امرود کی فصل اور مزدور خطرات سے دوچار
امرود کا پھل انڈیا سے لایا گیا تھا اور یہاں پر اس کو آب و ہوا موافق ملی جس سے وہ پھلتا رہا اور مشہور ہوگیا۔۔۔
سندھ کی سرزمین پر زیادہ تر ایگریکلچر پر منحصر ہے جس سے کئی فصلیں اگائی جاتی ہیں جس میں امرود بھی ہے جو زیادہ تر لاڑکانہ میں پیدا ہوتے ہیں اور ان میں مٹھاس اور ذائقہ زیادہ ہوتا ہے جب کہ کراچی میں ملیر میں بھی پیدا ہوتا ہے مگر اس میں وہ مزا نہیں ہے وہ دیکھنے میں اندر سے لال ہوتا ہے اور شکل میں گول ہوتا ہے جب کہ لاڑکانہ اور دوسرے شہروں میں پیدا ہونے والا امرود لمبا ہوتا ہے۔ لاڑکانہ شہر جسے باغوں کا شہر کہا جاتا ہے جس کے گرد و نواح میں آموں اور امرودوں کے باغات ہیں اور اس کے ساتھ سبزیاں اگتی ہیں۔
امرود دو سیزن میں پیدا ہوتا ہے ایک سردی میں اور دوسرا گرمیوں میں۔ سردیوں میں اس کی پیداوار اکتوبر سے شروع ہوجاتی ہے مگر اس میں ذائقہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب موسم سرد ہو۔ زیادہ سردی بھی اسے ختم کردیتی ہے اور جو نئے چھوٹے امرود پیدا ہو رہے ہوتے ہیں وہ سردی سے ختم ہوجاتے ہیں، باقی بڑے پھل لال رنگ کے ہوجاتے ہیں۔ اس کی آٹھ اقسام جو یہاں پر ہوتی ہیں وہ زیادہ مقبول اور مشہور ہیں۔ یہ پھل بڑا نازک ہوتا ہے جس کی وجہ سے گرمیوں کی سیزن میں اس کی فصل تباہ ہوجاتا ہے کیونکہ گرمی کی وجہ سے پھل بالکل نرم ہوجاتا ہے جس میں سفید مکھی گھس جاتی ہے اور اس میں انڈے دیتی ہے اور پھل سڑ جاتا ہے پھر انسانوں کے کھانے کے لائق نہیں رہتا اور اگر اسے کھایا جائے تو اس سے پیٹ کی بیماریوں پیدا ہوجاتی ہیں۔
جب امرود کے پکنے کا موسم شروع ہوتا ہے تو مزدور باغات کا رخ کرتے ہیں اور وہاں پر روزانہ مزدوری کی اجرت پر کام کرتے ہیں اور باقی مزدوری ترک کردیتے ہیں۔ اس مزدوری میں بچے بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ باغات کے مالک اپنا فصل ٹوکریوں میں لے کر لاڑکانہ شہر کے مارکیٹ جیلس (Jalius) بازار آتے ہیں جہاں سے ٹھیکیدار اٹھا کر ٹرکوں میں ڈلوا کر مختلف شہروں میں بھیجتے ہیں جس میں خاص طور پر کراچی، کوئٹہ، ملتان، بہاولپور اور پشاور ہے کیونکہ ان شہروں میں اس امرود کی بڑی مانگ ہے۔ لیکن کچھ سالوں سے اس فروٹ کے مالکان اور بیوپاریوں کو کافی نقصان ہو رہا ہے کیونکہ سردی میں کمی کی وجہ سے پھل خراب ہوجاتا ہے اور ان شہروں میں پہنچتے پہنچتے بھی اکثر خراب ہوجاتا ہے جس سے انھیں وہ دام نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ اب پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی لاڑکانہ کے امرود کے درخت لگائے گئے ہیں۔
