پی سی بی عوام پر رحم کرے

آیندہ کسی بڑے ٹورنامنٹ میں یا کسی بڑی سیریز میں ان بڑے شہروں میں یقیناً کرفیو کا سماں نہیں باندھا جائے گا

ali.dhillon@ymail.com

THEKRI WALA:
شاید یہ بات کوئی نہیں جانتا کہ دنیا کے 150 ممالک میں50ہزار چھوٹے بڑے اسٹیڈیم ہیں جہاں بین الاقوامی مقابلے منعقد کروائے جاتے ہیں، اور ان 50ہزار میں سے48ہزار اسٹیڈیم ایسے ہیں جن سے فائیو اسٹار ہوٹلز کا فاصلہ واکنگ Distanceپر ہے۔

یعنی دنیا کے بیشتر ممالک ایسی جگہ اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کرتے ہیں جہاں فائیو اسٹار ہوٹلز قریب ترین ہوں یا اسپورٹس کمپلیکس کے اندر ہی بڑے بڑے ہوٹلز بنا دیے جاتے ہیں تاکہ کھیلیں اور عام زندگی ساتھ ساتھ چلتی رہے۔ جب کہ اس کے برعکس پاکستان میں تمام شہروں میں بنائے گئے اسٹیڈیم اس انداز میں بنائے گئے ہیںکہ فائیو اسٹار ہوٹلز کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ اسی وجہ سے جب کھلاڑیوں کو اسٹیڈیم تک لایا جاتا ہے تو پورا شہر بند کرنا پڑتا ہے۔ جس سے شہریوں کو کھیلوں کی سرگرمیاں بحال ہونے پر بجائے خوشی ہونے کے کوفت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جیسے آج کل پی ایس ایل کے ملک بھر میں چرچے ہیں، ہوں بھی کیوں ناں! پی ایس ایل دنیا بھر میں ایک برانڈ بن چکا ہے، جس میں شرکت کے لیے دنیا بھر کے کھلاڑی ہر سال بے تاب رہتے ہیں۔ یہ ٹورنامنٹ آج کل اپنے اختتامی مراحل کی جانب گامزن ہے، لیکن ٹریفک اور جگہ جگہ سڑکوں کی بندش نے 27جنوری سے لے کر آج تک کراچی اور لاہور کے شہریوں نے جس اذیت کا سامنا کیا وہ کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔

بلکہ اب تو یقین مانیں حالت ایسی ہو چکی ہے کہ جیسے ہی پی ایس ایل شروع ہوتا ہے یا کوئی ٹیم پاکستان آنے کا اعلان کرتی ہے توایک دھچکا سا لگ جاتا ہے،کہ اب ایک بار پھر خواری شروع ہونے والی ہے۔تبھی سب سے پہلے ہم ''شیڈول'' چیک کرتے ہیں کہ کس کس دن کون کون سا شہر بند کیا جائے گا، مطلب کس کس دن کون کون سے شہر میں میچ ہوگا، تاکہ اپنا شیڈول بھی اُس کے مطابق رکھا جائے۔

الغرض ہمارے ہاں غلط منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے کہ ایک میچ کے لیے اسٹیڈیم کے باہر کم و بیش 20لاکھ افراد متاثر ہو رہے ہوتے ہیں،جہاں ٹیمیں ٹھہرتی ہیں اُس کے اطراف میں بھی اتنی ہی تعداد متاثر ہونے والوں کی نظر آتی ہے۔ حالانکہ دنیا بھر میں کوئی پولیس افسر سڑک بند کرکے اپنی کارکردگی ثابت نہیں کرتا۔ کوئی افسر یہ نہیں کہتا کہ ہم دس سڑکیں بند کرکے دس لوگوں کو مرنے سے بچا سکتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ ڈکیتی کے خوف سے دکان ہی بند کر دیں یا پھر ٹریفک حادثے کے خوف سے گاڑی چلانا ہی چھوڑ دیں۔

قارئین! حیرت ہوتی ہے کہ ہم جس چیز کی عادت بنا لیں اُسے اپنا حق سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، جیسے پی سی بی کو یہ عادت پڑ گئی ہے کہ اُس نے جہاں بھی میچ کروانے ہیں وہاں کے اسٹیڈیم سے ملحقہ تمام روڈز کو بلاک کر دیا جائے، اب اگر اگلے کئی سال کرکٹ ہونی ہے تو دیکھ لیجیے گا کہ یہی پریکٹس دہرائی جائے گی ! حالانکہ پاکستان میں کرکٹ بحال ہوئے6،7سال ہوگئے ہیں،اس عرصے میں پی سی بی نے پی ایس ایل سے ہی کروڑوںاربوں روپے کمائے ہیں، میرے خیال میں پی سی بی کوManageکر لینا چاہیے کہ اسٹیڈیم کے قریب فائیو اسٹار ہوٹل بنا دیا جائے۔

بلکہ اب تو رمیز راجہ کی شکل میں قابل چیئرمین پی سی بی بھی اپنے جوہر دکھا رہے ہیں ، اور شاید یہ انھی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آسٹریلیا کی اے ٹیم پاکستان میں ایک لمبے عرصے بعد ٹیسٹ، ون ڈے سیریز کھیلنے پاکستان آرہی ہے۔ لہٰذا وہ عوام کے بارے میں ضرور سوچتے ہوئے اسٹیڈیم بنانے کا اعلان کریں! تاکہ عوام کو اس مشکل سے نکالا جائے اور پھر جیسا میں نے کہا کہ آسٹریلیا کی ٹیم پاکستان آرہی ہے تو حالات اس سے بھی زیادہ سخت ہو جائیں گے۔


