نسلی تفریق کا سماجی و سیاسی کردار آخری حصہ
جو رنگ و نسل کا فرق ہے وہ موجود رہے گا اسی طرح مرد اور عورت کی جسمانی ساخت کا فرق بھی موجود رہے گا
جب تک بلوچ عوام رنگ و نسل کے فرق پر اصرار کرنے کی بجائے معاشی ساختوں کے اس فرق کو پہچان نہیں لیں گے جو ان کے اور ان کے استحصالیوں کے درمیان ہیں تب تک اپنے مسائل کو حل کرنے میں خاطر خواہ کامیاب نہیں ہو سکتے، کیونکہ رنگ و نسل کے ساتھ ساتھ مذہبی فرقوں سے تحریک پانے والا ڈیفرنس بلوچ پسے ہوئے طبقے کو دوسرے صوبوں کے پسے ہوئے طبقات سے ہم آہنگ نہیں ہونے دے رہا جو ان کی اصل قوت ہیں۔ یہ رنگ و نسل، مذہب، رسم و رواج اور ثقافتوں کی ساخت میں پایا جانے والا ڈیفرنس ہی تو ہے جس کو استحصالی طبقات ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں سے بھرکر اس حدِ فاصل کو بڑھا دیتے ہیں جو دو مختلف گرہوں میں موجود ہوتی ہے، کوئی شناخت حتمی شناخت کا روپ اس لیے نہیں دھار سکتی کہ کسی بھی شناخت کی بنیاد میں عوامل میں سے کوئی ایک عمل کارفرما نہیں ہوتا اس کی وجہ وقت ہے جو مسلسل حرکت میں ہے اور جس کا جوہر تبدیل ہونا اور تبدیل کرنا ہے، لہذا ایک انسان سے دوسرے انسان کے درمیان فاصلہ مکانی ہو تو وہ زمانی بھی ہے جو کبھی مکمل ختم نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کو کسی نہ کسی عمل یا خیالیات سے پُر کیا جا سکتا ہے تا کہ' پہلا' اور 'دوسرا' کسی نہ کسی حوالے سے ربط میں آ سکے۔
بلوچ اس لیے بلوچ ہیں کہ وہ پنجابی، سندھی یا پختون نہیں ہیں، اسی طرح پنجابی، سندھی یا پختون بھی اسی لیے پنجابی، سندھی یا پختون ہیں کہ وہ بلوچ نہیں ہیں، اس کا مطلب کہ ہر شناخت اپنی شناخت قائم کرنے کے لیے دوسرے مختلف کی محتاج ہے۔ لہذا ان کے مابین موجود فرق کا باقی رہنا ان کی اپنی شناختوں کے لیے ضروری ہوتا ہے مگر طاقت کا استعمال ان میں ایسی فوقیتی ترتیب کا باعث بنتا ہے جو شناخت کو استحکام بخشنے کی بجائے استحصال کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے۔ فیڈریشن سے علیحدگی پسے ہوئے بلوچی عوام کے مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ نظام کی تبدیلی کے لیے تمام پسے ہوئے طبقات کا ہم آہنگ ہو کر اس نظام کے خلاف لڑنا ضروری ہے جس نے غیر مساوی تقسیم کو ممکن بنایا ہوا ہے جس کی بنیاد پر استحصال کرنے والے مزید طاقتور ہوتے جا رہے ہیں علیحدگی کی بجائے مجموعی جدوجہد سامراجیوں کے خلاف ضروری ہے جو بلوچ بھی ہے سندھی بھی ہے پختون بھی ہے اور پنجابی بھی ہے، جن کے ہاتھ بیرونی سامراجیوں نے مضبوط کر رکھے ہیں۔ میرے اس موقف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کچھ انٹلیکچوئلز لینن کا حوالہ دیتے ہوئے اصرار کرتے ہیں کہ لینن نے آزادی اور حقِ خود ارادیت کی حمایت کی تھی اس لیے بنا کسی تنقیدی جائزے کے بلوچوں کی تحریکِ آزادی، جو میرے خیال سے بلوچ عوام کے بنیادی حقوق کے حصول کی کوشش تھی اور جس کو سامراجی اغوا کر کے تاوان کا مطالبہ کر رہے ہیں، کی اس لیے حمایت کرنی چاہیے کہ لینن نے اپنے عہد میں آزادی کی تحریک کی حمایت کی تھی۔
