تحریک انصاف بھی موروثی سیاست کا شکار
عوام کا فیصلہ پہلے مرحلے جیسا ہوا تو پھر پی ٹی آئی کو موروثی سیاست لے ڈوبے گی
ISLAMABAD:
ملکی سیاست ہمیشہ سے موروثیت کا شکار رہی۔ باپ کے بعد بیٹا، بھائی، بہن، چچا، بھتیجا ہی خاندانی سیاست کو لے کر آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ ورکرز کو صرف زندہ باد اور مردہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے دیکھا گیا۔ بڑی سیاسی جماعتوں کی سربراہی بھی صرف ایک ہی خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہے۔
مسلم لیگ نواز شریف خاندان، پیپلزپارٹی بھٹو خاندان، عوامی نیشنل پارٹی ولی باغ، مسلم لیگ ق کی سربراہی چوہدری برادران سے کسی دوسرے کو منتقل نہیں ہورہی اور جے یو آئی کی سربراہی مولانا فضل الرحمان چھوڑنے کو تیار نہیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل کیا گیا تو ان کے بھائی شہباز شریف نے کمان اپنے ہاتھ میں لے لی۔ شہباز شریف پنجاب سے وفاقی سیاست میں آئے تو ان کے بیٹے حمزہ شہباز نے پنجاب کو سنبھال لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی۔ ان کے بعد شہید بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی، اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ اب بے نظیر بھٹو کے جانشین بلال بھٹو پارٹی کے چیئرمین ہیں۔ اسی طرح چوہدری برادران مشرف دور میں نواز شریف سے الگ ہوئے تو ق لیگ کی بنیاد رکھی اور تب سے ق لیگ چوہدری برادران کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت جو کسی زمانے میں موروثی سیاست سے نکل رہی تھی لیکن اے این پی کی قیادت بھی ولی باغ تک محدود ہوگئی ہے۔ اسفندیارولی خان کے بیٹے ایمل ولی صوبائی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں۔
اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قوانین اور پولیٹیکل ایکٹ کے تحت ہر سیاسی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات کی پابند ہے لیکن خانہ پُری کےلیے انتخابات کا ڈھونگ رچا کر پارٹی قیادت خاندان سے باہر نہیں نکلتی۔ صرف جماعت اسلامی ہی ہے جو اپنے پارٹی منشور کے تحت انٹرا پارٹی انتخاب کراتی ہے اور ایک طویل مرحلے کے بعد جماعت کے ذمے داران اپنی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق جیسے ورکرز کو بھی جماعت اسلامی کی قیادت سنبھالنے کا موقع ملا۔
ایک جانب پارٹی کی قیادت چند مخصوص خاندانوں کے گرد گھومتی رہی تو انتخابات میں ٹکٹ بھی خان، وڈیروں اور نوابوں میں تقسیم کردیے جاتے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ہونے والے انتخابات میں وہی مخصوص چہرے، خاندان اور برادریوں کے بڑے ہی اسمبلیوں میں نظر آتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے بیٹے، بھائی، بھتیجے، بھانجے کو ٹکٹ دلانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایوان بالا سینیٹ میں ٹکٹ لینا اب کروڑ پتی سے ارب پتی تک بات پہنچ گئی ہے۔ بڑی بولی دینے والا ہی سینیٹ کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
موروثی اور روایتی سیاست کے خلاف تحریک انصاف نے آواز اٹھائی اور وزیراعظم عمران خان نے ملکی سیاست کو چند خاندانوں سے باہر نکالنے کا فیصلہ کیا۔ ایک وقت میں عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ اسمبلیوں میں پڑھی لکھی اور نوجوان قیادت کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے اپنے ورکرز کو ٹائیگرز کا خطاب دیا اور ہر جلسے اور تقریر میں انہوں نے اپنے ورکرز کو پکارا۔ جب تک تحریک انصاف اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچی تھی تحریک انصاف بھی موروثی سیاست سے پاک تھی۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف میں بھی ان لوگوں کو غلبہ رہا، جو ہر دور میں فٹ ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے ساتھ زندہ باد، مردہ باد کا نعرہ لگانے والے ورکرز پیچھے رہ گئے اور وہی روایتی سیاستدان ایوانوں میں پہنچ گئے۔
خیبرپختونخوا کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ایک بار پھر موروثی سیاست چھا گئی۔ اس بار دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح تحریک انصاف بھی موروثی سیاست کا شکار ہوگئی۔ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں وفاقی اور صوبائی وزرا نے اپنے بیٹوں، بھائیوں اور بھتیجوں کو ٹکٹ دلائے اور کارکنوں کو نظرانداز کردیا گیا۔ جبکہ ناراض کارکنوں نے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا اور خیبرپختونخوا کے اکثر حلقوں میں تحریک انصاف کے امیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور نظرانداز ہونے والا ورکر کامیاب ہوگیا۔
