سچ سے پہلو تہی ہماری قوم کا بنیادی مسئلہ ہے ڈاکٹر ابرار علی شیخ
پرنسپل غلام محمد مہر میڈیکل کالج سکھر، ڈاکٹر ابرار علی شیخ کی کہانی
ISLAMABAD:
محنت کی عظمت کے وہ قائل ہیں۔ خدمت کے جذبے سے سرشار۔ بروقت فیصلہ کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ آدمی خوش اخلاق اور ملن سار ہیں۔
یہ ذکر خیر ہے، ڈاکٹر ابرار علی شیخ کا، جنھوں نے مصائب پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے اپنے مقاصد پر نظریں جمائے رکھیں۔ ترقی کے زینے عبور کرتے گئے۔ اِس وقت وہ غلام محمد مہر میڈیکل کالج، سکھر کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ابرار علی شیخ نے 25 ستمبر 1959 کو سندھ کے گرم ترین شہر، جیکب آباد میں ڈاکٹر عباس علی شیخ کے گھر آنکھ کھولی۔ تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ کہتے ہیں،''جیکب آباد دیگر اضلاع کے مقابلے میں پس ماندہ ضلع ہے، تاہم میرے والد تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے۔ خود شعبۂ طب سے وابستہ تھے۔ تو اُنھوں نے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ قدم قدم پر ہماری راہ نمائی کی۔'' یہ والد ہی کی توجہ کا ثمر ہے کہ اُن کے علاوہ بڑے بھائی، اصغر علی شیخ اور بہن، غزالہ شیخ نے بھی طب کا پیشہ اختیار کیا۔
ابتدائی تعلیم کے جی اسکول سے حاصل کی۔ ساتویں کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول، جیکب آباد میں داخلہ لے لیا۔ 75ء میں میٹرک کیا۔ اب ڈگری کالج کا رخ کیا۔ 77ء میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔ پھر لیاقت میڈیکل کالج کا حصہ بن گئے۔ 85ء میں ایم بی بی ایس کی ڈگری ملی۔ اب ہاؤس جاب شروع کی۔ تن خواہ تو قلیل ہوا کرتی تھی، تاہم خوش تھے کہ خواب کا تعاقب کر رہے ہیں۔ بہ قول اُن کے،''پہلی تن خواہ چار ہزار روپے تھی۔ جب وہ رقم میرے ہاتھ پر رکھی گئی، تو بڑی خوشی محسوس ہوئی کہ آج میں اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا ہوں۔''
ہاؤس جاب کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے جنوری 87ء میں برطانیہ کا رخ کیا۔ لوٹنے کے بعد دو سال چانڈ کا میڈیکل کالج اور سول اسپتال میں فرائض انجام دیے۔ 90ء میں پروفیسر آف میڈیسن کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے پھر برطانیہ چلے گئے۔ یہ مرحلہ دو برس میں مکمل ہوا۔ بہ قول اُن کے، سہولیات تو پاکستان میں بھی اعلیٰ معیار کی تھیں، مگر والدین کا اصرار تھا کہ وہ بیرون ملک تعلیم حاصل کریں۔ ان کی خواہش کا احترام کیا۔
92ء تا 94ء ایک برطانوی اسپتال سے منسلک رہے۔ واپسی کے بعد اسسٹنٹ پروفیسر ڈاؤ میڈیکل کالج تعینات ہوئے۔ چند سال بعد فرائض چانڈکا میڈیکل کالج لے آئے۔ 2003 میں سکھر کے عوام کے دیرنیہ مطالبے پر حکومت نے غلام محمد مہر میڈیکل کالج کی بنیاد رکھی۔ اگلے برس پروفیسر ڈاکٹر ابرار علی شیخ کو اُس کا پرنسپل تعینات کیا۔ 2006 تک اُس عہدے پر رہے۔ مارچ 2012 میں ایک مرتبہ پھر یہ منصب سنبھالا۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر کی ذمے داریاں بھی انھیں سونپ دی گئیں۔ آج اِن ہی حیثیتوں میں مصروف ہیں۔