امرود کے کاروبار میں نقصان ان مزدوروں کو بھی اٹھانا پڑا ہے جو دوسرے کام کو چھوڑ کر ہر سال اس فصل کا انتظار کرتے ہیں اس کے علاوہ باغات کے مالکان کو بھی ٹھیکیداروں نے پیسے دینے کم کر دیے ہیں کیونکہ جب امرود کا سیزن نہیں ہوتا تو باغات مالکان پورا سال ٹھیکیداروں سے ادھار لیتے ہیں جس کے عوض وہ سیزن پر مالکان سے امرود لیتے ہیں۔ اس صورت حال کی وجہ سے کئی مالکان نے امرود کے درخت کٹوا دیے ہیں اور اس کی جگہ سبزیاں وغیرہ اگانا شروع کردی ہے۔
جب محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو انھوں نے امرود کی گرمی والے فصل کو بچانے کے لیے اعلان کیا تھا کہ اس سے جیلی، جام اور نیکٹر (Nectar) بنایا جائے گا اور اس کا کارخانہ ماہوٹا میں لگایا جائے گا۔ امرود کی زیادہ فصل لاڑکانہ کے آس پاس اور آگے نوں ڈیرو، ماہوٹا، آگانی کے علاقوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس اعلان سے آبادگاروں میں ایک امید کی کرن پیدا ہوئی مگر وہ اس وقت ماند پڑگئی جب بے نظیر کی حکومت کو رخصت کیا گیا، گرمیوں میں چھوٹے سائز کے امرود توڑ کر بچے مارکیٹ میں بیچتے ہیں اور اس سے بالکل تھوڑے پیسے جو ملتے ہیں وہ اس سے چیزیں خرید لیتے ہیں۔ مگر زیادہ پک جانے والا پھل اگر کوئی کھا لیتا ہے تو وہ بیمار ہوجاتا ہے اس لیے یہ پھل جانوروں کو بھی نہیں کھلاتے ہیں۔
امرود کا پھل انڈیا سے لایا گیا تھا اور یہاں پر اس کو آب و ہوا موافق ملی جس سے وہ پھلتا رہا اور مشہور ہوگیا۔ امرود میں وہ ورائٹی کافی اچھی لگتی ہے جس کے اندر بیچ (Seed) نہیں ہوتے، امرود میں آئرن کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے اور صحت کے لیے بڑا اچھا ہے۔ یہ ہاضمے کے لیے بڑا موثر ہے اور اگر کسی کو قبض ہو تو اسے اس کو کھانے سے فائدہ ملتا ہے۔ بوڑھے عمر کے لوگوں کو امرود کے بیج نہیں کھانے چاہئیں کیونکہ وہ انھیں ہضم نہیں کرپاتے اور پرابلم میں گھر جاتے ہیں۔ امرود کھانے کا آئیڈیل وقت صبح اور دوپہر ہے۔ شام یا رات کو امرود کھانا وبال جان بن جاتا ہے، میں نہیں حکیم و اطبا کہتے ہیں۔
امرود کا درخت بھی پھل کی طرح بڑا نازک ہوتا ہے اس لیے اگر کوئی طوفان آجائے یا اسے پانی زیادہ دیا جائے تو یہ اکھڑ جاتا ہے اور اس کی ٹہنیاں بھی نازک ہوتی ہیں۔ اس پھل کا بیج لگانے سے بہتر اس کی ٹہنیاں زمین میں لگائی جاتی ہیں جس سے پودا پیدا ہوتا ہے اور اسے نکال کر دوسری جگہ لگایا جاتا ہے اور وہ نیا درخت ایک سال میں پھل دینا شروع کرتا ہے۔ امرود میں وٹامن سی کی مقدار بھی اچھی خاصی ہوتی ہے اس کو اچار میں بھی آج کل استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پھل کے پودے کو لگانے کا موسم فروری سے مارچ اور جولائی سے ستمبر ہے۔ امرود کے باغات میں اس وقت اضافہ ہوا جب لاڑکانہ میں شوگر مل قائم ہوئی اور چاول کی پیداوار پر Ban لگایا گیا۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ کوئی زمانہ تھا کہ امرود پورے پاکستان میں جانے لگے اور پاکستان ریلوے نے ماہوٹا اسٹیشن کو Stop-Over کے لیے حکم دیا جہاں سے امرود کو لوڈ کیا جاتا تھا۔ اب ٹرکوں کے ذریعے مال بھیجا جاتا ہے کیونکہ ریلوے نظام میں کچھ گڑبڑ ہوگئی ہے۔
اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے امرود کے آبادگاروں نے اور باغات میں کام کرنے والے مزدوروں نے مختلف پلیٹ فارم سے حکومت کو اپیل کی ہے کہ امرود کو بچایا جائے اور اس میں سے جیلی، جام اور نیکٹر بنانے کے لیے کارخانہ لگایا جائے تاکہ یہ لوگ فاقوں سے بچ سکیں اور حکومت بھی یہ چیزیں باہر ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ کمائے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے امرود کے ریسرچ اسٹیشن جو لاڑکانہ کے قریب چوہڑ پور میں ہے بے فائدہ قرار دیا ہے کیونکہ وہ فعال نہیں ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ آبادگاروں کو نت نئی معلومات اور تربیت دینے کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم کو لاڑکانہ بھیجیں جو انھیں تربیت بھی دیں اور کچھ سیمینار وغیرہ منعقد کروائیں جس میں مزدور سے لے کر آبادکار تک کو بلایا جائے۔ باقی جو لوگ اسٹیشن پر کام کر رہے ہیں انھیں صرف کتابوں کی حد تک معلومات ہے اور ان کے پاس ماڈرن آلات نہیں ہیں اور جو ضرورتیں ہیں وہ بھی مہیا نہیں کی گئی ہیں۔
اس کے علاوہ امرود پر معلومات Technical Know How دینے کے لیے لٹریچر چھپوایا جائے ۔ ماہروں کے ساتھ دوسرا عملہ بھی آبادگاروں کے پاس جاکر پیداوار میں ہونے والے مسائل کے بارے میں معلومات حاصل کرے ۔جب کہ دوسرے آبادگاروں کی طرح امرود پیدا کرنے والے آبادکاروں کو بھی کم Interest پر قبضہ دیا جائے اور اس کی اقساط بھی آسان ہوں۔ باہر ممالک export کرنے کے لیے امرود کی پیداوار بہت کم ہے اس لیے اسے باہر نہیں بھیجا جاسکتا بلکہ فیکٹری سے تیار کردہ نیکٹر، جام اور جیلی بھیجی جاسکتی ہے۔ امرود کی پیداوار زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ میٹرک ٹن ہوگی جو ملک کی ضرورت سے بھی کم ہے اور اس کے علاوہ یہ پھل بہت ہی زیادہ نازک ہے۔
اگر حکومت نے اس اہم فصل امرود کی طرف توجہ نہیں دی تو یہ آہستہ آہستہ تباہی کی طرف چل پڑے گا جس سے نہ صرف آبادگاروں اور مزدوروں کو نقصان پہنچے گا بلکہ پاکستان کی ایک اچھی غذا اور پھل ختم ہوجائے گا جو ہمارا قومی نقصان ہوگا۔ اس وقت سندھ میں پی پی پی کی حکومت ہے اور بلاول بھٹو زرداری خاص طور پر سندھ کے کلچر کو بچانے کے لیے محنت کر رہے ہیں اسے اس طرف بھی دیکھنا ہوگا کیونکہ ایک تو یہ فصل سندھ میں زیادہ ہے اور دوسرا یہ اس کے والدہ اور نانا کے علاقے میں ہوتا ہے اور تیسرا یہ کہ اس میں عوام کی معیشت وابستہ ہے۔