافے کی بڑی وجہ توانائی کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہے جس سے کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔

مہنگائی میں اضافے کی ایک اور وجہ ٹیکس کا نظام ہے جو بلواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکسوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے اکثر ٹیکس خصوصی طور پر بلا واسطہ ٹیکس، تمام اشیاء اور خدمات پر بالعموم لاگو کیے جاتے ہیں جس وجہ سے اشیاء اور خدمات کی قیمتیں اپنی اصل قیمتوں سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال پٹرولیم مصنوعات کی اصل قیمتوں پر لاگو کیا جانے والا جنرل سیلز ٹیکس اور پٹرولیم لیوی ہیں، جس کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے منفی اثرات تمام شعبہ ہائے زندگی پر مرتب ہورہے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔


ہو سکتا ہے کہ صنعتی شعبے میں ترقی کے حکومتی دعوے درست ہوں مگر حکومت ایسے اقدامات کرے جس سے روزگار کے وسیع مواقعے پیدا ہوں اور شہریوں کی آمدن میں اضافہ ہو تاکہ وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا بخوبی مقابلہ کر سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں