غیروں پے کرم اپنوں پے ستم
امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹس میں یہ بات واضح طور پر کردی گئی تھی کہ اب امریکا کی راہ میں اگرکوئی خطرہ ہے تو وہ اسلام ہے
روئے زمین پر بسنے والا ہر مسلمان سرزمین سعودی عرب سے دل و جان سے محبت کرتا ہے۔ مجھ سمیت تمام پاکستانی مسلمان بھی سعودی عرب کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں کیونکہ اس سرزمین مقدس پر اللہ رب العزت کا گھر یعنی بیت اللہ شریف ہے جس کی حرمت کی قسمیں اللہ کریم نے قرآن مجید فرقان حمید میں اٹھائی ہیںاور اسی سرزمین مقدس کو اللہ کریم نے اپنے پیارے محبوب امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ کے لیے منتخب فرمایا، آج بھی آپ مدینہ منورہ میں آرام فرما ہیں۔
حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب سے محبت و عقیدت ایمان کا حصہ ہے جو تاقیامت قائم و دائم رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک دونوں برادر ممالک اور ان کے عوام ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں، پاکستان اور سعودی عرب اسلامی اخوت کے لازوال رشتے کے علاوہ عالمی اور علاقائی امن و سلامتی کے تقاضوں کے تحت بھی دوستی اور تعاون کے مضبوط بندھن میں بندھے ہوئے ہیں اور مشکل وقتوں میں ایک دوسرے کے ساتھ چٹان کی مانند کھڑے رہنے کی تاریخ کے حامل ہیں۔
سعودی عرب ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا اور جب کبھی سعودی عرب کی سالمیت و تحفظ کو خطرات لاحق ہوئے تو پاکستان بھی پیچھے نہیں رہا۔ آج سعودی عرب کی پالیسی میں تبدیلی آ گئی ہے' پاکستان کی حکومتوں کی پالیسیوں نے عالم اسلام بالخصوص پاکستان کے مسلمانوں کو یہ دن بھی دکھانے تھے۔ شاہ فیصل شہید کے دور میں پاک سعودی تعلقات کو جو بلندی نصیب ہوئی، کسی اور دور میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
اس وقت سعودی عرب ان چند ممالک میں تھا جنھوں نے سرکاری سطح پر مسئلہ کشمیر میں پاکستان کے موقف کی کھل کر تائید کی۔ ستمبر1965 کی پاک بھارت جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔ اپریل 1966 میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقعے پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔
1967 میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968 میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کر دیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔
شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973 کے سیلاب میں مالی امداد فراہم کی اور دسمبر 1975 میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انھوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔ پاکستان کے عوام ان کو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک بڑے شہر لائل پور کا نام انھی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا جب کہ کراچی کی سب سے بڑی شاہراہ انھی کے نام پر شاہراہ فیصل کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ایک بہت بڑی آبادی شاہ فیصل کالونی کہلاتی ہے اور اسی کی نسبت سے کراچی کے ایک ٹاؤن کا نام شاہ فیصل ٹاؤن ہے۔شاہ فیصل کے بعد ان تعلقات میں ترقی تو دیکھنے کو نہ مل سکی البتہ تنزلی کا سفر جاری و ساری ہے۔
ایک زمانہ تھا پاکستان کے عوام کے دلوں سے سعودی حکمرانوں کے لیے دعائیں نکلتی تھیں اور آج موجودہ سعودی قیادت جو کچھ کررہی ہے ان سے پاکستانیوں کے دل زخمی ہیں۔ چند روز قبل سعودی عرب کے آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل فہد بن عبداللہ محمد المطیر نے بھارت کا تین روزہ دورہ کیا اور اپنے ہم منصب منوج مکند نروانے سے ملاقات کی۔ رائل سعودی لینڈ فورسز کے کسی حاضر سروس کمانڈر کا بھارت کا یہ پہلا دورہ تھا۔ یہ دورہ عین اس وقت ہوا جب مسکان کے حجاب پر انتہا پسند ہندوؤں نے اودھم مچایا اور سیکڑوں انتہا پسندوں کے نرغے سے یہ شیر کی بچی اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدائیں لگاتی ہوئی نکلی۔
