تشویش ناک منظرنامہ
ہم بھول چکے ہیں کہ سیاسی بنیادوں پرنفرتیں پیدا کرنا بہت آسان ہوتا ہے نفرت ایک دفعہ پیدا ہوجائے تومدتوں ختم نہیں ہوتی
اس وقت عالمی ذرایع ابلاغ کے ذریعے جواطلاعات اورمعلومات حاصل ہورہی ہیں،وہ خاصی تشویشناک ہیں۔ان خبروں سے یہ اندازہ لگنامشکل نہیں کہ بعض عالمی قوتیں چین کی سیاسی اور معاشی سرگرمیوں کو اس خطے میں محدود کرنے کے لیے قبائلی علاقے میں ایک آزاد ریاست قائم کرنے کی خواہشمند ہیں۔اس کے علاوہ ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی خاطر چار سو میل طویل سمندری پٹی جوکراچی سے گوادر تک پھیلی ہوئی ہے،اسے بھی شورش زدہ بنانے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔ جس کے براہ راست اثرات پاکستان کی جغرافیائی سالمیت پر پڑیں گے۔
دوسری طرف افغانستان کی سیاسی اور جغرافیائی تقسیم کی خبریں بھی عام ہیں۔عالمی ذرایع ابلاغ چلاچلاکرکہہ رہے ہیں کہ غیر پشتون آبادی نے شمال کی طرف نقل مکانی شروع کردی ہے اور جنوبی علاقوں میں موجود اپنی جائیدادیں اور اثاثے فروخت کررہے ہیں۔اسی طرح پشتون آبادی شمالی علاقوں سے جنوبی صوبوں کی طرف منتقل ہورہی ہے۔آنے والے دنوں میں اگر افغانستان تقسیم ہوتا ہے تو اس کے بھی براہ راست اثرات پاکستان پر مرتب ہونے کے شدید خدشات موجود ہیں۔ کیونکہ ایک طرف افغانستان میں ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں افغان مہاجرین کا ایک بہت بڑا ریل اپاکستان میں داخل ہوگا، جس کے نتیجے میں پاکستان کے سیاسی وسماجیFabric میں مزید ابتری آنے کے امکانات سے انکار ممکن نہیں ہے۔ جب کہ دوسری طرف شدت پسند قوتیں بھی مزید فعال ہوکرپاکستان کے سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کو مزید مفلوج بناسکتی ہیں ۔ یوں پہلے سے زد پذیر(Fragile) ملک کے مزید Vulnerableہونے کے خطرات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
اب دوسری طرف آئیے۔امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل(Wall Street Journal)نے اپنی ہفتہ 15فروری کی اشاعت میں ایک رپورٹ شایع کی ہے۔جس میں اس نے پاکستان کے سب سے بڑے شہراور تجارتی مرکز کراچی کے بارے میں چشم کشا انکشافات کیے ہیں ۔اخبار کے مطابق کراچی کی 178یونین کونسلوں میں سے33 پر طالبان کا مکمل کنٹرول قائم ہوچکا ہے۔اخبارنے سینئر پولیس آفیسرراجہ عمر خطاب کے حوالے سے رپورٹ کیاہے کہ شہر کے اطراف میں موجود کچی اور پکی بستیوں کے علاوہ امریکی قونصل خانہ سے متصل بستی سلطان آباد اور صدر میںطالبان کے مضبوط مراکزقائم ہیں۔ ضلع غربی میں منگھوپیر سے حب ندی تک اور ضلع شرقی میں شیرپاؤ کالونی سے نیشنل ہائی وے تک طالبان موجود ہیں۔
حالات جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہے ہیں اور پختونخواہ کے بعد شدت پسندی کے بادل اب سندھ پر منڈلارہے ہیں۔سندھ میں پیدا ہونے والی یہ صورتحال اس لیے بھی انتہائی تشویشناک ہے،کیونکہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ملک کے مختلف حصوں میںجس شدید ردعمل کے آنے کے خدشات ہیں،اس کا سب سے بڑا نشانہ کراچی ہوگا۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔اول،پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری ،جو کچھ کہہ رہے ہیں،وہ بے شک اس ملک کے متوشش عوام کے دل کی آواز ضرور ہے،مگر اس صوبے کو شدت پسندی کی عفریت سے بچانے کا ذریعہ نہیں ہے۔ کیونکہ سندھ کی نمایندہ سیاسی جماعتیں جو لبرل ہونے کی دعویدار بھی ہیں، شدت پسندی سے نبردآزماء ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں۔جس کا فائدہ شدت پسند عناصر کو پہنچ رہاہے۔خدشہ یہ ہے کہ اگران دونوں جماعتوں کے درمیان موجودہ تناؤ اسی طرح برقرار رہتا ہے، تو جلد ہی پورے شہر کا کنٹرول ان کے ہاتھوں میں ہوگا اور دونوںنمایندہ جماعتیں ایک دوسرے کا منہ تکتی رہ جائیں گی۔