میں لینن کے خیالات اور حکمتِ عملی کی بہت زیادہ معترف ہوں جو ان کے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ تھی اور ان کے سماج کی ساختوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انھوں نے اپنائی، ہمیں یہاں ان کے وقت اور ہمارے وقت کے مابین موجود ڈیفرنس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ روس بہت سی ریاستوں پر مبنی ایک طاقت تھی، جس کے نظم و نسق کو قائم رکھنے کے لیے کسی ریاست کو جز وقتی حقِ خود ارادیت اگر دیا بھی گیا یا لینن نے اس کی حمایت کی تھی تو وہ اس وقت اور سماج کی اندرونی ضرورتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا گیا، مگر اب صورتِ حال مختلف ہے سماج مختلف ہے وقت مختلف ہے پاکستان جو ایک محدود رقبے پر مبنی خطہ ہے جس کا استحکام ابھی تک اسی لیے ممکن نہیں ہو سکا کہ یہ سامراجیوں کی پیداوار تھا اور سامراجی ہی ابھی تک اس کی لوٹ مار میں مصروف ہیں، اس میں سے بلوچستان پاکستان کے 43 فی صد رقبے پر مشتمل ہے جو کہ تقریباََ پاکستان کا نصف ہے اس میں موجود عوام کل پاکستان کی آبادی کا صرف پانچ فیصد ہیں اور ان میں سے بھی نصف یعنی 50 فیصد پختون پر مشتمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی مداخلت بھی اس صوبے میں ہو رہی ہے۔
لینن نے اپنے سماج اور وقت کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کسی بھی حکمتِ عملی کو اپنایا اب ہمیں بھی اپنے عہد اور سماج کے تقاضوں کو مدِ نطر رکھتے ہوئے فیصلے کرنے چاہیے، مارکسزم کوئی ایسی مقدس خیالیات نہیں جس کا ہر دور اور ہر سماج پر ایک ہی طرح سے جو ں کا توں اطلاق کر دیا جائے، بلکہ مارکسزم کی روح ہی یہ ہے کہ سماج کی بدلتی ہوئی مادی حالت کو تھیورائز کر کے کوئی حکمتِ عملی اپنائی جائے اور یہی خوبی مارکسزم کو دوسروں سے الگ کرتی ہے کہ یہ بدلتی ہوئی معروضی و مادی ساختوں کا تجزیہ کر کے اس کا حل تلاش کرنے پر اصرار کرتا ہے، لہذا لینن کے عہد اور ہمارے عہد کے مابین ڈیفرنس اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اس کو اپنے عہد اور سماج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پُر کریں۔ بلوچستان کا استحصالی طبقہ خود حکومت کا حصہ ہے جو عوامی طاقت کو بنیاد بنا کر اپنے مفادات کا حصول چاہتا ہے۔ بلوچستان میں پسے ہوئے طبقات کی حمایت کرتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بلوچستان پر قابض استحصالی ہمیشہ سے اس کی ٖلاج کے معاملے میں بد نیتی رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ دوسرے صوبوں کے عوام کو بیدخل کیا گیا، کیونکہ ان کے لیے پھر بلوچ قوم اور ان کے حقوق کا نعرہ لگا کر اپنے سیاسی و معاشی مقاصدکا حصول مشکل امر ہو جاتا۔ اس لیے کے دوسرے آباد کاروں کی وجہ سے بلوچ اکلوتی قوت نہیں رہ سکتے تھے جس کی بنیاد پر آج علیحدگی کا مطالبہ کرنا بلوچ سامراج اور سرداروں کے لیے آسان ہے، لہذا بلوچوں اور دوسرے صوبوں کے عوام کے مابین ڈیفرنس کو استحصالی طبقہ اپنی مرضی کی خیالیات سے پُر کر کے اپنی مرضی کے نتائج چاہتا ہے۔
اس لیے کہ ڈیفرنس وہ فرق ہے جو مختلف سماجی، مذہبی یا سیاسی ڈسکورس کے ذریعے پُر ہوتا ہے، مگر یہ ڈسکورس کی ساخت پر مبنی ہے کہ وہ دو مختلف افراد یا گروہوں کے مابین حدِ فاصل کو کم کرتا ہے یا بڑھاتا چلا جاتا ہے، کیونکہ یہ ڈیفرنس کبھی ختم نہیں ہو سکتا اس لیے یہ یا تو کم ہو سکتا ہے، اگر مثبت ساختوں سے پُر کیا جائے یا پھر مزید بڑھ جاتا ہے اگر پُر کرنے والی ساختیں منفی ہونگی۔ جو رنگ و نسل کا فرق ہے وہ موجود رہے گا اسی طرح مرد اور عورت کی جسمانی ساخت کا فرق موجود رہے گا کبھی ختم نہیں ہو گا، لہذا ڈیفرنس کو باہمی مفاہمت سے پُر کیا جا سکتا ہے مگر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اس کی بنیاد پر علیحدگی کا مطالبہ پسے ہوئے بلوچ عوام کے مسائل کا حل نہیں ہے ، بلکہ بلوچی عوام سمیت تمام صوبوں کے پسے ہوئے طبقات کو اپنے اصل استحصالیوں کے چہرے پہچانتے ہوئے متحد ہو کر ان سے نجات کے لیے حکمتِ عملی اپنانی چاہیے اور ایسے نظام کے لیے جدو جہد کرنی چاہیے جو عوامی استحصال کی راہیں مسدود کر دے۔