مسکان خان کی للکار اور ہمارے لبرلز

ہو بھی کیسے سکتا ہے یہ تو کسی سُپر ہٹ فلم کا ایسا کلائمکس سین لگتا ہے


[email protected]

کیا سین تھا جو آنکھوں سے محو ہی نہیں ہوتا، ہو بھی کیسے سکتا ہے یہ تو کسی سُپر ہٹ فلم کا ایسا کلائمکس سین لگتا ہے جس پر ہیرو ساری عمر فخر کرتا ہے اور کامیابی کی بلندیوں کو چھولیتا ہے۔

ایک دبلی پتلی سی باپردہ لڑکی پورے اعتماد کے ساتھ خود اسکوٹر چلاکر کالج میں داخل ہوتی ہے، اپنا اسکوٹر پارکنگ میں کھڑا کرتی ہے اور اپنی اسائینمنٹ جمع کرانے کے لیے کلاس روم کی طرف چل پڑتی ہے۔

ابھی وہ چند قدم ہی چلتی ہے کہ اسے نظر آجاتا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کا ایک ہجوم بڑے جارحانہ انداز میں اس کے عقیدے اور اسلامی لباس کے خلاف نعرے لگاتا ہوا اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہندو تواکے پیروکاروں کا بپھرا ہوا ہجوم ایک لڑکی کے ساتھ کیا کرسکتا ہے، اس بارے میں سارے خوفناک امکانات مسکان کے ذہن میں آئے ہوںگے، اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس طرح کے حملہ آوروں کے ہاتھوں بیسیوں مسلمان قتل ہوچکے ہیں مگر ان کی ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی۔

اس کے ذہن میں یہ بھی آیا ہوگا کہ انتہاپسندوں کا یہ ہجوم زبردستی اس کا حجاب اتارنے کے بہانے اس کے کپڑے تار تار کرکے (جس طرح کئی موقعوں پر ہوچکا ہے) اسے برہنہ کرسکتا ہے اور جان سے بھی مارا جاسکتا ہے، ان امکانات کے پیشِ نظروہ ڈر کے مارے اُلٹے پاؤں بھاگ سکتی تھی یا چیخ و پکار کر سکتی تھی ، مگر اس نے ایسا کچھ نہ کیا اور ایک حیران کن اور ناقابلِ یقین آپشن استعمال کیا۔

مسکان خان بپھرے ہوئے سیکڑوں ہندو انتہا پسندوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوگئی اور اُس نے ایک ایسے جوش اور ولولے کے ساتھ اپنے اللہ کی عظمت کا نعرہ بلند کیا کہ جس کی گونج دنیا کے کونے کونے میں سنی گئی اور جسکی گونج سے پورے ہندوستان کے میدان اور ایوان لرزاُٹھے۔ مسکان نے رب ذوالجلال سے مدد مانگی تو غنڈے اس کا بال تک بیکا نہ کرسکے۔

اُمّتِ مصطفٰےؐ کی اس بہادر اور قابلِ فخر بیٹی کی للکار نے ہندوستان ہی نہیں، پوری دنیا میں مسلمان بیٹیوں کو ایک نئے جذبے سے سرشار کردیا ہے۔ ہندوستان میں اب مسلمان بیٹیاں، خوفزدہ ہونے یا مدافعانہ طرزِ عمل اختیار کرنے کے بجائے، پوری جرأت اور آن بان کے ساتھ اپنے انسانی اور مذہبی حقوق کی پاسبانی کے لیے میدان میں اُتر آئی ہیں اور اب دنیا بھر سے ان کے حق میں بڑی موثر آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔

امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کے ممبرانِ پارلیمنٹ ہندوستان میں مسلم خواتین سے حجاب کا حق چھیننے پر بھار ت سے تجارت بند کرنے کے مطالبے کر رہے ہیں،مگر بھارت کے مظلوم مسلمانوں کو سب سے زیادہ امیدیں پاکستان سے تھیں کیونکہ ان کا پاکستان پر حق فائق ہے۔

1947میں جب قائداعظمؒ سے پوچھا گیا کہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کا تحفظ کیسے ہوگا تو انھوں نے کہا تھا،''ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان ہندوستان کے مسلمانوں کے تحفظ کا ضامن ہوگا۔'' بلاشبہ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش مضبوط اور مستحکم ہوں اور دونوں انڈیا پر دباؤ ڈالیں تو انڈیا اس دباؤ کوکبھی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ مسکان خان کی للکار کو پاکستان میں حکومتی سطح پر جس طرح خراجِ تحسین پیش کیا جانا چاہیے تھا، اُس طرح نہیں کیاگیا۔

