بائیں بازو والوں نے تاریخ کو پڑھنے میں بار بار غلطی کی وجاہت مسعود

زندگی نظریے سے بڑی ہے، پیسے اور منصب کے پیچھے کبھی نہیں بھاگا، وجاہت مسعود

معروف دانشور، ادیب ، مترجم اورانسانی حقوق کے سرگرم کارکن وجاہت مسعود سے مکالمہ ۔ فوٹو : فائل

ایمان داردانش ورکا پہلاامتحان وہاں ہوتاہے،جب وہ کسی ایسے نتیجے کو رد کرنے پرمجبورہوتا ہے، جو منطقی طور پر غلط لیکن جذباتی طور پراس کے لیے دل کش ہو۔ اگراس نے جذباتی دل کشی رکھنے والے نتیجے کو منطق کے علی الرغم قبول کرلیا تو گویا وہیں خود کشی کرلی۔ (شمس الرحمن فاروقی)

اردو کے ممتاز ادیب کے اس بیان میں ایمان دار دانش ورکے لیے بیان کردہ پہلے امتحان میں وجاہت مسعود ہمیشہ سرخرو ٹھہرے اورخودکشی کرنے سے بچے رہے ۔علامہ اقبال نے پنجابی مسلمان سے گلہ کیاتھا کہ وہ ؎

تحقیق کی بازی ہوتوشرکت نہیں کرتا
ہوکھیل مریدی کا توہرتا ہے بہت جلد

ان کی ساری علمی تگ وتازاس شعر سے متصادم رہی۔ تحقیق کے جویا ہیں۔سند یا تصدیق کے بغیرکوئی بات سپرد قلم نہیں کرتے، اور اس مقصد کے لیے اپنی قابل رشک لائبریری سے برابر استفادہ کرتے ہیں۔ ذمہ داری کا ان جیسا احساس ہمارے ہاں کے اردو لکھنے والوں میں اب کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔ ان کا اعزاز ہے کہ شکاگو یونیورسٹی میںپروفیسرآف ایمریتس سی۔ ایم۔ نعیم جو اردو صحافت سے جڑے بڑے بڑے جغادری قلم کاروں کی حقائق سے روگردانی کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں، وہ بھی وجاہت مسعود کی تحریروں کے قائل ہیں۔

یہ رہا تحقیق کا معاملہ توجناب!پیری مریدی میں وہ مشتاق احمد یوسفی کے مسلک سے ہیں،یعنی پیری پرتوان کا یقین ہوگا ہی کہ اس سے کس کو رستگاری ہے، مگرمریدی کے یہ بھی ان کی طرح سے قائل نہیں ۔ مطالعہ اور تفکرہی وہ عامل ہیں، جن سے ان کی سوچ کا رخ متعین ہوتا ہے۔ اس واسطے ان کی فکرمیں جمود کے بجائے ارتفاع کا احساس ہوتا ہے۔ ان کا شماراردو لکھنے والے ان معدودے چند لکھاریوں میں ہوتا ہے، جو اندھی جذباتیت کے ذریعے لوگوں کا استحصال کرنے کے بجائے معروضی اور منطقی پیرائے میں عمدہ نثر کے ذریعے حالات وواقعات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ انھوں نے خود کو کسی خاص نظریاتی دائرے میں مقید نہیں کیا۔ان کے خیال میں''زندگی نظریے سے بڑی ہے۔ وجود مطلق کسی بھی سیاسی، ادبی اور فلسفیانہ نقطہ نظر سے بڑا ہے۔'' وہ کمیونسٹ پارٹی میں رہے۔

