گرفتاریوں سے مسائل حل نہیں ہوں گے
حکومت کو چاہیے عدلیہ کے ساتھ بیٹھ کر ہتک عزت کے مقدمات کی بروقت سماعت اور بروقت فیصلوں کے لیے اصلاحات پر کام کرے
حکومت کی جانب سے فیک نیوز اور جھوٹی خبروں کو روکنے کی آڑ میں کی جانے والی قانون سازی کے حوالے سے یہ سوال اہم ہو گیا ہے کہ کیا فیک نیوز اور جھوٹی خبروں کو روکنا مقصود ہے یا حکومت صحافیوں کی فوری گرفتاری چاہتی ہے۔
کیا حکومت کا مقصد ہے کہ وہ جب چاہے، جس صحافی کو چاہے، جھوٹی اور فیک نیوز کے چکر میں گرفتار کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ فوری گرفتاری کے اختیارات حاصل کرکے کیا حکومت صحافیوں کو ڈرا لے گی؟ مجھے نہیں لگتا حکومت خبر کے سچے یا جھوٹے ہونے کو طے کرنے میں سنجیدہ اور مخلص ہے۔
حکومت کی کوشش یہ لگ رہی ہے کہ جیسے ہی خبر شایع ہو، اسی وقت صحافی کو گرفتار کرلیا جائے۔ یہ بعد میں طے ہوتا رہے گا کہ خبر سچی ہے یا جھوٹی۔ بس گرفتاری فوری ہونی چاہیے، ضمانت نہیں ہونی چاہیے اور جیل لمبی ہونی چاہیے۔ جس نے بھی حکومت کو یہ سبق پڑھایا ہے، وہ حکومت کا دوست نہیں ہو سکتا۔
حکومت صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کے حوالے سے بھی ایک فری لائسنس دینا چاہتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی وزیر کے غلط یا کسی غیر قانونی کام کے بارے میں خبر ہو تو اس وزیر کا خود ایف آئی آر درج کرانا لازمی نہ رہے بلکہ وہ اپنے کسی کارندے کے ذریعے ایف آئی آر درج کرا سکے۔
اس طرح وزیرصاحب کہتا رہے گا کہ میں نے تو کسی کے خلاف ایف آئی ، آر درج نہیں کرائی، میرے کسی سپورٹر نے کروائی ہے کیونکہ لوگ مجھ سے پیار کرتے ہیں، اس لیے جب بھی میرے خلاف کوئی خبر شایع ہوتی ہے تو وہ ایف آئی آر درج کرا دیتے ہیں۔ اس طرح بے نامی ایف آئی آرز کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ ایک ایک خبر پر کئی کئی ایف آئی آر ملک بھر میں درج کرائی جا سکیں گی۔ ایسی قانون سازی کا مشورہ کسی حکومت کو اس کا کوئی دوست یا ہمدرد تو نہیں دے سکتا۔
بے شک اداروں کی عزت بہت مقدم ہے لیکن اداروں کو احترام کی حد سے نکال کر مقدس گائے کا درجہ دینا بھی کوئی درست نہیں ہے۔ اب تو عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید کرنے کا حق ملتا جا رہا ہے۔ دنیا مان گئی ہے کہ ایک دفعہ جب فیصلہ آجاتا ہے تو اس پر رائے دینا عدلیہ کی توہین نہیں ہے۔
اب ایسے اوپن اور جدید دور میں اداروں پر تنقید کی حو صلہ شکنی نہیں کی جا سکتی۔ اداروں کے کردار اور ان کی کار کردگی پر بات کرنا ایک اجتماعی بات ہے جو ریاست کے قانون پسند اور ٹیکس دینے والے شہری کا بنیادی حق ہے، اس کے اس بنیادی حق پر قدغن عائد کرنا کوئی درست قدم نہیں۔ پاکستان کا میڈیا دنیا سے مختلف نہیں ہے۔ جیسا میڈیا دنیا بھر میں موجود ہے، ویسا ہی پاکستان میں بھی موجود ہے۔
اس لیے دنیا بھر میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے جو قوانین بنائے گئے ہیں، پاکستان میں ان سے الگ قوانین بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ دنیا نے ہتک عزت کے روایتی قانون سے ہی میڈیا سمیت تمام سیاستدانوں، سیلبریٹیز اور اہم عہدے داروں کو سچ بولنے پر کاربند کیا ہے۔
