25 برس زیر التوا شناختی کارڈز چوری کیس کا فیصلہ محفوظ
3 ملزمان کا انتقال ہوچکا،2 ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہوگئے،ملزمان پر ایک لاکھ 55 ہزار شناختی کارڈ چوری کرنےکا الزام ہے
HYDERABAD:
25 برس سے زیر التوا مقدمے کا بلاآخر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا،اس دوران مقدمے میں ملوث 3ملزمان کا انتقال بھی ہوچکا ، 2 ملزم ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہوگئے، 2 ملزمان 25 برس گزر جانے کے باوجود عدالت کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں۔
تفصیلات کے مطابق انسداد بدعنوانی کے وفاقی عدالت کے جج لقمان میمن نے بدعنوانی اورلاکھوں خواتین کے قومی شناختی کارڈ چوری و غائب کرنے کے الزام میں ملوث ملزمان ملک جان ، حیات اعوان و دیگر کے مقدمے کا فیصلہ بلآخر وکیل صفائی سابق پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان کے حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد 10مارچ کیلیے محفوظ کرلیا ہے ،قبل ازیں وکیل صفائی نے عدالت کو اپنے دلائل میں بتایا کہ ان کے موکل 25برس سے شدید اذیت میں مبتلا ہیں ، استغاثہ 25برس گزر جانے کے باجود عدالت میں کوئی شواہد پیش نہیں کرسکی ، ان کے موکل پنجاب اور دیگر دور داز علاقوں سے باقاعدہ اپنی پیشی پر حاضر رہے ہیں، موکلوں کے خلاف ایف آئی اے نے جھوٹا اور من گھڑت مقدمہ درج کیا تھا،انھیں بری اورلاکھوں روپے کرائے اور ذہنی کوفت میں مبتلا رہنے کے باعث حرجانہ بھی ادا کرنے کا حکم دیا جائے ، فاضل عدالت نے حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد 10مارچ تک مقدمے کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
استغاثہ کے مطابق 1988کے عام انتخابات سے قبل ایف آئی اے نے 31مئی 1988 کو ملزمان طارق الطاف ، حمید ، حاحب خان ملک جان ، حیات اعوان اور ملک سکندر اعوان کے خلاف الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے پاکستان پرنٹنگ پریس سے ایک لاکھ 55ہزار خواتین کے قومی شناختی کارڈ بدعنوانی اور جعلی ووٹنگ کرنے کی نیت سے چوری کرلیے ہیں،یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مقدمہ کی سماعت358 مرتبہ بغیر کسی عدالتی کارروائی کے ملتوی کئی گئی، سابق پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ان کے موکلوں کے خلاف مقدمہ 25برس سے زیر التوا ہے، اس دوران تقریباً 358مرتبہ عدالتی کارروائی کے بغیر سماعت ملتوی ہوئی، قومی جوڈیشل پالیسی کے نفاذ کے باوجود مقدمہ 25برس سے التوا کا شکار ہے جوکہ حکومت کیلیے لمحہ فکریہ ہے، قومی جوڈیشل پالیسی کے تحت عام سائلین کو جلد اور فوری انصاف فراہم کرنا ہے ۔
25 برس سے زیر التوا مقدمے کا بلاآخر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا،اس دوران مقدمے میں ملوث 3ملزمان کا انتقال بھی ہوچکا ، 2 ملزم ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہوگئے، 2 ملزمان 25 برس گزر جانے کے باوجود عدالت کے چکر کاٹنے پر مجبور ہیں۔
تفصیلات کے مطابق انسداد بدعنوانی کے وفاقی عدالت کے جج لقمان میمن نے بدعنوانی اورلاکھوں خواتین کے قومی شناختی کارڈ چوری و غائب کرنے کے الزام میں ملوث ملزمان ملک جان ، حیات اعوان و دیگر کے مقدمے کا فیصلہ بلآخر وکیل صفائی سابق پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان کے حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد 10مارچ کیلیے محفوظ کرلیا ہے ،قبل ازیں وکیل صفائی نے عدالت کو اپنے دلائل میں بتایا کہ ان کے موکل 25برس سے شدید اذیت میں مبتلا ہیں ، استغاثہ 25برس گزر جانے کے باجود عدالت میں کوئی شواہد پیش نہیں کرسکی ، ان کے موکل پنجاب اور دیگر دور داز علاقوں سے باقاعدہ اپنی پیشی پر حاضر رہے ہیں، موکلوں کے خلاف ایف آئی اے نے جھوٹا اور من گھڑت مقدمہ درج کیا تھا،انھیں بری اورلاکھوں روپے کرائے اور ذہنی کوفت میں مبتلا رہنے کے باعث حرجانہ بھی ادا کرنے کا حکم دیا جائے ، فاضل عدالت نے حتمی دلائل مکمل ہونے کے بعد 10مارچ تک مقدمے کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
استغاثہ کے مطابق 1988کے عام انتخابات سے قبل ایف آئی اے نے 31مئی 1988 کو ملزمان طارق الطاف ، حمید ، حاحب خان ملک جان ، حیات اعوان اور ملک سکندر اعوان کے خلاف الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے پاکستان پرنٹنگ پریس سے ایک لاکھ 55ہزار خواتین کے قومی شناختی کارڈ بدعنوانی اور جعلی ووٹنگ کرنے کی نیت سے چوری کرلیے ہیں،یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مقدمہ کی سماعت358 مرتبہ بغیر کسی عدالتی کارروائی کے ملتوی کئی گئی، سابق پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ان کے موکلوں کے خلاف مقدمہ 25برس سے زیر التوا ہے، اس دوران تقریباً 358مرتبہ عدالتی کارروائی کے بغیر سماعت ملتوی ہوئی، قومی جوڈیشل پالیسی کے نفاذ کے باوجود مقدمہ 25برس سے التوا کا شکار ہے جوکہ حکومت کیلیے لمحہ فکریہ ہے، قومی جوڈیشل پالیسی کے تحت عام سائلین کو جلد اور فوری انصاف فراہم کرنا ہے ۔