خطرے سے ہرگز مت بھاگو
تاریخ نے جو ذلت ہٹلر کے نصیب میں لکھی ہے وہ ہی ذلت چیمبر لین کے لیے بھی لکھی گئی ہے۔۔۔۔
مرنے سے پہلے اسٹالن نے دو سیل بند لفافے جن پر نمبر درج تھے خروشیف کو دیے اور ہدایت کی کہ انھیں ہنگامی حالت میں ہی کھولا جائے۔ ابتدائی چھ سال تو خروشیف نے ہنستے کھیلتے گزار دیے جب خروشیف کو مشکلات پیش آنے لگیں تو اسے مجبوراً لفا فہ نمبر 1 کھولنا پڑا، جس میں لکھا تھا اب وقت آ گیا ہے کہ تم حکومت کی ہر مشکل کا ذمے دار مجھے ٹھہرانا شروع کر دو۔ اسٹالن کی یہ ہدایت بہت سود مند ثابت ہوئی اور خروشیف نے مزید آٹھ سال اسٹالن پر تنقید کرتے ہوئے گزار دیے اسے ایک بار پھر مشکلات پیش آنے لگیں مجبور ہو کر اسے اسٹالن کا دیا ہوا دوسرا بند لفافہ آخری حل کے طور پر کھولنا پڑا جس پر لکھا تھا اب تمہارے لیے بھی وقت آ گیا ہے کہ تم میرے جیسے دو لفافے تیار کر کے ریٹائر ہو جاؤ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے موجودہ حکمرانوں کو اس سے پہلے کہ ان کے لیے بہت دیر ہو جائے اور انھیں دوسرا لفافہ کھولنے کی ضرورت پڑ جائے ایک انتہائی سود مند مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ چرچل بنیں نا کہ چیمبرلین۔
آئیے ذرا چرچل اور چیمبر لین کے کرداروں کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ دونوں حضرات برطانیہ کے وزیر اعظم رہے ہیں۔ سب سے پہلے چرچل کی سیاست اور انداز حکمرانی پر نظر دوڑاتے ہیں جس قدر ولولہ انگیز اور معرکہ خیز چرچل کی زندگی رہی ہے شاید ہی روئے زمین پر کسی دوسرے شخص کی ہو گی۔ مصنف، خطیب اور سیاست دان چرچل 1940ء سے 1945 تک دوسری جنگ عظیم کے دوران وزیر اعظم رہا اس نے تباہی کے دہا نے پر کھڑے برطانیہ کو فتح سے ہمکنار کیا۔ جنگ عظیم اول سے پہلے وہ بڑے سنسی خیز انداز میں قومی سیاست میں ابھرا، جنگ عظیم اول پر اس کے گہرائی اور گیرائی کے حامل تبصروں نے اسے خاصی شہرت دی ۔ برطانوی جنگی تیاریوں کے حوالے سے بیشتر سیاست دان اس کے نقطہ نظر سے متفق نہیں تھے۔ چنانچہ جب تک ہٹلر کے عزائم عملی صورت اختیار نہیں کر گئے اسے نظر انداز کیا جاتا رہا۔ ْ1940 میں ایک مخلوط قومی حکومت کے رہنما کی حیثیت سے چرچل نے ہٹلر کا چیلنج قبول کیا۔ اس نے دوسری جنگ عظیم میں فرینکلن ڈی روز ویلٹ اور جوزف اسٹالن کے ساتھ مل کر اتحادیوں کی جنگی حکمت عملی تشکیل دی۔ جنگ کے بعد جب اتحاد ٹو ٹا تو سب سے پہلے اسی نے مغرب کو سوویت یونین کی توسیع پسند ی کے خطرے سے خبردار کیا۔
1951ء میں اس نے کنزرویٹو پارٹی کو دوبارہ حکومت میں پہنچایا اور خراب صحت کے باعث مستعفی ہونے سے پہلے 1955ء تک وزیر اعظم رہا۔ زندگی بھر چرچل کا یہ نصب العین رہا کہ ''خطرے سے ہرگز مت بھاگو ''۔ چرچل آکسفورڈ شائر میں پیدا ہوا۔ اس کی رگوں میں برطانوی و امریکی خون دوڑ رہا تھا۔ 1899ء میں اس نے سیاست کر نے اور اپنی روٹی قلم سے کمانے کا تہیہ کر لیا سب سے پہلے وہ کنزرویٹو پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے اولڈ ہیم کے حلقہ انتخاب سے الیکشن لڑا مگر تھوڑے ووٹوں سے ہار گیا۔ اس کے فوراً بعد چرچل نے جنوبی افریقہ میں جاری جنگ کی رپورٹنگ ''دی مارننگ پوسٹ'' لندن کے لیے کر نا شروع کی یہ جنگ نوآبادیاتی طاقت برطانیہ اوربوئروں کے درمیان ہو رہی تھی۔ جنوبی افریقہ پہنچنے کے بعد صرف ایک ماہ کے اندر اس کے حصے میں کافی بڑی شہر ت آئی۔ اس نے اسلحے سے بھری ایک ٹرین کو گھات میں بیٹھے بوئروں کے ہاتھ پڑنے سے بچایا تھا۔ اس کوشش کے نتیجے میں وہ خود قیدی بنا لیکن ایک ماہ بعد وہ قید سے فرار ہو گیا اس نے فرار ہو نے کی کہانی مارننگ پوسٹ کے لیے لکھی۔ وہ1900ء کی بہترین کہانی قرا ر دی گئی بر طانیہ نے ایک قومی ہیرو کی حیثیت سے چرچل کا استقبال کیا۔ اس کی مہما ت کے بارے میں ایک گیت لکھا گیا لاکھوں لوگ اس کی تقریر سننے کے لیے جمع ہوئے ۔
1921ء میں وہ پینتالیس لیکچر دینے کے لیے امریکہ گیا لیکن اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کو معلوم ہو گیا کہ امریکہ میں چرچل کی جان کو خطرہ ہے لیکن اس خطرے کے باوجود چرچل نے اپنا پروگرام تبدیل نہ کیا اور لیکچروں کا سلسلہ جاری رکھا ۔ جب وہ ایک مغربی شہر میں پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ اسے قتل کر نے کا منصوبہ بنانے والے گروہ کے بعض افراد نے اس کا لیکچر سننے کے لیے ٹکٹ خرید لیا ہے۔ شہر کے چیف آف پولیس کو خبردار کر دیا گیا اور لیکچر ملتوی کر نے کا حکم دیا گیا لیکن چرچل کے منیجر لوئیس جے البر نے لیکچر ملتوی کرنے کے خلاف احتجاج کیا اور چرچل نے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ''البر تم ٹھیک کہتے ہو انسان کو خطرے سے بھاگنا نہیں چاہیے اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو خطرہ دو گنا ہو جاتا ہے لیکن اگر آپ دلیری سے خم ٹھونک کر سامنے آ جاتے ہیں تو خطرہ نصف رہ جاتاہے۔'' خطر ے سے بھاگنے کے بجائے چرچل اکثر اس کی طرف بڑھا کرتا تھا۔ 10 مئی1940ء کو ہٹلر نے حملہ کر دیا 13 مئی کو اس نے پہلی بار وزیر اعظم کے حیثیت سے دارالعلوم سے خطاب کیا یہیں اس نے اپنی مشہور تقریر کے آغاز میں کہا ''میرے پاس خون، مشقت، آنسوؤں اور پسینے کے سوا پیش کرنے کو اور کچھ نہیں'' اس کی قیادت نے ایک عام برطانوی کو بھی ہٹلر کے مقابل کھڑے ہونے کا احساس دیا ہونٹوں میں سگار دبائے انگلیوں سے فتح کا نشان بناتا۔ چرچل برطانوی عوام کے حوصلے کی علامت بن گیا۔ وہ چودہ سے سترہ گھنٹے کام کیا کرتا تھا اور بعض اوقات پورا پورا ہفتہ۔ جب کہ چیمبر لین 1869ء سے لے کر 1940ء تک برطانیہ کا وزیر اعظم رہا یعنی چرچل سے پہلے۔
1935ء میں ہٹلر نے سارلینڈ پر قبضہ کر لیا۔ 1936ء میں اس نے بین الاقوامی معاہد ے کے خلاف ورزی کرتے ہوئے رائن لینڈ کے غیر فوجی علاقے میں اپنی فو جیں داخل کر دیں۔ اگر فرانس ہمت کا مظاہرہ کرتا تو ہٹلر کو عبرتناک شکست سے دو چار ہونا پڑتا مگر فرانس اور برطانیہ ہٹلر کو رعایتیں دے کر یہ امید کر رہے تھے کہ ہو سکتا ہے وہ اپنی شیطا نیت سے باز آ جائے۔ لیکن ہٹلر کے عزائم کچھ اور ہی تھے اس کے بعد وہ اپنے آبائی وطن آسٹریا پر قابض ہو گیا۔ اس کے بعد اس کا اگلا ہدف چیکو سلواکیہ تھا جس کے مغربی حصے میں جرمن آبادی تھی۔ برطانوی وزیر اعظم چیمبرلین نے 1938ء میں میونخ کے مقام پر نام نہاد امن مذاکرات کے نا م پر چیکو سلواکیہ کو ہٹلر کی گو د میں ڈال دیا اور چیمبر لین نے اپنی تاریخی شرمناک بزدلی کو اپنی کامیابی قرار دیا اور فاتحانہ انداز سے لندن واپس آ گیا۔چیمبر لین کی اسی شرمناک بزدلی کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم چھڑی اور 6 کروڑ سے زائد انسان موت کے گھاٹ اتر گئے۔ ملک کے ملک تباہ ہو گئے۔ چاروں طرف بر بادی ہی بربادی پھیل گئی۔
اگر 1938ء میں چیمبر لین بزدلی نہ دکھاتا تو کروڑوں انسان بے موت نہ مارے جاتے۔ تاریخ نے جو ذلت ہٹلر کے نصیب میں لکھی ہے وہ ہی ذلت چیمبر لین کے لیے بھی لکھی گئی ہے۔ چرچل اور چیمبرلین صرف دو اشخاص نہیں بلکہ دو الگ الگ کردار ہیں۔ دو الگ الگ سو چ ہیں انسانی تاریخ کے ہر دور میں یہ ہی دو کردار اوریہ ہی دو سو چیں ملیں گی۔ ایک کردار نے ہمیشہ تاریخ بنائی ہے اور دوسرے نے ہمیشہ تاریخ بگاڑی ہے ایک کی ہمیشہ جیت ہوئی اور دوسرے کی ہمیشہ ہار۔ ایک انگریزی ضر ب المثل ہے کہ غیر متلاطم سمندر کبھی کسی کو ماہر ملاح نہیں بناتا ہم اپنے مسائل سے بھا گ کر کہیں نہیں جا سکتے صرف ہارنے والے لوگ ہی بھاگتے اور میدان چھوڑتے ہیں جو لوگ رکاوٹوں کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں وہ ان لوگوں سے زیادہ محفوظ ہوتے ہیں جو رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرتے۔ زندگی کی ہر جنگ کا فیصلہ پہلے ذہن میں ہوتا ہے۔ فطر ت نے انسان کو سوچنے کی عظیم ترین صلاحیت عطا کی ہے انسان اپنا ماحول خو د تخلیق کر سکتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو چرچل کی کہی بات پر اچھی طرح سے غور کر نا چاہیے کہ ''انسان کو خطرے سے بھاگنا نہیں چاہیے اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو خطرہ دو گنا ہو جاتا ہے لیکن اگر آپ دلیری سے خم ٹھونک کر سامنے آ جاتے ہیں تو خطرہ نصف رہ جاتاہے''۔ لیکن کیا کیا جائے ہمارے نصیب میں ہمیشہ ہی چیمبرلین آئے ہیں۔
آئیے ذرا چرچل اور چیمبر لین کے کرداروں کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ دونوں حضرات برطانیہ کے وزیر اعظم رہے ہیں۔ سب سے پہلے چرچل کی سیاست اور انداز حکمرانی پر نظر دوڑاتے ہیں جس قدر ولولہ انگیز اور معرکہ خیز چرچل کی زندگی رہی ہے شاید ہی روئے زمین پر کسی دوسرے شخص کی ہو گی۔ مصنف، خطیب اور سیاست دان چرچل 1940ء سے 1945 تک دوسری جنگ عظیم کے دوران وزیر اعظم رہا اس نے تباہی کے دہا نے پر کھڑے برطانیہ کو فتح سے ہمکنار کیا۔ جنگ عظیم اول سے پہلے وہ بڑے سنسی خیز انداز میں قومی سیاست میں ابھرا، جنگ عظیم اول پر اس کے گہرائی اور گیرائی کے حامل تبصروں نے اسے خاصی شہرت دی ۔ برطانوی جنگی تیاریوں کے حوالے سے بیشتر سیاست دان اس کے نقطہ نظر سے متفق نہیں تھے۔ چنانچہ جب تک ہٹلر کے عزائم عملی صورت اختیار نہیں کر گئے اسے نظر انداز کیا جاتا رہا۔ ْ1940 میں ایک مخلوط قومی حکومت کے رہنما کی حیثیت سے چرچل نے ہٹلر کا چیلنج قبول کیا۔ اس نے دوسری جنگ عظیم میں فرینکلن ڈی روز ویلٹ اور جوزف اسٹالن کے ساتھ مل کر اتحادیوں کی جنگی حکمت عملی تشکیل دی۔ جنگ کے بعد جب اتحاد ٹو ٹا تو سب سے پہلے اسی نے مغرب کو سوویت یونین کی توسیع پسند ی کے خطرے سے خبردار کیا۔