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج سے بچنے کےلیے وزیراعظم عمران خان نے مشاورت کے بعد ٹکٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب 31 مارچ کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کےلیے تحریک انصاف نے ٹکٹ جاری کردیے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے پارلیمانی بورڈ میں مشاورت کے بعد ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں لیکن اس بار بھی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سمیت وفاقی، صوبائی وزرا اور ارکان اسمبلی اپنے قریبی رشتے داروں کےلیے ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
تحریک انصاف کی جانب سے پارٹی امیدواروں کی جو فہرست جاری کی گئی اس میں واضح بتایا گیا ہے کہ کس امیدوار کو کس کی سفارش پر ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ سوات میں مٹہ میں وزیراعلیٰ، کبل میں وفاقی وزیر مراد سعید، شمالی وزیرستان وانا، لدھا میں وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور، تورغر میں تینوں تحصیلوں کے ٹکٹ سینیٹر اعظم سواتی، شانگلہ میں تین ٹکٹ صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کی سفارش پر جاری کیے گئے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بھی امیدواروں کی شکست پر وزیراعظم کو جو رپورٹ پیش کی گئی تھی اس میں شکست کی وجوہات ٹکٹ کی بندربانٹ بتائی گئی تھی۔ اب کی بار امیدواروں کی فہرست کے ساتھ ٹکٹ کےلیے سفارش کرنے والے کا نام اسی لیے دیا گیا ہے کہ بعد میں ذمے داری کا تعین ہوسکے۔
خیبرپختونخوا میں ہونے والا دوسرے بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ انتخابات سوات میں بھی ہونے جارہے ہیں، جو وزیراعلیٰ محمود خان کا آبائی ضلع ہے جبکہ وفاقی وزیر مراد سعید کی سفارش پر بھی ٹکٹ جاری کیے گیے ہیں۔ اگر اس ضلع میں پی ٹی آئی نتائج بہتر نہ دے سکی تو اس میں وزیراعلیٰ کی پوزیشن بھی پہلی جیسی نہیں رہے گی۔
ایبٹ آباد میں بھی دوسرے مرحلے کے انتخابات حکومتی شخصیات کے آبائی اضلاع میں ہونے جارہے ہیں۔ بظاہر پہلے مرحلے کے مقابلے میں سیاسی ماحول پی ٹی آئی کے لیے سازگار نظر آرہا ہے لیکن عوام کا فیصلہ پہلے مرحلے جیسا ہوا تو پھر پی ٹی آئی کو موروثی سیاست لے ڈوبے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ملکی سیاست ہمیشہ سے موروثیت کا شکار رہی۔ باپ کے بعد بیٹا، بھائی، بہن، چچا، بھتیجا ہی خاندانی سیاست کو لے کر آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ ورکرز کو صرف زندہ باد اور مردہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے دیکھا گیا۔ بڑی سیاسی جماعتوں کی سربراہی بھی صرف ایک ہی خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہے۔
مسلم لیگ نواز شریف خاندان، پیپلزپارٹی بھٹو خاندان، عوامی نیشنل پارٹی ولی باغ، مسلم لیگ ق کی سربراہی چوہدری برادران سے کسی دوسرے کو منتقل نہیں ہورہی اور جے یو آئی کی سربراہی مولانا فضل الرحمان چھوڑنے کو تیار نہیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل کیا گیا تو ان کے بھائی شہباز شریف نے کمان اپنے ہاتھ میں لے لی۔ شہباز شریف پنجاب سے وفاقی سیاست میں آئے تو ان کے بیٹے حمزہ شہباز نے پنجاب کو سنبھال لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی۔ ان کے بعد شہید بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی، اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ اب بے نظیر بھٹو کے جانشین بلال بھٹو پارٹی کے چیئرمین ہیں۔ اسی طرح چوہدری برادران مشرف دور میں نواز شریف سے الگ ہوئے تو ق لیگ کی بنیاد رکھی اور تب سے ق لیگ چوہدری برادران کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت جو کسی زمانے میں موروثی سیاست سے نکل رہی تھی لیکن اے این پی کی قیادت بھی ولی باغ تک محدود ہوگئی ہے۔ اسفندیارولی خان کے بیٹے ایمل ولی صوبائی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں۔
اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قوانین اور پولیٹیکل ایکٹ کے تحت ہر سیاسی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات کی پابند ہے لیکن خانہ پُری کےلیے انتخابات کا ڈھونگ رچا کر پارٹی قیادت خاندان سے باہر نہیں نکلتی۔ صرف جماعت اسلامی ہی ہے جو اپنے پارٹی منشور کے تحت انٹرا پارٹی انتخاب کراتی ہے اور ایک طویل مرحلے کے بعد جماعت کے ذمے داران اپنی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق جیسے ورکرز کو بھی جماعت اسلامی کی قیادت سنبھالنے کا موقع ملا۔