میڈیسن کی فیلڈ کو وہ شعبۂ طب میں سب سے اہم شعبہ تصور کرتے ہیں۔ بہ قول اُن کے، وقت کے ساتھ اِس میں جدت آرہی ہے۔ مزید شعبے بن رہے ہیں۔ تذکرہ میڈیکل کالجز کا ہو یا عام درس گاہوں کا، معیار تعلیم اور کارکردگی سے وہ مطمئن نظر نہیں آتے۔ ''ہمارے طلبا و طالبات میں، ڈاکٹرز اور انجینئرز میں ماضی والی قابلیت اور معیار نظر نہیں آتا۔ سرکاری اسپتالوں میں وسائل، آلات اور مشینری کا فقدان ہے۔ حالاں کہ اسٹاف اور ماہرین کی کمی نہیں۔ جدید سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لوگ نجی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ اگر ہمارے ہاں مشینری ہو، تو عوام کو علاج کی بہترین سہولت کم نرخوں پر فراہم کی جاسکتی ہے۔''
سچ سے پہلوتہی اُن کے نزدیک ہماری قوم کا بنیادی مسئلہ ہے۔ ''ہم ہر سطح پر، ہر معاملے میں حقائق چھپاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادارے حکومتی ہوں یا سماجی، دن بہ دن مسائل میں گِھرتے جارہے ہیں۔''
شعبۂ طب کی زبوں حالی اُنھیں افسردہ رکھتی ہے۔ ''یہ سسٹم اُس وقت تک بہتر نہیں ہوگا، جب تک ہیلتھ ٹیچنگ سے وابستہ سینیر پروفیسرز کی نگرانی میں ایک آزاد ادارہ بنا کر تمام سرکاری اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو 'پرائیوٹائز' نہیں کردیا جائے، یا پھر سرکاری اسپتالوں کے معالجین کی تن خواہوں میں اضافہ کر کے اُن کی پرائیوٹ پریکٹس پر پابندی عاید کردی جائے۔ آج بہت سے سرکاری ڈاکٹرز نجی اسپتالوں سے منسلک ہیں۔ اگر اُن کے معاوضے بڑھا دیے جائیں، اوقات کار کی پابندی لازم ٹھہرائی جائے، تو واضح بہتری آئے گی۔ سسٹم کے بے ترتیب ہونے کی وجہ سے پولیو سمیت کسی طبی مہم کے مثبت نتائج نہیں نکل رہے۔''
پروفیسر ڈاکٹر ابرار علی شیخ کے مطابق آبادی میں اضافے کے باعث سول اسپتال پر دباؤ بڑھ رہا ہے، مریضوں کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ خواہش مند ہیں کہ کالج کے ساتھ زیر تعمیر اسپتال کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ اس بابت کہتے ہیں،''میری شروع ہی سے کوشش رہی ہے کہ کالج کو اُس کی اصل عمارت میں منتقل کیا جائے۔ خورشید احمد شاہ کی خصوصی کاوشوں کی بدولت ہمیں وفاق سے دو ارب روپے کی گرانٹ ملی۔ کالج سے متصل اسپتال کی تعمیر آخری مراحل میں ہے۔ ہم کوشش کررہے ہیں کہ صوبائی حکومت مالی رکاوٹیں جلد از جلد دُور کرے، تاکہ ہم بھرپور انداز میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اِس ضمن میں سٹی بائی پاس پر پلاٹ کے لیے بات چیت چل رہی ہے۔''
ڈاکٹر صاحب کو سیاست سے قطعی لگاؤ نہیں، البتہ عمران خان کی پالیسیاں اور اُن کی صاف گوئی پسند ہے۔ اُن کے مطابق ہمارے ہاں سیاست جاگیر کی طرز پر چل رہی ہے، اِس میں جھوٹ زیادہ ہے، جس کے باعث اُن جیسا کوئی آدمی سیاست میں آنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
22 جنوری 88ء کو ڈاکٹر صاحب کی شادی ہوئی۔ خدا نے بیٹے سے نوازا، مگر وہ کچھ ہی عرصے بعد جہان فانی سے کوچ کر گیا۔ یہ ایک گہرا صدمہ تھا۔ 89ء میں شہزاد احمد شیخ کی پیدایش سے یہ دُکھ کچھ کم ہوا۔ 92ء میں علیم شیخ اور 94ء میں کلیم احمد شیخ کی پیدایش ہوئی۔ خاندان مکمل ہوگیا۔
رسول کریم ﷺ کی سیرت کو وہ مثالی زندگی کا نمونہ قرار دیتے ہیں۔ دینی تعلیمات کو زندگی کے ہر مرحلے پر پیش نظر رکھتے ہیں۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کی اصول پسندی کے معترف ہیں۔ اساتذہ میں پروفیسر ڈاکٹر شفیع احمد قریشی کا نام لیتے ہیں۔ اُن کی نصیحتیں آج بھی یاد ہیں۔ بہ قول اُن کے،''ان جیسے اساتذہ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ''