اس کے بعد پورے ہندوستان میں حجاب کے خلاف ایک مہم چلی، جس کی آڑ میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا جارہا ہے۔ ان کی مساجد شہید کی جارہی ہیں، ان کے گھروں کو جلایا جارہا ہے، مسلمان خواتین کی آبرو ریزی ہورہی ہے۔ سوشل میڈیا پر آئے روز دل دہلا دینے والے واقعات سامنے آرہے ہیں۔
اس وقت جنونی ہندوؤں کے ہاتھوں مسلم کمیونٹی کے انسانی حقوق بری طرح پامال ہورہے ہیں، ایسے موقعے پر سعودی عرب کے آرمی چیف کے اس دورے نے پاکستان کے حکمرانوں کو بتا دیا ہے کہ اگر آپ کو پرواہ نہیں تو پھر ہمیں بھی پرواہ نہیں ہے لیکن مسئلہ تو پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کا ہے کہ وہ کیا سمجھیں اور کیا نہ سمجھیں کیونکہ ایک بڑے اسلامی ملک کے سپہ سالار اس ظالم حکومت کے ذمے داروں کے ساتھ ملاقاتیں کررہے ہیں۔
ان کے ساتھ تصاویر بنوا رہے ہیں۔ جو بھارتی اور کشمیری مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ دوسری جانب بھارت کی طرف سے اس ملاقات کی جو تصویر میڈیا کو جاری کی گئی اس میں بھارتی آرمی چیف سعودی مہمان کو شیلڈ پیش کررہے ہیں اور پس منظر میں سقوط ڈھاکہ کے موقع کی وہ تصویر نظر آرہی ہے جس میں جنرل نیازی سرنڈر کررہے ہیں۔ بلاشبہ یہ تصویر پاکستان اور اہل پاکستان کے لیے تضحیک کا باعث ہے، بھارت نے سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت یہ حرکت کی جس کے نتیجے میں ایک طرف سعودی عرب کے خلاف پاکستانی عوام کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری جانب ہمارے زخموں پر نمک پاشی کی گئی۔
ہمیں ایک ایسے ملک کے ذریعے عجیب و غریب پیغامات مل رہے ہیں جو ہماری عقیدتوں کا مرکز ہے۔ کبھی اسلامی تعلیمات کے خلاف اقدامات تو کبھی تبلیغی جماعت پر پابندی، یہ سب ایک منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔ یہ منصوبہ آج کا نہیں کہ امریکا کا ورلڈ آرڈر اور مغرب کا کلچر اسلامی دنیا پر مسلط کیا جائے۔یہ منصوبہ تو سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد شروع ہوچکا تھا کیونکہ اب امریکا دنیا کی بلا شراکت غیرے سپر طاقت بن چکاتھا۔
امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹس میں یہ بات واضح طور پر کردی گئی تھی کہ اب امریکا کی راہ میں اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ اسلام ہے، کلیش آف سولائزیشن نامی کتاب میں سیموئیل ہٹنگٹن بھی اس خدشے کا اظہار کرچکا ہے اور ہم ایک کالم میں اس پر مفصل بات کرچکے ہیں۔
پہلے پہل اسلام پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر اسے پوری دنیا میں بدنام کرنے کی ایک منظم مہم چلائی گئی، مدارس دینیہ کو دہشت گردی کے اڈے قرار دیا گیا اور پھر''حکم'' آیا ہے کہ تبلیغی جماعت کا تختہ مشق بنا ڈالو۔ سعودی آرمی چیف نے ایک ایسی تصویر کے سامنے کھڑے ہوکر شیلڈ وصول کی جو سقوط ڈھاکہ کی تلخ یادوں کو زندہ کرتی ہے۔
موجودہ تبدیلی سرکار کو تو کشکول کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا، یہی وجہ ہے ابھی تک دفتر خارجہ بھی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ پاکستان کے سنجیدہ طبقات باخبر ہیں کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی حکومت کا جھکاؤ پاکستان کے بجائے بھارت کی جانب ہے، محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد ان تعلقات میں اور بھی زیادہ گرمجوشی دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر سعودی قیادت خاموش ہے۔
عالم اسلام کی واحد متفقہ تنظیم او آئی سی کی قیادت اس وقت سعودی عرب کے پاس ہے مجال ہے اس متفقہ پلیٹ فارم نے بھی مظلوم کشمیریوں کے حق میں کوئی موثر آواز اٹھائی ہو۔ یہ دورہ معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی نوعیت کا حامل ہے۔ پاکستان پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے تاکہ وہ کسی ریجنل بلاک کی جانب بڑھنے کے بجائے امریکا کے اثر و رسوخ سے باہر نہ نکل سکے۔
