کراچی ادب میلہ آخری قسط
ادب اور کتاب کے اس زوال کے دور میں یہ ادب میلے غنیمت ہی نہیں قابل تعریف بھی ہیں۔۔۔
ISLAMABAD:
اس تیسری اور آخری قسط کے آغاز سے قبل میں دوبارہ اپنے قارئین کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اس کانفرنس نما میلے میں صبح سے شام تک ہر روز تقریباً 25 سیشن تین دن تک جاری رہے اور چونکہ بیک وقت ہر گھنٹے میں چھ سے سات تک سیشنز مختلف ہالز میں ساتھ ساتھ چلے اس لیے عملی طور پر یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ آپ ہر ایک میں شامل ہو سکتے سو یہی دیکھا گیا کہ ہر شخص نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پروگرام کے بروشر پر اپنے سب سے پسندیدہ پروگرام کے ساتھ ساتھ ایک یا دو دیگر پروگراموں پر بھی نشان لگائے ہوئے تھے کہ اگر وقت مل سکا تو ادھر بھی جھانکیں گے لیکن اس کے باوجود بہت سے سیشنز رہ جاتے تھے، خود میرے ساتھ یہ ہوا کہ مجھے دو پروگراموں میں تو خود اسٹیج پر ہونا تھا سو ان کے متوازی چلنے والے کسی بھی پروگرام میں کسی بھی طرح کی شمولیت ممکن نہیں تھی جب کہ دیگر کئی اہم اور پسندیدہ سیشنز بھی باوجود کوشش کے رہ گئے مثال کے طور پر دوسرے دن یعنی ہفتہ 8 فروری کے پہلے گھنٹے میں کم از کم تین سیشنز ایسے تھے جنھیں میں شروع سے آخر تک سننا چاہتا تھا جب کہ باقی کے تین بھی کم دلچسپ نہیں تھے لیکن ہوا یہ کہ جب میں Aquarius ہال میں داخل ہوا جہاں زہرہ نگاہ کلاسیکی اردو شاعروں کا منتخب کلام ''اپنی بیاض سے'' کے زیر عنوان سنا رہی تھیں تو پھر وہیں کا ہو کر رہ گیا کہ بات میرے پسندیدہ شاعروں کی ہو رہی تھی جب کہ اسی ایک گھنٹے یعنی دس سے گیارہ بجے کے دوران جو دوسرے سیشن چل رہے تھے ان کے عنوانات کچھ اس طرح سے تھے۔
-1 قلم سے آواز تک (رضا علی عابدی)
-2 Contemporary Fiction at home and the Diaspora
-3 کتاب کی رونمائی (شاہد صدیقی)
-4 The Goal of higher Education Creating Professional or Scholars?
-5 پتلی تماشا
اس سے اگلے گھنٹے میں سات سیشن تھے جن میں مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی کی کتاب Punjab, a history from Aurangzeb to Mount Batten کی تقریب رونمائی کے ساتھ ساتھ ڈرامے سے متعلق سیشن On stage برادرم اسد محمد خاں کی تیسرے پہر کی کہانیاں۔ میرے پسندیدہ افسانہ نگار غلام عباس کی ایک کتاب ''جزیرہ' سخن وراں'' پر گفتگو' نئے اور پرانے انگریزی میں لکھنے والے شعرا کی Readings فہمیدہ ریاض کی ترجمہ کردہ دو کتابیں اور Art and politics of our times کے زیر عنوان ایک گفتگو شامل تھی کچھ دیر راج موہن گاندھی کی خیال افروز باتیں سنیں جن کے ساتھ اس کتاب کے حوالے سے عزیزی رضا رومی بات چیت کر رہا تھا لیکن دھیان بار بار اسد محمد خان کی طرف جا رہا تھا کہ جو شاعر اور افسانہ نگار تو اعلیٰ درجے کا ہے ہی لیکن ایک بہت اچھا ہم عصر اور عزیز دوست بھی ہے سو نتیجہ وہی نکلا جس کی طرف فیض صاحب نے اپنی ایک مختصر مگر بہت خوب صورت نظم میں کچھ یوں اشارہ کیا ہے کہ عشق اور کام دونوں ایک ساتھ نہیں چل پائے تو مجبوراً دونوں کو ادھورا چھوڑنا پڑا۔
