ہر دن عورت کا دن
ہمارے معاشرے کی خوبصورتی پاکستانی عورت کا خوبصورت اور باپردہ لباس ہے جس میں وہ باوقار نظر آتی ہے
مختلف مکاتب فکر خوا تین کے عالمی دن کی مناسبت سے عورت مارچ پر جداگانہ اور منفرد سوچ رکھتے ہیں۔ حکومتی سطح پر بھی اس حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری نے خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر وزیر اعظم کے نام مکتوب میں عورت مارچ پر پابندی کا مطالبہ تو نہیں کیا مگر انھوں نے چند تجاویز میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عورت مارچ کے موقعے پر اقدار کا پاس رکھنے کی بات کی ہے۔ اس مکتوب کے بعد پاکستان میں عورتوں کے حقوق کے ٹھیکیداروں اور ان کے حواریوں نے واویلا مچا رکھا ہے ۔
حالانکہ اگر اس کے مندرجات پر غور کیا جائے تو اس میں اسلامی اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے چند تجاویز دی گئی ہیں تا کہ اسلامی معاشرے میں عورت کو جو عزت اور تکریم دی گئی ہے، اس کی حرمت کا پاس رکھا جا ئے اور اسلامی قوانین کے مطابق عورت کوحاصل حقوق کو مثبت طور پر اجاگر کیا جائے ۔
گزشتہ چند برس سے پاکستان میں خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر ملک کے مختلف شہروں میں عورت مارچ کا انعقاد کیا جارہا ہے، اس مارچ کے ذریعے آج تک جو بات سامنے آئی ہے ، وہ یہ ہے کہ اس مارچ کو ملک میں زیادہ پذیرائی نہیں ملی ۔
گزشتہ برسوں میں عورت مارچ کے روح رواں طبقہ کی جانب سے خواتین کے ہاتھوں میںجو پلے کارڈ تھمائے گئے اور ان پردرج جونعرے نظروں سے گزرے، وہ کسی بھی طرح قابل تقلید قرار نہیں دیے جا سکتے۔پاکستانی اور خاص طور پر ایک اسلامی معاشرے میں ان نعروں کی قطعی طور پر کوئی گنجائش نہیں ہے۔ عورت مارچ کے دوران کیے جانے والے بعض مطالبات کے مثبت کے بجائے منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستان میں خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر اسلامی معاشرے سے مطابقت رکھنے والے پروگرام منعقد ہوں جن میں عورت کو اسلام میں اس کے اصل مقام سے آگاہی دی جائے ۔ اس کو بتایا جائے کہ اسلام میں عورت کا کیا مقام ہے۔
قرآن پاک میںاسلامی معاشرے میںزندگی گزارنے کے اصول و ضوابط وضح کر دیے گئے ہیں۔ عورت اور مرد کے حقوق کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ چارد اور چار دیواری کی حدود و قیود کو طے کردیا گیا ہے۔ پردے کے متعلق سورۃ نور میں مرد و زن کوحکم دیا گیا ہے ،یعنی اسلام میں عورت اور مرد دونوں کو باحیا رہنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا طبقہ وجود میں آچکا ہے جو مادر پدر آزادی کے حق میں آواز بلند کرتا ہے جس کا مقصد مغرب کے مخصوص ایجنڈے کو پروان چڑھانا ہے ۔ یہ طبقہ عورت کی آزادی کے حق میں یہ دلائل دیتا ہے کہ عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق حاصل ہونا چاہئیں اور انھیں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت ہونی چاہیے ۔ چاہے اس کے لیے چادراور چاردیواری کا تقدس ہی پامال کیوں نہ ہوجائے ۔
لیکن اس طبقے نے میرا جسم میری مرضی اور میں کیا پہنوں ،کیا اوڑھوں جیسے نعروں سے نکل کرکبھی اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ پاکستان کی ایک عام عورت کے مسائل ان نعروں سے کہیں مختلف ہیں، عورت کو معاشرے میں تحفظ چاہیے ' تعلیم چاہیے ' عورت ماں ہو یا بہن ، بیٹی ہو یا بیوی وہ جب گھر سے باہر نکلتی ہے تواسے تحفظ درکار ہوتا ہے، وہ گھر سے اگرباحجاب نکلتی ہے تو لا محالہ وہ اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتی ہے۔
اسے عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن عورت اگر نامناسب لباس میں دفتر یا کسی اور جگہ جاتی ہے تو اس کی جانب نظریں اٹھتی ہیں اور یہی وہ اصل وجہ ہے جو بگاڑ کا باعث بنتی ہے ۔
کچھ عرصہ قبل ہمارے وزیر اعظم نے عورت کے لباس کے متعلق بات کی اور عورت کے لباس باوقار بنانے پر زور دیا تو پاکستان میں موجود لبرل طبقے نے ایک طوفان کھڑا کر دیا حالانکہ وزیر اعظم کا مقصد یہ تھا کہ عورت اگر اپنی نمائش کرے گی تو اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو گا اور یہی آج کل ہو رہا ہے۔
عورت کی آزادی کے نام پر جو طبقہ میدان میں موجود ہے وہ پاکستانی عورت کو مغرب زدہ عورت کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے گو مغربی معاشرے کے اپنے معیار ہیں جس میں عورت کو لا محدودحقوق تو حاصل ہیں لیکن حیا نام کی کسی شے کا نام و نشان وہاںموجود نہیں ہے۔
ہم پاکستانی اپنے آپ کوجس قدر بھی ماڈرن سمجھنے لگیں، ہم بنیادی طور پر ایک باحیا اور باوقار قوم کی نمایندگی کرتے ہیں ۔ پاکستانی معاشرے میں عورت کا اہم کردار ہے، چاہے وہ ماں کا روپ ہو یا بیٹی کا ہو۔ ہمارے گھر وںکا نظم و نسق عورت کے مرہون منت ہے اور عورت کے بغیر یہ نامکمل ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں ہر دن عورت کا دن ہے۔ماں کے قدموں تلے جنت کا جو درس ہمیں دیا گیا ہے۔
اس سے عورت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے کی خوبصورتی پاکستانی عورت کا خوبصورت اور باپردہ لباس ہے جس میں وہ باوقار نظر آتی ہے۔ مغربی عورتیں بھی پاکستان آکر بڑے شوق سے پاکستانی لباس پہننے کو ترجیح دیتی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل جب برطانوی شاہی خاندان کی بہوکیٹ میڈلٹن اپنے شوہر شہزادہ ولیم کے ساتھ پاکستان کے دورے پر آئیں تو انھوں نے بھی پاکستانی ثقافت کے مطابق پاکستانی ملبوسات زیب تن کیے جن کا دنیا بھر میں بڑا شہرہ رہا۔ اور ایک ہم ہیں جو اسلامی معاشرے میں رہتے ہوئے بھی اپنی پاکستانی عورت کو جو ہماری ماں 'بہن' بیٹی اور بہو ہے اس کو نمائش کے لیے پیش کرنا چاہتے ہیں۔
میں ان نام نہاد پاکستانی لبرلز سے معافی طلب کرتے ہوئے ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے لبرل ازم کے ساتھ کسی اور ملک سدھار جائیں اور وہاں امن اور سکون سے رہیں، وہ ہمیں کسی ہمسایہ یا مغربی ملک کے ساتھ نتھی نہ کریں ، ہم جیسے بھی ہیں مسلمان ہیں' پاکستانی ہیں اور ایک اسلامی معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان کے اسلامی معاشرے میں جہاں عورت ماں،بہن ،بیوی، بیٹی کے روپ میں موجود ہے، اس میں ان لبرلز کے خیالات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