کمیونزم کے فلسفے کا ڈوب کا مطالعہ کیا۔ چھان پھٹک کے بعد اس نظریے کو رد کردیا۔ پرویزمشرف اقتدار میں آئے تو لبرل حضرات اور این جی اوز کا ایک انبوہ ضمیرفروشاں،بقول وجاہت ،کنسورشیم کی صورت میں ان کے حضور پہنچ گیا۔وجاہت مسعود ان سے مگرالگ رہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ آئین توڑ جرنیل روشن خیال نہیں ہوسکتا۔ ان کے بقول ''ہرفوجی حکمران کا خواب ایک ایسی چراگاہ ہے جہاں عوام کے نام پربہت سی بھیڑ بکریاں اس کے دماغ عالی پراترنے والی ہر پھلجڑی کو حکم خداوندی سمجھیں۔ دانشوروہ آوازئہ انکار ہے جو آمر کا خواب کرکرا کردیتا ہے۔'' دانشور کا فرض ہے کہ وہ اپنی بصیرت سے آنے والے واقعات کی چاپ سن کر خلق خدا کو ان کے مضمرات سے آگاہ کرے۔ وجاہت مسعود نے یہ فریضہ بھی انجام دیا، جس کی ایک مثال یوں ہے کہ نوے کی دہائی میں جب مُلاملٹری الائنس زوروں پر تھا، اس وقت انھوں نے یہ پیش گوئی کردی تھی کہ فوج کا ہم رکاب مُلاایک دن فوج جو ایک ریاستی ادارہ ہے،اس کے خلاف کھڑا ہوجائے گا۔

اس وقت کسی نے ان کی بات کومانا نہیں لیکن اب ہم سب آنکھوں سے سارا تماشا دیکھ رہے ہیں۔دانشوراور لبرل آدمی ان کے خیال میں وہ ہے، جو ہرلمحۂ موجود میں انتخاب کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے ہمیشہ سیاسی،تمدنی اور جمہوری قوتوں پرعسکری اداروں کی بالادستی کی مخالفت کی لیکن بدلے حالات میں وہ طالبان کے خلاف فوج کے ساتھ کھڑے ہیں ۔عدلیہ کی آزادی کے وہ قائل ہیں۔اس کے حق میں بہتیرا لکھا بھی، مگرجب انھیں لگا کہ اس کے فیصلوں سے ایگزیکٹو بے دست وپا ہورہی ہے تووہ اس پرتنقید سے چوکے نہیں۔ پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے وجاہت مسعود تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے سخت ناقد اور انھیں بصیرت سے عاری سیاستدان قرار دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو تیسری قوت کو سامنے لانے کی پرانی خواہش رکھنے والے کرم فرماؤں نے بڑھایا چڑھایا۔ ان کا تجزیہ ہے کہ مستقبل میں وہ اصغر خان جیسے سیاسی انجام سے دوچار ہوں گے۔


1966 ء میں گوجرانوالہ میں آنکھ کھولنے والے وجاہت مسعود کی حیات مستعار پر نگاہ کی جائے توان کے ہاں،ایک اضطرابِ مسلسل غیاب ہوکہ حضور والی کیفیت نظرآتی ہے۔ماں باپ کی توقعات پرپورا اترنے کے لیے پنجاب میڈیکل کالج میں داخلہ تو لیا ، پرطبیعت ادھر نہ آئی تو گورنمنٹ کالج سدھارگئے۔انگریزی ادب کے ساتھ گریجویشن کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے1988ء میں ایم اے انگریزی کیا۔ان تعلیمی اداروں میں پڑھ کربھی چین نہ پایا۔ گورنمنٹ کالج کے درودیوار، درختوں،کیفوں، لائبریری اور ہوسٹل کی یادیں توآج بھی ذہن میںترو تازہ ہیں،لیکن اس درس گاہ سے انھیں شکوہ یہ ہے کہ یہاں درس حریت نہیں دیا جاتااوریہ ادارہ والدین کی توقعات پرپورا اترنے والےcareerists پیدا کرتا ہے۔