ہمیں بھی ہتک عزت کے پہلے سے موجود قانون پر عمل کرکے ہی ملک میں سچ کی بالا دستی قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ پیکا اور دیگر قوانین نہ تو پاکستان کے قومی مفاد میں ہیں نہ حکومت کے ۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ ملک میں صحافیوں کے شمالی علاقوں کی سیر اور غائب ہونے کی جو شکایات تھیں، وہ نئی قانون سازی سے ختم ہو جائیں گی۔ یعنی جب قانونی طور پر گرفتاری کے اختیار مل جائیں گے تو غیر قانونی گرفتاریوں کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔
جب ادارے قانونی طورپر اپنے خلاف پراپیگنڈے کو روک سکیں گے تو غیر قانونی اقدام کی ضرورت نہیں ہوگی، لیکن کیا یہ مسئلے کا حل ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ کامیاب حکمت عملی ثابت ہوگی۔ جن مسائل کا سامنا آج ہے وہ نئی قانون سازی کے بعد بھی موجود رہیں گے بلکہ مسائل اور بڑھ جائیں گے، اس لیے نئی قانون سازی ان مسائل کا حل نہیں ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ پاکستان میں ہتک عزت کے قوانین موجود ہیں تو پھر یہ کیوں موثر ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسئلہ ان قوانین پر عملدرآمد کا ہے۔ پاکستان میں عدالتیں ایسے مقدمات کو سنجیدہ نہیں لیتی ہیں، انھیں غیر ضروری مقدمات کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اسی لیے ایسا لگتا ہے، جیسے ملک میں ہتک عزت کا کوئی قانون موجود ہی نہیں ہے۔
آج نئی قانون سازی ہوئی ہے تو ایسا ماحول بنایا گیا ہے جیسے پاکستان میں ہتک عزت کا پہلے کوئی فوجداری قانون موجود ہی نہیں ہے لہٰذا نئی قانون سازی ضروری ہے حالانکہ پاکستان میں ہتک عزت کا فوجداری قانون موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عدالتیں ایسے مقدمات میں سزائیں سنانے سے اجتناب کرتی ہیں۔ عدالتوں کا ہتک عزت کے مقدمات میں ایک محتاط رویہ ہے جس کی وجہ سے آج نئی قانون سازی کا جواز تراشا گیا ہے۔
اگر پہلے سے موجود ہتک عزت کے قوانین پر فعال انداز میں عمل ہوتا اور جرم ثابت ہونے پر سزائیں اور جرمانے سنائے ہوتے تو آج کوئی حکومت نئے قانون کی ضرورت کا جواز پیش نہ کرسکتی۔ ملک میں صحافت ہی نہیں بلکہ سیاست اور حکومت سے جھوٹ ،الزام تراشی کا کلچر ختم ہوچکا ہوتا،کہیں نہ کہیں اس پہلوکو بھی سامنے رکھناہوگا۔ اسی لیے ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت اب عدلیہ کے کردار کو مائنس کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
فوری گرفتاری کا اختیار دراصل عدلیہ کو مائنس کرنے کی ایک کوشش ہی سمجھی جاسکتی ہے۔ اب حکومت عدلیہ کی محتاج نہیں رہے گی۔ وہ براہ راست گرفتار کر سکے گی۔ لیکن یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ یہ آمریت کی ایک بدترین شکل ہے بلکہ نوآبادیاتی نظام کی یاد دلاتی ہے، جس میں محض الزام پر لوگوں کو قید خانے میں ڈال دیا جاتا تھا۔
حکومت کو چاہیے عدلیہ کے ساتھ بیٹھ کر ہتک عزت کے مقدمات کی بروقت سماعت اور بروقت فیصلوں کے لیے اصلاحات پر کام کرے۔ عدلیہ کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ ہتک عزت کے مقدمات کا بروقت فیصلہ یقینی بنائیں۔