اسی طرح ہمارے عہد کے نمایندہ فکشن رائٹرز مستنصر حسین تارڑ' عبداللہ حسین اور انتظار حسین کے سیشنز ایسے تھے جن میں سے کسی کو بھی بیچ میں چھوڑنا بے حد مشکل تھا چہ جائیکہ کہ ان میں سے کوئی سرے سے ہی Skip ہو جائے۔ اس بات کو یہیں ختم کر دینا بہتر ہے کہ اگر میں نے ان تمام سیشنز کا ذکر کیا جن میں،میں کسی نہ کسی وجہ سے شامل نہیں ہو سکا تو ایک تو بہت سے محبوب احباب کی دل شکنی ہو گی اور دوسرے جن لوگوں کے پاس مکمل پروگرام کی تفصیلات موجود ہیں وہ بھی میرے ذوق کے بارے میں مشکوک ہو جائیں گے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کیا کوئی باذوق شخص دس قدم پر موجود ضیا محی الدین' کاملہ شمسی' نوید شہزاد' ڈاکٹر عشرت حسین' منیزہ ہاشمی' ناہید صدیقی' محمد حنیف' بیو ظفر اور امر جلیل جیسے صاحبان کمال کو براہ راست سننے سے محروم رہنا افورڈ کر سکتا ہے؟ لیکن مجھے بہت سے دیگر احباب کی طرح یہ ظلم بھی اپنی جان پر سہنا پڑا کہ یہ محرومی صرف اور صرف میرا نقصان تھی سو میں اس بات کو پھر سے دہراؤں گا کہ اگلے میلے تک مینہ سید، آصف فرخی اور ان کے رفقا کو اس مسئلے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور اگر کسی وجہ سے کوئی مناسب حل نہ نکل سکے تو کم از کم اتنا ضرور کر دیا جائے کہ تمام پروگراموں کی DVDs جلد از جلد ایڈیٹنگ کے بعد تیار کر دی جائیں تاکہ لوگ انھیں قیمتاً خرید کر اپنی محرومیوں کا کسی حد تک ازالہ کر سکیں۔
یہاں میں ''ایک شخص پورا مشاعرہ'' کے زیر عنوان منعقد ہونے والے سیشن اور اس کے مرکزی کردار برادرم نصرت علی کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا جو ایک بالکل مختلف انداز سے ہر سال اس میلے کا حصہ بنتے ہیں انھیں دیکھ اور سن کر مجھے اپنا مرحوم دوست دلدار پرویز بھٹی بہت یاد آتا ہے کہ آوازوں کی نقالی کرنے میں اس کی مہارت بھی دیدنی اور شنیدنی تھی فرق صرف یہ ہے کہ نصرت علی بھائی نے مختلف شعراء کے پڑھنے کے انداز کی نقل میں خصوصی مہارت بہم پہنچائی ہے جب کہ دلدار بھٹی کے منتخب کرداروں کا دائرہ معاشرے کے بہت سے شعبوں تک پھیلا ہوا تھا۔ نصرت علی نے یوں تو بہت سے شعراء کے ترنم کی بھی بہت کامیاب نقل کی مگر جس خوب صورتی سے انھوں نے تحت الفظ پڑھنے والوں' بالخصوص احمد ندیم قاسمی صاحب اور منیر نیازی کو کاپی کیا اس کا لطف بھی کچھ اور تھا کہ تحت الفظ میں چھپنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی جب کہ گائیکی بہت سے عیبوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔
بیو ظفر کی میں نے تعریف بہت سنی ہے لیکن انھیں ابھی تک سنا نہیں البتہ یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ کوئی خاتون اسٹیج پر اس انداز کا پورا شو پیش کرے۔ Mimicary اور پیروڈی کے فن میں ہمارے اسٹیج اور ٹی وی کے بہت سے مرد فن کاروں نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ہیں جن میں سے فوری طور پر معین اختر' دلدار پرویز بھٹی' عمر شریف' امان اللہ' سہیل احمد' خالد عباس ڈار اور البیلا مرحوم کے نام ذہن میں آ رہے ہیں لیکن خواتین میں سوائے بشریٰ انصاری اور شیبا حسن کے شاید ہی کسی نے اس میدان میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہو (واضح رہے کہ میں صرف ان مزاحیہ فن کاروں کی بات کر رہا ہوں جنہوں نے نقالی اور پیروڈی میں اختصاص حاصل کیا ہے)۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس والوں نے ہر شام ایک خصوصی پروگرام کے ساتھ مندوبین کے لیے خصوصی ڈنرز کا انتظام کر رکھا تھا جن میں سے آخری دو میں گول کر گیا کہ ایک شام برادرم ریاض احمد منصوری نے اپنے نام کر لی اور دوسری نواب کیفی اور طاہر اے خان نے' یہاں کچھ پرانے دوستوں سے ملاقات رہی جو ذوق کے اس شعر کی منہ بولتی تصویر تھی کہ
اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
OUP کے اس سالانہ ادبی میلے کا ایک پر لطف پہلو صبح کا ناشتہ بھی ہوتا ہے جو ہوٹل کے ایک ایسے گوشے میں کیا جاتا ہے جس کے تین طرف سمندر ہوتا ہے اور کچھ ایسا ماحول بن جاتا ہے کہ جس کی خوشبو دن بھر آپ کو ترو تازہ رکھتی ہے۔
ادب اور کتاب کے اس زوال کے دور میں یہ ادب میلے غنیمت ہی نہیں قابل تعریف بھی ہیں کہ ان کی معرفت غار کے دوسری طرف کی روشنی بڑھ سی جاتی ہے اور نوجوان نسل کی پر جوش موجودگی سے دل کو حوصلہ سا ہوتا ہے کہ اگر یہ کمک اسی طرح ملتی رہی تو عین ممکن ہے کل کو یہ پسپائی کا سفر رک جائے اور ہم پھر سے اپنی تہذیب اور تاریخ کے ان چشموں سے فیض یاب ہونے کا سلسلہ بحال کر سکیں جس کے ایک طرف ہمارا ماضی ہے اور دوسری طرف مستقبل کہ قوموں کی تاریخ ان کے جغرافیے سے بھی زیادہ ان کے ادب' فنون لطیفہ اور روایات سے متعین ہوتی ہے۔
اس تیسری اور آخری قسط کے آغاز سے قبل میں دوبارہ اپنے قارئین کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اس کانفرنس نما میلے میں صبح سے شام تک ہر روز تقریباً 25 سیشن تین دن تک جاری رہے اور چونکہ بیک وقت ہر گھنٹے میں چھ سے سات تک سیشنز مختلف ہالز میں ساتھ ساتھ چلے اس لیے عملی طور پر یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ آپ ہر ایک میں شامل ہو سکتے سو یہی دیکھا گیا کہ ہر شخص نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پروگرام کے بروشر پر اپنے سب سے پسندیدہ پروگرام کے ساتھ ساتھ ایک یا دو دیگر پروگراموں پر بھی نشان لگائے ہوئے تھے کہ اگر وقت مل سکا تو ادھر بھی جھانکیں گے لیکن اس کے باوجود بہت سے سیشنز رہ جاتے تھے، خود میرے ساتھ یہ ہوا کہ مجھے دو پروگراموں میں تو خود اسٹیج پر ہونا تھا سو ان کے متوازی چلنے والے کسی بھی پروگرام میں کسی بھی طرح کی شمولیت ممکن نہیں تھی جب کہ دیگر کئی اہم اور پسندیدہ سیشنز بھی باوجود کوشش کے رہ گئے مثال کے طور پر دوسرے دن یعنی ہفتہ 8 فروری کے پہلے گھنٹے میں کم از کم تین سیشنز ایسے تھے جنھیں میں شروع سے آخر تک سننا چاہتا تھا جب کہ باقی کے تین بھی کم دلچسپ نہیں تھے لیکن ہوا یہ کہ جب میں Aquarius ہال میں داخل ہوا جہاں زہرہ نگاہ کلاسیکی اردو شاعروں کا منتخب کلام ''اپنی بیاض سے'' کے زیر عنوان سنا رہی تھیں تو پھر وہیں کا ہو کر رہ گیا کہ بات میرے پسندیدہ شاعروں کی ہو رہی تھی جب کہ اسی ایک گھنٹے یعنی دس سے گیارہ بجے کے دوران جو دوسرے سیشن چل رہے تھے ان کے عنوانات کچھ اس طرح سے تھے۔
-1 قلم سے آواز تک (رضا علی عابدی)
-2 Contemporary Fiction at home and the Diaspora
-3 کتاب کی رونمائی (شاہد صدیقی)
-4 The Goal of higher Education Creating Professional or Scholars?