حالانکہ اس کے برعکس اگر ہم ماضی پر نظر دوڑائیں تو ہمارے شہروں خصوصاً کراچی کی مہمان نوازی پوری دنیا میں مشہور تھی۔دنیائے کرکٹ کے عظیم کھلاڑی کراچی کے بازاروں میں شاپنگ کرتے نظر آتے تھے۔کراچی میں یہودی فیسٹیول بھی منعقد ہوتے تھے۔ 1982میں نشاط سینما کے باہر لوگوں کا رش دیکھ کر دنیا حیران ہوتی تھی، یہ سینما2012ء میں جلا دیا گیا تھا اور آج اس کے آثار دیکھ کر بھی دنیا حیران ہوتی ہے۔

پھر لاہور کی بات سن لیں، لاہور کا ٹریفک ہماری پولیس سے ویسے ہی نہیں سنبھالا جاتا اوپر سے قذافی اسٹیڈیم کے اردگرد کی تمام سڑکیں بند کردی جاتی ہیں۔ یہی نہیں ان سڑکوں کا ٹریفک دیگر سڑکوں اور چھوٹی چھوٹی گلیوں میں ''بے لگام '' چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کہیں کوئی مناسب متبادل راستہ اور رہنمائی نہیں ملتی۔ سارا سارا دن عوام گاڑیوں کی طویل قطاروں میں شدید کرب اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔

الغرض پاکستان میں اگر تفریح کا ماحول بن رہا ہے تو اُس میں اتنی زیادہ مس مینجمنٹ کیوں؟ کیا یہ تفریح ہے؟ کیا کھیلوں کے بارے میں کسی حکومت نے سنجیدگی سے کبھی سوچا ہے؟ آپ مذکورہ بالا تینوں کرکٹ اسٹیڈیم کے بارے میں سُن لیں کہ اُن کی میعاد بھی پوری ہو چکی ہے مگر ہم جدید سہولیات سے آراستہ نئے اسٹیڈیم بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ قذافی اسٹیڈیم 1959 یعنی آج سے 62 سال پہلے لاہور شہر سے باہر نہر کے قریب بنایا گیا تھا اس وقت اس کا نام لاہور اسٹیڈیم تھا۔

1974میں اس کا نام بدل کر قذافی اسٹیڈیم رکھا گیا کیونکہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس منعقدہ لاہور میں لیبیا کے صدر معمر قذافی نے پاکستان کے نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کے حق کی بھرپور حمایت کی تھی۔ گزشتہ 62 سال میں لاہور نے جتنی تیز رفتاری سے ترقی کی ہے وہ سب کے سامنے ہے، اور قبضہ مافیا کا کردار بھی کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جس نے لاہور کے حقیقی حسن کو ہی برباد کر کے رکھ دیا اور تبھی آج ہم ٹریفک اور آلودگی کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔

پھر کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم کی بات کر لیں یہ بھی 66سال پرانا ہے، یہ اسٹیڈیم1955 میں کرکٹ کی عالمی ٹیموں کی میزبانی شروع کر چکا تھا، یہاں پہلا ٹیسٹ کھیلنے بھارت کی ٹیم آئی تھی۔ نیشنل اسٹیڈیم شہر کی آبادی سے باہر بنایا گیا تھا لیکن گلشن اقبال اور گلستان جوہر آباد ہونے کے بعد جب یونیورسٹی روڈ اور اطراف کے علاقے ویران سے گنجان ہو گئے تو نیشنل اسٹیڈیم خود بخود شہر کے مرکز میں آگیا۔ جب کہ راولپنڈی اسٹیڈیم کی تاریخ زیادہ پرانی تو نہیں مگر زیادہ نئی بھی نہیں ہے، اسے بنے ہوئے 37سال ہوگئے ہیںیہ اسٹیڈیم بھی آہستہ آہستہ آبادیوں کے درمیان میں آچکا ہے۔اور اب تو حالیہ پاک آسٹریلیا سیریز میں راولپنڈی اسٹیڈیم کو ایک ٹیسٹ تین ون ڈے اور ایک واحد ٹی ٹونٹی ملا ہے۔ جب کہ اس حوالے سے آپ خود دیکھ لیجیے گا کہ وہاں کیا حال ہوگا۔

بہرکیف اس مسئلے کا آسان حل ایک تو یہ ہے کہ اسٹیڈیم کو شہری آبادی سے باہر لے جایا جائے ، اس کے قریب ہی غیر ملکی کھلاڑیوں کی رہائش کے لیے ہوٹل بھی تعمیر کیا جائے تاکہ کھلاڑیوں اورعوام کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، یا اگر فوری حل درکار ہے تو اسٹیڈیم کے اندر یا ملحقہ اطراف میں ہی چالیس پچاس کمروں پر مشتمل گیسٹ ہائوس بنا لیں یا اسٹیڈیم کے اندر ہی ہوسٹل کو اپ گریڈ کریں، یا پھر ٹیموں کو بذریعہ ہیلی کاپٹر اسٹیڈیم میں لے کر جائیں تاکہ عوام اس ایونٹ کو انجوائے کریں اور کسی قسم کی پریشانی سے نہ گزریں۔

ہم رمیز راجہ صاحب سے اُمید کرتے ہیں کہ آیندہ کسی بڑے ٹورنامنٹ میں یا کسی بڑی سیریز میں ان بڑے شہروں میں یقیناً کرفیو کا سماں نہیں باندھا جائے گا اور شہریوں کو ریلیف دیا جائے گا تاکہ عالمی کرکٹ ٹیموں اور کھلاڑیوں کا ''استقبال'' کرتے کرتے عوام کو اس کھیل سے نفرت نہ ہو جائے!
Load Next Story