سعودی عرب آج اپنوں سے دور ہو رہا ہے' لیکن پاکستان کے حکمران آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں' وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ آخر کیوں ہمارا اپنا اغیار کے قریب ہونے پر مجبورہوا' یہ مناظر دیکھ کر پاکستانی مسلمانوں کو دکھ تو ہو گا۔اغیار کے لیے اپنوں پر ستم ؟ دکھ تو ہوگا۔
حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب سے محبت و عقیدت ایمان کا حصہ ہے جو تاقیامت قائم و دائم رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک دونوں برادر ممالک اور ان کے عوام ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں، پاکستان اور سعودی عرب اسلامی اخوت کے لازوال رشتے کے علاوہ عالمی اور علاقائی امن و سلامتی کے تقاضوں کے تحت بھی دوستی اور تعاون کے مضبوط بندھن میں بندھے ہوئے ہیں اور مشکل وقتوں میں ایک دوسرے کے ساتھ چٹان کی مانند کھڑے رہنے کی تاریخ کے حامل ہیں۔
سعودی عرب ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا اور جب کبھی سعودی عرب کی سالمیت و تحفظ کو خطرات لاحق ہوئے تو پاکستان بھی پیچھے نہیں رہا۔ آج سعودی عرب کی پالیسی میں تبدیلی آ گئی ہے' پاکستان کی حکومتوں کی پالیسیوں نے عالم اسلام بالخصوص پاکستان کے مسلمانوں کو یہ دن بھی دکھانے تھے۔ شاہ فیصل شہید کے دور میں پاک سعودی تعلقات کو جو بلندی نصیب ہوئی، کسی اور دور میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
اس وقت سعودی عرب ان چند ممالک میں تھا جنھوں نے سرکاری سطح پر مسئلہ کشمیر میں پاکستان کے موقف کی کھل کر تائید کی۔ ستمبر1965 کی پاک بھارت جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔ اپریل 1966 میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقعے پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔
1967 میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968 میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کر دیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔
شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973 کے سیلاب میں مالی امداد فراہم کی اور دسمبر 1975 میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انھوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔ پاکستان کے عوام ان کو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک بڑے شہر لائل پور کا نام انھی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا جب کہ کراچی کی سب سے بڑی شاہراہ انھی کے نام پر شاہراہ فیصل کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ایک بہت بڑی آبادی شاہ فیصل کالونی کہلاتی ہے اور اسی کی نسبت سے کراچی کے ایک ٹاؤن کا نام شاہ فیصل ٹاؤن ہے۔شاہ فیصل کے بعد ان تعلقات میں ترقی تو دیکھنے کو نہ مل سکی البتہ تنزلی کا سفر جاری و ساری ہے۔
ایک زمانہ تھا پاکستان کے عوام کے دلوں سے سعودی حکمرانوں کے لیے دعائیں نکلتی تھیں اور آج موجودہ سعودی قیادت جو کچھ کررہی ہے ان سے پاکستانیوں کے دل زخمی ہیں۔ چند روز قبل سعودی عرب کے آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل فہد بن عبداللہ محمد المطیر نے بھارت کا تین روزہ دورہ کیا اور اپنے ہم منصب منوج مکند نروانے سے ملاقات کی۔ رائل سعودی لینڈ فورسز کے کسی حاضر سروس کمانڈر کا بھارت کا یہ پہلا دورہ تھا۔ یہ دورہ عین اس وقت ہوا جب مسکان کے حجاب پر انتہا پسند ہندوؤں نے اودھم مچایا اور سیکڑوں انتہا پسندوں کے نرغے سے یہ شیر کی بچی اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدائیں لگاتی ہوئی نکلی۔
اس کے بعد پورے ہندوستان میں حجاب کے خلاف ایک مہم چلی، جس کی آڑ میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کیا جارہا ہے۔ ان کی مساجد شہید کی جارہی ہیں، ان کے گھروں کو جلایا جارہا ہے، مسلمان خواتین کی آبرو ریزی ہورہی ہے۔ سوشل میڈیا پر آئے روز دل دہلا دینے والے واقعات سامنے آرہے ہیں۔