محنت کی عظمت کے وہ قائل ہیں۔ خدمت کے جذبے سے سرشار۔ بروقت فیصلہ کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ آدمی خوش اخلاق اور ملن سار ہیں۔
یہ ذکر خیر ہے، ڈاکٹر ابرار علی شیخ کا، جنھوں نے مصائب پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے اپنے مقاصد پر نظریں جمائے رکھیں۔ ترقی کے زینے عبور کرتے گئے۔ اِس وقت وہ غلام محمد مہر میڈیکل کالج، سکھر کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ابرار علی شیخ نے 25 ستمبر 1959 کو سندھ کے گرم ترین شہر، جیکب آباد میں ڈاکٹر عباس علی شیخ کے گھر آنکھ کھولی۔ تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ کہتے ہیں،''جیکب آباد دیگر اضلاع کے مقابلے میں پس ماندہ ضلع ہے، تاہم میرے والد تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے۔ خود شعبۂ طب سے وابستہ تھے۔ تو اُنھوں نے بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ قدم قدم پر ہماری راہ نمائی کی۔'' یہ والد ہی کی توجہ کا ثمر ہے کہ اُن کے علاوہ بڑے بھائی، اصغر علی شیخ اور بہن، غزالہ شیخ نے بھی طب کا پیشہ اختیار کیا۔
ابتدائی تعلیم کے جی اسکول سے حاصل کی۔ ساتویں کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول، جیکب آباد میں داخلہ لے لیا۔ 75ء میں میٹرک کیا۔ اب ڈگری کالج کا رخ کیا۔ 77ء میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔ پھر لیاقت میڈیکل کالج کا حصہ بن گئے۔ 85ء میں ایم بی بی ایس کی ڈگری ملی۔ اب ہاؤس جاب شروع کی۔ تن خواہ تو قلیل ہوا کرتی تھی، تاہم خوش تھے کہ خواب کا تعاقب کر رہے ہیں۔ بہ قول اُن کے،''پہلی تن خواہ چار ہزار روپے تھی۔ جب وہ رقم میرے ہاتھ پر رکھی گئی، تو بڑی خوشی محسوس ہوئی کہ آج میں اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا ہوں۔''
ہاؤس جاب کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے جنوری 87ء میں برطانیہ کا رخ کیا۔ لوٹنے کے بعد دو سال چانڈ کا میڈیکل کالج اور سول اسپتال میں فرائض انجام دیے۔ 90ء میں پروفیسر آف میڈیسن کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے پھر برطانیہ چلے گئے۔ یہ مرحلہ دو برس میں مکمل ہوا۔ بہ قول اُن کے، سہولیات تو پاکستان میں بھی اعلیٰ معیار کی تھیں، مگر والدین کا اصرار تھا کہ وہ بیرون ملک تعلیم حاصل کریں۔ ان کی خواہش کا احترام کیا۔
92ء تا 94ء ایک برطانوی اسپتال سے منسلک رہے۔ واپسی کے بعد اسسٹنٹ پروفیسر ڈاؤ میڈیکل کالج تعینات ہوئے۔ چند سال بعد فرائض چانڈکا میڈیکل کالج لے آئے۔ 2003 میں سکھر کے عوام کے دیرنیہ مطالبے پر حکومت نے غلام محمد مہر میڈیکل کالج کی بنیاد رکھی۔ اگلے برس پروفیسر ڈاکٹر ابرار علی شیخ کو اُس کا پرنسپل تعینات کیا۔ 2006 تک اُس عہدے پر رہے۔ مارچ 2012 میں ایک مرتبہ پھر یہ منصب سنبھالا۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر کی ذمے داریاں بھی انھیں سونپ دی گئیں۔ آج اِن ہی حیثیتوں میں مصروف ہیں۔
