لتا منگیشکر تصویر کا دوسرا رخ
لتا کا تعلق مرہٹہ گھرانے سے تھا۔ وہی گھرانہ جوتاریخ میں شواجی مرہٹہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور مسلمانوں کا کٹردشمن تھا
بھارتی گلوکارہ لتا منگیشکر کا گزشتہ 6 فروری کو دیہانت ہوگیا۔ لفظ دیہانت دراصل سنسکرت اور ہندی بھاشا کے دو الفاظ دیہ پلس انت کا مرکب ہے، جس کے معنی ہیں جسم کا خاتمہ۔ ٹھیک اسی روز بوقت شام ہندو مت کی رسم کے مطابق ان کے جسد خاکی کو نذر آتش کردیا گیا جسے انتم سنسکار کہا جاتا ہے۔
لتا کا تعلق مرہٹہ گھرانے سے تھا۔ وہی گھرانہ جو تاریخ میں شواجی مرہٹہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور مسلمانوں کا کٹر دشمن تھا اور جسے مغل شہنشاہ اورنگزیب نے پکڑوا کر قید کرلیا تھا اور بعد میں نہایت چالاکی سے پھلوں کے ٹوکرے میں چھپ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ جی ہاں! یہ وہی شواجی مرہٹہ ہے جس نے رہزنی سے اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا اور بڑھتے بڑھتے اپنی ایک راج نگری اور فوج تیار کرلی تھی۔
بھارت کی موجودہ حکمراں جماعت بی جے پی کی بغلی مسلم کش تنظیم شو سینا شواجی مرہٹہ کی ہی پیروکار ہے۔بی جے پی کی جنم داتا بدنام زمانہ ہندو مہاسبھا ہے جس کے سرغنوں میں دیگر کے علاوہ ویر ساورکر کا نام نمایاں ہے۔یہ وہی شخص ہے جو بھارت کے راشتر پتا بابائے قوم ایم کے گاندھی کے قتل میں ناتھو رام گوڈسے کے ساتھ شریک جرم بتایا جاتا ہے۔ویر ساورکر کا اصل نام ونائک دامودر ساورکر تھا اور یہ ہندو مہاسبھا کا صدر بھی رہا۔ اسی نے ہندو راشٹر اور ہندو توا کے نظریہ کا پرچار بھی کیا۔
آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بھارت کے سب سے بڑے سرکاری ایوارڈ بھارت رتن سے نوازے جانیوالی گلوکارہ لتا منگیشکر ساورکر کی انتہائی گرویدہ تھیں بلکہ بھکت تھیں۔وہ جا بجا ساورکر کو سچا محب وطن قرار دینے سے نہیں گھبراتی تھیں اور ان کے لیے تعریفوں کے پل باندھا کرتی تھیں۔ وہ نہ صرف اس کی تنظیم کی رکن تھیں بلکہ وہ ونائک دامودر ساورکر کی بین ذات طعام میں شریک نوجوان رکن تھیں اور انھوں نے ساورکر کی نظموں کے لیے اپنی آواز بھی دی۔
وہ نہ صرف بذات خودساورکر کی بہت بڑی پرستار تھیں بلکہ ان کا پورا خاندان متنازعہ ہندو قوم پرست ساورکر سے ہمیشہ جڑا رہا۔لتا منگیشکر کے ارکان خاندان ساورکر کو '' تتیا''کہہ کر پکارا کرتے تھے۔لتا منگیشکر ہر برس ساورکر کی یوم پیدائش و یوم وفات کو یاد رکھتیں اور سوشل میڈیا پر ان کو خراج پیش کرنا یاد رکھتی تھیں۔
لتا منگیشکر نے 18 ستمبر 2021 کو تصویر کے ساتھ ایک ٹوئٹ کیا جس میں لکھا '' آج سے 90 سال پہلے 18 ستمبر 1931 کو میرے پتاجی کے '' بلونت سنگیت منڈلی'' کے لیے ویر ساورکر جی نے ایک ناٹک لکھا جس کا نام تھا ''سنیست کھڈگ'' اس کا پہلا شو پریوگ ممبئی میں گرانٹ روڈ کے ایلفن اسٹون تھیٹر میں ہوا جس میں بابا نے ''سلوچنا'' کی بھومیکا کی تھی۔
لتا منگیشکر نے ویر ساورکر کے یوم پیدائش پر اپنے 28 مئی 2021 کے ایک ٹویٹ میں ساورکر کی تصاویر جن میں ایک میں وہ خود بھی دیکھی جاسکتی ہیں شیئر کرتے ہوئے لکھا'' نمسکار ، آج بھارت ماتا کے سچے سپوت، سوانتر سینانی، میرے پتا سمان ویر ساورکر جی کی جینتی ہے۔ میں ان کو کوٹی کوٹی پرنام کرتی ہوں۔