اس وقت جنونی ہندوؤں کے ہاتھوں مسلم کمیونٹی کے انسانی حقوق بری طرح پامال ہورہے ہیں، ایسے موقعے پر سعودی عرب کے آرمی چیف کے اس دورے نے پاکستان کے حکمرانوں کو بتا دیا ہے کہ اگر آپ کو پرواہ نہیں تو پھر ہمیں بھی پرواہ نہیں ہے لیکن مسئلہ تو پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کا ہے کہ وہ کیا سمجھیں اور کیا نہ سمجھیں کیونکہ ایک بڑے اسلامی ملک کے سپہ سالار اس ظالم حکومت کے ذمے داروں کے ساتھ ملاقاتیں کررہے ہیں۔
ان کے ساتھ تصاویر بنوا رہے ہیں۔ جو بھارتی اور کشمیری مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ دوسری جانب بھارت کی طرف سے اس ملاقات کی جو تصویر میڈیا کو جاری کی گئی اس میں بھارتی آرمی چیف سعودی مہمان کو شیلڈ پیش کررہے ہیں اور پس منظر میں سقوط ڈھاکہ کے موقع کی وہ تصویر نظر آرہی ہے جس میں جنرل نیازی سرنڈر کررہے ہیں۔ بلاشبہ یہ تصویر پاکستان اور اہل پاکستان کے لیے تضحیک کا باعث ہے، بھارت نے سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت یہ حرکت کی جس کے نتیجے میں ایک طرف سعودی عرب کے خلاف پاکستانی عوام کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری جانب ہمارے زخموں پر نمک پاشی کی گئی۔
ہمیں ایک ایسے ملک کے ذریعے عجیب و غریب پیغامات مل رہے ہیں جو ہماری عقیدتوں کا مرکز ہے۔ کبھی اسلامی تعلیمات کے خلاف اقدامات تو کبھی تبلیغی جماعت پر پابندی، یہ سب ایک منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔ یہ منصوبہ آج کا نہیں کہ امریکا کا ورلڈ آرڈر اور مغرب کا کلچر اسلامی دنیا پر مسلط کیا جائے۔یہ منصوبہ تو سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد شروع ہوچکا تھا کیونکہ اب امریکا دنیا کی بلا شراکت غیرے سپر طاقت بن چکاتھا۔
امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹس میں یہ بات واضح طور پر کردی گئی تھی کہ اب امریکا کی راہ میں اگر کوئی خطرہ ہے تو وہ اسلام ہے، کلیش آف سولائزیشن نامی کتاب میں سیموئیل ہٹنگٹن بھی اس خدشے کا اظہار کرچکا ہے اور ہم ایک کالم میں اس پر مفصل بات کرچکے ہیں۔
پہلے پہل اسلام پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر اسے پوری دنیا میں بدنام کرنے کی ایک منظم مہم چلائی گئی، مدارس دینیہ کو دہشت گردی کے اڈے قرار دیا گیا اور پھر''حکم'' آیا ہے کہ تبلیغی جماعت کا تختہ مشق بنا ڈالو۔ سعودی آرمی چیف نے ایک ایسی تصویر کے سامنے کھڑے ہوکر شیلڈ وصول کی جو سقوط ڈھاکہ کی تلخ یادوں کو زندہ کرتی ہے۔
موجودہ تبدیلی سرکار کو تو کشکول کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا، یہی وجہ ہے ابھی تک دفتر خارجہ بھی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ پاکستان کے سنجیدہ طبقات باخبر ہیں کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی حکومت کا جھکاؤ پاکستان کے بجائے بھارت کی جانب ہے، محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد ان تعلقات میں اور بھی زیادہ گرمجوشی دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر سعودی قیادت خاموش ہے۔
عالم اسلام کی واحد متفقہ تنظیم او آئی سی کی قیادت اس وقت سعودی عرب کے پاس ہے مجال ہے اس متفقہ پلیٹ فارم نے بھی مظلوم کشمیریوں کے حق میں کوئی موثر آواز اٹھائی ہو۔ یہ دورہ معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی نوعیت کا حامل ہے۔ پاکستان پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے تاکہ وہ کسی ریجنل بلاک کی جانب بڑھنے کے بجائے امریکا کے اثر و رسوخ سے باہر نہ نکل سکے۔
سعودی عرب آج اپنوں سے دور ہو رہا ہے' لیکن پاکستان کے حکمران آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں' وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ آخر کیوں ہمارا اپنا اغیار کے قریب ہونے پر مجبورہوا' یہ مناظر دیکھ کر پاکستانی مسلمانوں کو دکھ تو ہو گا۔اغیار کے لیے اپنوں پر ستم ؟ دکھ تو ہوگا۔