میڈیسن کی فیلڈ کو وہ شعبۂ طب میں سب سے اہم شعبہ تصور کرتے ہیں۔ بہ قول اُن کے، وقت کے ساتھ اِس میں جدت آرہی ہے۔ مزید شعبے بن رہے ہیں۔ تذکرہ میڈیکل کالجز کا ہو یا عام درس گاہوں کا، معیار تعلیم اور کارکردگی سے وہ مطمئن نظر نہیں آتے۔ ''ہمارے طلبا و طالبات میں، ڈاکٹرز اور انجینئرز میں ماضی والی قابلیت اور معیار نظر نہیں آتا۔ سرکاری اسپتالوں میں وسائل، آلات اور مشینری کا فقدان ہے۔ حالاں کہ اسٹاف اور ماہرین کی کمی نہیں۔ جدید سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لوگ نجی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ اگر ہمارے ہاں مشینری ہو، تو عوام کو علاج کی بہترین سہولت کم نرخوں پر فراہم کی جاسکتی ہے۔''
سچ سے پہلوتہی اُن کے نزدیک ہماری قوم کا بنیادی مسئلہ ہے۔ ''ہم ہر سطح پر، ہر معاملے میں حقائق چھپاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادارے حکومتی ہوں یا سماجی، دن بہ دن مسائل میں گِھرتے جارہے ہیں۔''
شعبۂ طب کی زبوں حالی اُنھیں افسردہ رکھتی ہے۔ ''یہ سسٹم اُس وقت تک بہتر نہیں ہوگا، جب تک ہیلتھ ٹیچنگ سے وابستہ سینیر پروفیسرز کی نگرانی میں ایک آزاد ادارہ بنا کر تمام سرکاری اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو 'پرائیوٹائز' نہیں کردیا جائے، یا پھر سرکاری اسپتالوں کے معالجین کی تن خواہوں میں اضافہ کر کے اُن کی پرائیوٹ پریکٹس پر پابندی عاید کردی جائے۔ آج بہت سے سرکاری ڈاکٹرز نجی اسپتالوں سے منسلک ہیں۔ اگر اُن کے معاوضے بڑھا دیے جائیں، اوقات کار کی پابندی لازم ٹھہرائی جائے، تو واضح بہتری آئے گی۔ سسٹم کے بے ترتیب ہونے کی وجہ سے پولیو سمیت کسی طبی مہم کے مثبت نتائج نہیں نکل رہے۔''
پروفیسر ڈاکٹر ابرار علی شیخ کے مطابق آبادی میں اضافے کے باعث سول اسپتال پر دباؤ بڑھ رہا ہے، مریضوں کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ خواہش مند ہیں کہ کالج کے ساتھ زیر تعمیر اسپتال کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ اس بابت کہتے ہیں،''میری شروع ہی سے کوشش رہی ہے کہ کالج کو اُس کی اصل عمارت میں منتقل کیا جائے۔ خورشید احمد شاہ کی خصوصی کاوشوں کی بدولت ہمیں وفاق سے دو ارب روپے کی گرانٹ ملی۔ کالج سے متصل اسپتال کی تعمیر آخری مراحل میں ہے۔ ہم کوشش کررہے ہیں کہ صوبائی حکومت مالی رکاوٹیں جلد از جلد دُور کرے، تاکہ ہم بھرپور انداز میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اِس ضمن میں سٹی بائی پاس پر پلاٹ کے لیے بات چیت چل رہی ہے۔''
ڈاکٹر صاحب کو سیاست سے قطعی لگاؤ نہیں، البتہ عمران خان کی پالیسیاں اور اُن کی صاف گوئی پسند ہے۔ اُن کے مطابق ہمارے ہاں سیاست جاگیر کی طرز پر چل رہی ہے، اِس میں جھوٹ زیادہ ہے، جس کے باعث اُن جیسا کوئی آدمی سیاست میں آنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
22 جنوری 88ء کو ڈاکٹر صاحب کی شادی ہوئی۔ خدا نے بیٹے سے نوازا، مگر وہ کچھ ہی عرصے بعد جہان فانی سے کوچ کر گیا۔ یہ ایک گہرا صدمہ تھا۔ 89ء میں شہزاد احمد شیخ کی پیدایش سے یہ دُکھ کچھ کم ہوا۔ 92ء میں علیم شیخ اور 94ء میں کلیم احمد شیخ کی پیدایش ہوئی۔ خاندان مکمل ہوگیا۔
رسول کریم ﷺ کی سیرت کو وہ مثالی زندگی کا نمونہ قرار دیتے ہیں۔ دینی تعلیمات کو زندگی کے ہر مرحلے پر پیش نظر رکھتے ہیں۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کی اصول پسندی کے معترف ہیں۔ اساتذہ میں پروفیسر ڈاکٹر شفیع احمد قریشی کا نام لیتے ہیں۔ اُن کی نصیحتیں آج بھی یاد ہیں۔ بہ قول اُن کے،''ان جیسے اساتذہ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ''