اتحادی جماعتوں کی سیاست اور تحریک عدم اعتماد
اتحادی جماعتیں جس بڑے پیمانے پر اقتدارکی سیاست کا مزا لے رہی ہیں وہ چھوڑنا ان کے لیے ممکن نہیں
MULTAN:
حزب اختلاف کی مجموعی سیاست عمران خان حکومت کے خاتمہ سے جڑی ہے۔ لیکن ساڑھے تین برس سے زیادہ کی مجموعی حزب اختلاف کی سیاست حکومت گرانے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ اگرچہ حزب اختلاف نے کئی سیاسی ڈیڈلائینیں بھی دیں مگر حکومت برقرار اور ان کے سیاسی مخالفین کو ہر محاذ پر پسپائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایک عمومی سوچ یہ تھی کہ کیونکہ حکومت کی عددی تعداد بہت محدود ہے اور ان کی مجموعی برتری کا پہلو ان کی اتحادی جماعتیں ہیں۔ ان اتحادی جماعتوں میں ابتدا میں مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، بلوچستان نیشنل پارٹی باپ اور اختر مینگل سمیت شاہ زین بگتی کی حمایت حاصل تھی۔ ان میں محض اختر مینگل گروپ نے حکومتی حمایت کو چھوڑ کر حزب اختلاف کی طرف سیاسی رجوع کر رکھا ہے۔ جب کہ باقی تمام جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں حکومتی کیمپ کا حصہ ہیں ۔
حزب اختلاف جو دو حصوں میں تقسیم ہے ۔ایک پی ڈی ایم اور اس میں شامل جماعتیں،جب کہ دوسری جانب پیپلزپارٹی اور اے این پی کی اپنی اپنی سیاست ہے۔عمومی تاثر یہ ہی دیا جا رہا ہے کہ حزب اختلاف کے تمام فریقین حکومت کے خلاف یا اسپیکر قومی اسمبلی سمیت وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر متحد نظر آتے ہیں ۔تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی واحد کنجی '' حکومتی اتحادی جماعتیں '' ہیں اور ان ہی کی سیاسی حمایت کی بنیاد پر حکومت گرانے کا منصوبہ زیر بحث ہے۔
ایک طرف حزب اختلاف کا سیاسی انحصار اتحادی جماعتوں کی سیاسی حمایت سے جڑا ہوا ہے تو دوسری طرف ان کی امید کا سیاسی مرکز حکومتی جماعت تحریک انصاف کی داخلی تقسیم بھی ہے۔ حزب اختلاف کے بقول تحریک انصاف میں موجود '' ہم خیال گروپ اور جہانگیر ترین گروپ کی حمایت کے ساتھ بھی حکومت یا وزیر اعظم کو گھر بھیجا جاسکتا ہے۔مسلم لیگ ن کے سیاسی پنڈت یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کو پندرہ سے بیس ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سمیت پانچ وفاقی وزرا کی حکومتی مخالفت میں پوری حمایت حاصل ہے ۔
پاکستان میں مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کی سیاست کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چھوٹی جماعتوں کی حمایت ان کو حکومت پر دباو ڈالنے اور اس کی مدد سے سیاسی بارگیننگ کرکے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اقتدار کی بندر بانٹ میں بہت کچھ حاصل ہوتا ہے ۔حکومتی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ ان کی حکومت ان ہی اتحادی جماعتوں کی سیاسی بیساکھیوں کی مدد سے ہی کھڑی ہوتی ہے اور ان کو چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اتحادی جماعتوں کی سیاسی بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر حکومت کوئی بڑے کام کرنے کے بجائے اتحادی جماعتوں کی حمایت اور خوشنودی تک محدود ہوتی ہے۔اس وقت حزب اختلاف کی حکومت گراؤ تحریک یا حکومت پر بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کا براہ راست فائدہ اتحادی جماعتوں یا تحریک انصاف کے ناراض گروپوں کو ہو رہا ہے۔