حکومت کا رویہ بھی مایوس کن رہا اور اپوزیشن پارٹیوں کی خواتین ممبرانِ اسمبلی نے بھی انتہائی سرد مہری کا مظاہرہ کیا جو قابلِ مذمت ہے، اسلام آباد میں سیکڑوں تنظیمیں خواتین کے حقوق کی نام نہاد علمبردار بنی ہوئی ہیں جن میں سے کسی کومسکان یا انڈیا کے مظلوم مسلمانوں کے لیے کلمہ خیر کہنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

دو تین روز پہلے ایک دوست کے ہاں اسلام آباد کے چندصاحبانِ علم و دانش جمع تھے، سب کا یہی کہنا تھا کہ زیادہ تر این جی اوز تو لبرل خواتین کے کنٹرول میں ہیں جو خود حجاب کے خلاف ہیں، اس لیے وہ بھارتی یا کشمیری مسلم خواتین کے حق میںکیوں بات کریں گی۔

ایک دوست نے پوچھا،''لبرل کہلانے والے صحافیوں اور اینکروں نے بھی اس معاملے میں بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟'' اس پر ایک ماہرِ تعلیم نے جواب دیتے ہوئے کہا، ''اس کے لیے دیکھنا پڑے گا کہ لبرلزکون ہیں اور ان کا نظریہ کیا ہے؟'' اب تمام لوگ بڑے اشتیاق سے ان کی جانب متوجہ ہوئے۔

انھوں نے کہا کہ '' لبرل کا مطلب ہے آزاد۔ پھر انھوں نے لفظ آزاد کی تعریف یوں کی کہ یہ لوگ اپنے آپ کو اسلامی احکامات کا پابند نہیں سمجھتے، اس لیے وہ اپنے آپ کو آزاد کہتے ہیں۔ میرا جسم میری مرضی کا مطلب بھی یہی ہے۔ '' وہ پاکستان کے قیام کے بھی دل سے مخالف ہیں، اسی لیے بات بات پر اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ ''فلاں چیز کی سرحدیں نہیں ہوتیں اور فلاں چیز کو سرحدیں نہیں روک سکتیں'' یہ دراصل بھارت کا بیانیہ ہے جسے ہمارے لبرلز سپورٹ کرتے ہیں اور سرحدوں کے تقدس کو undermineکرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ لوگ اپنی محفلوں میں قائدِاعظم پر بھی تنقید سے باز نہیں آتے۔

علامہ اقبالؒ کی شاعرانہ عظمت اور ان کے ہمالیہ جیسے intellectual statureسے انکار کرنا چونکہ ممکن نہیں لیکن اندر سے وہ اقبالؒ سے بغض رکھتے ہیں ۔

یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یہاں کے لبرلز پڑھے لکھے اسلامسٹوں کی نسبت تنگ نظر اور تنگ دل ہیں ، وہ کسی اعلیٰ پائے کے ایسے استاد ، ادیب، شاعریا ایسے باضمیر سول سرونٹ کے بارے میں کبھی کلمہ خیر نہیں کہیں گے (بلکہ اس کے خلاف عناد پال لیں گے) اوراسی عناد کی بناء پر وہ اس کی پیشہ وارانہ قابلیت اور اجلے کردار کی کبھی تعریف نہیں کریں گے حالانکہ اسلامی ذہن رکھنے والے رائٹر (راقم سمیت) بڑی فراخدلی سے ان کی خوبیوں کی تعریف کرتے ہیں۔

لگتا یوں ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ٹی وی اینکر بننے کے لیے لبرل ہونا ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ منٹو پر کئی کئی گھنٹے کی دستاویزی فلمیں تو چلتی ہیں مگر علامہ اقبالؒ کا ذکر انھیں نا گوار گزرتا ہے، بھارتی گلوکارہ لتا کی موت پر بیس منٹ تک خبریں چلاتے ہیں مگرعلامہ اسد، نسیم حجازی اور مختار مسعود جیسے پاکستان کے محسنوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیں گے۔ ویسے ہمارے لبرلز میں جاوید جبار جیسے محب وطن لوگ بھی ہیں جنھیں مسلمان ہونے پر بھی فخر ہے اور جو ہر فورم پر پاکستان کا بڑے موثر انداز میں دفاع بھی کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