-5 پتلی تماشا
اس سے اگلے گھنٹے میں سات سیشن تھے جن میں مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی کی کتاب Punjab, a history from Aurangzeb to Mount Batten کی تقریب رونمائی کے ساتھ ساتھ ڈرامے سے متعلق سیشن On stage برادرم اسد محمد خاں کی تیسرے پہر کی کہانیاں۔ میرے پسندیدہ افسانہ نگار غلام عباس کی ایک کتاب ''جزیرہ' سخن وراں'' پر گفتگو' نئے اور پرانے انگریزی میں لکھنے والے شعرا کی Readings فہمیدہ ریاض کی ترجمہ کردہ دو کتابیں اور Art and politics of our times کے زیر عنوان ایک گفتگو شامل تھی کچھ دیر راج موہن گاندھی کی خیال افروز باتیں سنیں جن کے ساتھ اس کتاب کے حوالے سے عزیزی رضا رومی بات چیت کر رہا تھا لیکن دھیان بار بار اسد محمد خان کی طرف جا رہا تھا کہ جو شاعر اور افسانہ نگار تو اعلیٰ درجے کا ہے ہی لیکن ایک بہت اچھا ہم عصر اور عزیز دوست بھی ہے سو نتیجہ وہی نکلا جس کی طرف فیض صاحب نے اپنی ایک مختصر مگر بہت خوب صورت نظم میں کچھ یوں اشارہ کیا ہے کہ عشق اور کام دونوں ایک ساتھ نہیں چل پائے تو مجبوراً دونوں کو ادھورا چھوڑنا پڑا۔
اسی طرح ہمارے عہد کے نمایندہ فکشن رائٹرز مستنصر حسین تارڑ' عبداللہ حسین اور انتظار حسین کے سیشنز ایسے تھے جن میں سے کسی کو بھی بیچ میں چھوڑنا بے حد مشکل تھا چہ جائیکہ کہ ان میں سے کوئی سرے سے ہی Skip ہو جائے۔ اس بات کو یہیں ختم کر دینا بہتر ہے کہ اگر میں نے ان تمام سیشنز کا ذکر کیا جن میں،میں کسی نہ کسی وجہ سے شامل نہیں ہو سکا تو ایک تو بہت سے محبوب احباب کی دل شکنی ہو گی اور دوسرے جن لوگوں کے پاس مکمل پروگرام کی تفصیلات موجود ہیں وہ بھی میرے ذوق کے بارے میں مشکوک ہو جائیں گے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کیا کوئی باذوق شخص دس قدم پر موجود ضیا محی الدین' کاملہ شمسی' نوید شہزاد' ڈاکٹر عشرت حسین' منیزہ ہاشمی' ناہید صدیقی' محمد حنیف' بیو ظفر اور امر جلیل جیسے صاحبان کمال کو براہ راست سننے سے محروم رہنا افورڈ کر سکتا ہے؟ لیکن مجھے بہت سے دیگر احباب کی طرح یہ ظلم بھی اپنی جان پر سہنا پڑا کہ یہ محرومی صرف اور صرف میرا نقصان تھی سو میں اس بات کو پھر سے دہراؤں گا کہ اگلے میلے تک مینہ سید، آصف فرخی اور ان کے رفقا کو اس مسئلے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور اگر کسی وجہ سے کوئی مناسب حل نہ نکل سکے تو کم از کم اتنا ضرور کر دیا جائے کہ تمام پروگراموں کی DVDs جلد از جلد ایڈیٹنگ کے بعد تیار کر دی جائیں تاکہ لوگ انھیں قیمتاً خرید کر اپنی محرومیوں کا کسی حد تک ازالہ کر سکیں۔
