روس امریکا چپقلش

ہر عروج کا زوال ہے۔ یہی قانون فطرت ہے۔ جسے تقدیر بھی کہتے ہیں


Zamrad Naqvi February 21, 2022
www.facebook.com/shah Naqvi

DUBAI: کورونا وائرس کا آغاز چین کے شہر ووہان دسمبر 2019 سے شروع ہوا۔ اسی لیے اسے Covid-19 کہا جاتا ہے،جب یہ وائرس پھیلا تو اس وقت امریکا میں صدر ٹرمپ کی حکومت تھی۔

ٹرمپ نے برسر اقتدار آتے ہی قدامت پرست امریکی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر چین اور روس کے خلاف محاذ کھول دیا اور یہاں تک کہ یہ محاذ آرائی خطرے کی حدود میں پہنچ گئی۔ لگتا تھا کہ بس اب تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہونے ہی والا ہے جیسا کہ آج کل یوکرین کے معاملے پر روس ، امریکا میں محاذ آرائی عروج پر ہے۔ جس کے برے اثرات معاشی اور پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں۔

امریکا مغربی میڈیا اور خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے روس کو جارح ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے جب کہ روس امریکی سازشوں کا مقابلہ سفارتکاری کے ذریعے کرتے ہوئے اس نے یوکرین کی سرحد سے مرحلہ وار فوج نکالنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن امریکا نیٹو یورپین ممالک ، فرانس ، جرمنی بدستور جارحانہ رویہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ تنازعہ کی جڑ یہ ہے کہ امریکا یوکرین کو نیٹو ممالک کی تنظیم میں شامل کرنا چاہتا ہے تا کہ وہ اپنے دور مار ایٹمی میزائل یوکرین کی سر زمین پر نصب کر کے روسی سلامتی کو براہ راست خطرے میں ڈال دے جس کی روس کبھی بھی اجازت نہیں دے گا۔

اصل بات یہ ہے کہ امریکا کی عالمی بالا دستی خطرے میں ہے۔ 15 اگست 2021 کو کابل سے امریکی فوج کے انخلاء پر تبصرہ کرتے ہوئے برطانوی وزیر دفاع نے کہا کہ امریکا اب عالمی طاقت نہیں رہا۔ روس ، چین اسٹرٹیجک اتحاد بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ امریکی سامراجی سازشوں نے سویت یونین اور چین میں دشمنی پیدا کر دی تھی ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکا کبھی دنیا کی واحد سپر پاور نہ بن سکتا۔ اس طرح چین کو سوویت یونین سے دور کر کے امریکا نے سوویت یونین کو افغانستان کے پہاڑوں میں گھیر کر آسانی سے شکست دے دی۔

اب تو صورتحال بالکل مختلف ہے کہ امریکی اتحادی بھی اسے عالمی طاقت ماننے کے لیے تیار نہیں تو دوسری طرف چین امریکی ماہرین کے مطابق اگلے چند سالوں میں امریکا کی جگہ لیتے ہوئے دنیا کی نمبر ون معاشی طاقت بننے والا ہے۔ دوسری طرف روس ہے جو جنگی میدان میں امریکا کے لیے بڑا خطرہ بننے والا ہے۔ امریکی جریدے سائینٹفیک امریکن کی رپورٹ کے مطابق مستقبل کی لڑائی میں روس کی نئی صلاحیتوں کو روبوٹک ہتھیاروں اور طویل فاصلے تک مار کرنیوالے حملوں کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ جس میں فضائی اور خلائی حملوں سمیت میزائل شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس کئی اہم جنگی شعبوں میں امریکا کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ بشمول آرمر آرٹلری، فضائی دفاع، خلا اور سائبر اسپیس میں اب ایک طرف چین ہے جو معاشی میدان میں بہت جلد امریکا کی جگہ لینے والا ہے تو دوسری طرف روس کی سائنسی و ٹیکنالوجی میں مستقبل میں امریکا پر برتری۔ یعنی روس اور چین کا اتحاد۔ بات یہ ہے کہ روس اور چین نے یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ کس طرح امریکا نے ماضی میں دونوں ملکوں میں اختلافات اور دشمنی پیدا کر کے دنیا پر غلبہ پایا۔ صرف غلبہ ہی نہیں پایا دنیا کے کمزور ، غریب ملکوں کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی۔ یعنی امریکا آقا ہے اور پوری دنیا اس کی غلام ۔

بات سمجھنے کی یہ ہے کہ امریکا ہر اس ملک کا دشمن ہے جو اس کی عالمی بالا دستی کو چیلنج کر سکتا ہو۔ چاہے وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں ہو یا عسکری معاشی معاملات میں۔ مگر دیوار پہ لکھا سچ یہ ہے کہ امریکا کی اس طویل بالا دستی کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے جو خاص طور پر دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہوئی۔ امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ہاتھ پائوں مار رہا ہے کہ کسی طرح اس کی بالا دستی مزید طویل ہو جائے جو ناممکن ہے۔

دوسری طرف چین اور روس کا اسٹرٹیجک اتحاد امریکی عالمی بالا دستی کے لیے موت کا پیامبر ہے۔ امریکا کی اس عالمی بالا دستی نے دنیا کو جنگوں، تباہی، بربادی، غربت ، بیماری، بھوک ، بے روزگاری کے سوا کچھ نہ دیا۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کے نقاب میں سرمایہ دارانہ نظام ایک دلفریب دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ جس میں مٹھی بھر ارب ، کھرب پتی ، اربوں انسانوں کو اپنا غلام بنائے ہوئے ہیں۔

سرمایہ دارانہ جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انتہائی غریب ، دو وقت کی روٹی سے محروم افراد کے لیڈر ارب پتی ، کھرب پتی ہوتے ہیں۔ غریب اور مڈل کلاس عوام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس سرمایہ دارانہ جمہوریت میں اقتدار کے قریب بھی پھٹک سکے۔ یہ صرف خام مال کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ووٹ ڈالنے کے لیے۔

ہر عروج کا زوال ہے۔ یہی قانون فطرت ہے۔ جسے تقدیر بھی کہتے ہیں۔ چاہے فرد ہو یا ملک یا اقوام اس وقت دنیا ایک خاص دور میں داخل ہو چکی ہے جب اس دور کا 2040میں خاتمہ ہو گا تو دنیا کا نقشہ ہی بدلا ہوا ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں