بے لوث محبت کی موت
امریکا میں 62 فیصد لوگ کتے پالتے ہیں۔ یہ کتے ان کی تنہائی کے بہترین دوست ثابت ہوتے ہیں۔ یہ جانورغیر مشروط محبت کرتا ہے
PESHAWAR:
پالتو جانور اکثر گھروں میں پائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر رنگ برنگے پرندے پنجروں میں قید نظر آتے ہیں تو ان کے خوبصورت پروں میں عجیب سی اداسی جھلکنے لگتی ہے۔ پروں کی ہواؤں سے نسبت ہے۔ جو آزاد فضاؤں سے محروم ہو کر ادھورے ہو جاتے ہیں۔ جانوروں اور پرندوں کے ساتھ وقت گزار کر انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ خاص طور پر محبت انسیت اور وفاداری جو انسانوں کی دنیا سے رخصت ہو رہی ہیں۔ ایک نجی چینل پر پیٹ لورز کے نام سے نوجوانوں کے قائم کردہ ٹرسٹ کے بارے میں معلومات فراہم کی جا رہی تھیں۔ اس شو میں شامل ہونے والے لوگ اپنے پالتو جانوروں سمیت موجود تھے۔ ان لوگوں کے چہروں پر محبت اور ذمے داری کا تاثر نمایاں تھا۔ پالتو جانور انسان کی احساس محرومی، تنہائی و زخمی سوچوں کو مثبت دھارے میں بدل دیتے ہیں۔ جانوروں اور پرندوں کو توجہ و یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا انھیں پالنے والے ذہنی طور پر فعال اور جسمانی طور پر چست نظر آتے ہیں۔
میں نے بھی مختلف جانوروں اور پرندوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ بھائی کو جانور و پرندے پالنے کا شوق تھا۔ ہمارا گھر بلیوں، کتوں، مور، کبوتر، خرگوش، بطخوں، چڑیاؤں اور مچھلیوں سے بھرا رہتا۔ گھر کے باغ میں پھول، پودوں و درختوں کے درمیان یہ پالتو جانور بھی رہا کرتے۔ سب سے مشکل مرحلہ کتے پالنے کا تھا۔ جس دن گھر میں پیلا Alsation السیشن کتا آیا تو بھائی نے شروع میں تو اسے بڑی توجہ دی مگر بعد میں اس نے یہ ذمے داری میرے حوالے کر دی۔ کتے اپنے مالک کو ٹوٹ کر چاہتے ہیں۔ ان کے پاس احساس کی وسیع دنیا ہے۔ ایک حیرت انگیز تعلق اس کے اور مالک کے درمیان جڑ جاتا ہے۔ السیشن کتے ذہین ہوتے ہیں۔ وہ گھر والوں سے جلدی مانوس ہو جاتے ہیں۔ کچھ عرصے میں وہ بیمار پڑ گیا۔ اور ایک دن مر گیا۔ جانداروں کو بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ مالک کی کمی کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔ کتے کی موت کا مجھے شدید دکھ ہوا۔ کچھ عرصے کے بعد ایک نیا کتا گھر میں آ گیا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ میں نے اس کتے کو ہاتھ نہیں لگانا۔ یہ فقط بھائی سے مانوس تھا۔ گھر کے افراد کو دیکھ کر غرانے لگتا۔ Alaskan Malamute نسل سے تعلق رکھنے والا کتا دیکھنے میں خوفناک لگتا۔ میں بھائی کی غیر موجودگی میں کتے کو دیکھنے لگی۔ اس کا نام شیگی تھا۔
مجھے دیکھتے ہی غرانے لگتا۔ کتے کو کھانا نوکر دیتا تھا۔ یہ ذمے داری میں نے اپنے سر لے لی کیونکہ یہ واحد طریقہ تھا شیگی سے مانوس ہونے کا۔ نفسیات کی رو سے جو مائیں اپنے ہاتھوں سے کھانا تیار کر کے بچوں کو کھلاتی ہیں، ان کے اور بچوں کے درمیان احساس کا رشتہ اور بھی مضبوط ہو جاتا ہے۔ سمجھدار مائیں اور بیویاں خود کھانا بناتی ہیں۔ یہ ایک احساس کا مضبوط معاہدہ ہے، جو رشتوں کو مستحکم کرتا ہے۔ لہٰذا شیگی چند دنوں میں مجھ سے مانوس ہو گیا۔ اس کتے میں کمال کی برداشت تھی، یہ ذہین، ضدی اور خود مختار تھا۔ بھائی کام سے کہیں جاتا تو شیگی کھانا پینا چھوڑ دیتا۔ اس سے باتیں کی جاتیں، اس کا دل بہلایا جاتا مگر بے سود۔ اس کی نظریں ہر وقت دروازے پر ٹکی رہتیں۔ جب شیگی بیمار ہوا تو میں نے بھائی سے خوب لڑائی کی اور والد سے کہا کہ ان کتوں کو مالک کی مکمل توجہ چاہیے۔