ایک جانب پارٹی کی قیادت چند مخصوص خاندانوں کے گرد گھومتی رہی تو انتخابات میں ٹکٹ بھی خان، وڈیروں اور نوابوں میں تقسیم کردیے جاتے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ہونے والے انتخابات میں وہی مخصوص چہرے، خاندان اور برادریوں کے بڑے ہی اسمبلیوں میں نظر آتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے بیٹے، بھائی، بھتیجے، بھانجے کو ٹکٹ دلانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایوان بالا سینیٹ میں ٹکٹ لینا اب کروڑ پتی سے ارب پتی تک بات پہنچ گئی ہے۔ بڑی بولی دینے والا ہی سینیٹ کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔
موروثی اور روایتی سیاست کے خلاف تحریک انصاف نے آواز اٹھائی اور وزیراعظم عمران خان نے ملکی سیاست کو چند خاندانوں سے باہر نکالنے کا فیصلہ کیا۔ ایک وقت میں عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ اسمبلیوں میں پڑھی لکھی اور نوجوان قیادت کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے اپنے ورکرز کو ٹائیگرز کا خطاب دیا اور ہر جلسے اور تقریر میں انہوں نے اپنے ورکرز کو پکارا۔ جب تک تحریک انصاف اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچی تھی تحریک انصاف بھی موروثی سیاست سے پاک تھی۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف میں بھی ان لوگوں کو غلبہ رہا، جو ہر دور میں فٹ ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے ساتھ زندہ باد، مردہ باد کا نعرہ لگانے والے ورکرز پیچھے رہ گئے اور وہی روایتی سیاستدان ایوانوں میں پہنچ گئے۔
خیبرپختونخوا کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ایک بار پھر موروثی سیاست چھا گئی۔ اس بار دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح تحریک انصاف بھی موروثی سیاست کا شکار ہوگئی۔ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں وفاقی اور صوبائی وزرا نے اپنے بیٹوں، بھائیوں اور بھتیجوں کو ٹکٹ دلائے اور کارکنوں کو نظرانداز کردیا گیا۔ جبکہ ناراض کارکنوں نے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا اور خیبرپختونخوا کے اکثر حلقوں میں تحریک انصاف کے امیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور نظرانداز ہونے والا ورکر کامیاب ہوگیا۔
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج سے بچنے کےلیے وزیراعظم عمران خان نے مشاورت کے بعد ٹکٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب 31 مارچ کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کےلیے تحریک انصاف نے ٹکٹ جاری کردیے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے پارلیمانی بورڈ میں مشاورت کے بعد ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں لیکن اس بار بھی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سمیت وفاقی، صوبائی وزرا اور ارکان اسمبلی اپنے قریبی رشتے داروں کےلیے ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
تحریک انصاف کی جانب سے پارٹی امیدواروں کی جو فہرست جاری کی گئی اس میں واضح بتایا گیا ہے کہ کس امیدوار کو کس کی سفارش پر ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ سوات میں مٹہ میں وزیراعلیٰ، کبل میں وفاقی وزیر مراد سعید، شمالی وزیرستان وانا، لدھا میں وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور، تورغر میں تینوں تحصیلوں کے ٹکٹ سینیٹر اعظم سواتی، شانگلہ میں تین ٹکٹ صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کی سفارش پر جاری کیے گئے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بھی امیدواروں کی شکست پر وزیراعظم کو جو رپورٹ پیش کی گئی تھی اس میں شکست کی وجوہات ٹکٹ کی بندربانٹ بتائی گئی تھی۔ اب کی بار امیدواروں کی فہرست کے ساتھ ٹکٹ کےلیے سفارش کرنے والے کا نام اسی لیے دیا گیا ہے کہ بعد میں ذمے داری کا تعین ہوسکے۔
خیبرپختونخوا میں ہونے والا دوسرے بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ انتخابات سوات میں بھی ہونے جارہے ہیں، جو وزیراعلیٰ محمود خان کا آبائی ضلع ہے جبکہ وفاقی وزیر مراد سعید کی سفارش پر بھی ٹکٹ جاری کیے گیے ہیں۔ اگر اس ضلع میں پی ٹی آئی نتائج بہتر نہ دے سکی تو اس میں وزیراعلیٰ کی پوزیشن بھی پہلی جیسی نہیں رہے گی۔
ایبٹ آباد میں بھی دوسرے مرحلے کے انتخابات حکومتی شخصیات کے آبائی اضلاع میں ہونے جارہے ہیں۔ بظاہر پہلے مرحلے کے مقابلے میں سیاسی ماحول پی ٹی آئی کے لیے سازگار نظر آرہا ہے لیکن عوام کا فیصلہ پہلے مرحلے جیسا ہوا تو پھر پی ٹی آئی کو موروثی سیاست لے ڈوبے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