ایک اور ٹوئٹ مورخہ 26 فروری 2021 کو لتا جی نے انھیں عظیم مجاہد آزادی قرار دیتے ہوئے لکھا ''آج مہان سوتنترتا سینانی (مجاہد آزادی) ویر ساورکر جی کی پونیہ تتھی( مبارک تاریخ) ہے۔ہم سب منگیشکر ان کو کروڑوں پرنام(سلام) کرتے ہیں۔''لتا منگیشکر نے بی جے پی کے بدنام زمانہ ہندو انتہا پسند لیڈر ایل کے اڈوانی کی سومناتھ سے ایودھیا تک نکالی گئی آتش گیر رتھ یاترا کے لیے (Signature Song) بھی گایا تھا۔ان کے اس بھجن ''رام نام میں جادو ایسا، رام نام من بھائے ، من کی ایودھیا تب تک سونی ، جب تک رام نہ آئے'کو ہی اڈوانی کی رتھ یاترا کا سیگنیچر ٹیوب بنایا گیا تھا۔
لتا کی مقبولیت میں اضافہ کرنے میں ان لافانی نغمات کا بنیادی عمل دخل ہے جو زیادہ تر مسلمان شعراء کے تحریر کیے ہوئے تھے اور جن کا رسم الخط بھی اردو زبان تھی۔ یہ نغمات دو چار یا دس بیس نہیں بلکہ سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور یہ سب کے سب انتہائی دلکش اور من موہنے والے سچویشنل (Situational) ہیں۔ سچ پوچھئے تو ان نغموں میں اتنی جاذبیت اور معنویت ہے کہ کوئی بھی سننے والا انھیں سن کر ان کی سحر انگیزی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔یہ جادو بھرے نغمے اتنی موسیقیت سے لبریز ہیں کہ جن سے آواز کو چارچاند لگ جاتے ہیں۔ ترنم اور موسیقیت ان اَمر گیتوں کی روح ہے۔ لتا کی یہ بڑی خوش نصیبی تھی کہ انھیں ایسے عظیم نغمہ نگاروں اور گیت کاروں کے گیت گانے کے مواقع میسر آئے۔
ان کی ایک اور خوش قسمتی تھی کہ انھیں شاہکار فلموں میں پس پردہ گانے(Playback singing) کے سنہری مواقع ملے۔ کچھ کم قابل ذکر نہیں کہ ان کی آواز کو نکھارنے اور سنوارنے میں موسیقار اعظم نوشاد، سجاد حیدر اور خیام جیسے موسیقاروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ سب سے اہم اور بنیادی قابل ذکر بات یہ ہے کہ لتا کو فلمی دنیا میں متعارف کرانے والا موسیقار بھی مسلمان ہی تھا جن کا نام ماسٹر غلام حیدر تھا اور یہ بات ریکارڈ سے ثابت ہے کہ اس حقیقت کا اعتراف بار بار لتا منگیشکر کو خود بھی کرنا پڑا۔ سچ پوچھیے کہ اگر ماسٹر غلام حیدر نے لتا کو یہ نادر موقع (Breakthrough) نہ دیا ہوتا تو کوئی شاید ان کا کا نام بھی نہ جانتا اور وہ گمنامی کی موت مرجاتیں۔
اپنے ایک انٹرویو میں لتا منگیشکر نے کشورکمار کو نمبر ایک ، مکیش کو دوسرے نمبر پر جب کہ وراسٹائل سنگر محمد رفیع کو تیسرے اور آخری نمبر کا گلوکار قرار دیا جس سے ان کی سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے حالانکہ ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ وراسٹائل گلوکار کی حیثیت سے محمد رفیع کا کوئی ثانی نہیں اور خود لتا نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ مرد گلوکاروں میں سب سے زیادہ گانے انھوں نے محمد رفیع کے ساتھ گائے ہیں۔
مشہور و معروف افسانہ نگار کرشن چندر نے کہیں یہ بھی لکھا ہے کہ نامی گرامی لکھاری برگد کے ان گھنے درخت کی طرح ہوتے ہیں جن کا گھنا سایہ اپنے نیچے چھوٹے اور نرم و نازک پودوں کو ابھرنے کا موقع نہیں دیتا۔لتا اور ان کی چھوٹی بہن آشا پر بھی یہ بات صادق آتی ہے کہ ان کی موجودگی میں کسی اور گلوکارہ کا چراغ نہیں جل سکا جن میں کویتا کرشنا مورتی اور سمن کلیانپر جیسی سریلی اور مدھر آوازیں بھی شامل ہیں۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ہندوستان کی فلمی دنیا کے ایک ممتاز اور انتہائی مقبول موسیقار او پی نیر نے جب لتا سے اپنی فلم کے لیے گانے کو کہا تو انھوں نے ان کو ایک نیا نیا میوزک ڈائریکٹر گردانتے ہوئے گانے سے صاف انکار کردیا، جس کے بعد انھوں نے زندگی بھر ان کو مڑ کر نہی دیکھا اور گیتا دت جیسی دیگر گلوکاراؤں کی آوازوں میں انتہائی مقبول اور مدھر لافانی گیت گوا کر ثابت کردیا کہ اس دنیا میں کوئی بھی ناگزیر نہیں ہے۔
خدا جانے یہ دنیا جلوہ گاہ ناز ہے کس کی
ہزاروں اٹھ گئے پھر بھی وہی رونق ہے مجلس کی