پیکا قانون میں صرف اختلاف کرنے والوں کو ٹارگٹ کیا گیا اسلام آباد ہائی کورٹ
قوانین کو آرڈیننس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا،ایسی پارٹی جس کی اپنی طاقت سوشل میڈیا تھی اس نے ایسا کیا،جسٹس اطہر من اللہ
کراچی:
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا ایکٹ میں صدارتی آرڈیننس پر کہا ہے کہ پیکا قانون میں صرف اختلاف کرنے والوں کو ٹارگٹ کیا گیا، یہ بات تشویش ناک ہے کہ قوانین کو آرڈیننس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا، ایسی پارٹی جس کی اپنی طاقت ہی سوشل میڈیا تھا اس نے ایسا کیا۔
پیکا ایکٹ میں صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے ترمیم کے خلاف یکجا کی گئی درخواستوں پراسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے سماعت کی۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالت میں پیش ہوئے جنہیں چیف جسٹس نے روسٹرم پر بلالیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پہلی بات یہ ہے کہ عدالت کو معلوم ہے کہ دنیا ہتک عزت کے قانون کو فوج داری قانون سے نکال رہی ہے، عدالت میں جو کیس آیا وہ اس عدالت کے لیے شاکنگ تھا، کسی کو ڈر نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف اس قانون کو استعمال کر رہی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں، یہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ جمہوری ملک میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے، ابھی یہ پروسیڈنگز چل رہی تھیں کہ یہ معاملہ اب عدالت کے سامنے آ گیا۔
عدالت نے کہا کہ یہاں حکومتی شخصیت کے پڑوسی سے جھگڑے پر بھی ایف آئی اے نے کیس بنایا، ایف آئی اے کے پاس 14 ہزار شکایات ہیں لیکن صرف حکومت مخالف آوازوں کو ٹارگٹ کیا گیا، پیکا قانون میں صرف اختلاف کرنے والوں کو ٹارگٹ کیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کے لیے یہ بات تشویش ناک ہے کہ قوانین کو آرڈی نینس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا، دنیا میں عدالتیں ایسا کر چکی ہیں، اگر ایگزیکٹو کو اپنی پرائیویٹ ساکھ کا اتنا خیال ہے تو اس میں سے پبلک آفس ہولڈرز کو نکال دیں، ہر پبلک آفس ہولڈر کی طاقت پبلک میں اس کی ساکھ ہوتی ہے، ایسی پارٹی جس کی اپنی طاقت ہی سوشل میڈیا تھا اس نے ایسا کیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ پولیٹیکل پارٹیز اور پولیٹیکل ورکرز اس بات کے ذمہ دار ہیں جو کچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے، جب پولیٹیکل پارٹیز اپنی سوشل میڈیا ٹیمز بنائیں گی تو پھر وہ اختلاف رائے سے کیوں ڈرتے ہیں؟ اداروں کا بنیادی حق نہیں ہوتا ہے وہ اس میں کیسے آسکتے ہیں؟ سول قوانین کو زیادہ بہتر بنائیں، عدالت بھی آپ کی مدد کرے گی، ہتک عزت کا مقدمہ بہتر کرلیں، اس کا فیصلہ 90 دن میں ہو، عدالت کے سامنے واحد سوال یہ ہے کہ سیکشن 20 کو کیوں نہ کالعدم قرار دیا جائے؟
اٹارنی جنرل جاوید خان نے کہا کہ یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ اسے غیر آئینی قرار دے، میرے خیال سے یہ غیر آئینی نہیں، قانون کا غلط استعمال کو دیکھنا ہے کہ اس کے کچھ سیف گارڈز ہونے چاہئیں، میں اس کے دفاع کے لیے تیار ہوں مگر یہ بات بھی کہتا ہوں کہ ایف گارڈ ہونے چاہئیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے ذہن میں ایک پلان ہے اور وزیراعظم سے بھی ملاقات ہوئی ہے، بہت سے ایسے ممالک بھی ہیں جہاں ہتک عزت کے قوانین کو ڈی کریمنلائز نہیں کیا گیا، اگر کوئی کسی پردہ نشین خاتون کو کہے کہ وہ جادو ٹونا کرتی ہیں یا چھت پر گوشت پڑا ہے، کیا یہ آزادی اظہار رائے ہے؟ کسی کے بیڈ روم کی وڈیو بنا کر وائرل کرنا یا جعلی وڈیو اپلوڈ کرنا ٹھیک ہے؟ جنہوں نے یہ قانون بنایا تھا انہوں نے بھی اسے چیلنج کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پیکا ایکٹ میں ترمیم سے قبل کا سیکشن 20 بھی دیکھ لیں، عدالت کے سامنے جتنے کیسز آئے ہیں اس میں ایف آئی اے نے پبلک آفس ہولڈرز کے لیے اختیار کا غلط استعمال کیا، آپ ایف آئی اے کو یہ اختیار دے رہے ہیں کہ وہ شکایت پر کسی کو پکڑ لے اور ٹرائل تک بندہ اندر رہے، عدالت کو کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ پیکا آرڈیننس ڈریکونین قانون ہے، آپ نے تو اسے نیب کے قانون سے بھی زیادہ worst کر دیا ہے، اس کے ذریعے تو آپ سیلف سینسر شپ کر رہے ہیں، اس کے بعد تو لوگوں نے ڈر کے مارے کچھ کرنا ہی نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے پبلک آفس ہولڈرز کی ذاتی ساکھ کی حفاظت پر لگا دیا ہے، اس سے زیادہ بدمعاشی کیا ہو سکتی ہے کہ اس کورٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے ایس او پیز پیش کیے مگر عمل نہ کیا، ایف آئی اے کو لوگوں کی شہرت بچانے پر لگادیا گیا، کیا ایف آئی اے کو اور کوئی کام نہیں؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ عدالت کا فرض ہے کہ پارلے منٹ کا احترام کرے، آپ نے آرڈی نینس بنایا، سینیٹ کو اسے منظور یا مسترد کرنے دیں، آرڈی نینسز کو اس لیے منظوری دی گئی ہے کہ 33 سال ملک آرڈی نینسز پر چلتا رہا ہے، کچھ عدالتی فیصلوں میں آئین کے آرٹیکل 89 کے حوالے سے تشریح کی گئی ہے، آپ کہتے ہیں ایف آئی اے جا کر گرفتار کرے گا اور ٹرائل کے اختتام تک وہ قید رہے گا۔
دوران سماعت پیپلز پارٹی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ اور ن لیگ کے وکیل بیرسٹر جہانگیر جدون بھی پیش ہوئے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اپوزیشن کی تو سینیٹ میں اکثریت ہے، آپ کے پاس اختیار ہے آپ اسے مسترد کرسکتے ہیں، آپ پارلے منٹ جا کر اپنا کردار ادا کریں، عدالت پارلے منٹ کا احترام کرتی ہے، سیاسی جماعتوں کی درخواستوں پر کارروائی نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا ایکٹ میں صدارتی آرڈیننس پر کہا ہے کہ پیکا قانون میں صرف اختلاف کرنے والوں کو ٹارگٹ کیا گیا، یہ بات تشویش ناک ہے کہ قوانین کو آرڈیننس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا، ایسی پارٹی جس کی اپنی طاقت ہی سوشل میڈیا تھا اس نے ایسا کیا۔
پیکا ایکٹ میں صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے ترمیم کے خلاف یکجا کی گئی درخواستوں پراسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے سماعت کی۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالت میں پیش ہوئے جنہیں چیف جسٹس نے روسٹرم پر بلالیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پہلی بات یہ ہے کہ عدالت کو معلوم ہے کہ دنیا ہتک عزت کے قانون کو فوج داری قانون سے نکال رہی ہے، عدالت میں جو کیس آیا وہ اس عدالت کے لیے شاکنگ تھا، کسی کو ڈر نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف اس قانون کو استعمال کر رہی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں، یہ لگ ہی نہیں رہا تھا کہ جمہوری ملک میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے، ابھی یہ پروسیڈنگز چل رہی تھیں کہ یہ معاملہ اب عدالت کے سامنے آ گیا۔
عدالت نے کہا کہ یہاں حکومتی شخصیت کے پڑوسی سے جھگڑے پر بھی ایف آئی اے نے کیس بنایا، ایف آئی اے کے پاس 14 ہزار شکایات ہیں لیکن صرف حکومت مخالف آوازوں کو ٹارگٹ کیا گیا، پیکا قانون میں صرف اختلاف کرنے والوں کو ٹارگٹ کیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کے لیے یہ بات تشویش ناک ہے کہ قوانین کو آرڈی نینس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا، دنیا میں عدالتیں ایسا کر چکی ہیں، اگر ایگزیکٹو کو اپنی پرائیویٹ ساکھ کا اتنا خیال ہے تو اس میں سے پبلک آفس ہولڈرز کو نکال دیں، ہر پبلک آفس ہولڈر کی طاقت پبلک میں اس کی ساکھ ہوتی ہے، ایسی پارٹی جس کی اپنی طاقت ہی سوشل میڈیا تھا اس نے ایسا کیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ پولیٹیکل پارٹیز اور پولیٹیکل ورکرز اس بات کے ذمہ دار ہیں جو کچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے، جب پولیٹیکل پارٹیز اپنی سوشل میڈیا ٹیمز بنائیں گی تو پھر وہ اختلاف رائے سے کیوں ڈرتے ہیں؟ اداروں کا بنیادی حق نہیں ہوتا ہے وہ اس میں کیسے آسکتے ہیں؟ سول قوانین کو زیادہ بہتر بنائیں، عدالت بھی آپ کی مدد کرے گی، ہتک عزت کا مقدمہ بہتر کرلیں، اس کا فیصلہ 90 دن میں ہو، عدالت کے سامنے واحد سوال یہ ہے کہ سیکشن 20 کو کیوں نہ کالعدم قرار دیا جائے؟
اٹارنی جنرل جاوید خان نے کہا کہ یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ اسے غیر آئینی قرار دے، میرے خیال سے یہ غیر آئینی نہیں، قانون کا غلط استعمال کو دیکھنا ہے کہ اس کے کچھ سیف گارڈز ہونے چاہئیں، میں اس کے دفاع کے لیے تیار ہوں مگر یہ بات بھی کہتا ہوں کہ ایف گارڈ ہونے چاہئیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے ذہن میں ایک پلان ہے اور وزیراعظم سے بھی ملاقات ہوئی ہے، بہت سے ایسے ممالک بھی ہیں جہاں ہتک عزت کے قوانین کو ڈی کریمنلائز نہیں کیا گیا، اگر کوئی کسی پردہ نشین خاتون کو کہے کہ وہ جادو ٹونا کرتی ہیں یا چھت پر گوشت پڑا ہے، کیا یہ آزادی اظہار رائے ہے؟ کسی کے بیڈ روم کی وڈیو بنا کر وائرل کرنا یا جعلی وڈیو اپلوڈ کرنا ٹھیک ہے؟ جنہوں نے یہ قانون بنایا تھا انہوں نے بھی اسے چیلنج کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پیکا ایکٹ میں ترمیم سے قبل کا سیکشن 20 بھی دیکھ لیں، عدالت کے سامنے جتنے کیسز آئے ہیں اس میں ایف آئی اے نے پبلک آفس ہولڈرز کے لیے اختیار کا غلط استعمال کیا، آپ ایف آئی اے کو یہ اختیار دے رہے ہیں کہ وہ شکایت پر کسی کو پکڑ لے اور ٹرائل تک بندہ اندر رہے، عدالت کو کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ پیکا آرڈیننس ڈریکونین قانون ہے، آپ نے تو اسے نیب کے قانون سے بھی زیادہ worst کر دیا ہے، اس کے ذریعے تو آپ سیلف سینسر شپ کر رہے ہیں، اس کے بعد تو لوگوں نے ڈر کے مارے کچھ کرنا ہی نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے پبلک آفس ہولڈرز کی ذاتی ساکھ کی حفاظت پر لگا دیا ہے، اس سے زیادہ بدمعاشی کیا ہو سکتی ہے کہ اس کورٹ اور سپریم کورٹ کے سامنے ایس او پیز پیش کیے مگر عمل نہ کیا، ایف آئی اے کو لوگوں کی شہرت بچانے پر لگادیا گیا، کیا ایف آئی اے کو اور کوئی کام نہیں؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ عدالت کا فرض ہے کہ پارلے منٹ کا احترام کرے، آپ نے آرڈی نینس بنایا، سینیٹ کو اسے منظور یا مسترد کرنے دیں، آرڈی نینسز کو اس لیے منظوری دی گئی ہے کہ 33 سال ملک آرڈی نینسز پر چلتا رہا ہے، کچھ عدالتی فیصلوں میں آئین کے آرٹیکل 89 کے حوالے سے تشریح کی گئی ہے، آپ کہتے ہیں ایف آئی اے جا کر گرفتار کرے گا اور ٹرائل کے اختتام تک وہ قید رہے گا۔
دوران سماعت پیپلز پارٹی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ اور ن لیگ کے وکیل بیرسٹر جہانگیر جدون بھی پیش ہوئے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اپوزیشن کی تو سینیٹ میں اکثریت ہے، آپ کے پاس اختیار ہے آپ اسے مسترد کرسکتے ہیں، آپ پارلے منٹ جا کر اپنا کردار ادا کریں، عدالت پارلے منٹ کا احترام کرتی ہے، سیاسی جماعتوں کی درخواستوں پر کارروائی نہیں کریں گے۔