ضیاء الحق کے دور میں پنجاب یونیورسٹی کے گھٹن زدہ ماحول نے اضطراب کو اور بھی بڑھایا۔ شائستہ سراج الدین کے استثناء کے ساتھ ،کسی استاد نے متاثر نہ کیا۔ 1988ء میں ماسٹرز کرنے کے بعد خاندانی منصوبہ بندی کے محکمہ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر مقرر ہوئے، یہاں سے بھی طبیعت جلد اوب گئی۔ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں ٹاپ کرکے لیکچراربنے، پھراس ذمہ داری سے بھی پنڈ چھڑالیا۔ اس کے بعد انھوں نے وہی کام کیا جوان کے مزاج سے لگا کھاتا تھا۔ 1994ء میں جمہوری کمیشن برائے انسانی ترقی کے بانی رکن بنے۔بارہ برس اس ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے کام کیا۔ اس ادارے کے پلیٹ فارم سے نکلنے والے خرد افروز تحریروں پر مشتمل'' نوائے انسان ''کی ادارت کی ذمہ داری بھی نبھارہے ہیں۔ دیہات میں بارہ برس انسانی حقوق کی تعلیم کا فریضہ انجام دیا۔ سلطانیٔ جمہور کے لیے جدوجہد کے سفر میں شریک حیات تنویرجہاں بھی شانہ بشانہ رہیں، جنھوں نے ان کے بقول''چوبیس برس قبل پاکستان میں سیکولرجمہوریت اور انسانی ترقی کے خواب میں سانجھ کی تھی۔''

انسانی حقوق کے لیے سرگرم عمل رہنے کے ساتھ علمی وصحافتی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی سے انسانی حقوق سے متعلق بین الا قوامی اور یوروپی قانون میں ایل ایل ایم کی سند حاصل کی۔ان کی علمی شخصیت کی ایک جہت ترجمہ نگاری ہے۔'' ان کے قلم سے ہونے والے تراجم میں ''نوبل انعام یافتگان کے افسانے'' ،''مولوی تمیزالدین بنام وفاق''، ''امن ممکن ہے''، ''سہروردی کی سیاست بیتی''، ''کشمیراور انتقال اقتدار''، ''لسانی فسادات اور صحافت''شامل ہیں۔ صحافت سے ان کا تعلق مختلف حیثیتوں میں قائم رہا، سردست وہ ایک قومی روزنامہ میں کالم لکھ رہے ہیں۔ ''نصاب گل''،''محاصرے کا روزنامچہ'' اور ''پاکستان دوراہے پر''،ان کی صحافیانہ تحریرو ں پرمشتمل کتب ہیں۔

''بنیادی سیاسی تصورات '' میں انھوں نے، جمہوریت،سیکولر ازم،بنیاد پرستی اور تنقیدی شعور سے متعلق خیالات کو قلمبند کیا۔ انگریزی میں دو اسکرین پلے بھی لکھے۔ ''والٹن کیمپ نہیں مکیا'' ان کا پنجابی شعری مجموعہ ہے۔ شاعری کے تعلق سے بتاتے ہیں ''شعراندر ہوتا ہے، میرے اندر بولتا ہے، میں اس کو بسر کرتا ہوں، میں نے بہت پہلے سوچ لیا تھا کہ میں شعرسے لطف اٹھا سکتا ہوں۔اس شعری واردات میں رہ سکتا ہوں۔ میں شاعر نہیں ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ میرا ہنر اعلیٰ درجے کا نہیں۔ زبان کی سیاست کا بندہ نہیں۔ پنجابی شاعری کی پروموشن وغیرہ کے لیے ضروری ہے کہ آپ جو زبان کی سیاست کرنے والے ہیں، ان کے ہمنواہوں ،یہ میں نہیں کرسکتا۔ پنجابی سے محبت ہے مگراس کے نام پر ہونے والی سیاست سے دلچسپی نہیں۔''

وجاہت مسعوداپنی طبع مضطر جو وقت گزرنے کے ساتھ کچھ کچھ سنبھلتی جارہی ہے، اس کے بارے میں بتاتے ہیں''جب آپ شعور سنبھالتے ہیں تو بنیادی سوال ذہن میں یہ اٹھتا ہے کہ اپنے دنیا میں آنے کو معنی کیسے دیے جائیں،معنی کی صورتیں ان گنت ہیں۔ہم جو چناؤ کریں گے، وہ وسائل ، صلاحیت اور اس بنیاد پر ہوگا کہ ہم تاریخ کے کس موڑ پرپیدا ہوئے۔ اسی تناظر میں سب طے پائے گا۔میرے ہاں اضطراب امبیشن کا نہیں۔ پیسا برا نہیں لگتا لیکن اس کے پیچھے کبھی نہیں بھاگا۔ جائیداد اور منصب میرے لیے کشش نہیں رکھتے۔رفتہ رفتہ انسان اپنی تحدیدات کو قبول کرلیتا ہے، نوجوانی میں یہ ماننا کہ ہماری سماجی، سیاسی اور معاشرتی تحدیدات ہیںمشکل ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ پتا چلتا ہے کہ ہم یہ یہ کرسکتے ہیں اور یہ یہ نہیں کرسکتے۔'' وہ کہتے ہیں کہ عزت ہرانسان کو اچھی لگتی ہے، مگر''مجھے ان لوگوں کی طرف سے عزت اچھی لگتی ہے،جن کی میں عزت کروں۔'' وہ جہاں ایک طرف بات ببانگ دہل کہنے پر یقین رکھتے ہیں تودوسری طرف انھیں تقیہ بھی پسند ہے۔