اتحادی جماعتیں یا حکومتی ناراض ارکان حزب اختلاف کا سیاسی بھوت کھڑا کرکے یا اس تاثر کو پیدا کرنا یا حزب اختلاف سے سیاسی ملاقاتیں یا حکومت کے خلاف اپنی سیاسی ناراضگیوں کو ظاہر کرکے حکومت کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ سودے بازی کریں یا ان کے اقتدار کا حصہ بڑھایا جائے۔آج کل حکومت اور حزب اختلاف کی اتحادی جماعتوں یا حکومتی ناراض گروپوں کی بڑی سیاسی لاٹری نکلی ہوئی ہے۔
حکومت اور حزب اختلاف دونوں اتحادی جماعتوں اور ناراض ارکان کی سیاسی آؤ بھگت کرکے ان کو اپنی اپنی حمایت میں کھڑا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔اتحادی جماعتوں اور ناراض ارکان نے اپنی سیاسی سرگرمیاں بڑھا کر ا حکومت پر دباؤ بڑھادیا ہے کہ اگر وہ چاہتے ہیں ان کی حمایت برقرار رہے تو طاقت کے کھیل میں ان کا حصہ بڑھایا جائے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر وزراتوں میں اضافہ اور اتحادی یا ناراض ارکان کی شمولیت کے امکانات سمیت ترقیاتی فنڈز دینے کی تجاویز حکومتی کیمپ سے سننے میں آرہی ہیں۔
حزب اختلاف کو دو اتحادی جماعتوں اور حکومتی ناراض گروپوں کی سطح پر دو چیلنجز کا سامنا ہے۔ اول اگر واقعی ان فریقین کو حکومتی سطح سے اقتدار کے حصہ میں اور زیادہ شریک کارکیا جاتا ہے تو وہ سیاسی گیم میں ان کی حمایت کریں گے۔ یہ بات حزب اختلاف بھی سمجھتی ہے کہ اتحادی جماعتیں بھی ہمیں سیاسی طور پر ہتھیار کی صورت میں استعمال کرکے اقتدارکے کھیل میں اور زیادہ طاقت بڑھانا چاہتی ہیں۔
دوئم حزب اختلاف جانتی ہے کہ یہ اتحادی یا ناراض گروپس کی اصل طاقت اسٹیبلیشمنٹ ہے ۔ جب تک حزب اختلاف کو حکومت گراؤ کھیل میں اسٹیبلیشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل نہیں ہوگی یہ اتحادی یا ناراض فریقین اگر مگر کے ساتھ حکومت کی حمایت کو ہی جاری رکھیں گے ۔
اتحادی جماعتیں جس بڑے پیمانے پر اقتدارکی سیاست کا مزا لے رہی ہیں وہ چھوڑنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ بالخصوص آخری ڈیرھ برس ترقیاتی فنڈز کے نام پر ان کو حکومت سے بہت کچھ ملنا ہے تو کیوں وہ حکومت کا ساتھ چھوڑ کر گھاٹے کا سودا کریں گے۔یہ منطق بھی اتحادی اور ناراض گروپوں کو قبول نہیں کہ اول وہ تحریک عدم اعتماد میں پوری حزب اختلاف کا ساتھ دیں اور پھر جو بھی حکومت بنے وہ فوری طور پر اسمبلیوں کو توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کرے۔
خود پیپلزپارٹی بھی سمجھتی ہے کہ اگر وفاقی حکومت ختم ہوتی ہے تو پھر سندھ کی صوبائی حکومت کی بھی قربانی وقت سے پہلے ان کو دینی پڑے گی جو ان کو قبول نہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف حزب اختلاف ملک میں اسٹیبلیشمنٹ کی سیاسی مداخلت کے خلاف آوازیں اٹھاتی ہیں تو دوسری طرف اسی اسٹیبلیشمنٹ سے حکومت گرانے کی سیاسی حمایت بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