1951ء میں اس نے کنزرویٹو پارٹی کو دوبارہ حکومت میں پہنچایا اور خراب صحت کے باعث مستعفی ہونے سے پہلے 1955ء تک وزیر اعظم رہا۔ زندگی بھر چرچل کا یہ نصب العین رہا کہ ''خطرے سے ہرگز مت بھاگو ''۔ چرچل آکسفورڈ شائر میں پیدا ہوا۔ اس کی رگوں میں برطانوی و امریکی خون دوڑ رہا تھا۔ 1899ء میں اس نے سیاست کر نے اور اپنی روٹی قلم سے کمانے کا تہیہ کر لیا سب سے پہلے وہ کنزرویٹو پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے اولڈ ہیم کے حلقہ انتخاب سے الیکشن لڑا مگر تھوڑے ووٹوں سے ہار گیا۔ اس کے فوراً بعد چرچل نے جنوبی افریقہ میں جاری جنگ کی رپورٹنگ ''دی مارننگ پوسٹ'' لندن کے لیے کر نا شروع کی یہ جنگ نوآبادیاتی طاقت برطانیہ اوربوئروں کے درمیان ہو رہی تھی۔ جنوبی افریقہ پہنچنے کے بعد صرف ایک ماہ کے اندر اس کے حصے میں کافی بڑی شہر ت آئی۔ اس نے اسلحے سے بھری ایک ٹرین کو گھات میں بیٹھے بوئروں کے ہاتھ پڑنے سے بچایا تھا۔ اس کوشش کے نتیجے میں وہ خود قیدی بنا لیکن ایک ماہ بعد وہ قید سے فرار ہو گیا اس نے فرار ہو نے کی کہانی مارننگ پوسٹ کے لیے لکھی۔ وہ1900ء کی بہترین کہانی قرا ر دی گئی بر طانیہ نے ایک قومی ہیرو کی حیثیت سے چرچل کا استقبال کیا۔ اس کی مہما ت کے بارے میں ایک گیت لکھا گیا لاکھوں لوگ اس کی تقریر سننے کے لیے جمع ہوئے ۔
1921ء میں وہ پینتالیس لیکچر دینے کے لیے امریکہ گیا لیکن اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کو معلوم ہو گیا کہ امریکہ میں چرچل کی جان کو خطرہ ہے لیکن اس خطرے کے باوجود چرچل نے اپنا پروگرام تبدیل نہ کیا اور لیکچروں کا سلسلہ جاری رکھا ۔ جب وہ ایک مغربی شہر میں پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ اسے قتل کر نے کا منصوبہ بنانے والے گروہ کے بعض افراد نے اس کا لیکچر سننے کے لیے ٹکٹ خرید لیا ہے۔ شہر کے چیف آف پولیس کو خبردار کر دیا گیا اور لیکچر ملتوی کر نے کا حکم دیا گیا لیکن چرچل کے منیجر لوئیس جے البر نے لیکچر ملتوی کرنے کے خلاف احتجاج کیا اور چرچل نے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا ''البر تم ٹھیک کہتے ہو انسان کو خطرے سے بھاگنا نہیں چاہیے اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو خطرہ دو گنا ہو جاتا ہے لیکن اگر آپ دلیری سے خم ٹھونک کر سامنے آ جاتے ہیں تو خطرہ نصف رہ جاتاہے۔'' خطر ے سے بھاگنے کے بجائے چرچل اکثر اس کی طرف بڑھا کرتا تھا۔ 10 مئی1940ء کو ہٹلر نے حملہ کر دیا 13 مئی کو اس نے پہلی بار وزیر اعظم کے حیثیت سے دارالعلوم سے خطاب کیا یہیں اس نے اپنی مشہور تقریر کے آغاز میں کہا ''میرے پاس خون، مشقت، آنسوؤں اور پسینے کے سوا پیش کرنے کو اور کچھ نہیں'' اس کی قیادت نے ایک عام برطانوی کو بھی ہٹلر کے مقابل کھڑے ہونے کا احساس دیا ہونٹوں میں سگار دبائے انگلیوں سے فتح کا نشان بناتا۔ چرچل برطانوی عوام کے حوصلے کی علامت بن گیا۔ وہ چودہ سے سترہ گھنٹے کام کیا کرتا تھا اور بعض اوقات پورا پورا ہفتہ۔ جب کہ چیمبر لین 1869ء سے لے کر 1940ء تک برطانیہ کا وزیر اعظم رہا یعنی چرچل سے پہلے۔