''اگرآپ نے معاشرے میں ایک نقطہ نظراپنایا ہے اور اگرآپ کو کبھی اس پرکھڑے ہونے کے لیے پوچھا جائے توپھرآپ کو کھڑا تو ہونا ہی پڑے گا۔کھڑے ہونے کے مواقع خود invoke نہیں کرنے چاہییں۔ دعوت دے کرمصیبت اپنے گلے نہیں ڈالنی چاہیے۔ لکھنے کے عمل میں کوشش رہتی ہے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو ۔ وہ جو نوجوانی میں ایک شوق ہوتا ہے کہ ہم نے یہ بھی کہہ دیا، ہم نے وہ بھی کہہ دیا، وہ اب نہیں رہا۔'' تصوف اور روحانیت کے وہ قائل نہیں۔ اقبال کی طرح خرد کی گتھیاں سلجھا کر صاحب جنوں ہونے کی آرزو مند بھی نہیں ۔ان کے بقول'' خرد کی گتھیاں سلجھاتے رہنا ہی منصب انسانیت ہے۔''

ہمارے جیسے معاشرے میں وجاہت مسعود جیسے افراد مس فٹ ہیں۔ان کے خیال میں یہاں قیام کو گوارہ بنانے میں بزرگوں اور ہمعصروں کی محبت کو بہت دخل ہے۔ جوانی میں ہمچو ما دیگرے نیست والا رویہ ان کے ہاں پیدا ضرور ہوا لیکن آگے بڑھا اس لیے نہیں کہ ایسے لوگوں سے تعارف ہوگیا جن سے مل کر لگ پتا گیا کہ عالم اصل میں کون ہوتا ہے۔اس بات پرافسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں صحافت پیشہ ورانہ بنیادوں پراستوار نہ ہوسکی۔ نوجوانوں کو قوم کا سب سے قیمتی اثاثہ قرار دیتے ہیں، جن کے لیے ان کے خیال میں ریاست کو روزی روٹی سے بڑھ کر ذات کے اظہار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے، اور نئی نسل کے لیے مسرت کا حصول یقینی بنانا ہوگا۔

وہ اس بات کو پاکستان کے حق میں خوش آیند جانتے ہیں کہ'' مُلا کا جدید ریاست کے ساتھ وجودی تضادکھل کرسامنے آگیا ہے اوروہ ریاست کے ساتھ اختلاف کو جہاں تک لے جاسکتا تھا، لے گیا ہے، اب یا تو پاکستان کی ریاست تباہ ہوجائے گیا یا پھر اس کی طاقت کو ختم کردے گی۔'' وہ پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (ن) میں سیاسی معاملات پر ہونے والے ان کہے سمجھوتے کو مثبت سیاسی پیش رفت قرار دیتے ہیں، اور اسے مک مکا کہنے والوں کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کی دانست میں، جمہوریت سے ہی اس ملک کا مستقبل وابستہ ہے کیونکہ بندوق کے زورپر مسلط ہونے والی حکومت سے خیر کی توقع نہیں باندھی جاسکتی۔ ان کے خیال میں ،ملک کو مسیحا نہیں بہتر جمہوری نظام کی ضرورت ہے۔ وجاہت مسعود ان دنوں بیکن ہاؤس یونیورسٹی میں تدریس سے متعلق ہیں۔
Load Next Story