یہ ملک میں سچ کا بول بالا کرنے کے لیے ناگزیر ہے اور حکومت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ عدلیہ کے بغیر ملک میں سچ کا بولا بالا ممکن نہیں۔ میری حکومت سے گزارش ہے کہ وہ نئی قانون سازی کے بجائے پہلے سے موجود ہتک عزت قانون کے تحت دائر مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے راہ ہموار کرے۔یوںحکومت کا مقصد بھی حل ہوجائے گا اور صحافت بھی محفوظ رہے گی۔
کیا حکومت کا مقصد ہے کہ وہ جب چاہے، جس صحافی کو چاہے، جھوٹی اور فیک نیوز کے چکر میں گرفتار کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ فوری گرفتاری کے اختیارات حاصل کرکے کیا حکومت صحافیوں کو ڈرا لے گی؟ مجھے نہیں لگتا حکومت خبر کے سچے یا جھوٹے ہونے کو طے کرنے میں سنجیدہ اور مخلص ہے۔
حکومت کی کوشش یہ لگ رہی ہے کہ جیسے ہی خبر شایع ہو، اسی وقت صحافی کو گرفتار کرلیا جائے۔ یہ بعد میں طے ہوتا رہے گا کہ خبر سچی ہے یا جھوٹی۔ بس گرفتاری فوری ہونی چاہیے، ضمانت نہیں ہونی چاہیے اور جیل لمبی ہونی چاہیے۔ جس نے بھی حکومت کو یہ سبق پڑھایا ہے، وہ حکومت کا دوست نہیں ہو سکتا۔
حکومت صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کے حوالے سے بھی ایک فری لائسنس دینا چاہتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی وزیر کے غلط یا کسی غیر قانونی کام کے بارے میں خبر ہو تو اس وزیر کا خود ایف آئی آر درج کرانا لازمی نہ رہے بلکہ وہ اپنے کسی کارندے کے ذریعے ایف آئی آر درج کرا سکے۔
اس طرح وزیرصاحب کہتا رہے گا کہ میں نے تو کسی کے خلاف ایف آئی ، آر درج نہیں کرائی، میرے کسی سپورٹر نے کروائی ہے کیونکہ لوگ مجھ سے پیار کرتے ہیں، اس لیے جب بھی میرے خلاف کوئی خبر شایع ہوتی ہے تو وہ ایف آئی آر درج کرا دیتے ہیں۔ اس طرح بے نامی ایف آئی آرز کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ ایک ایک خبر پر کئی کئی ایف آئی آر ملک بھر میں درج کرائی جا سکیں گی۔ ایسی قانون سازی کا مشورہ کسی حکومت کو اس کا کوئی دوست یا ہمدرد تو نہیں دے سکتا۔
بے شک اداروں کی عزت بہت مقدم ہے لیکن اداروں کو احترام کی حد سے نکال کر مقدس گائے کا درجہ دینا بھی کوئی درست نہیں ہے۔ اب تو عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید کرنے کا حق ملتا جا رہا ہے۔ دنیا مان گئی ہے کہ ایک دفعہ جب فیصلہ آجاتا ہے تو اس پر رائے دینا عدلیہ کی توہین نہیں ہے۔
اب ایسے اوپن اور جدید دور میں اداروں پر تنقید کی حو صلہ شکنی نہیں کی جا سکتی۔ اداروں کے کردار اور ان کی کار کردگی پر بات کرنا ایک اجتماعی بات ہے جو ریاست کے قانون پسند اور ٹیکس دینے والے شہری کا بنیادی حق ہے، اس کے اس بنیادی حق پر قدغن عائد کرنا کوئی درست قدم نہیں۔ پاکستان کا میڈیا دنیا سے مختلف نہیں ہے۔ جیسا میڈیا دنیا بھر میں موجود ہے، ویسا ہی پاکستان میں بھی موجود ہے۔
اس لیے دنیا بھر میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے جو قوانین بنائے گئے ہیں، پاکستان میں ان سے الگ قوانین بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ دنیا نے ہتک عزت کے روایتی قانون سے ہی میڈیا سمیت تمام سیاستدانوں، سیلبریٹیز اور اہم عہدے داروں کو سچ بولنے پر کاربند کیا ہے۔
ہمیں بھی ہتک عزت کے پہلے سے موجود قانون پر عمل کرکے ہی ملک میں سچ کی بالا دستی قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ پیکا اور دیگر قوانین نہ تو پاکستان کے قومی مفاد میں ہیں نہ حکومت کے ۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ ملک میں صحافیوں کے شمالی علاقوں کی سیر اور غائب ہونے کی جو شکایات تھیں، وہ نئی قانون سازی سے ختم ہو جائیں گی۔ یعنی جب قانونی طور پر گرفتاری کے اختیار مل جائیں گے تو غیر قانونی گرفتاریوں کی ضرورت ختم ہو جائے گی۔
