ہے کوئی ایک بھی ایسا پاکستانی سیاستدان
ملک میں کوئی ایک بھی ایسا سیاستدان نہیں جس کا اپنا گھر نہ ہو
LONDON:
ملک کے سابق حکمرانوں کے بعد اب موجودہ اہل اقتدار کی شان دار رہائش گاہوں پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
سابق اور موجودہ حکمرانوں ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام بڑے سیاستدانوں ، ارکان اسمبلی اور سیاسی پارٹیوں کے مرکزی رہنماؤں کی رہائش گاہیں بھی شاہانہ ہیں جو بنگلوں، کوٹھیوں اور محلات کے نام سے مشہور اورکروڑوں سے اربوں روپے کی مالیت کی حامل ہیں، جہاں درجنوں ملازمین ہمارے ان سیاستدانوں کی خدمت پر مامور ہیں۔
ان سیاستدانوں کی بڑی تعداد وہ ہے جو مختلف حیثیتوں میں ماضی کی حکومتوں میں شامل رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اب ان بڑے سیاستدانوں کی محل نما رہائش گاہیں بھی دکھائی جا رہی ہیں جو مین اسٹریم میڈیا نہیں دکھاتا جس سے لوگوں کو اپنے ان سیاستدانوں کی رہائش گاہوں اور ان کے طرز زندگی کا پتا چل رہا ہے۔
پاکستان وہ ملک ہے جہاں کی اکثریت اپنے گھروں سے محروم ہے اور لاکھوں افراد رہائشی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے راتیں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پرگزارنے پر مجبور ہیں اور کروڑوں افراد ایسے چھوٹے مکانات اتنے چھوٹے ہیں کہ کئی کئی افراد ایک ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں۔
بہت سے خاندان اپنے گھر کے بڑے کمرے میں پارٹیشن کرکے وقت گزارتے ہیں۔ لاکھوں نوجوان شادی کی عمر میں پہنچنے کے بعد صرف اس لیے شادی نہیں کر پا رہے کہ ان کے گھروں میں انھیں ایک چھوٹا کمرہ بھی فراہم نہیں کیا جاسکتا اور وہ الگ کرائے کا مکان لینے کے اس لیے متحمل نہیں ہو سکتے کہ ملک میں بے روزگاری زیادہ، روزگار کے ذرائع محدود اور گھروں کے کرائے ناقابل برداشت ہوچکے ہیں۔ مہنگائی میں لوگ اپنا پیٹ نہیں بھر پا رہے تو ہزاروں روپے کرائے کا گھر کیسے لیں۔
ملک میں گھروں کی شدید قلت ہے جس کا اعتراف ہر حکومت نے کیا مگر عملی طور پر وہ کچھ نہیں ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ موجودہ حکومت نے بعض بڑے شہروں میں بے گھروں کو رات بسر کرنے کی جو سہولت فراہم کی ہے وہ محدود اور صرف بڑے شہروں میں ہے۔
55 سال قبل ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی بنائی تھی تو اس کے منشور میں روٹی، کپڑا اور مکان شامل تھا مگر ملک کی آبادی بڑھتی گئی اور گھر کم ہوتے گئے مگر سیکڑوں کنالوں اور ایکڑوں میں رہنے والے ہمارے سیاستدانوں نے اقتدار میں آ کر ملک کے اہم رہائشی مسئلے پر سنجیدگی سے کبھی اس لیے توجہ نہیں دی کہ انھیں اس اہم مسئلے کا احساس نہیں ہے۔ وہ اپنے آبائی علاقوں کے علاوہ بڑے بڑے شہروں میں بھی وسیع گھروں اور پرآسائش بڑے فلیٹوں میں رہتے ہیں۔
آج کے حکمران سابق حکمرانوں پر الزام لگاتے آ رہے ہیں کہ انھوں نے لندن میں محل اور بڑے گھر بنا رکھے ہیں جب کہ وہ خود اسلام آباد میں بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہیں مگر ان کی وفاقی ، پنجاب اور کے پی کی حکومتوں نے ساڑھے تین سالوں میں غریبوں کو چھوٹے چھوٹے پلاٹ دینے کا کوئی منصوبہ تک نہیں دیا اور پچاس لاکھ گھروں کا جو اعلان ہوا تھا اس میں اب تک کسی ایک غریب کو بھی گھر نہیں ملا۔ لاہور میں موجودہ حکومت نے ایل ڈی اے سٹی میں 35 ہزار فلیٹ بنانے کا سنگ بنیاد رکھا تھا یہ ایل ڈی اے سٹی بھی شہباز شریف دور کا سرکاری رہائشی منصوبہ ہے۔
کراچی میں پی پی حکومت نے 13 سالوں میں غریبوں کو سرکاری سستے پلاٹ دینے کا کوئی نیا منصوبہ نہیں بنایا۔ تیسر ٹاؤن کا منصوبہ بھی پرانا ہے جہاں ڈیولپمنٹ تک شروع نہیں ہوئی اگر ملک میں رہائشی منصوبے بنے تو وہ بھی پرائیویٹ سیکٹر میں، مگر بڑے لوگوں کے لیے گھر بنانے والے غریبوں کو کسی نے نہیں پوچھا۔ بھارت کے دو بار وزیر اعظم رہنے والے گلزاری لعل نند اپنی موت تک کرائے کے ایسے چھوٹے گھر میں رہے جس کا کرایہ نہ دینے پر مالک مکان نے انھیں بڑھاپے میں گھر سے نکال دیا تھا۔ کیا پاکستان کا کوئی ایک سیاستدان ایسی مثال ہے جس کا موازنہ بھارت کے اس سیاستدان سے کیا جاسکے۔
یہاں تو سیاست میں آیا ہی امیر بننے کے لیے جاتا ہے۔ ملک میں کوئی ایک بھی ایسا سیاستدان نہیں جس کا اپنا گھر نہ ہو۔ کوئی سابق سیاسی وزیر ایسا نہیں جو کرائے کے چھوٹے گھر میں رہتا ہو اور اس کے بڑے بڑے گھر نہ ہوں۔ ملک میں سیاست بڑے گھر، جاگیریں بنانے اور دولت مند بننے کے لیے کی جاتی ہے یہاں غریب سیاست کر ہی نہیں سکتا۔