کراچی ڈائری کا آخری ورق
کہانی پہلی ہو یا دوسری، یہ کراچی اور اس شہر بے مثال کے تعلق سے یہ پورے دیس کا ماجرا ہے
کہانیاں دو ہیں۔ کوئی لٹ رہا تھا، اس نے بچانے کی کوشش کی اور مارا گیا۔ وہ خودلٹ رہا تھا، اس نے مزاحمت کی اور مارا گیا۔ بات اطہر متین احمد تک محدود رکھی جائے تو حقیقت ان دو بیانات میں سے کوئی ایک ہے۔
کہانی پہلی ہو یا دوسری، یہ کراچی اور اس شہر بے مثال کے تعلق سے یہ پورے دیس کا ماجرا ہے ۔ اس میں قدر مشترک مزاحمت ہے اور مزاحمت ہمارے معاشرے میں جرم ہے۔ یہ مزاحمت ہی ہے جس سے ہماری جان جاتی ہے لیکن اگر کوئی ہمت والا پیٹھ نہ پھیرے اور وہ کر ڈالے جو اسے کرنا چاہیے تو وہ جان سے جاتا ہے جیسے اطہر گیا۔
اطہر ہمارے ہاتھوں کا بچہ تھا۔ یونیورسٹی سے نکلا تو اس کے سامنے بھی وہی سوال منہ پھاڑے کھڑا تھا کہ اب وہ کیا کرے؟ اس کے سامنے دو مثالیں تھیں۔ بڑے بھائی کی طرح چھاتی کا ناپ دے اور فوج میں چلا جائے۔ دوسری مثال منجھلے بھائی کی تھی۔ انگریزی سوٹ پہنے، کس کر ٹائی باندھے، گلا صاف کر کے آڈیشن دے اور اینکر بن جائے۔ اس نے تیسرا راستہ اختیار کیا۔ یہی اس کا مزاج تھا۔ اپنے دل کی سننا اور نئی راہ نکالنا۔
صحافت کی تعلیم جو کچھ اسے دے سکتی تھی، وہ اس کے پاس تھا۔ عملی دنیا تجربہ مانگتی ہے، وہ تجربے کی آرزو میں گھر سے نکلا اور مجھ تک پہنچا۔ وہ نائن الیون کے بعد کا زمانہ تھا۔ یہ زمانہ دو وجہ سے معروف ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاکستان میں ٹیلی ویژن جرنل ازم۔ جنگ اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دنیا میں بھی اور ہمارے ہاں بھی۔ اس تعلق کی بنیاد کیا رہی ہوگی، اس ضمن میں کچھ کہانیاں جانی پہچانی ہیں اور کچھ ان کہی۔ اس کہی اور ان کہی کی تفصیلات بڑی ہوش ربا ہیں لیکن ان تفصیلات میں خیر کا ایک پہلو بھی ہے۔
پاکستان میں ٹیلی جرنلزم میں آن جاب ٹریننگ کے مواقعے میسر آ گئے۔ اس زمانے میں جن لوگوں کو یہ موقع میسر آیا، اطہر ان میں سے تھا۔ آن جاب ٹریننگ لے کر کسی شعبے میں آنے والے دراصل وہ پیادے ہوتے ہیں جن کے بغیر کوئی کام مکمل نہیں ہوتا۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ ذرا دکھی کر دینے والا ہے۔ اپنی تمام تر ناگزیریت کے باوجود یہ پیادے کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں اور سارا کریڈٹ کوئی اور لے جاتا ہے۔
ان بہت سے پیادوں کی بھیڑ میں سے چند شہ سوار بھی ہوتے ہیں جو اپنی پیشہ ورانہ محنت، لیاقت اور ذہانت کے بل بوتے پر نمایاں ہو جاتے ہیں، اطہر کا شمار ان تھوڑے سے لوگوں میں ہوتا ہے جنھیں محنت اور ذہانت کے ساتھ ساتھ خلوص اور محبت کی دولت بھی ارزاں ہوتی ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اطہر اس دولت سے مالا مال تھا ۔پروفیشنلز کی بے رحم دنیا میں ایسے لوگوں کی واحد قوت اور سفارش یہی نعمت ہوتی ہے۔