جب ادارے قانونی طورپر اپنے خلاف پراپیگنڈے کو روک سکیں گے تو غیر قانونی اقدام کی ضرورت نہیں ہوگی، لیکن کیا یہ مسئلے کا حل ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ کامیاب حکمت عملی ثابت ہوگی۔ جن مسائل کا سامنا آج ہے وہ نئی قانون سازی کے بعد بھی موجود رہیں گے بلکہ مسائل اور بڑھ جائیں گے، اس لیے نئی قانون سازی ان مسائل کا حل نہیں ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ پاکستان میں ہتک عزت کے قوانین موجود ہیں تو پھر یہ کیوں موثر ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسئلہ ان قوانین پر عملدرآمد کا ہے۔ پاکستان میں عدالتیں ایسے مقدمات کو سنجیدہ نہیں لیتی ہیں، انھیں غیر ضروری مقدمات کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اسی لیے ایسا لگتا ہے، جیسے ملک میں ہتک عزت کا کوئی قانون موجود ہی نہیں ہے۔
آج نئی قانون سازی ہوئی ہے تو ایسا ماحول بنایا گیا ہے جیسے پاکستان میں ہتک عزت کا پہلے کوئی فوجداری قانون موجود ہی نہیں ہے لہٰذا نئی قانون سازی ضروری ہے حالانکہ پاکستان میں ہتک عزت کا فوجداری قانون موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عدالتیں ایسے مقدمات میں سزائیں سنانے سے اجتناب کرتی ہیں۔ عدالتوں کا ہتک عزت کے مقدمات میں ایک محتاط رویہ ہے جس کی وجہ سے آج نئی قانون سازی کا جواز تراشا گیا ہے۔
اگر پہلے سے موجود ہتک عزت کے قوانین پر فعال انداز میں عمل ہوتا اور جرم ثابت ہونے پر سزائیں اور جرمانے سنائے ہوتے تو آج کوئی حکومت نئے قانون کی ضرورت کا جواز پیش نہ کرسکتی۔ ملک میں صحافت ہی نہیں بلکہ سیاست اور حکومت سے جھوٹ ،الزام تراشی کا کلچر ختم ہوچکا ہوتا،کہیں نہ کہیں اس پہلوکو بھی سامنے رکھناہوگا۔ اسی لیے ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت اب عدلیہ کے کردار کو مائنس کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
فوری گرفتاری کا اختیار دراصل عدلیہ کو مائنس کرنے کی ایک کوشش ہی سمجھی جاسکتی ہے۔ اب حکومت عدلیہ کی محتاج نہیں رہے گی۔ وہ براہ راست گرفتار کر سکے گی۔ لیکن یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ یہ آمریت کی ایک بدترین شکل ہے بلکہ نوآبادیاتی نظام کی یاد دلاتی ہے، جس میں محض الزام پر لوگوں کو قید خانے میں ڈال دیا جاتا تھا۔
حکومت کو چاہیے عدلیہ کے ساتھ بیٹھ کر ہتک عزت کے مقدمات کی بروقت سماعت اور بروقت فیصلوں کے لیے اصلاحات پر کام کرے۔ عدلیہ کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ ہتک عزت کے مقدمات کا بروقت فیصلہ یقینی بنائیں۔
یہ ملک میں سچ کا بول بالا کرنے کے لیے ناگزیر ہے اور حکومت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ عدلیہ کے بغیر ملک میں سچ کا بولا بالا ممکن نہیں۔ میری حکومت سے گزارش ہے کہ وہ نئی قانون سازی کے بجائے پہلے سے موجود ہتک عزت قانون کے تحت دائر مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے راہ ہموار کرے۔یوںحکومت کا مقصد بھی حل ہوجائے گا اور صحافت بھی محفوظ رہے گی۔