1935ء میں ہٹلر نے سارلینڈ پر قبضہ کر لیا۔ 1936ء میں اس نے بین الاقوامی معاہد ے کے خلاف ورزی کرتے ہوئے رائن لینڈ کے غیر فوجی علاقے میں اپنی فو جیں داخل کر دیں۔ اگر فرانس ہمت کا مظاہرہ کرتا تو ہٹلر کو عبرتناک شکست سے دو چار ہونا پڑتا مگر فرانس اور برطانیہ ہٹلر کو رعایتیں دے کر یہ امید کر رہے تھے کہ ہو سکتا ہے وہ اپنی شیطا نیت سے باز آ جائے۔ لیکن ہٹلر کے عزائم کچھ اور ہی تھے اس کے بعد وہ اپنے آبائی وطن آسٹریا پر قابض ہو گیا۔ اس کے بعد اس کا اگلا ہدف چیکو سلواکیہ تھا جس کے مغربی حصے میں جرمن آبادی تھی۔ برطانوی وزیر اعظم چیمبرلین نے 1938ء میں میونخ کے مقام پر نام نہاد امن مذاکرات کے نا م پر چیکو سلواکیہ کو ہٹلر کی گو د میں ڈال دیا اور چیمبر لین نے اپنی تاریخی شرمناک بزدلی کو اپنی کامیابی قرار دیا اور فاتحانہ انداز سے لندن واپس آ گیا۔چیمبر لین کی اسی شرمناک بزدلی کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم چھڑی اور 6 کروڑ سے زائد انسان موت کے گھاٹ اتر گئے۔ ملک کے ملک تباہ ہو گئے۔ چاروں طرف بر بادی ہی بربادی پھیل گئی۔
اگر 1938ء میں چیمبر لین بزدلی نہ دکھاتا تو کروڑوں انسان بے موت نہ مارے جاتے۔ تاریخ نے جو ذلت ہٹلر کے نصیب میں لکھی ہے وہ ہی ذلت چیمبر لین کے لیے بھی لکھی گئی ہے۔ چرچل اور چیمبرلین صرف دو اشخاص نہیں بلکہ دو الگ الگ کردار ہیں۔ دو الگ الگ سو چ ہیں انسانی تاریخ کے ہر دور میں یہ ہی دو کردار اوریہ ہی دو سو چیں ملیں گی۔ ایک کردار نے ہمیشہ تاریخ بنائی ہے اور دوسرے نے ہمیشہ تاریخ بگاڑی ہے ایک کی ہمیشہ جیت ہوئی اور دوسرے کی ہمیشہ ہار۔ ایک انگریزی ضر ب المثل ہے کہ غیر متلاطم سمندر کبھی کسی کو ماہر ملاح نہیں بناتا ہم اپنے مسائل سے بھا گ کر کہیں نہیں جا سکتے صرف ہارنے والے لوگ ہی بھاگتے اور میدان چھوڑتے ہیں جو لوگ رکاوٹوں کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں وہ ان لوگوں سے زیادہ محفوظ ہوتے ہیں جو رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرتے۔ زندگی کی ہر جنگ کا فیصلہ پہلے ذہن میں ہوتا ہے۔ فطر ت نے انسان کو سوچنے کی عظیم ترین صلاحیت عطا کی ہے انسان اپنا ماحول خو د تخلیق کر سکتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو چرچل کی کہی بات پر اچھی طرح سے غور کر نا چاہیے کہ ''انسان کو خطرے سے بھاگنا نہیں چاہیے اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو خطرہ دو گنا ہو جاتا ہے لیکن اگر آپ دلیری سے خم ٹھونک کر سامنے آ جاتے ہیں تو خطرہ نصف رہ جاتاہے''۔ لیکن کیا کیا جائے ہمارے نصیب میں ہمیشہ ہی چیمبرلین آئے ہیں۔