یہ جس زمانے کی بات ہے، میں ٹیلی ویژن کے اس شعبے سے وابستہ تھا جس کا تعلق ہنگامے سے ہے۔ ہنگامے سے مراد یہ ہے کہ تیزی سے خبر دینا، سب سے پہلے خبر دینا اور درست خبر دینا۔ فارغ التحصیل ہو کر تعلیمی اداروں سے نکلنے والے نوجوان جب کسی ٹیلی ویژن چینل میں قدم رکھتے ہیں تو اسکرین کا گلیمر ان کے ذہنوں میں رچا بسا ہوتا ہے۔ ان میں سے کم جانتے ہیں کہ اسکرین کی چکا چوند کی یہ دنیا تیرہ الفاظ کا سہارا مانگتی ہے۔ یہ تیرہ الفاظ اس ٹکر پر مشتمل ہوتے ہیں جس کے ذریعے دنیا تک پہلی اطلاع پہنچتی ہے۔ یہی تیرہ الفاظ ہیں جن کے امتحان میں بہت سے نوخیز کامیاب نہیں ہو پاتے اور ٹیلی ویژن پر جلوہ افروز ہونے کی حسرت دل میں چھپائے دفتر کی سیڑھیاں اتر جاتے ہیں۔
اس بھیڑ میں اطہر وہ نگینہ تھا جس پر میری نگاہ پڑی اور یہ نوجوان تیزی کے ساتھ میرا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔یہ وہی اطہر تھا، پرسوں پرلے روز جس نے جی داری دکھائی اور ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹنے والی کسی خاتون کو بچانے کی کوشش میں اپنی جان سے گیا۔ ابتدا میں یہ خبر عام خبروں کی طرح ہی ذرایع ابلاغ تک پہنچی ہوگی۔ پھر جیسے جیسے اس کی تفصیلات آتی گئی ہوں گی، ہمارا دل مٹھی میں جکڑتا گیا ۔
اطہر کا قتل کچھ ایسا معمولی واقعہ تو نہیں کہ اس پر خاموش رہا جائے۔ اطہر کا قتل دراصل ایک آتش فشاں کی نشان دہی کرتا ہے جس کے کراچی میں پھٹنے کے آثار ہیں۔یاسر عرفات اطہر ہی کی طرح ایک ایثار کیش اور وفا دار ساتھی ہے۔ اطہر ہی کی طرح پیشہ ورانہ معاملات میں باریک بینی سے کام لیتا ہے اور معاملات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اطہر کے بچھڑنے سے وہ بھی غم زدہ ہے لیکن اس کا غم ہماری طرح آنسو بہانے پر ختم نہیں ہوا، اس نے اس سانحے کی وجوہات کا کھوج لگانے کی کوشش بھی کی ہے۔
یاسر کی تحقیق بتاتی ہے کہ قائد اعظمؒ کا شہر ان دنوں شہر ناپرساں ہے۔ صرف ڈیڑھ ماہ کے دوران میں اس شہر میں اسٹریٹ کرائم کی گیارہ ہزار وارداتیں ہو چکی ہیں۔ ایک ایسا شہر جس پر پورے ملک کی معیشت کا دار و مدار ہو، اس شہر میں چند ہفتوں کے دوران میں جرائم کی اتنی زیادہ وارداتیں صرف خطرے کی گھنٹی نہیں، اس سے کچھ بڑھ کر ہے۔ کراچی میں جرائم کا جو گوشوارہ یاسر نے مرتب کیا ہے، اس کا ایک پہلو اتنی بڑی تعداد سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے۔ یاسر نے بتایا ہے کہ گزشتہ چند روز کے دوران میں کراچی میں تیرہ افراد شہید ہوئے۔ یہ شہدا وہ تھے جنھوں نے مزاحمت کی۔ کسی کو بچانے کی کوشش کی یا خود بچ نکلنے کی ۔ ہمارا اطہر ان ہی تیرہ غیرت مند اور بہادر لوگوں میں سے ایک ہے۔