یہاں میں ''ایک شخص پورا مشاعرہ'' کے زیر عنوان منعقد ہونے والے سیشن اور اس کے مرکزی کردار برادرم نصرت علی کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا جو ایک بالکل مختلف انداز سے ہر سال اس میلے کا حصہ بنتے ہیں انھیں دیکھ اور سن کر مجھے اپنا مرحوم دوست دلدار پرویز بھٹی بہت یاد آتا ہے کہ آوازوں کی نقالی کرنے میں اس کی مہارت بھی دیدنی اور شنیدنی تھی فرق صرف یہ ہے کہ نصرت علی بھائی نے مختلف شعراء کے پڑھنے کے انداز کی نقل میں خصوصی مہارت بہم پہنچائی ہے جب کہ دلدار بھٹی کے منتخب کرداروں کا دائرہ معاشرے کے بہت سے شعبوں تک پھیلا ہوا تھا۔ نصرت علی نے یوں تو بہت سے شعراء کے ترنم کی بھی بہت کامیاب نقل کی مگر جس خوب صورتی سے انھوں نے تحت الفظ پڑھنے والوں' بالخصوص احمد ندیم قاسمی صاحب اور منیر نیازی کو کاپی کیا اس کا لطف بھی کچھ اور تھا کہ تحت الفظ میں چھپنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی جب کہ گائیکی بہت سے عیبوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔
بیو ظفر کی میں نے تعریف بہت سنی ہے لیکن انھیں ابھی تک سنا نہیں البتہ یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ کوئی خاتون اسٹیج پر اس انداز کا پورا شو پیش کرے۔ Mimicary اور پیروڈی کے فن میں ہمارے اسٹیج اور ٹی وی کے بہت سے مرد فن کاروں نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ہیں جن میں سے فوری طور پر معین اختر' دلدار پرویز بھٹی' عمر شریف' امان اللہ' سہیل احمد' خالد عباس ڈار اور البیلا مرحوم کے نام ذہن میں آ رہے ہیں لیکن خواتین میں سوائے بشریٰ انصاری اور شیبا حسن کے شاید ہی کسی نے اس میدان میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہو (واضح رہے کہ میں صرف ان مزاحیہ فن کاروں کی بات کر رہا ہوں جنہوں نے نقالی اور پیروڈی میں اختصاص حاصل کیا ہے)۔
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس والوں نے ہر شام ایک خصوصی پروگرام کے ساتھ مندوبین کے لیے خصوصی ڈنرز کا انتظام کر رکھا تھا جن میں سے آخری دو میں گول کر گیا کہ ایک شام برادرم ریاض احمد منصوری نے اپنے نام کر لی اور دوسری نواب کیفی اور طاہر اے خان نے' یہاں کچھ پرانے دوستوں سے ملاقات رہی جو ذوق کے اس شعر کی منہ بولتی تصویر تھی کہ
اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
OUP کے اس سالانہ ادبی میلے کا ایک پر لطف پہلو صبح کا ناشتہ بھی ہوتا ہے جو ہوٹل کے ایک ایسے گوشے میں کیا جاتا ہے جس کے تین طرف سمندر ہوتا ہے اور کچھ ایسا ماحول بن جاتا ہے کہ جس کی خوشبو دن بھر آپ کو ترو تازہ رکھتی ہے۔
ادب اور کتاب کے اس زوال کے دور میں یہ ادب میلے غنیمت ہی نہیں قابل تعریف بھی ہیں کہ ان کی معرفت غار کے دوسری طرف کی روشنی بڑھ سی جاتی ہے اور نوجوان نسل کی پر جوش موجودگی سے دل کو حوصلہ سا ہوتا ہے کہ اگر یہ کمک اسی طرح ملتی رہی تو عین ممکن ہے کل کو یہ پسپائی کا سفر رک جائے اور ہم پھر سے اپنی تہذیب اور تاریخ کے ان چشموں سے فیض یاب ہونے کا سلسلہ بحال کر سکیں جس کے ایک طرف ہمارا ماضی ہے اور دوسری طرف مستقبل کہ قوموں کی تاریخ ان کے جغرافیے سے بھی زیادہ ان کے ادب' فنون لطیفہ اور روایات سے متعین ہوتی ہے۔