یہ احساس کے مکمل معاہدے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس کتے کو کچھ ہوا تو آیندہ اس گھر میں کوئی اور کتا نہیں آئے گا۔ کیونکہ جو لوگ یکسوئی نہیں رکھتے انھیں پالتو جانور نہیں پالنے چاہئیں۔ اس دور میں جانوروں کے قریب رہ کر مجھے اندازہ ہوا تھا کہ جانور ہوں یا انسان مکمل توجہ کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جو لوگ یکسوئی نہیں رکھتے وہ دوستی اور محبت میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ یہ کتے بھائی کی بے توجہی کو برداشت نہیں کر سکے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ یہ پہلے مالک کی جدائی میں غمگین رہتے۔ اور یہ غم ان کی جان لے لیتا۔ شیگی کی بیماری نے اس کی جان لے لی۔ وہ جگہ خالی ہو گئی، جہاں وہ بیٹھ کر مالک کا انتظار کرتا۔ میں نے بارہا اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے۔
امریکا میں 62 فیصد لوگ کتے پالتے ہیں۔ یہ کتے ان کی تنہائی کے بہترین دوست ثابت ہوتے ہیں۔ یہ جانور غیر مشروط محبت کرتا ہے۔ اور کمال کی محبت کرتا ہے۔ جس محبت کی میں چشم دید گواہ ہوں۔ ہالی وڈ کی بنی ہوئی فلم Hachiko بھی ایک کتے کی مالک کے لیے غیر معمولی محبت کی انوکھی داستان ہے۔ لیکن امریکا ہو یا یورپ وہاں پر جانوروں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا جاتا ہے۔ مہذب معاشرے اخلاقی اصول اور مثبت رویوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ مجھے یقین تھا کہ شیگی کے بعد بھائی اب کوئی کتا نہیں پالے گا۔ مگر ایک دن اس نے تولیے میں لپٹا ہوا ایک چھوٹا سا کتا دودھ کے فیڈر سمیت لا کر مجھے تھما دیا۔ بھائی کا خیال تھا کہ اب ایک چھوٹا کتا پالتے ہیں، جو ہمارے ماحول سے عادی ہو جائے گا اور اسے بھی اپنے شوق کی تکمیل کی خاطر اسے بار بار کتے بدلنے نہیں پڑیں گے۔ ہم نے اس کا نام جیکی رکھا اور وہ ہمارے ساتھ ایک فرد کی طرح پلنے لگا۔ یہ Eskimo Dog اسکیمو ڈاگ تھا۔ سفید اور ریشمی بالوں والا۔ جیکی وقت کے ساتھ بڑا ہوتا رہا۔ سندھ یونیورسٹی میں داخلے کے بعد میں ہاسٹل میں رہنے لگی۔ جب گھر واپس آتی تو وہ بڑی گرمجوشی سے ملتا۔ اس کے استقبال میں جو شدت ہوتی وہ میں نے انسانوں میں نہیں دیکھی۔ جانوروں کی محبت کا ایک ہی محور ہوتا ہے۔ ان کے محور انسانوں کی طرح بار بار نہیں بدلتے۔ انسان جانوروں سے ڈرتے ہیں مگر حقیقت تو یہ ہے کہ جب تک انھیں چھیڑا نہ جائے تو جانور بھی خود سے حملہ نہیں کرتے۔