اطہر کی شہادت سے ہماری ایک نوجوان بہن بیوہ ہو گئی۔ اس کی دو چھوٹی چھوٹی بچیاں باپ کی شفقت سے محروم ہوئیں۔ ان کے لیے یہ صدمہ زندگی بھر کا غم ہے۔ وہ اس غم کو سینے سے لگائے کسی نہ کسی طرح جی لیں گی۔ وہ اطہر کی بیٹیاں ہیں۔ یقینا وہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی کامیاب رہیں گی لیکن سوال کراچی کا ہے اور اس شہر کی نسبت سے پورے پاکستان کا ہے۔ ایک ایسے شہر میں جہاں چند ہفتوں کے مختصر عرصے میں گیارہ ہزار سے زائد وارداتیں ہوتی ہوں، مزاحمت کرنے والے جان سے جاتے ہوں، نوجوان خواتین بیوہ ہوتی ہوں اور شیر خوار بچیاں یتیم، وہ شہر کیسے پھل پھول سکتا ہے۔
اس دیس کی معیشت کیسے ترقی کر سکتی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ سبز پاسپورٹ کو عزت دینے کے وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آنے والے کہاں سوئے پڑے ہیں؟ کراچی میں بہتا ہوا لہو انھیں پریشان کیوں نہیں کرتا؟ انھیں کب ہوش آئے گی اور وہ کب اپنے اس آہنی ہاتھ کو حرکت میں لائیں گے جس کی بروقت اور تیز رفتار سرگرمی معاشرے کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ شاید یہی سوال اطہر کے بھی سامنے رہا ہو گا کہ اس نے کراچی ڈائریز کا سلسلہ شروع کیا۔ یو ٹیوب کے اس پلیٹ فارم سے وہ اسی قسم کے سوالات اٹھاتا اور اہل وطن کو سوچنے پر مجبور کیا کرتا۔ کیا خبر تھی کہ اس ڈائری کا آخری ورق خود اس کے اپنے خون سے لکھا جائے گا۔
کہانی پہلی ہو یا دوسری، یہ کراچی اور اس شہر بے مثال کے تعلق سے یہ پورے دیس کا ماجرا ہے ۔ اس میں قدر مشترک مزاحمت ہے اور مزاحمت ہمارے معاشرے میں جرم ہے۔ یہ مزاحمت ہی ہے جس سے ہماری جان جاتی ہے لیکن اگر کوئی ہمت والا پیٹھ نہ پھیرے اور وہ کر ڈالے جو اسے کرنا چاہیے تو وہ جان سے جاتا ہے جیسے اطہر گیا۔
اطہر ہمارے ہاتھوں کا بچہ تھا۔ یونیورسٹی سے نکلا تو اس کے سامنے بھی وہی سوال منہ پھاڑے کھڑا تھا کہ اب وہ کیا کرے؟ اس کے سامنے دو مثالیں تھیں۔ بڑے بھائی کی طرح چھاتی کا ناپ دے اور فوج میں چلا جائے۔ دوسری مثال منجھلے بھائی کی تھی۔ انگریزی سوٹ پہنے، کس کر ٹائی باندھے، گلا صاف کر کے آڈیشن دے اور اینکر بن جائے۔ اس نے تیسرا راستہ اختیار کیا۔ یہی اس کا مزاج تھا۔ اپنے دل کی سننا اور نئی راہ نکالنا۔
صحافت کی تعلیم جو کچھ اسے دے سکتی تھی، وہ اس کے پاس تھا۔ عملی دنیا تجربہ مانگتی ہے، وہ تجربے کی آرزو میں گھر سے نکلا اور مجھ تک پہنچا۔ وہ نائن الیون کے بعد کا زمانہ تھا۔ یہ زمانہ دو وجہ سے معروف ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاکستان میں ٹیلی ویژن جرنل ازم۔ جنگ اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دنیا میں بھی اور ہمارے ہاں بھی۔ اس تعلق کی بنیاد کیا رہی ہوگی، اس ضمن میں کچھ کہانیاں جانی پہچانی ہیں اور کچھ ان کہی۔ اس کہی اور ان کہی کی تفصیلات بڑی ہوش ربا ہیں لیکن ان تفصیلات میں خیر کا ایک پہلو بھی ہے۔