دوئم،صوبے میں متحرک دوسری سیاسی قوتیں،جن میں بائیں بازو کی تنظیمیں اور قوم پرست جماعتیں شامل ہیں، ایم کیو ایم مخالفت میں اس قدر آگے جاچکی ہیں کہ اس کے ساتھ کسی قسم کے ڈائیلاگ کی گنجائش باقی نہیں بچی ہے۔ اس کے علاوہ سندھ میں مستقل آبادمختلف کمیونٹیزکے درمیان اس قدر بدگمانیاں پیدا کردی گئی ہیں کہ وہ ایک دوسرے پر اعتماد کرنے اور قریب آنے سے ہچکچاتی ہیں۔مختلف کمیونٹیز کے درمیان پیدا شدہ خلیج ہی کا شاخسانہ ہے کہ گزشتہ10برسوں کے دوران سندھ کا آبادیاتی منظر نامہ(Demography) مکمل طورپر تبدیل ہوچکا ہے اور اس کے سیاسی اور سماجی Fabric کوشدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔مگر اس صورتحال کی سنگینی کا ادراک نہ نمایندہ سیاسی جماعتوںکو ہے اور نہ ہی قوم پرست جماعتیں اسے محسوس کرپا رہی ہیں۔ چنانچہ شہر پر ممکنہ بالادستی کے نتیجے میںصرف پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم ہی کو نقصان نہیں پہنچے گا، بلکہ سندھی قوم پرست تحریک بھی شدید نقصان سے دوچار ہوگی،جس کا انھیں اندازہ نہیں ہے ۔
ہم یہ بھول چکے ہیں کہ سیاسی بنیادوں پر نفرتیں پیدا کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔نفرت جو ایک دفعہ پیدا ہوجائے تو مدتوں ختم نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک نفرت کئی نفرتوں کو جنم دینے کا سبب بنتی ہے۔تقسیمِ ہند ہی کی مثال کو لیجیے،67برس گذرگئے، مگر نفرت کی جو دیواردونوں ممالک کے درمیان کھڑی ہوئی،وہ آج تک قائم ہے، بلکہ مزید بلند ہورہی ہے۔ یہی کچھ معاملہ 1971 میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی صورت میں ہوا ۔ان خون آشام ماہ سال کی تلخ یادیں آج43برس گذر جانے کے باوجود ختم نہیں ہوسکیں ۔اس کے علاوہ منافقت اوردہرا معیار بھی ہمارے معاشرے کی اجتماعی شناخت بن چکی ہے ۔کسی بھی متوشش شہری کو ایوب خان سے پرویز مشرف تک کسی فوجی آمر سے کوئی ہمدردی نہیںہے ۔ لیکن حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ حکمرانوں کے ساتھ بعض صحافی بھی جوتیوں سمیت آنکھوں میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ منافقت اور لسانی شاونزم کا یہ عالم ہے کہ 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کے نفاذ پر پرویز مشرف پر تو غداری(High Treason)کا مقدمہ قائم کیاجاتا ہے اور اس کے چلنے پربعض حلقے مسلسل اصرار بھی کررہے ہیں جب کہ ریاستی نظام کو غیر اسلامی قرار دینے والوں سے مذاکرات کیے جارہے ہیں ۔
منافقتوں کا یہ عالم ہے کہ وہ لوگ جو ملک کے سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں،ان کی غلطیوں، کوتاہیوں اورکمزوریوں کو طشت ازبام کیا جارہا ہے، منافقتوں اور شاونزم کے یہ رویے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ یہی رویے سقوط ڈھاکہ کا سبب بنے تھے۔ انھی رویوں کے سبب ملک اس حال کو پہنچاہے ۔مگر اس کے باوجود انھی رویوں پر اصرار کیاجا رہا ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریاستی اسٹبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں میں معاملات ومسائل کی نزاکتوں کو سمجھنے اور اس سے نمٹنے کی صلاحیت اوراہلیت کا فقدان ہے۔اسی لیے وہ بدلتے عالمی اور خطے کے حالات کا ادراک کر کے اپنی پالیسیوں میں مناسب تبدیلیاں لانے کے بجائے آج بھی انھی حکمت عملیوں پر بھروسہ کیے ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے ماضی میںاس ملک کے مسائل حل ہونے کے بجائے ان میں اضافہ ہوا اور مزید پیچیدہ ہوئے۔
اس وقت صورتحال انتہائی پیچیدہ اورسنگین ہوچکی ہے، جب کہ آنے والے مہینوں کا منظر نامہ خاصا تشویشناک اور پریشان کن نظر آرہاہے ۔اس لیے پاکستان کو مزید ابتری سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور منصوبہ سازاپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ کہاں اور کس مقام پر غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان میں تزویراتی گہرائی تلاش کرنے اور وہاں اپنی پسند کی حکومت قائم کرنے کی خواہش کو فی الحال ترک کرتے ہوئے،خود اپنے ملک کے اندر جنم لینے والے بدترین تضادات کو ختم کرنے پر توجہ دی جائے،جو کسی بھی وقت بدترین خانہ جنگی کا سبب بن سکتے ہیں ۔لہٰذا حکومت مذاکرات کا شوق ضرور پورا کرے،لیکن سندھ اور پنجاب میں شدت پسندوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اور واضح حکمت عملی بھی تیارکرے۔اس کے علاوہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے پڑوسی ممالک خاص طورپر ایران، چین اور بھارت کے ساتھ بامقصد مذاکرات کا بھی سلسلہ شروع کیا جائے۔کیونکہ سرد جنگ کے دور کی پالیسیوں کے نتیجے میں سوائے ہزیمت کے اب تک کچھ نہیں مل سکا ہے۔