پالتو جانور اگر بیمار ہو جائیں تو طبی سہولتیں بھی آسانی سے نہیں میسر آتیں۔ میں نے کئی بار سڑکوں پر کتے اور بلیوں کو زخمی حالت میں دیکھا ہے۔ دنوں تک اسی حالت میں خود کو گھسیٹتے رہتے ہیں، مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ گھروں میں بھی بیمار ہونے کے بعد ان پالتو جانوروں کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ انھیں بوجھ سمجھا جاتا ہے یا پھر انھیں کہیں دور پھنکوا دیا جاتا ہے۔ اکثر جانوروں پر حد سے زیادہ بھاری سامان لاد دیا جاتا ہے۔ کچھ دن پہلے میں نے دیکھا کہ گدھا گاڑی پر بے تحاشا سامان رکھا تھا۔ گاڑی بہت آہستہ آہستہ کھسک رہی تھی۔ مالک بے دردی سے چابک مارتے ہوئے اسے تیز چلنے پر مجبور کر رہا تھا۔ اس جانور سے بہت محنت مشقت لی جاتی ہے۔ اسے طنز و مذاق کا الگ نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن مہذب معاشروں میں اس جانور کو عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی کا نشان گدھا ہے۔ کیونکہ یہ محنتی، اطاعت گزار اور وفادار پالتو جانور ہے۔
وہ دن ہم سب گھر والوں کے لیے آزمائش طلب تھا، جس دن پتہ چلا کہ جیکی پاگل ہو چکا ہے۔ وہ دن بار بار بار یاد آتا، جب جیکی بہت چھوٹا سا تھا اور ہمارے گھر آیا تھا۔ ہمیں اس سے گہری انسیت تھی۔
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اسے زہر دے کر مارا جائے یا اسے پکڑ کر کسی طرح سے ہلاک کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ مزید کوئی چارہ نہ تھا۔ اس کا مزید زندہ رہنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا وائرس ہے جس سے کتوں کو Rabies یا Hydrophobia (پاگل پن) لاحق ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال ہزاروں کیس اس بیماری کے پائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں ہر سال تقریباً 70,000 ہزار اموات پاگل کتے کے کاٹنے سے واقع ہوتی ہیں۔ لیکن اگر وقت پر پالتو جانوروں کو ویکسین دی جائے تو اس بیماری سے بچا جا سکتا ہے اور لوگوں سے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ یہ ویکسین کروا لیں جن علاقوں میں یہ وائرس پھیلنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس ویکسین کا اثر تین سال تک رہتا ہے۔
جیکی کی بھی اگر ویکسین کروالی جاتی تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔ ایک عجیب کشمکش میں پورا گھر مبتلا تھا۔ جیکی صحن میں تھا اور پاگل پن کی کیفیت میں گول گھوم رہا تھا یا پھر چھت پر چلا جاتا۔
بھائی بھی اس پر بندوق تان کر بے بسی سے اسے تکتا رہ جاتا۔ پورا گھر پریشان تھا۔ سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ بھائی نے کہا کہ آؤ میرے ساتھ۔ بھائی سیڑھیاں چڑھنے لگا، میں بھی دھڑکتے دل کے ساتھ پیچھے اوپر پہنچ گئی۔ عجیب سا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا۔ جیکی خونخوار نظروں سے ہمیں گھور رہا تھا۔
دکھ کا گہرا بھنور تھا جس میں ہمارے دل ڈوب کر ابھر رہے تھے۔
بھائی نے بندوق تانی مگر وہ گولی نہ چلا سکا۔ پھر جیکی نے دوڑ لگادی ہماری طرف۔ وہ بھائی کے نشانے پر تھا مگر اس کے ہاتھ بری طرح سے کانپ رہے تھے۔
جیسے ہی جیکی نے چھلانگ لگائی بھائی نے گولی چلادی۔ جیکی زخمی حالت میں نیچے گر گیا اور تڑپنے لگا۔ چند لمحوں میں اس کا تڑپتا ہوا جسم ساکت ہو گیا۔ بھائی جیکی کے قریب اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے رو رہا تھا۔ اس کے بعد پھر کبھی کوئی کتا ہمارے گھر میں نہیں آیا۔