پاکستان میں ٹیلی جرنلزم میں آن جاب ٹریننگ کے مواقعے میسر آ گئے۔ اس زمانے میں جن لوگوں کو یہ موقع میسر آیا، اطہر ان میں سے تھا۔ آن جاب ٹریننگ لے کر کسی شعبے میں آنے والے دراصل وہ پیادے ہوتے ہیں جن کے بغیر کوئی کام مکمل نہیں ہوتا۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ ذرا دکھی کر دینے والا ہے۔ اپنی تمام تر ناگزیریت کے باوجود یہ پیادے کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں اور سارا کریڈٹ کوئی اور لے جاتا ہے۔
ان بہت سے پیادوں کی بھیڑ میں سے چند شہ سوار بھی ہوتے ہیں جو اپنی پیشہ ورانہ محنت، لیاقت اور ذہانت کے بل بوتے پر نمایاں ہو جاتے ہیں، اطہر کا شمار ان تھوڑے سے لوگوں میں ہوتا ہے جنھیں محنت اور ذہانت کے ساتھ ساتھ خلوص اور محبت کی دولت بھی ارزاں ہوتی ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اطہر اس دولت سے مالا مال تھا ۔پروفیشنلز کی بے رحم دنیا میں ایسے لوگوں کی واحد قوت اور سفارش یہی نعمت ہوتی ہے۔
یہ جس زمانے کی بات ہے، میں ٹیلی ویژن کے اس شعبے سے وابستہ تھا جس کا تعلق ہنگامے سے ہے۔ ہنگامے سے مراد یہ ہے کہ تیزی سے خبر دینا، سب سے پہلے خبر دینا اور درست خبر دینا۔ فارغ التحصیل ہو کر تعلیمی اداروں سے نکلنے والے نوجوان جب کسی ٹیلی ویژن چینل میں قدم رکھتے ہیں تو اسکرین کا گلیمر ان کے ذہنوں میں رچا بسا ہوتا ہے۔ ان میں سے کم جانتے ہیں کہ اسکرین کی چکا چوند کی یہ دنیا تیرہ الفاظ کا سہارا مانگتی ہے۔ یہ تیرہ الفاظ اس ٹکر پر مشتمل ہوتے ہیں جس کے ذریعے دنیا تک پہلی اطلاع پہنچتی ہے۔ یہی تیرہ الفاظ ہیں جن کے امتحان میں بہت سے نوخیز کامیاب نہیں ہو پاتے اور ٹیلی ویژن پر جلوہ افروز ہونے کی حسرت دل میں چھپائے دفتر کی سیڑھیاں اتر جاتے ہیں۔
اس بھیڑ میں اطہر وہ نگینہ تھا جس پر میری نگاہ پڑی اور یہ نوجوان تیزی کے ساتھ میرا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔یہ وہی اطہر تھا، پرسوں پرلے روز جس نے جی داری دکھائی اور ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹنے والی کسی خاتون کو بچانے کی کوشش میں اپنی جان سے گیا۔ ابتدا میں یہ خبر عام خبروں کی طرح ہی ذرایع ابلاغ تک پہنچی ہوگی۔ پھر جیسے جیسے اس کی تفصیلات آتی گئی ہوں گی، ہمارا دل مٹھی میں جکڑتا گیا ۔
اطہر کا قتل کچھ ایسا معمولی واقعہ تو نہیں کہ اس پر خاموش رہا جائے۔ اطہر کا قتل دراصل ایک آتش فشاں کی نشان دہی کرتا ہے جس کے کراچی میں پھٹنے کے آثار ہیں۔یاسر عرفات اطہر ہی کی طرح ایک ایثار کیش اور وفا دار ساتھی ہے۔ اطہر ہی کی طرح پیشہ ورانہ معاملات میں باریک بینی سے کام لیتا ہے اور معاملات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اطہر کے بچھڑنے سے وہ بھی غم زدہ ہے لیکن اس کا غم ہماری طرح آنسو بہانے پر ختم نہیں ہوا، اس نے اس سانحے کی وجوہات کا کھوج لگانے کی کوشش بھی کی ہے۔
یاسر کی تحقیق بتاتی ہے کہ قائد اعظمؒ کا شہر ان دنوں شہر ناپرساں ہے۔ صرف ڈیڑھ ماہ کے دوران میں اس شہر میں اسٹریٹ کرائم کی گیارہ ہزار وارداتیں ہو چکی ہیں۔ ایک ایسا شہر جس پر پورے ملک کی معیشت کا دار و مدار ہو، اس شہر میں چند ہفتوں کے دوران میں جرائم کی اتنی زیادہ وارداتیں صرف خطرے کی گھنٹی نہیں، اس سے کچھ بڑھ کر ہے۔ کراچی میں جرائم کا جو گوشوارہ یاسر نے مرتب کیا ہے، اس کا ایک پہلو اتنی بڑی تعداد سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے۔ یاسر نے بتایا ہے کہ گزشتہ چند روز کے دوران میں کراچی میں تیرہ افراد شہید ہوئے۔ یہ شہدا وہ تھے جنھوں نے مزاحمت کی۔ کسی کو بچانے کی کوشش کی یا خود بچ نکلنے کی ۔ ہمارا اطہر ان ہی تیرہ غیرت مند اور بہادر لوگوں میں سے ایک ہے۔
اطہر کی شہادت سے ہماری ایک نوجوان بہن بیوہ ہو گئی۔ اس کی دو چھوٹی چھوٹی بچیاں باپ کی شفقت سے محروم ہوئیں۔ ان کے لیے یہ صدمہ زندگی بھر کا غم ہے۔ وہ اس غم کو سینے سے لگائے کسی نہ کسی طرح جی لیں گی۔ وہ اطہر کی بیٹیاں ہیں۔ یقینا وہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی کامیاب رہیں گی لیکن سوال کراچی کا ہے اور اس شہر کی نسبت سے پورے پاکستان کا ہے۔ ایک ایسے شہر میں جہاں چند ہفتوں کے مختصر عرصے میں گیارہ ہزار سے زائد وارداتیں ہوتی ہوں، مزاحمت کرنے والے جان سے جاتے ہوں، نوجوان خواتین بیوہ ہوتی ہوں اور شیر خوار بچیاں یتیم، وہ شہر کیسے پھل پھول سکتا ہے۔
اس دیس کی معیشت کیسے ترقی کر سکتی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ سبز پاسپورٹ کو عزت دینے کے وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آنے والے کہاں سوئے پڑے ہیں؟ کراچی میں بہتا ہوا لہو انھیں پریشان کیوں نہیں کرتا؟ انھیں کب ہوش آئے گی اور وہ کب اپنے اس آہنی ہاتھ کو حرکت میں لائیں گے جس کی بروقت اور تیز رفتار سرگرمی معاشرے کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ شاید یہی سوال اطہر کے بھی سامنے رہا ہو گا کہ اس نے کراچی ڈائریز کا سلسلہ شروع کیا۔ یو ٹیوب کے اس پلیٹ فارم سے وہ اسی قسم کے سوالات اٹھاتا اور اہل وطن کو سوچنے پر مجبور کیا کرتا۔ کیا خبر تھی کہ اس ڈائری کا آخری ورق خود اس کے اپنے خون سے لکھا جائے گا۔